حضور ملک العارفین سیدنا سید احمد بدیع الدین قطب المدار قدس سرہ العزیز یکم شوال المکرم ۲۴۲ ھجری پیر کے دن ملک شام شہر حلب کے مضافاتی قصبہ چنار میں پیدا ہوئے اور آپ ۲۸۲ ھجری میں ہندوستان تشریف لائے۔ اولیاء اللہ کی جماعت میں آپ مظہر العجائب ومنبع الغرائب تھے۔ بے شمار خوارق عادات و کرامات کا آپ سے صدور ہوتا رہتا تھا ، آپ کا رخ روشن پر نور، جلوہ بار اور مثل نیر تاباں تجلی ریز تھا ، کہ جو لوگ آپ کو بےحجاب دیکھتے، انہیں خدا یاد آجاتا ، جلوؤں کی تاب نہ لاکر بیتاب و بے اختیار ہو کر سجدہ ریز ہو جاتے۔
سنن ابن ماجہ میں حدیث شریف ہے
خَيَارُكُمُ الَّذِينَ إِذَا رَأَوا ذُكِرَ اللهُ ، یعنی تم میں بہتر وہ ہیں جنہیں دیکھو تو خدا یاد آجائے ، حضور مدار پاک قدس سرہ اس حدیث پاک کا کامل نمونہ تھے ، آپ کو بارگاہ رسالت سے باطن میں حلۂ بہشتی پہنایا گیا تھا۔ اس لیئے آپ کا لباس نہ میلا ہوتا نہ ژولیدہ ، دھونے کی حاجت نہیں ہوتی اور اس پر کبھی مکھی نہیں بیٹھتی ، آپ پر ضعف اور پیری کا اثر بھی نہیں ہوتا تھا ، آپ کھانے پینے سے بھی بے نیاز کر دیئے گئے تھے۔
مقام اویسیت ، مقام قطبیت کبری، مقام قطب المدار، مقام صدیت، مقام قربت، مقام فردانیت، مقام محبوبیت اور مقام معشوقی پر آپ فائز تھے۔ آپ کو علوم انبیاء سے نوازا گیا تھا، آپ تمام آسمانی کتابوں کے حافظ و عالم تھے علم کیمیاء ، لیمیاء، هیمیاء، سیمیاء اور ریمیاء پر بھی کامل عبور تھا یہ علم اسرار ہیں جن کا مجموعہ کلہ سر سے عبارت ہے، آپ وارث علوم رسول اللہ تھے، صف اولیاء میں آپ کو طویل ترین حیات میسر ہوئی ۵۹۶ سال کی عمر مبارک ہوئی۔
حدیث رسول علیہ السّلامُ
خَيْرُكُمْ مَنْ طَالَ عَمَرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ “ کے آپ مکمل مصداق تھے، جن انبیاء کرام کی طویل ترین عمریں ہوئیں اس وصف طول عمری میں بھی آپ ان انبیاء کرام کے وارث ٹھہرے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو مقام اویسیت سے سرفراز فرما کر اسلام حقیقی کے رموز و اسرار سے واقف فرمایا، تمام علوم و معارف ، علوم لدنیہ اور حقائق اشیاء کے عرفان عطا کر کے لطائف و معارف کی نعمتوں سے بھی آپ کو مشرف فرمایا، اور اپنی طرف سے اپنا داعی اسلام بنا کر ہندوستان بھیجا۔
لعل دخشی اپنی کتاب ثمرات القدس مولفہ ۱۰۰۹ھ میں رقم کرتے ہیں کہ حضور مدار پاک قدس سرہ نے ستر ۷۰ مرتبہ شب قدر کی زیارت کی ، پورے عالم میں سیاحی فرما کر ہر جگہ دعوت و تبلیغ اسلام کا کام کیا آپ کے نام سے مدار کا چاند اور مدار کا مہینہ مشہور ہے۔ بحر زخار مولفه شیخ وجیہ الدین اشرف قدس سرہ حصہ سوئم میں ہے ترجمہ: صاحب مرات مداری ایمان محمودی سے نقل کرتے ۔ قطب المدار سید احمد بدیع الدین قدس سرہ مکہ معظمہ سے ہندوستان آنے کے ارادے سے جہاز پر سوار ہوئے ، طوفان کی وجہ سے کشتی ٹوٹ گئی اور تختے درہم برہم ہو گئے، اتفاقاً گیارہ اشخاص ایک تختے پر تھے ان میں سے ایک حضرت قطب المدار بھی تھے، چند روز بعد ان میں سے دس آدمی تو بھوک و پیاس سے فوت ہو گئے، اور حضرت مدار پاک قدس سرہ قوت ولایت کی وجہ سے زندہ رھے، رفتہ رفتہ وہ تختہ بہتا ہوا ایک پہاڑی پر پہنچا، حضرت تختے سے نیچے اترے، اچانک ایک عظیم الشان عمارت مشاہدہ میں آئی اس کے قریب گئے ، دیکھا کہ اس عمارت کے دروازے پر ایک نورانی شکل کے بزرگ انسانی صورت میں لباس فاخرہ پہنے ہوئے مسرور و متبسم بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں: قطب المدار آپ کو خوش آمدید ! ہمارا آقا دیر سے آپ کا انتظار کر رہا ہے، آپ فرماتے ہیں: کہ آپ کے لیے لباس فاخرہ ملکوتی مہیا کیا گیا، میں اس بشارت سے خوش ہو کر محل کے اندر داخل ہوا، وہاں روح افزا، فرحت بخش اور دل کش باغ دیکھا، باغ کے اندر ایک مرصع گنبد والا گھر دیکھا، جس میں یا قوت و جواہر سے مرصع ایک تخت بچھا ہوا تھا، اور ایک نورانی بزرگ عظمت و شوکت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور قطب المدار کو خود کے گوناگوں باطنی کمالات کے باوجود اس صاحب کمال بزرگ کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنے کی طاقت نہیں ملی، مغلوب ہو کر سر سجدے میں رکھ دیا، اس بزرگ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ان کے سر پر رکھا، اور فرمایا کہ قطب المدار! سر اٹھاؤ۔ آؤ! اور میرے ساتھ کھانا کھاؤ، حضور زندہ شاہ مدار نے عرض کیا ” مجھے ایسا کھانا عطا کریں جس کے کھانے کے بعد پھر کبھی کھانے کی خواہش نہ ہو ، بزرگ نے فرمایا ایسا ہی کھانا میں نے اللہ کے حکم سے آپ کے لئے تیار کر رکھا ہے، پھر آپ کو اس تخت پر بٹھایا اور شیر برنج کھلایا، ایک ایک لقمے پر ایک ایک آسمان کی حقیقت منکشف ہوتی چلی گئی، جب ساتواں لقمہ حلق سے نیچے اترا، عرش سے فرش تک سارے حجابات اٹھ گئے ، ( دیگر کتب میں نو لقمے کھلانے کا ذکر ہے ) اس کے بعد بزرگ نے ایک دستار ایک پیراہن اور ایک ازار پہنا کر فرمایا یہ کپڑے تمہاری باقی عمر کیلئے کافی ہیں، جو نہ پرانے ہوں گے نہ انہیں دھونے کی . ضرورت ہوگی، پھر اس طرح دعا کی ، انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد دنیا کا کوئی حادثہ تم پر مسلط نہیں ہوگا، اور ان پہاڑوں سے سلامتی کے ساتھ گزر جاؤ گے، اور تمہاری ولایت کا تصرف زندگی اور موت دونوں حالتوں میں جاری رہے گا۔ اکرام و نوازشات حاصل کرنے کے بعد جب آپ اس مکان سے باہر نکلے اور جب پیچھے مڑ کر دیکھا، تو اس مرد نورانی کا نام و نشان تک باقی نہ تھا۔ قادر قدرت کے کمال قدرت سے متحیر ہوئے سر مراقبہ میں جھکایا ، ندائے غیبی آئی، جو نورانی مرد پیشوائی کر رہے تھے، عالم عنصری میں ملائکہ کے سردار تھے۔ وہ پورے ربع مسکون پر تصرف رکھتے ہیں۔ اور وہ صفت انوار جمال و جلال الوہیت سے موصوف ہیں۔ انبیاء و اولیاء تک رب کا فیض پہنچاتے ہیں۔ انکا نام ستخیثا ہے جو ملائکے عنصری کے سردار ہیں۔ (بعض کتب میں مرقوم ہے کہ خود سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ سلم نے اپنے دست مبارک سے نو لقمے کھلائے اور حلۂ بہشتی سے سرفراز فرمایا ۔ پس آپ وہاں سے گجرات کی طرف روانہ ہوئے۔
مدار پاک گجرات میں
قطب المدار سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ھندوستان تشریف آوری سے اهالیان ہند پر اسلام کا رنگ چڑھنا تھا، اور ایمان ووفا کی خوشبو سے لوگوں کے دل و دماغ معطر ہونے تھے، ہر گوشے ہند میں اسلام کا پیغام پہنچنا تھا، اور حکم رسالت کی تعمیل و تکمیل ہونی تھی۔ اس لیے حضور مدار اعظم بدیع الزمان سید احمد بدیع الدین قدس سرہ نے اپنے سفر تبلیغ بلیغ کا آغاز گجرات کی زرخیز زمین سے ہی کر دیا۔ جیسے ہی آپ گجرات کی ساحلی پہاڑیوں میں داخل ہوئے۔ دوسرے دن دنیا کے سات ابدالوں میں سے ایک آپ کے قریب آیا اور پھر آپ کو جنگلوں اور پہاڑوں سے نکال کر بہت مختصر سے وقت میں ولایت گجرات میں پہنچا کر روپوش ہو گیا۔ حضور مدار پاک رضی اللہ تعالی عنہ جب علاقہ گجرات میں رونق افروز ہوئے تو ہر قسم کی مخلوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگی۔ لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونے لگا اور آپ کی خوب خوب شہرت ہوئی۔
قطب المدار اجمیر میں
مرات مداری اور بحر زخار کے مصنفین لکھتے ہیں کہ جس عرصے میں تبلیغ و ہدایت فرماتے ہوئے حضرت زندہ شاہ مدار قدس سرہ اجمیر پہنچے حضرت خواجہ معین الحق والدین چشتی سے ملاقات کی اور کچھ دنوں تک حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ کی روحانی محبت کے سبب بہت خلوص و اپنائیت کے ساتھ اس مبارک جگہ پر ٹھہرے رہے ( تاریخ محمودی اور سومنات مولفہ آچاریہ چترسین میں ہے کہ حضرت زندہ شاہ مدار حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی ولادت سے ایک سوستائیس سال پہلے ۴۰۴ھ میں اجمیر شریف میں کوکلا پہاڑی پر موجود تھے۔ جب سلطان محمود غزنوی نے ۴۰۴ ھجری میں ہندوستان پر سترھواں حملہ کیا تھا۔ آچاریہ چترسین نے اپنی کتاب سومناتھ مطبوعہ ہند پاکٹس بکس میں لکھا ہے کہ حضرت شاہ مدار کی دعا سے محمود غزنوی کو اجمیر میں فتح ملی۔ غرض یہ کہ پورے ہندوستان میں سے پہلے دعوت اسلام پہنچائی اور دنیا کے ہر چہار گوشوں میں سیاحت بغرض دعوت و تبلیغ اسلام فرماکر بالآخر حکم رسالت مآب مکن پور شریف کو اپنا مسکن بنایا اور ۱۷ جمادی الاولی ۸۳۸ ھجری میں اسی ہجرہ مقدسہ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت مولانا شہاب الدین پر کالہ آتش نے بمنشائے قطب المدار جو نپور سے آکر نماز جنازہ پڑھائی۔
تقریبات عرس مقدس
حضور سیدنا بدیع الدین قطب المدار قدس سرہ کا عرس مقدس مقامی طور سے یوں تو گلپوشی کے دن سے ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن خاص تقریبات ۱۶ و ۱۷ جمادی المدار مطابق ۱۹ و ۲۰ نومبر ۲۰۲۴ کو منعقد ہوں گی۔(واضح رہے مفتی صاحب کی یہ تحریر ۲۰۲۴ کی ہے) صبح میں فجر کے بعد قرآن خوانی ہوگی ، دو پہر میں حضور سیدنا و مولانا سید بابا ولی شکوه رحمه الله ومرشدی سیدنا ببن میاں حضور کا عرس ہوتا ہے۔ ۱۶ جمادی المدار یعنی ۱۹ نومبر کو حویلی سجادگی سے ۰۲:۳۰ بجے خانقاہ قطب المدار کے سجادہ نشین و تخت نشین حضرت حضرت مولانا سید محمد مجیب الباقی صاحب صدر سجادہ نشین اپنے ولی عہد کے ساتھ خصوصی سجادگی کے لباس میں نقیب کی نقابت میں خانقاہ شریف کے لئے ایک ہجوم کے ساتھ نکلتے ہیں اور خانقاہ شریف پہنچ کر اپنے ارکان مخصوصہ ادا کرتے ہیں اور وہاں سے دمال شریف میں آکر تخت سجادگی پر تخت نشین ہو جاتے ہیں۔ بعدہ ہفت گروہ مداریہ کے ملنگ حضرات خانقاہ شریف آتے ہیں اور اپنے معمولات مدار یہ ادا کر کے دمال شریف پہنچتے ہیں پھر کشتی شریف خانقاہ شریف پہنچتی ہے جو سید علی بہادر بابا اپنے لوگوں کے ساتھ لاتے ہیں پھر نقیب اشارہ کرتا ہے، دیوان درگاہ اپنے مقام سے اشارہ کرتے ہیں اور صدرنشین مولانا سید انتخاب عالم جعفری مداری اپنے مقام پر جلوہ افروزی فرماتے ہیں اور یاحی یاقیوم اور حَسْبِی رَبِّي جَلَّ اللہ کے ذکر سے ملنگان مداریہ حجل شروع کرتے ہیں ۔ سجادہ نشین کے فیضان سے ایک عالم فیضیاب ہوتا ہے۔ اور وقت مقررہ پر عصر سے کچھ قبل شغل دمال ختم ہو جاتا ہے شب میں عشا کے بعد جلسہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے چار بجے صبح قل شریف ہوتا ہے دوسرے دن ۱۷ جمادی المدار کو آٹھ بجے سے عرس سید مشائخ عالم عرس قمر المشائخ سیدنا و مرشدنا سید ذوالفقار علی قمر مداری و دیگر مشائخ مداریہ رحمھم اللہ کا عرس ہوتا ہے۔ ۰۲:۳۰ بجے سے شغل د مال اور عمل حجل ہوتا ہے اور رات میں عشاء بعد پوری شب جلسہ قل ہوتا ہے صبح اذان فجر سے قبل قل شریف ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ عرس مقدس اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔