madaarimedia

اپنا وجود یے عدم ان کا عدم حیات ہے

Syed Azbar Ali


حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عنوان پر ایک تحقیقی مقالہ

النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم ٫ صدق اللہ العظیم
(سورہ احزاب 6)

معزز قارئین حضرات !
حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موضوع پر نہ جانیں کس قدراہل قلم حضرات نے سر مایہء سعادت نوک قلم سے صفحہء قرطاس پر جمع کیا جس کو مکین قلب و جگر کرکے اہل دل اہل نظر اہل محبت ہمیشہ سرخرو رہے ہیں امت حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدہ پر ہمیشہ سے مستقل رہی ہے میرے علم کے مطابق سب سے پہلے کتاب ،،تقویتہ الایمان،، میں اسمٰعیل دہلوی نے لکھا ٫٫ رسول اللہ مرکر مٹی میں مل گئے ،، معاذ اللہ استغفراللہ

اسی طرح سے ایک گروپ اور نکلا جس کا ماننا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روحانی طور پر حیات ہیں نہ کہ جسمانی طور پر ۔ ایک گروپ اور نکلا جس کا ماننا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم روحانی اور جسمانی دونوں طور پر حیات ہیں مگر ایسے جیسے ایک سوتا ہوا آدمی زندہ ہوتا ہے یعنی بے اختیار ،، معاذاللہ استغفراللہ

فقیر مداری محشر کی سختی سے بچنے کیلئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات جسدی کے ساتھ ساتھ آپکے اختیارا ت و تصرفات پر اس عقیدہ کے ساتھ کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہے کہ

عاصی ہے ادیب زار تو کیا محشر کا نہیں اس کو کھٹکا
بخشش کیلئے بس کافی ہے یہ نعت مدینہ والے کی

قارئین !
یقینا موت ایک ایسا سچ ہے کہ جس کا انکار کسی بھی نظریہ اورکسی بھی مکتبۂ فکر کے لوگوں نے نہیں کیا ہاں موت کے بعد اختیارات کلی کے حیات پر اعتراضات کئے گئے جیسے مقربان درگاہ الٰہی جیسے انبیاء و صدیقین و شھداء وصالحین ،،موت کے بعدبھی زندہ ہوجاتے ہیں ،، اور یہ زندگی حیات جسدی پر مشتمل ہے نہ کہ حیات روحانی پر کہ موت جسم کو آتی ہے نہ کہ روح کو تو زیر بحث حیات جسدی ہے نہ کہ حیات روحانی اس عقیدہ پر بعض کج فہم لاشعور بلکہ گمراہ فرقوں نے زبردست شب خون مارا ہے جبکہ قرآن نے پہلے ہی شہداء کی زندگیوں کے بارے میں سیدھا راستہ دکھلادیا کہ ’’بل احیاء ولکن لاتشعرون““ (سورہ بقرہ) ’’بل احیاء عند ربھم یرزقون‘‘ (سورہ آل عمران)

قرآن عظیم صحیفئہ لاثانی نے بالکل کلیر کردیا کہ شہداء زندہ ہیں اوراپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں شہید کا تیسرا درجہ ہے اور نبی کا پہلا توجب نبی کے کلمہ کے تحفظ میں سرکٹانے والا زندہ ہے تو نبی بدرجہ اولٰی زندہ ہوا مگر کیا کیاجائے بد نصیب خاک آلود ہوں جن کا اس پر بھی عقیدہ نہیں کہ یہ دنیائے رنگ و بو اور اسکے پر کیف نظاروں کی بقاء کا ضرور کوئ مدار ہے جس کی حیات جاوید کی برکتوں سے جھرنوں کے یہ تبسم ریز نظارے سبک خرامی سے بل کھاتی اٹھلاتی لب ساحل پر موجیں ، سبزے سے لدے ہوئے میدانوں میں کوئل کی مدھر اور سریلی آواز ، شفاف ریت پر بکھری چاندنی کا دلکشا منظر ، پہاڑوں کی فلک بوس چوٹیوں پر برف کی جمی ہوئ پرتوں کا پگھل پگھل کر بہنا ، میدانوں کے وسیع و عریض دامنوں میں ندیوں کا بہنا اور مچلنا ، فرش زمین پر مخملی گھاس کے قالین و دیبا ، خورشید فلک کی تمازت خیز لپٹوں سے مستفیض نباتات کا نمو ، سمندر کی تہہ میں سیپ و صدف کاانبار ، وسعت افلاک پر بکھرے ستاروں کی جھالریں ، آسمان کی مانگ میں کہکشاں کا سندور ، چودھویں کے چاند کا رخ زیبا ، وسعت افلاک پر گردش کرتے سورج کی کرنوں سے روشن روشن کائنات ، یقینا اس دلیل الخیرات ، مصحح الحسنات ، قاطع السئیات ، دافع المفسدات، مقیل العثرات ، صفوح عن الزلات ، علیہ الصلوتہ والتسلیمات، کی ابدی حیات کی برکتوں سے زندہ ہے اور بفحوائے ’’لولاک لمآ خلقت الدنیاء“ اے محبوب آپ کو پیدا نہ کرتا تو دنیاء کو پیدانہ کرتا یہ تخلیق عالم من وجہ الرسول ہے اور بوئے وجہ نظام کن فکاں سے مشام دوجہاں عطر بیز ہیں

صبح ”کنت کنزامخفیاء“ سے لیکر ”اقتربت الساعتہ وانشق القمر“ کی شام تک جس ناظر کائنات کو ”مازاغ البصر وماطغیٰ“ کاپیکر بنایاگیاہو اب ضروری ہے کہ ”اول ماخلق اللہ نوری“ سے لیکر ”اذازلزلت الارض زلزالھا“ تک زندہ رہے کیونکہ اگر وجہ تخلیق کائنات ہی مرجائے تو کائنات کا کیا ہوگا اور اس گستاخ رسالت نے تو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کہہ دیاکہ رسول اللہ مرکر مٹی میں مل گئے (تقویتہ الایمان ) تو پھر رسول اور مٹی میں فرق کیا رہا جبکہ ”ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجسادالانبیاءفنبی اللہ حی یرزق“ ( مشکوٰتہ شریف)

اللہ نے تمام انبیاء علیھم السلام کے اجساد کو زمین پر کھانا حرام کردیا ہے اور اللہ کا ہر نبی اپنی اپنی قبروں میں زندہ رہتا ہے اور انہیں رزق دیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ہر نبی حیات جسدی کے ساتھ زندہ ہے تو اس نبی کی زندگی کا عالم کیا ہوگا جس کے صدقہ میں تمام انبیاء علیھم السلام کی زندگیاں ہیں

ہمیں تسلیم ہے کہ ماسویٰ اللہ کو موت ہے اور سرور دنیاء و دین ، مخلوقات کا حرف اولین خدا نہیں ہے!! تو بفحوائے ”کل من علیھافان“ (سورہ رحمٰن ) ملک الموت کا در پر اجازت مانگ کر پیام اجل لانا ضروری ہے اور موت کی مسند پر جلوہ فرمائی لازم ہے مگر چند لمحات کیلئے پھر امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق تلوار کھینچ لیتے ہیں اور فرماتے ہیں جس نے اب کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ختم ہوگئے اس کی گردن اڑادونگا ( سیرت النبی وعام کتب سیرت )

یہ عمر حیات النبی ہونے کی سند نہیں دے رہے ہیں بلکہ خدا عمر کی زبان سے زندہ نبی ہونے کی سند عطافرمارہا ہے ”عن نافع عن ابن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !“ ۔ “قال ان اللہ جعل الحق علیٰ لسان عمر“ (رواہ الترمذی) بیشک اللہ عمر کی زبان سے بولتا ہے معلوم ہوا کہ دو زندگیوں کے درمیان موت ایک دروازہ تھی ادھر زندگی ادھر زندگی بیچ میں موت کا دروازہ جولازمی تھا اب حیات النبی کے جواز میں قرآن عظیم کی یہ آیت بھی ملاحظہ فرمالیں ”یکون الرسول علیکم شھیدا“ (سورہ بقرہ 143)

شاہد اعظم ، نوردیدہء ابراہیم وآدم ، صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک ہماری عبادت پر ہماری ریاضت پر ہماری عصیاں شعاری ہر ہماری گنہگاری پر ہمارے اچھے برے اعمال پر گواہ بناکر بھیج دیاگیا تو پھر جو گواہ ہوگا اس کا موجود ہونا اور زندہ ہونا لازم کہ مردے گواہی نہیں دیتے ہیں حیات النبی کے دلائل میں جہاں جہاں قرآن کریم شاہد ہے وہیں وہیں پر احادیث نبویہ عقائدالصحابہ و واقعات الصالحین ببانگ دہل جواز حیات جسمانی پر قصیدہ خواہاں ہیں تمہید میں واضح ہوگیا کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں مزید چند دلائل احادیث و آثار سے پیش کررہاہوں؎

حدیث نمبر۔ 1
”عن ابی ھریرہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم مامن احد یسلم علی الاردہاللہ علی روحی حتی ٰاردوعلیہ السلام“ (مشکوٰتہ شریف 86 )ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئ مجھ پر سلام پڑھتا ہے تواللہ تعالی میری روح کو لوٹادیتا ہے پھر میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں
قارئین حضرات ! کیا مردہ بھی بولتا ہے ؟ یاروح بولتی ؟ جسم بولتا ہے اور جب اس میں روح ہوتی ہے اور نبی فرماتے ہیں ”حتی ارد علی السلام“ نبی سلام کا جواب دیتے ہیں

حدیث نمبر۔ 2
”مامن مسلم یسلم فی شرق ولافی غرب الاواناوملٰئکتہ ربی نردعلیہ السلام“ (القول البدیع 156) مشرق ومغرب میں جو بھی مسلمان مجھ پر درود و سلام بھیجتا ہے میں اور میرے رب کے فرشتے اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں علامہ تقی الدین سبکی ان روایات کےبارے میں فرماتے ہیں کہ ”قد تضمنت الاحادیث المتقدمہ ان روح النبی صلی اللہ علیہ وسلم ترد علیہ وانہ یسمع ویرد السلام“ (شفاءالسقام ) ترجمہ: احادیث مبارکہ اس بات پر متضمن ہیں کہ حضور کی روح پاک آپ پر لوٹادی گئ اور آپ سلام کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں مذکوہ وضاحت کے بعد ایک علمی نکتہ بھی سمجھتے چلیں
مذکوہ حدیث شریف میں ”ومامن احد“ کے الفاظ ہیں جن میں ”ما“ عام لفظ ہے جو مخلوقات جن و انس ملٰئکہ سب کو شامل ہے نظام کائنات میں کہیں دن ہے کہیں رات اس طرح سے نمازوں کے اوقات بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں پس جس طرح وقت کا نظام تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے پس اسی طرح سے سلام کے پڑھے جانے کا سلسلہ بھی بغیر انقطاع کے چل رہا ہے کائنات میں کوئ لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں آپ پر سلام نہ بھیجا جاریا ہو اور آپ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”اسمع صلوٰتہااھل محبتی واعرفھم“ (مرقات شرح مشکوٰتہ ) میں محبت والوں کا درود خود سنتا ہوں اور انہیں پہچانتابھی ہوں اور سنتا ہی نہیں بلکہ ”یردالسلام“ اور جواب بھی دیتا ہوں تو واضح ہوگیا کہ روح ایک لمحہ بھی جسم اقدس سے جدا نہیں ہوتی ہے توپھر ممات کا عقیدہ خالص گمرہی۔

حدیث نمبر۔ 3
”سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والذی نفسی بیدہ لینزلن عیسیٰ ابن مریم ثم لئن قام علیٰ قبری فقال یامحمد لاجیبنہ“ (الحاوی للفتاوی جلد 2 ص 148 ) ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم تم میں ضرور تشریف لائینگے پھر اگر وہ میری قبر پر کھڑے ہوکر یامحمد کہینگے تو میں ضرور جواب دونگا

قارئین!! آپ نے ملاحظہ فرمایا؟ سرکارارشاد فرمارہے ہیں کہ ”لااجیبنہ“ میں ضرور جواب دونگا کیا مردہ جواب دے سکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی زندہ ہیں جیسے حضرت آمنہ کی آغوش سے حضرت عبدالمطلب کی آغوش تک آغوش عبد المطلب سے حضرت ابو طالب کے کاندھوں تک حضرت ابو طالب کے کاندھوں سے کاشائہ نبوت تک کاشائہ نبوت سے جبل حراء کے غارتک جبل حراء کے غارسے کوہ صفاتک کوہ صفاسے حرم کعبہ تک حرم کعبہ سے طائف کے بازار تک مکہ کی چراگاہوں سے ملک شام کی تجارت گاہوں تک اور ازواج مطہرات کے حجروں کی خلوت گاہوں سے مصلے پر متورم پاؤں کی استقامت سے لیکر سجدوں میں رونے تک وصال یار کے لمحات لامکاں سے اسلامی غزوات کی رزم گاہوں تک غزوات سے لے کر عرصئہ حیات تک جیسے نبی زندہ تھے وفات کے بعد بھی تمام اختیارات و تصرفات کے ساتھ ایسے ہی زندہ ہیں اور رہینگے وہ دیتے بھی ہیں بولتے بھی ہیں سنتے بھی ہیں کھاتے بھی ہیں نمازیں بھی پڑھتے ہیں ہم اہل سنت اس صداقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ؎

کرشمئہ اختیار دیکھو یہ ہم غریبوں سے پیار دیکھو
ادھر جو تڑپا ہے دل ہمارا ادھر نبی کو خبر یوئ ہے


حدیث نمبر۔ 4
”من صلی علی فی یوم الجمعتہ ولیلتہ الجعتہ قضی اللہ لہ مآتہ حاجتہ سبعین من حوائج الآخرتہ و ثلاثین من حوائج الدنیاء ثم یوکل اللہ بذالک ملکا یدخلہ فی قبری کمآ یدخل علیکم الھدایا یخبرنی بمن صلی اللہ علی باسمہ و نسبہ الیٰ عشیرتہ فاثبتہ عندی فی صحیفتہ بیضاء“( زرقانی علی المواہب 5 /332 ) ترجمہ: جو مجھ پر جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرت سےدرود پڑھتا ہے اللہ اسکی سو ضرورتیں پوری کرتا ہے ستر آخرت کی اور سو اس دنیا کی پھر اللہ تعالیٰ اس کیلئے ایک فرشتہ مقرر کردیتا ہے جو کہ میری قبر میں درود اس طرح پیش کرتا ہے جس طرح ہدیے اور تحفے پیش کئے جاتے ہیں وہ مجھے اس آدمی کےنام و نسب کی اس کے خاندان سمیت خبر دیتا ہے پس میں اس کو اپنے پاس سفید صحیفے میں » لکھ لیتا ہوں « بتائیں!!! کیا مردہ لکھ سکتا ہے ؟ یاروح لکھتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں بلکہ جسم لکھتا ہے جب اس میں روح ہوتی ہے تو نبی ایسے زندہ ہیں جیسے پہلے زندہ تھے

حدیث نمبر۔ 5
”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان الملئکتہ سیاحین فی الارض یبلغون عن امتی السلام“ (مشکوٰتہ شریف86 ) ترجمہ: پہونچایا اسے جاتا ہے جو زندہ ہوتا ہے

حدیث نمبر۔ 6
“صلوا علی وسلموا حیث ماکنتم فیبلغنی سلامکم و صلوتکم“ (الخصائص الکبریٰ ) ترجمہ: تم جہاں کہیں سے مجھ پر درود و سلام پڑھو تمہاراوہ سلام مجھ تک پہونچ جائیگا

حدیث نمبر۔ 7
حضرت امام حافظ ابوبکر بن احمد بن احمد بن حسین بن علی البھیقی اپنی کتاب حیات الانبیاء فی قبورھم میں و مسند ابو جعلاء کی حدیث نمبر 3425 اس باب میں ہے ”قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون“ ترجمہ: انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں ”اوکماقال علیہ السلام“ سرکاروصال کے بعد بھی سنتے ہیں۔

حدیث نمبر 8
”اکثرواالصلٰوتہ علی یوم الجمعہ فانہ یوم مشھود تشھدواالملئکتہ لیس من عبد یصلی علی الابلغنی صوتہ حیث کان قلناوبعد وفاتک قال و بعد وفاتی ان اللہ تعالیٰ حرم علی الارض ان تاکل اجسادالانبیاء“ (حجتہ اللہ علی العالمین 713 ) ترجمہ: جمعہ کے دن مجھ پر درود پڑھنے کی کثرت کرو بیشک جمعہ کادن یوم مشھود ہے اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں جو آدمی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کے درود پڑھنے کی آواز مجھ تک پہونچتی ہے خواہ وہ دنیاء کی کسی جگی پڑھے
ہم نے عرض کیا یارسول اللہ کیا آپ کے وصال فرمانے کے بعد بھی ؟ فرمایا ہاں میری وفات کے بعد بھی بیشک اللہ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کا کھانا حرام کردیا۔

اسی ضمن میں حضرت سلام بن لحیم کہتے ہیں کہ ”رائت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی النوم قلت یارسول اللہ ھوءلاالذین یاتونک یسلمون علیک اتفقہ سلامھم قال نعم وردا علیھم“ (القول البدیع) میں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی میں نے دریافت کیا یارسول یہ جو لوگ حاضر ہوکر سلام کرتے ہیں کیا آپ اس کو سمجھتے ہیں حضورنے فرمایا ہاں سمجھتا ہوں اور انکے سلام کا جواب بھی دیتاہوں۔

کچھ لوگ سلام کا جواب سنتے بھی ہیں جیساکہ حضرت ابراہیم بن شیبانی کہتے ہیں ”حججت فجئت المدینہ فتقدمت الی القبر الشریف فسلمت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فسمعتہ من داخل الحجرتہ یقول وعلیک السلام“ (القول البدیع ص 60) میں حج سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ حاضر ہوا اور میں نے قبر شریف کے پاس جاکر سلام عرض کیا تو میں نے حجرہ شریف کے اندر وعلیک السلام کی آواز سنی اب یہ آواز کیا ہے ؟ معاذ اللہ کیا مردے بھی بولتے ہیں ؟ یاروح بولتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جسم بولتا ہے جب اس میں روح ہوتی ہے

قارئین حضرات مندرجہ بالاحدیث نمبر۔ 8 میں » بلغنی « صوتہ کے الفاظ قابل ذکر ہیں کہ اس درود پڑھنے والے کی آواز مجھ تک پہونچتی ہے اس میں دورونزدیک دونوں شامل ہیں اور خود سرکار کا سننا ثابت ہے جو حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمدہ دلیل ہے

اچھا یہ بتائیں
التحیات میں جو السلام علیک ایھاالنبی ہے وہ صیغئہ خطاب ہے کہ نہیں؟ اور یہی صیغئہ خطاب حضور کی ظایری حیات سے لے کر قیامت تک رہے گا جو حیات النبی ہونے کی عمدہ دلیل ہے نبی حیات نہ ہوتے تو یہ صیغہء خطاب بدل دیاگیا ہوتا مگر صبح قیامت تک ایسے ہی نبی کو امت سلام کرتی رہے گی جیساکہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں ”ھذاالخطاب والنداءلموجودیسمع“(رسالتہ الروح لابن القیم ) یہ خطاب اور ندا ایسے موجود کیلئے درست ہے کہ جو سنتا ہو یہ تمام امور حیات کا تقاضہ کرتے ہیں اس لئے امام اسمٰعیل بن یوسف نبھانی اس بارے میں فرماتے ہیں ”حتی ان بعض الاولیاء سمعوا علیٰ سبیل الکرامتہ ردہ السلام علیھم عند قولھم السلام علیک ایھاالنبی ورحمتہ اللہ و برکاتہ ولااستحالتہ فی ذالک ججلان الذی اطلعہ علی الغیب واسمعہ کلام من یخاطب من بعید و قریب وھواللہ تعالی ولافرق عندہ تعالیٰ بین ایکون ذالک فی حیاتہ و بعد مماتہ صلی اللہ علیہ وسلم فقد صح انہ حی فی قبرہ“ (شواہدالحق 287 )

مضمون کی طوالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان چند احادیث پر اکتفاء کرتایوں جبکہ اس باب میں بہت سی احادیث مروی ہیں اس کے بعدحضرات صحابہ کرام تابعین و صلحاء کے چند واقعات کو بیان کررہاہوں جنکا کامل ایمان تھا کہ رسول اللہ حیات النبی ہیں

نمبر۔ 1
وفات سے پہلے حضرت سیدنا صدیق اکبر نے وصیت فرمائ تھی میرے تابوت کو حضور علیہ السلام کے روضئہ انور کے قریب لاکر رکھ دینا اور ”السلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کہہ کر عرض کرنا کہ حضور ابوبکر آپ آستانہء عالیہ ہر حاضر ہوا ہے اگر اجازت ہوئ تو درواہ کھل جائیگا اور مجھے اندر لے جانا وگرنہ جنت البقیع میں دفن کردینا راوی کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوبکر کی وصیت پر عمل کیا گیا ابھی وہ جملے پایہء اختتام کو نہ پہونچے تھے کہ آواز آئی حبیب کو حبیب کی طرف لے آؤ ( شواہد النبوتہ)

”السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذالباب قدانفح وھاتف یھتف من القبر ادخلواالحبیب الی الحبیب“ یارسول اللہ آپ کا یارغار آپکے دروازے پر آگیا ہے تو روضئہ اقدس کا دروازہ خودبخود کھل گیا اور روضئہ اقدس سے آواز آئ کے یار کو یار کے پاس جلدی پہونچاؤ (تفسیر کبیر جلد 5 ص 464)
بتاؤ حیات النبی ہیں کہ نہیں ؟ ارے کسی مردے کی قبر سے آواز نہیں آتی ہے جو زندہ ہوتا ہے وہی بولتا ہے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ تو تھا ہی تھا حضرات صحابہ کابھی یہی عقیدہ تھا ورنہ عرض کرتے امیرالمومنین یہ کیسے ممکن ہوسکتا جب کہ رسول اللہ کا انتقال ہوچکا مگر صحابہ جانتے تھے کہ نبی زندہ ہیں

نمبر۔ 2
حضرت سعید بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جب یزید بن معاویہ نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا مسجد نبوی شریف میں گھوڑے باندھے جس کو ایام نحرہ کہتے ہیں تو تین دن تک مسجد نبوی شریف میں نہ اذان ہوئ نہ جماعت اور حضرت سعید بن مسیب روضہء رسول میں چھپ کر بیٹھے تھے ”وکان لایعرف وقت الصلٰوتہ الا بھسھمتہ یسمعھا من قبر النبی علیہ السلام“ اور وہ نماز کا وقت نہیں پہچانتے تھے مگر جب نماز کا وقت ہوتا تھا امام الانبیاء کی قبر انور سے اذان کی آواز آتی تھی

نمبر۔ 3
تفسیر مدارک اور خزائن العرفان میں ہے کہ ایک شخص حضور کے وصال کے بعد قبر انور پر حاضر ہوا اور روروکر عرض کیا یارسول اللہ میں سیہ کار ہوں اور گنہگار ہوں ”ولواانھم اذظلموا انفسھم جاؤک فاستغفراللہ واستغفرلھم رسول“ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو قبر انور سے آواز آئ ”فنودی من قبرہ لقد غفرلک“ کہ تجھے بخش دیاگیا۔ اللہ اللہ

نمبر۔ 4
جسے دیوبندی مکتبئہ فکر کے بڑے عالم مولانا شیخ زکریا کاندھلوی اپنی کتاب فضائل اعمال کے فضائل درود باب میں واقعہ نمبر12 صفحہ (166) پر اور اہلسنت کے بڑے عالم امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری صاحب اپنی کتاب فیضا ن سنت کے صفحہ نبمر 556 پر مصافحہ اور معانقہ کی سنتیں اور آداب ، میں 555ہجری کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک صوفی بزرگ شیخ سید احمد کبیر رفاعی قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ جب میں مصر میں تھا تو میری روح آکر حاضری دیتی تھی اب معاملہ جسموں کا ہے یارسول اللہ قبر شریف سے ہاتھ نکالئے میں بوسہ دونگا نوے ہزار لوگوں کی موجودگی میں دست مبارک باہر نکلا اور شیخ سیداحمد کبیر رفاعی نے بوسہ دیا
اسی واقعہ کو بنیان المشید کے مصنف نے حضرت شیخ الاسلام کمال الدین امام کاملیہ سے روایت کیا ہے انہوں نے امام علامہ شیخ شمس الدین جزری سے انہوں نے شیخ امام زین الدین مراعی سے انہوں نے شیخ الشیوخ شجاع و محدث وواعظ و فقیہ و مقرر و مفسر امام مقتدا و حجت شیخ عزالدین احمد فاروقی سے انہوں نے اپنے والد استاداصیل علامہ جلیل شیخ ابو اسحٰق فقرائے ابراہیم فاروقی سے اور انہوں نے اپنے والد امام فقہاءومحدثین شیخ فقرائے اکابر علمائے عاملین شیخ عزالدین عمر ابو الفرج قدس سرھم اجمعین سے روایت کیا ہے 555 ہجری کے حج میں میں اپنے شیخ و ملجاء اور اپنے سردار ابوالعباس قطب و غوث شیخ سید احمد رفاعی حسینی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا اس سال آپ کو اللہ تعالی ٰ کی جانب سے حج کی سعادت نصیب یوئ تھی جب حضرت رفاعی مدینہ پہونچے تو لوگوں کی موجودگی میں بلند آواز سے عرض کیا السلام علیک یاجدی تو حضور نے فرمایا ”وعلیک السلام یاولدی“ اس جواب کو مسجد نبوی شریف میں موجود سبھی حضرات نے سنا اور یہ سنکر سید احمد رفاعی پر جذب طاری ہوگیا آپ تھرا اٹھے آپ کا رنگ زرد پڑگیا گریہ وزاری کرتے ہوئے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے دیر تک سسکیاں لیتے رہے پھر عرض کیا اے جد کریم ”فی حالتہ البعد روحی کنت ارسلھا تقبل الارض عنی وھی نائبتی وھذادولتہ الاشباح قد حضرت فامددیمینک تحظی بہا شفتی“ اے جد کریم دوری کی حالت میں میں اپنے خیال و روح کو بھیجا کرتا تھا جو میری نیابت میں آستاں بوسی کرتے تھے اور آج یہ دورافتادہ خود در دولت پر حاضر ہے لھٰذاآپ اپنے دست کرم کو دراز فرمائیں تاکہ میرے لب دست بوسی کی سعادت حاصل کرسکیں تورسول اللہ نے اپنے معطر دست مبارک کو قبر انور شریف سے باہر نکالا جسے نوے ہزار زائرین کے ہجوم میں امام رفاعی نے چوما یہ سارے لوگ دست مبارک کو دیکھ رہے تھے اس وقت مسھد میں حجاج کرام کے درمیان شیخ حیات بن قیس حرانی شیخ عبدالقادر جیلانی ( حضرت غوث اعظم مقیم بغداد ) شیخ خمیس اور شیخ عدی بن مسافر شامی وغیرہ بھی موجود تھے اللہ تعالی ہم سب کو ان حضرات کے علوم و اسرار سے نفع بخشے ہم نے بھی ان حضرات کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ دست شریف کی زیارت کی ….الخ (بنیان المشیدص8)
اللہ اللہ یہ ہے حیات النبی کی زندہ و جاوید دلیل

نمبر۔ 4
شہنشاہ ولایت قطب وحدت حامل صمدیت واصل مقام محبوبیت حضرت سیدنا سید بدیع شیخ احمد قطب المدار رضی اللہ عنہ نے جب پہلا حج ادا فرمایا تو حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر گنبد خضریٰ کی سنہری جالیوں سے مستفیض و مستفید ہوئے حضوری ہوئ سرکار مدار ماتھے کی آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدارسے مشرف ہوئے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے بدیع الدین احمد ہندوستان جاؤ ہندوستان کو تمہاری رہبری کی ضرورت ہے چنانچہ حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سنکر آپ عازم ہندوستان ہوئے سمندری راستہ اختیارفرمایا جس کشتی پر آپ سوار تھے آپ کے علاوہ سبھی غیر مسلم تھے آپ نے تبلیغ شروع کردی اور یہ تبلیغ ان کفار پر سخت گراں ہوئ آپ کو سخت و سست کہنا شروع کردیا غیرت الٰھی کو یہ گوارہ نہ ہوا کہ اس کے دوست کو ایذا پہونچائ جائے سمندر میں طوفان آیا کشتی پاش پاش ہوگئ تمام سوار ڈوب کر مرگئے حضور قطب المدار رضی اللہ عنہ ایک تختے کے سہارے گیارہ دن کے بعد ساحل مالابار( گجرات )پر آلگے کنارہ پر ایک شخص نے آکر کہا السلام علیک یابدیع الدین آپ نے فرمایا آپ میرا نام کیسے جانتے ہو انہوں نے کہا کہ آپ کے نام سے کون واقف نہیں ہے چلئے حضور رحمت عالم آپ کو بلارہے ہیں۔
سرکار قطب المدار جب کچه قدم چلے دیکھا ایک سفید نورانی محل ہے جس کے دروازے پہرہ دار مقرر ہیں جب آپ اندر داخل ہوئے تو سرکار کائنات روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ایک نورانی تخت پر جلوہ فرما ہیں فرماتے ہیں کہ اے بدیع الدین آؤ ! بدیع الدین احمد قطب المدار قریب ہوئے تو خوان بہشتی آئے ایک میں طعام ملکوتی اور ایک میں حلٰہ بہشتی تھا سرکار قطب المدار کو رسول اللہ نے اپنے دست اقدس سے نو لقمہ طعام ملکوتی ( شیر برنج اور مالیدہ) کھلائے اور لباس بہشتی زیب تن فرمایا اور چہرہ پر دست اقدس پھیر دیا تو چہرہ آفتاب کے مانند ہوگیا آپ( قطب المدار) چہرہ پر سات نقابیں ڈالتے تھے (ملخصا) عام کتب سیروسوانح قطب المدار

مندرجہ بالا واقعات اور تمام احادیث نبویہ و آیات قرآنیہ سے ثابت ہے کہ حضور فخرکونین ، تاجدار حرمین محسن انسابیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد وفات بھی اپنے تمام اختیارات و تصرفات کے جسمانی حیات کے ساتھ زندہ ہیں حیات جاوید ہیں اللہ تبارک تعالیٰ ہر مسلمان کو حق کہنے اور سمجھنے کی توفیق عطافرمائے آمین

Leave a Comment

Related Post

Top Categories