عیدالفطر اسلام میں ایک بابرکت اور خوشی کا دن ہے، جو رمضان المبارک کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کے انعام کے طور پر عطا کیا گیا ہے۔ اس دن کی فضیلت قرآن و حدیث، فقہائے احناف اور دیگر فقہائے اسلام کی تصریحات سے ثابت ہے۔
عیدالفطر کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلِتُکْمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (سورۃ البقرۃ: 185۔)
ترجمہ: “اور تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔” مفسرین کے مطابق اس آیت میں “وَلِتُکَبِّرُوا اللَّهَ” سے مراد عید الفطر کے دن تکبیرات کہنا اور “وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ” سے مراد عید کا دن شکر گزاری کے طور پر گزارنا ہے۔
. حدیث شریف میں ہے:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَقَالَ: قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ تَعَالَى بِهِمَا يَوْمَيْنِ خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ۔(سنن أبی داؤد: 1134، سنن النسائی: 1556، مسند أحمد: 12006۔حیدری) ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کے دو دن تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، یعنی عید الفطر اور عید الاضحی۔”یہاں عید الفطر کی فضیلت، اس کے احکام، اور اس دن کی برکتوں پر مشتمل دس احادیث مع عربی متن، ترجمہ اور حوالہ درج کی جا رہی ہیں:
عید الفطر کی رات انعام کی رات ہے
حدیث شریف میں ہے: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ.” (ابن ماجہ: 1854۔حیدری) ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی راتوں کو (عبادت میں) زندہ رکھے، اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن سب کے دل مردہ ہو جائیں گے۔”
عید الفطر کے دن فرشتے خوشخبری دیتے ہیں
حدیث شریف میں ہے: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ وَقَفَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الطُّرُقِ، يُنَادُونَ: اغْدُوا يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ…” (الطبرانی، المعجم الکبیر: 2/107، رقم: 1622۔حیدری) ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو فرشتے راستوں میں کھڑے ہو کر پکارتے ہیں: اے مسلمانوں کی جماعت! اس کریم رب کے دربار میں حاضر ہو جاؤ…”
عید کے دن صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم
حدیث شریف میں ہے: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: “فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ…” (صحیح البخاری: 1503، صحیح مسلم: 984۔حیدری) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر مسلمان، آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر فرض کیا ہے…
عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے حدیث شریف میں ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: “نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ.” (صحیح البخاری: 1992، صحیح مسلم: 1137۔حیدری) ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
عید کی خوشی اور اللہ کی رضا
حدیث مبارکہ میں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: “لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ.” (صحیح البخاری: 1904، صحیح مسلم: 1151۔حیدری) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔”
عید کے دن راستہ بدل کر جانا
حدیث شریف میں ہے: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: “كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ.” (صحیح البخاری: 986۔حیدری) ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستے سے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس آتے۔
عید کے دن تکبیر پڑھنا
حدیث شریف میں ہے: وَعَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا غَدَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى يُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْإِمَامُ.” (مصنف ابن ابی شیبہ: 5621۔حیدری) ترجمہ: حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عیدگاہ کی طرف نکلتے تو راستے میں تکبیرات کہتے اور امام کے آنے تک یہی کرتے رہتے۔
عید کے دن صدقہ فطر مساکین کے لیے ہے
حدیث شریف میں ہے: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: “فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ.” (سنن ابی داؤد: 1609، ابن ماجہ: 1827۔حیدری) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو روزہ دار کی لغوی باتوں اور گناہوں سے پاکی اور مساکین کے لیے خوراک کے طور پر مقرر فرمایا۔
یہ وہ احادیث مبارکہ ہیں جو عید الفطر کی عظمت، اس کے احکام اور اس دن کے آداب پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اللہ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
فقہائے احناف کے نزدیک عیدالفطر کے فضائل
فقہائے احناف عیدالفطر کو ایک عظیم سعادت اور رحمت کا دن قرار دیتے ہیں اور اس کی متعدد فضیلتیں بیان کرتے ہیں:
عیدالفطر کا دن شکر اور عبادت کا دن ہے
امام طحطاوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: “وَيُسْتَحَبُّ فِي يَوْمِ الْعِيدِ کَثْرَةُ التَّکْبِيرِ وَالشُّکْرِ وَالصَّدَقَاتِ، وَهُوَ مِنْ أَعْظَمِ الْأَيَّامِ” (حاشیة الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص: ۲۹۳۔حیدری) ترجمہ: “عید کے دن زیادہ تکبیر کہنا، شکر ادا کرنا اور صدقات دینا مستحب ہے، اور یہ دن عظیم ترین دنوں میں سے ہے۔”
عیدالفطر کی نماز واجب ہے
امام سرخسی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: “صَلَاةُ الْعِيدِ وَاجِبَةٌ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ، وَسُنَّةٌ مُؤَکَّدَةٌ عِنْدَ أَصْحَابِهِ” (المبسوط للسرخسي، ج ۲، ص ۴۲۔ حیدری) ترجمہ: “عید کی نماز امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک واجب ہے، جبکہ ان کے شاگردوں کے نزدیک مؤکدہ سنت ہے۔”
صدقہ فطر کا مقصد
امام مرغینانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: “وَحِكْمَتُهُ تَطْهِيرُ الصَّائِمِ مِمَّا أَصَابَهُ مِنْ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَمُوَاسَاةُ الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ” (الهداية، ج 1، ص 109) ترجمہ: “صدقہ فطر کی حکمت یہ ہے کہ روزہ دار کو لغو اور بے فائدہ باتوں سے پاک کر دے اور فقراء و مساکین کے ساتھ ہمدردی ہو۔”
دیگر فقہائے اسلام کے نزدیک عیدالفطر کے فضائل
. امام شافعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
“عِيدُ الْفِطْرِ مَظْهَرُ فَرَحٍ لِلْمُسْلِمِينَ، وَمَوْسِمُ شُكْرٍ لِإِكْمَالِ رَمَضَانَ، وَصِلَةٌ لِلْمَحْبَّةِ بَيْنَهُمْ” (المجموع شرح المهذب، ج 5، ص 7۔حیدری) ترجمہ: “عیدالفطر مسلمانوں کے لیے خوشی کا موقع، رمضان کی تکمیل پر شکر کا موسم اور باہمی محبت و اخوت کا ذریعہ ہے۔”
. امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
“عِيدُ الْفِطْرِ يَوْمٌ لِفَرَحِ الْعِبَادِ بِإِكْمَالِ عِبَادَتِهِمْ وَقَبُولِ أَعْمَالِهِمْ” (المغني لابن قدامة، ج 2، ص 275۔حیدری) ترجمہ: “عیدالفطر وہ دن ہے جس میں بندے اپنی عبادت کی تکمیل اور اپنے اعمال کی قبولیت پر خوش ہوتے ہیں۔”
اولیاءِ امت کے پیغامات برائے عیدالفطر
حضرت جنید بغدادی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ:
“لَیْسَتِ الْعِیدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِيدَ، وَإِنَّمَا الْعِيدُ لِمَنْ طَاعَتُهُ تَزِيدُ” (لطائف المعارف، ص 280۔حیدری) ترجمہ: “عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہنے، بلکہ عید تو اس کی ہے جس کی اطاعت (اللہ کے لیے) زیادہ ہو گئی۔”
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ:
“اَلْعِیْدُ لِمَنْ تَقَبَّلَ اللَّهُ صِیَامَهُ وَقِیَامَهُ وَغَفَرَ ذُنُوْبَهُ” (الغنیة لطالبي طريق الحق، ج 1، ص 317۔حیدری) ترجمہ: “عید اس کے لیے ہے جس کا روزہ اور قیام اللہ نے قبول فرمایا اور اس کے گناہ معاف کر دیے۔”۔
فقہائے احناف کے نزدیک نمازِ عیدالفطر کا طریقہ
فقہِ حنفی میں نمازِ عیدالفطر کا ایک مخصوص مسنون اور مسنون طریقہ ہے جسے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت کے مطابق ادا کیا جاتا ہے۔
نمازِ عیدالفطر کی نیت
نمازِ عیدالفطر کی نیت یوں کی جائے:
” نیت کی میں نے دو رکعت نمازِ عیدالفطر واجب مع چھ زائد تکبیروں کے، واسطے اللہ تعالیٰ کے، پیچھے اس امام کے، منہ میرا کعبہ شریف کی طرف ،اللہ اکبر”
نماز کا مکمل طریقہ فقہ حنفی کے مطابق
پہلی رکعت کا طریقہ
تکبیر تحریمہ
سب سے پہلے امام اور مقتدی دونوں اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں گے، جیسے عام نماز میں باندھتے ہیں۔ تین زائد تکبیریں اس کے بعد امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ تین زائد تکبیریں کہیں گے۔ پہلی دو تکبیروں کے بعد ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیے جائیں گے۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیے جائیں گے، جیسے عام نماز میں باندھے جاتے ہیں۔
سورہ فاتحہ اور سورہ امام پہلے سورۃ الفاتحہ اور پھر کوئی سورت، جیسے سورۃ الأعلى یا سورۃ ق وغیرہ پڑھیں گے۔
مقتدی خاموش رہیں گے۔ رکوع اور سجدہ پھر عام نماز کی طرح رکوع اور سجدہ کرکے کھڑے ہو جائیں گے۔
دوسری رکعت کا طریقہ
سورۃ الفاتحہ اور سورہ: امام پہلے سورۃ الفاتحہ اور پھر کوئی سورت، جیسے سورۃ الغاشیہ یا سورۃ القمر وغیرہ پڑھیں گے۔ تین زائد تکبیریں رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں کہی جائیں گی۔ ہر تکبیر کے بعد ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیے جائیں گے۔ چوتھی تکبیر پر رکوع چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں گے اور نماز عام طریقے سے مکمل کر لی جائے گی۔
سلام کے بعد خطبہ
نماز کے بعد امام صاحب دو خطبے دیں گے، جو سنت مؤکدہ ہیں۔
خطبے میں تکبیرات، توبہ، استغفار اور نیک اعمال کی تلقین کی جاتی ہے۔
خطبے کے دوران بیٹھنا اور سننا واجب ہے۔
فقہی حوالہ جات
. امام سرخسی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
“وَيُكَبِّرُ فِي الأُولَى ثَلاثًا بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الافْتِتَاحِ، وَفِي الثَّانِيَةِ قَبْلَ الرُّكُوعِ، وَهَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ” (المبسوط للسرخسي، ج 2، ص 42. حیدری) ترجمہ: “پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد تین زائد تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں ہیں، اور یہی امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے۔”
امام کاسانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:
“وَإِذَا فَرَغَ مِنَ التَّكْبِيرَاتِ يَقْرَأُ الْفَاتِحَةَ وَسُورَةً فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ، وَكَذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ يُكَبِّرُ قَبْلَ الرُّكُوعِ ثَلاثًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ الرَّابِعَةَ وَيَرْكَعُ” (بدائع الصنائع، ج 1، ص 276) ترجمہ: “جب زائد تکبیریں مکمل ہو جائیں تو امام پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورت پڑھے، پھر رکوع و سجدہ کرے۔ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہے، پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے۔”
نمازِ عیدالفطر کے چند اہم مسائل
عید کی نماز کا وقت
سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد زوال سے پہلے تک عیدالفطر کی نماز کا وقت ہوتا ہے۔
زوال کے بعد عید کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔
عیدگاہ میں پڑھنا افضل
عید کی نماز کھلے میدان میں پڑھنا مسنون ہے، تاہم کسی عذر کی بنا پر مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
اذان اور اقامت نہیں ہوتی
عید کی نماز میں اذان اور اقامت نہیں کہی جاتی۔
فوت ہو جائے تو قضا نہیں
اگر عید کی نماز کسی وجہ سے فوت ہو جائے تو اس کی قضا نہیں ہوتی۔
عورتوں کا عیدگاہ جانا
فقہائے احناف کے نزدیک آج کل کے فتنہ کے زمانے میں عورتوں کا عیدگاہ جانا مکروہ ہے، جبکہ ابتدائے اسلام میں یہ جائز تھا۔ فقہِ حنفی کے مطابق عیدالفطر کی نماز دو رکعت واجب ہے، جس میں چھ زائد تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ یہ نماز بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے اور بعد میں خطبہ دیا جاتا ہے۔ عید کی نماز کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا، اجتماعیت کو فروغ دینا اور خوشی میں غریبوں کو شریک کرنا ہے۔
یہی نمازِ عیدالفطر کا طریقہ سنتِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم اور فقہائے احناف کے اجماعی موقف کے مطابق ہے۔