السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ مفتی صاحب کی بارگاہ میں سوال ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم المدد، یا علی مدد، یا مدار اعظم مدد کہنا کیسا بعض لوگ کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن یا رسول اللہ المدد نہیں کہ سکتے حضور سے بھی مدد نہیں مانگ سکتے یہ شرک ہے تو اس کو دلائل سے واضح کریں کہ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی حضور علیہ السلام کی حیات میں اور آپکے ظاہری وصال کے بعد یا رسول اللہ المدد کے ساتھ ندا کی ہے کیا اور کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یا کسی ولی سے ڈائریکٹ مانگنا جائز ہے کہ یا رسول اللہ یہ عطا فرمائیں یا مدار العلمین یہ عطا فرمائیں اگر ایسا کرنا جائز ہے اور قرآن و حدیث اور صحابہ کرام سے ثابت ہے تو اسے دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
صورت مسئولہ میں توسل ، استعانت ، استمداد اور ندائے یارسول اللہ ۔صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جواز و استحسان پر قرآن و احادیث اور مفسرین ،محدثین ،فقہائے اسلام اور اولیائے امت کے اقوال و فرامین سے سلسلہ وار دلائل ہم پیش کرتے ہیں تاکہ مسئلۂ مذکورہ کی خوب خوب وضاحت ہو سکے ۔، آپ کے حکم پر استمداد، توسل اور نداء یا رسول اللہ (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)وغیرہ کی اہمیت و ضرورت پر مفصل و باحوالہ علمی و تحقیقی فتویٰ حاضر خدمت ہے
اسلام دینِ فطرت ہے، جو توحید پر قائم ہے اور بندگی صرف اللہ عزّ و جل کے لیے مخصوص ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السّلام، اولیاء کاملین رحمہم اللہ، اور صلحاء و مقربین کو اپنی بارگاہ سے قرب، مقام، وجاہت اور شفاعت کا اختیار عطا فرمایا ہے۔ اسی بنا پر امتِ مسلمہ میں توسل، استمداد اور نداء بالانبیاء و الاولیاء کا عقیدہ چودہ صدیوں سے جاری و ساری ہے
شرعی مسائل میں اہمیت
استمداد اور توسل کا مسئلہ بنیادی عقائد اور عبادات سے تعلق رکھنے والا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ متعلق بالوسائل اور دعاء کے آداب سے ہے، مگر بعض ناعاقبت اندیش لوگوں کی طرف سےاس پر کفر و شرک کے فتوے لگائے جا رہے ہیں، جس سے دین میں تفریق، فساد، اور عوام میں بدگمانی پیدا ہو رہی ہے۔
1۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“وَقَدْ ثَبَتَ التَّوَسُّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ مَمَاتِهِ، وَفِي كُلِّ حَالٍ” (الدر المنثور، ج 2، ص 121)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل کرنا آپ کی حیات و وصال دونوں حالتوں میں ثابت ہے۔ جب امت کے اکابر و اسلاف، صحابہ، تابعین، ائمہ اربعہ اس عمل کو جائز و پسندیدہ سمجھتے رہے، تو آج اس کو شرک و بدعت کہنا ایک نیا فتنہ اور دین میں تشدد کی علامت ہے۔
عوام الناس کی اصلاح و تسلی
عام مسلمان فطری طور پر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء کرام سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ وہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کرتے ہیں : “یا رسول اللہ المدد!” وہ بارگاہِ مولیٰ علی کرم اللہ وجھہ الکریم میں عرض کرتے ہیں ۔ “یا علی مدد! وہ بارگاہِ اولیاء میں عرض کرتے ہیں ” یا قطب المدار المدد” “یا غوث اعظم دستگیر!” “یا خواجۂ خواجگاں المدد!” “یا مخدوم المدد” ایسے کلمات دعاء سے، تضرّع، توسل اور محبت کے اظہار ہوتے ہیں۔ لیکن جب انہیں بتایا جائے کہ یہ “شرک” ہے، تو وہ یا تو دین سے بدظن ہوتے ہیں، یا ان کے دلوں میں وساوس اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
لہٰذا اس مسئلے کی تحقیق کرنا، دلائل سے عوام کو مطمئن کرنا، اہل سنت کی شناخت اور عقیدے کا دفاع کرنا دینی ضرورت ہے۔
ردِ فتنہ و دفاعِ عقیدۂ اہل سنت
آج کچھ خارجی مزاج گروہ، سلفیت کے نام پر، ہر غیر سلفی عمل کو شرک کہنے لگے ہیں۔ انہیں نہ اصولِ شرک کا فہم ہے، نہ فقہ العقائد کا مطالعہ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“یَتَوَسَّلُ إِلَی اللّٰہِ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ” (الرد علی الجہمیہ، ص 76) یعنی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“التوسل إلى الله تعالى بنبيه جائز، والطلب من رسول الله في حياته وبعد موته جائز.” (الأذکار للنووی، باب زیارۃ القبور) “یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نبی کو وسیلہ بنانا جائز ہے اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے طلب کرنا ان کی حیات اور بعد وفات میں جائز ہے۔
یہ فتنوں کے دور میں اہل سنت کا دفاع ہے کہ ہم نبی و ولی کو خالق نہیں بلکہ وسیلہ، سفارشی، دعا گو، اللہ کے محبوب بندے سمجھتے ہوئے ان سے مدد و توجہ چاہتے ہیں۔
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ
“یا رسول اللہ” کہنا صرف نداء نہیں بلکہ عقیدت و محبت کی صدا بھی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کرتے تھے: “بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، يَا رَسُولَ اللَّهِ (صحیح البخاری، حدیث: 2731)
محبت کا یہی جذبہ آج بھی اہل ایمان کو “یا رسول اللہ مدد!” کہنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس نداء پر شرک کا فتویٰ لگانا محبتِ رسول کے منہ پر طمانچہ ہے۔
تاریخی و علمی پس منظر کی ضرورت
چونکہ اس مسئلے پر علمی انکار اور عوامی جذبات دونوں موجود ہیں، اس لیے اس کا علمی جائزہ:
قرآن کی آیات ، احادیث صحیحہ ، آثارِ صحابہ ، اقوالِ ائمہ فقہاء و مفسرین ، اور فتاویٰ اہل سنت کی روشنی میں دلائل و حوالہ جات کے ساتھ مرتب کرنا نہایت ضروری ہے، تاکہ موجودہ اور آئندہ نسل گمراہی سے بچ سکے۔
یہ مسئلہ عقیدۂ توحید کی بنیاد کو متاثر کیے بغیر اہل محبت کا جائز عمل ہے۔ اس پر شرک کے فتوے دینا جہالت اور شدت پسندی ہے۔ امت کو اس عمل کے جواز، مشروعیت اور استحسان سے روشناس کرانا اہل علم کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس موضوع پر کتابچہ تیار کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے- وما علینا إلا البلاغ
باب اول : قرآنِ مجید سے توسل و استمداد کے دلائل
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر توسل (وسیلہ بنانے) اور استمداد (مدد طلب کرنے) کے جواز اور جلیل القدر انبیاء و صالحین کے واسطے سے دعاء و طلبِ حاجت کے شواہد موجود ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ توسل و استمداد نہ صرف جائز بلکہ مستحسن و محمود عمل ہے۔
1۔ آیتِ وسیلہ
یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (المائدہ: 35) ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔
دلائل : امام طبری، امام قرطبی، امام رازی، امام ابن جریر اور دیگر مفسرین کے نزدیک “وسیلہ” کا مطلب ہے: نیک اعمال، انبیاء و صالحین، اور ان کے وسیلے سے اللہ سے قرب حاصل کرنا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں : “الوسيلةُ تُطلَقُ على القُربةِ والطَّاعةِ، وقد تُطلَقُ على ذاتِ المُتوسَّلِ به” (تفسیر قرطبی، المائدہ: 35) یعنی وسیلہ کبھی عملِ صالح ہوتا ہے اور کبھی وہ شخص یا ذات جس کے ذریعے قربِ الٰہی حاصل ہو۔
2۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام کا توسل
قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي یوسف: 98 حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائیوں نے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام سے عرض کی: “یَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا” یعنی: آئے ہمارے باپ ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے اللہ سے دعاء کریں۔ بھائیوں نے براہِ راست اللہ سے معافی نہیں مانگی بلکہ حضرت یعقوب علیہ السّلام کو وسیلہ بنایا۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بزرگوں، انبیاء یا صالحین سے دعاء کی درخواست کرنا جائز ہے۔
3۔ آیتِ شفاعت و مغفرت عند الرسول
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (النساء: 64) ترجمہ :”اور جب وہ مومنین اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اے محبوب! اگر وہ آپ کے پاس آئیں اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور رسول بھی ان کے لیے دعاء مغفرت فرمایں تو ضرور وہ اللہ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا پائیں گے”۔
یہاں قرآن خود سکھا رہا ہے کہ اللہ سے مغفرت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر آنا، اور ان سے دعا کروانا بہترین وسیلہ ہے۔ یہ آیت بعد از گناہ کی اصلاح کا طریقہ بتا رہی ہے، جو صرف حیاتِ ظاہری تک محدود نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “یہ آیت دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر آکر بھی استغفار اور دعاء جائز ہے۔”(شرح صحیح مسلم، حدیث: 1374)
4۔ واقعہ: حضرت آدم علیہ السّلام کا توسل
روایتی مفہوم کی بنیاد : روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ سے معافی طلب کی۔ “اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ” اللہ تعالیٰ نے پوچھا: محمد کون ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی: یہ وہ ہستی ہے جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ عرش پر لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : “لولا محمد ما خلقتک” (المستدرک للحاکم، حدیث: 4228، صحیح) حضرت آدم علیہ السّلام نے بھی وسیلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے وسیلہ کو قبول فرمایا اور معافی عطا کی۔
5۔ غیروں سے مدد لینے کی اجازت
وَدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰى حِيْنِ غَفْلَـةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيْـهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِۖ هٰذَا مِنْ شِيْعَتِهٖ وَهٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّـذِىْ مِنْ شِيْعَتِهٖ عَلَى الَّـذِىْ مِنْ عَدُوِّهٖۙ فَوَكَزَهٝ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَيْهِ ۖ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ اِنَّهٝ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ (15) ترجمہ: اور شہر میں لوگوں کی بے خبری کے وقت داخل ہوا پھر وہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا، یہ ایک اس کی جماعت کا تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا، پھر اس نے جو اس کی جماعت کا تھا اپنے دشمن پر اس سے مدد چاہی، تب موسٰی نے اس پر مکا مارا پس اس کا کام تمام کر دیا، کہا یہ تو شیطانی عمل ہے ، بے شک وہ کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے۔ (القصص: 15)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں ذکر ہے کہ ان کے ایک ماننے والے نے ان سے مدد طلب کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس کی مدد کی۔ یہ استغاثہ کسی نبی سے دنیاوی معاملہ میں مدد مانگنے کا قرآنی ثبوت ہے۔ کسی بشر سے مدد طلب کرنا شرک نہیں، بشرطیکہ اسے اللہ کا بندہ اور سبب و وسیلہ سمجھا جائے۔۔
باب سوئم : مفسرین کرام رحمہم اللہ کا موقف ، توسل، استمداد اور نداء “یا رسول اللہ” کے حق میں۔
قرآنِ کریم کی تفسیر کرتے ہوئے کئی جلیل القدر مفسرین کرام نے توسل، استمداد اور نداء “یا رسول اللہ” جیسے امور کو جائز، مشروع اور مستحسن قرار دیا ہے۔ ذیل میں ان کے اقوال، تفسیرات اور حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں:
1۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (تفسیر کبیر)
آیت : وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (المائدہ: 35) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : “الوسیلۃ التقرب إلیه تعالی بفعل الطاعات وبالأنبیاء والصالحین.” (تفسیر کبیر، المائدہ: 35) ترجمہ : وسیلہ سے مراد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے، نیک اعمال اور انبیاء اور صالحین کے ذریعے۔
واضح پیغام : امام رازی نے انبیاء و اولیاء کے ذریعے توسل کو آیت کا مصداق قرار دیا۔
2۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (الجامع لأحکام القرآن)
آیت : وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ (النساء: 64) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : “قال علماؤنا: هذه الآية دليل على أن من أتى قبر النبي صلى الله عليه وسلم وتاب، تاب الله عليه.” (تفسیر قرطبی، النساء: 64) ترجمہ : ہمارے علما نے فرمایا کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہو کر توبہ کرے، اللہ تعالیٰ اسے معاف فرماتا ہے۔
مزید فرماتے ہیں : “ویستحب لمن دخل المسجد أن یأتی القبر و یقول: یا رسول اللّٰہ جئتک مستغفرًا شافعًا.” ترجمہ: اور مستحب ہے اس شخص کیلئے جو مسجد نبوی میں حاضر ہو وہ قبر شریف کے پاس جائے اور کہے یارسول اللہ! (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس مغفرت طلب کرنے آیا ہوں آپ شفاعت فرمانے والے ہیں ۔
واضح پیغام : امام قرطبی رحمہ اللہ نے وصالِ ظاہری کے بعد بھی “یا رسول اللہ” کہنا مستحب اور مؤثر قرار دیا۔
3۔ امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (روح المعانی)
آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ (النساء: 64) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : “الآیۃ دلیل علی جواز التوسل بالنبي بعد وفاته، إذ لا فرق بینه في الحیاۃ وبعد الموت.” (روح المعانی، النساء: 64) ترجمہ : یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ان سے توسل کے جواز پر دلیل ہے، کیونکہ زندگی اور بعد الوفات میں فرق نہیں۔
4۔ امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ (انوار التنزیل)
آیت : یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (المائدہ: 35) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : “الوسیلۃ ما یتوسل بہ إلی المطلوب، وأشرفها الإیمان ثم الطاعات.” وسیلہ ہر وہ چیز ہے جو مطلوب تک پہنچائے، اور ان میں سب سے اعلیٰ وسیلہ ایمان اور طاعات ہیں۔
5۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (الدر المنثور) میں ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نابینا صحابی کا واقعہ ذکر کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: “قل: اللهم اني أسألك وأتوسل إليك بنبيك محمد “(الدر المنثور، المائدہ: 35) امام سیوطی نے اس حدیث کو توسل کے دلائل میں شمار کیا اور اس سے “الوسیلہ” کی تفسیر کی۔
6۔ امام نیشاپوری (غرائب القرآن و رغائب الفرقان)
آیت : یَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ (الاسراء: 57) تفسیر: “یطلبون الوسیلۃ إلى اللّٰہ بالنبيّ والصالحین من عبادہ.”
7۔ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ (زاد المسیر) میں
تفسیر آیت : النساء: 64 کے تحت فرماتے ہیں : “فیہ دلیل علی تعظیم النبی حیا و بعد وفاتہ، و یشرع المجیء إلیہ للتوسل و الاستغفار.”
باب چہارم احادیثِ کریمہ سے توسل و استمداد کے دلائل
توسل اور استمداد کا عمل صرف قرآن سے ہی نہیں بلکہ سُنّتِ نبویہ اور احادیثِ صحیحہ سے بھی نہایت واضح اور روشن دلائل کے ساتھ ثابت ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم نے نہ صرف نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں بلکہ وصالِ مبارک کے بعد بھی توسل کیا، نداء کی، اور مدد چاہی
1۔ نابیناصحابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل
حدیث: ایک نابینا صحابی بارگاہِ رسالت میں آئے اور عرض کی: “یا رسولَ اللّٰہ! دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے شفا دے۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “إن شئت دعوتُ لك، وإن شئتَ صبرتَ فهو خيرٌ لك” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دعاء سکھائی: “اللّٰهُمَّ إنِّي أسألُكَ وأتوجَّه إليكَ بنبيِّكَ محمَّدٍ نبيِّ الرَّحمة”(سنن ترمذی، حدیث: 3578)
دلائل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعا سکھائی۔ اس میں ہے: “اللّٰهُمَّ إنِّي أتوسل إليكَ بنبيِّك” یعنی نبی کو وسیلہ بنا کر دعا کی گئی۔ اور یہ دعا آپ کی حیاتِ ظاہری میں سکھائی گئی، لیکن محدثین کے مطابق یہ دعا وصال کے بعد بھی مشروع ہے۔
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل سکھانا
حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “توسلوا بجاهي، فإنّ جاهي عندَ الله عظيم” (کنز العمال، حدیث: 35129) ترجمہ: میرے جاہ و مقام کے ذریعے اللہ سے توسل کرو، کیونکہ میرا جاہ اللہ کے نزدیک بہت بلند ہے۔
یہ حدیث واضح طور پر توسل بجاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دیتی ہے۔ “جاہ” یعنی وجاہت، قرب، مقام – جو نبی کو اللہ کی بارگاہ میں حاصل ہے۔
3۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا توسل
جب بارش نہ ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “اللّٰهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنّا نتوسل إليك بعمّ نبيّنا فاسقنا” (صحیح بخاری، حدیث: 1010) ترجمہ: اے اللہ! ہم پہلے تیرے نبی کے وسیلہ سے تجھ سے بارش مانگتے تھے، اب نبی کے چچا حضرت عباس کے وسیلہ سے مانگتے ہیں، تو بارش عطا فرما۔
دلائل: صحابہ کرام کا عقیدہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان کا وسیلہ قبول ہوتا ہے۔ اور وصال کے بعد انہوں نے نبی کے اہلِ بیت میں سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنایا۔ یہ حدیث وسیلہ بالأشخاص کو جائز اور مستحسن ثابت کرتی ہے۔
4۔ قبرِ انور پر حاضری کے وقت دعا
حدیث:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “من زار قبري وجبت له شفاعتي” (سنن دارقطنی، حدیث: 273)
دوسری حدیث میں ہے: “إذا أتيتموني فسلِّموا عليَّ، فإنَّ تسليمكم يبلغني” (مسند احمد، حدیث: 3724)
دلائل: قبورِ انبیاء پر حاضر ہو کر سلام کہنا اور شفاعت کی امید رکھنا، درحقیقت استمداد اور روحانی تعلق کا اظہار ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے بعد بھی امت کو تلقین فرمائی کہ میری بارگاہ میں آکر سلام کہو، دعا کرو۔
5۔ نداء “یا رسول اللہ” کی مشروعیت
حدیث: ایک جنگِ کے موقع پر ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہو گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “يا سارية الجبل! يا سارية الجبل!” (بیہقی، شعب الایمان، ج 3، ص 121) یہ روایت بتاتی ہے کہ نداء بُعد مسافت پر بھی ممکن ہے۔ نیز، صحابہ کرام نے بھی بسا اوقات “یا رسول اللہ!” کہہ کر نداء کی
اثر : صحابیِ رسول رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کیا: “يا رسول الله! استسق لأمتك، فإنهم قد هلكوا!” (بیہقی، دلائل النبوۃ، ج 7، ص 47) اور اس کے بعد خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور بارش نازل ہوئی۔
باب ہشتم: محدثین کرام رحمہم اللہ اور مسئلہ استمداد، توسل، و نداء “یا رسول اللہ”
اہل السنۃ والجماعۃ کے جلیل القدر محدثین کرام نے اپنی کتبِ حدیث، شروحات، اور فتاویٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء کرام سے توسل، استمداد اور نداء “یا رسول اللہ” کو جائز، مشروع، اور برکت کا باعث قرار دیا ہے۔ یہ مضمون انہی محدثین کرام کے اقوال و دلائل پر مشتمل ہے۔
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 256ھ)
واقعہ استسقاء: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کی:
“اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا.” (صحیح بخاری، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء)
اشارہ: اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد توسل منع ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کبھی نہ کرتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو بغیر کسی انکار کے ذکر کیا۔
2۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 279ھ)
حدیث: نابینا صحابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروانا “اللهم اني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، يا محمد إني أتوجه بك إلى ربي في حاجتي هذه.” (جامع ترمذی، حدیث: 3578) امام ترمذی نے فرمایا: “حديث حسن صحيح.”
مفہوم: یہ حدیث توسل و استمداد کی واضح دلیل ہے۔ صحابی نے براہ راست نداء “یا محمد” بھی کہا۔
3۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 303ھ)
امام نسائی نے “عمل الیوم واللیلہ” میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استمداد کے الفاظ والی دعائیں ذکر کی ہیں۔ “أغثني یا رسول اللہ” (عمل الیوم واللیلہ، باب الدعاء عند الکرب)
4۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 458ھ)
فرماتے ہیں: “باب ما جاء في التوسل إلى الله عز وجل برسوله صلى الله عليه وسلم.” (دلائل النبوة، ج6، ص 167)
واقعہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ایک شخص نے نبی کی قبر پر آ کر عرض کی: “يا رسول الله، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا.” امام بیہقی نے نقل کیا اور انکار نہ کیا۔
5۔ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 360ھ)
حدیث:” صحابی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو سکھایا کہ: “قل: اللهم إني أسألك وأتوسل إليك بنبيك محمد” (المعجم الکبیر، ج9، ص 30) امام طبرانی نے فرمایا: “وکان عثمان یأمر بذٰلك کل من کانت له حاجۃ.”
6۔ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 311ھ)
انہوں نے نابینا صحابی کی حدیث کو “صحیح” کہا، اور فرمایا: “فيه دليل على جواز التوسل بالنبي صلی الله عليه وسلم في حياته وبعد وفاته.”
7۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 676ھ)
کتاب: الأذکار میں فرماتے ہیں: “ویستحب زیارة القبر النبوي، والتوسل به صلی الله عليه وسلم، والدعاء عنده.” (الأذکار، باب زيارة قبر رسول الله شرح مسلم) امام نووی نے حدیث “اللهم إني أسألك وأتوسل إليك” پر کلام کرتے ہوئے فرمایا: “فيه جواز التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم.”
8۔ امام سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 756ھ)
فرماتے ہیں: “إن التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم جائز في حياته وبعد موته، والنداء بـ (يا رسول الله) حسن.” (شفاء السقام، ص 180)
9۔ امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 902ھ)
فرماتے ہیں: “والناس في شدائدهم یتوسلون بالنبي صلى الله عليه وسلم، ولم یزل هذا العمل متوارثا.”
10۔امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 911ھ)
الدر المنثور ، الخصائص الکبری ، الوسیلۃ میں آپنے نداء، توسل، اور استمداد کے کئی واقعات اور احادیث ذکر کیں، اور کبھی انکار نہ کیا۔
باب نہم : شارحینِ حدیث( جیسے امام نووی، ابن حجر عسقلانی، قسطلانی، علی قاری وغیرہ)
اور استغاثہ، استمداد، توسل اور ندائے “یا رسول اللہ” کی شرعی حیثیت
1۔ حدیث: استغاثہ بالنبی صلی الله عليه وسلم فی حیاتہ
الحديث : “اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، يا محمد إني أتوجه بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي“(رواه الترمذي وقال: حسن صحيح، حديث رقم: 3578)
شرح الإمام الترمذي رحمه الله: “هذا حديث حسن صحيح غريب، والعمل عليه عند بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، رأوا أن يتوسل إلى الله بالنبي صلى الله عليه وسلم في الدعاء” (جامع الترمذي، تحت الحديث: 3578)
تشریح: توسل بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اور تابعین کے عمل سے ثابت ہے۔
2۔ حدیث: توسل بعد وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم
الأثر : ” أن رجلاً كان يأتي قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، استسق لأمتك، فإنهم قد هلكوا (رواه البيهقي في دلائل النبوة 7/47)
شرح ابن حجر العسقلاني (في فتح الباري)”وروى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام هو بلال بن الحارث المزني، أحد الصحابة، فجاء إلى القبر وقال: يا رسول الله استسق لأمتك. فذكر الحديث، وفيه: فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام (فتح الباري، 2/495)
تشریح: ابن حجر اس استغاثہ کو نہ صرف نقل کرتے ہیں بلکہ قبول بھی کرتے ہیں، اور کسی انکار کا ذکر نہیں کرتے۔
3۔حدیث الشفاعة (استغاثہ بالأنبياء یوم القیامة)
الحديث: “فيأتون آدم… ثم نوحًا… ثم إبراهيم… ثم موسى… ثم عيسى… ثم يأتونني، فأقول: أنا لها…” (صحيح البخاري، كتاب الرقاق، حديث 7440)
شرح ابن حجر العسقلاني: “وفيه مشروعية التوسل إلى الله بالأنبياء والصالحين في المواطن التي يحتاج فيها إلى قضاء الحوائج، واستنزال الرحمة.” (فتح الباري، 11/473)
تشریح: ابن حجر واضح طور پر اس حدیث سے توسل اور استغاثہ کا جواز اخذ کرتے ہیں۔
4۔ نداء “يا رسول الله” بعد الوفاة
أثر معروف : عتبة بن غزوان سے منقول کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر عرض کیا: “يا رسول الله، قد جئت إليك مستغفرًا من ذنبي”
شرح القسطلاني (في المواهب اللدنية): یا رسول اللّٰہ! صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم میں آپ کے حضور حاضر ہوں آپ! میرے گناہ کیلئے استغفار کریں ۔ “وقد تواترت الأخبار بأن جماعة ممن رآه في المنام أو جاء قبره الشريف، وطلب منه الدعاء أو الشفاعة، قضيت حاجته، وهذا واقع إلى يومنا.” (المواهب اللدنية، 4/594)
قسطلانی اس عمل کو متواتر اور جاری عمل بتاتے ہیں۔
5۔ شرح الإمام النووي على حديث الضرير (التوسل بالنبي)
“وفي هذا الحديث التوسل برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الله تعالى في الإجابة، ويستحب ذلك.” (شرح صحيح مسلم، النووي، تحت الحديث: باب فضائل التوسل)
باب دہم
ائمۂ اربعہ، فقہاءِ اسلام اور اولیاءِ کرام رحمہم اللّٰہ کے نزدیک توسل، استمداد اور ندائے “یا رسول اللہ” کا جواز و استحسان
ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللّٰہ) اور جملہ اکابر فقہاء و اولیاء کا توسل، استمداد اور ندائے “یا رسول اللہ” کے جواز پر اتفاق ہے۔ ان کے اقوال، فتاویٰ اور عملی نمونے اس حقیقت کے شاہد ہیں۔
1۔ امام اعظم ابوحنیفہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول
امام اعظم ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور کلام ہے: “وأتوسل إليك بالنبيّ، النبيّ الأميّ.” (دیوان امام اعظم، دعائے معروف)
ترجمہ: اے اللہ! میں تیرے نبی، نبی اُمِّی کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کی۔ یہ ان کے عقیدۂ توسل کی کھلی دلیل ہے۔
2۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ایک واقعہ
خلیفہ منصور حج کے بعد مدینہ آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر دعا کرنا چاہی۔ اس نے امام مالک سے پوچھا: “قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا کروں یا قبر کی طرف؟” جواب: امام مالک نے فرمایا: “ولم تصرف وجهك عنه وهو وسيلتك ووسيلة أبيك آدم عليه السلام إلى الله؟ بل استقبله واستشفع به.” (شفاء السقام، ص 133)
ترجمہ: تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ کیسے پھیر سکتے ہو جبکہ وہی تمہارا وسیلہ ہیں اور تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا وسیلہ بھی تھے؟ بلکہ ان کی طرف رخ کرو اور ان کے ذریعے شفاعت طلب کرو۔ امام مالک نے قبرِ انور کی طرف رخ کر کے نداء و استمداد کو جائز بلکہ مستحب قرار دیا۔
3۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “إني لأتبرك بأبي حنيفة، وأجيء إلى قبره كل يوم” (تاریخ بغداد، ج1، ص 123)
اور ایک اور جگہ فرمایا: “توسلت بک إلى الله في قضاء حاجتي، فَقُضِيَت لي ترجمہ: میں نے آپ (شیخ) کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کی، اور میری حاجت پوری ہو گئی۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے متوفی اولیاء کے وسیلہ سے دعا کی، اور اسے مؤثر پایا۔ اس سے بعد الوفات توسل اور روحانی تعلق کا ثبوت ملتا ہے۔
4۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قبرِ انور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نداء دے کر سلام کہنا اور دعا کرنا کیسا ہے؟ فرمایا: ” يُسَلِّمُ عليه، ويَتَوَسَّلُ به إلى الله عزّ وجلّ.”(العلل ومعرفة الرجال، ابن القطان) ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہے اور ان کے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک توسل بالنبی جائز ہے، اور قبرِ انور پر دعا و سلام مشروع ہے۔
فقہائے احناف و علمائے متقدمین کے اقوال
امام طحاوی (عقیدہ طحاویہ) ونحب أهل العدل والأمانة من المؤمنين، ونتوسل إلى الله بطاعتهم.” علامہ ابن عابدین شامی (رد المحتار) “يجوز التوسل بالأولياء، الأحياء والأموات.” (رد المحتار، باب الحج) ترجمہ: اولیاء اللہ سے توسل جائز ہے، خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں۔
اولیاء کرام اور صوفیاء کے اقوال و معمولات
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کی کتابوں میں “غوث، مدد” جیسے الفاظ کثرت سے موجود ہیں۔ خود آپ نے فرمایا: “استغاثوا بي، أغثتُهم بإذن الله.” (فتوح الغیب) ترجمہ: جب لوگ مجھ سے مدد مانگتے ہیں تو میں اللہ کے اذن سے ان کی مدد کرتا ہوں۔
باب یازدہم : فقہائے احناف و برصغیر کے اکابر علمائے کرام کا موقف
(توسل، استمداد، اور نداء “یا رسول اللہ” کے بارے میں) اس باب میں ہم امام ابن عابدین شامی، فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ ظہیریہ، امام شاہ ولی اللہ دہلوی، اور امام عبد الحق محدث دہلوی رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر علما کے اقوال پیش کریں گے۔
1۔ امام ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1252ھ) کا قول ہے
“ویجوز التوسل بالصالحین، ویستجاب دعاؤہ کما فی البحر.” (رد المحتار، ج5، ص254، کتاب الحج، باب زیارۃ القبور)
ترجمہ: نیک بندوں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے، اور ایسی دعا قبول ہوتی ہے، جیسا کہ “البحر الرائق” میں ہے۔ مزید فرماتے ہیں طلب الدعا من الاولیاء جائز، وکذا الاستغاثۃ فی المشاکل بقول یا رسول اللّٰہ، یا شیخ عبد القادر.” امام شامی رحمہ اللہ نے نداء و استغاثہ جیسے “یا رسول اللہ” یا “یا شیخ عبدالقادر” کو جائز قرار دیا۔ توسل و استمداد فی العقیدہ درست اور مجرب عمل ہے۔
2۔ فتاویٰ عالمگیری (فتاویٰ ہندیہ) میں ہے
“اذا کان عندہ رجل صالح یدعو اللّٰہ لہ، لا بأس بہ، کذا فی التتارخانیۃ.” (فتاویٰ عالمگیری، ج5، ص348) ترجمہ: اگر کسی نیک آدمی سے دعا کروائی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ تتارخانیہ میں ہے۔
مفہوم : زندہ ہو یا وفات یافتہ، نیک شخص کے ذریعے توسل کرنا فقہ حنفی میں جائز ہے۔
3۔فتاویٰ قاضی خان (فقہ حنفی کے مستند متون میں سے) اس میں فرماتے ہیں
“یتوسل إلی اللہ تعالیٰ بالأنبیاء والصالحین فی الدعاء وھو جائز.”(فتاویٰ قاضی خان، ج3، ص 403) ترجمہ: دعا میں انبیاء اور نیک بندوں کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے، یہ جائز ہے
4۔ فتاویٰ ظہیریہ (علامہ ظہیر الدین رحمہ اللہ) کا قول ہے
“ومن أحبّ أن یتوسل بنبیٍّ أو ولیٍّ فلیتوسل فإنّ ذٰلک حسن.” تشریح : نبی یا ولی کے وسیلہ سے دعا مانگنا پسندیدہ (حسن) عمل ہے۔
5۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1176ھ) کا قول جنیل ہے
“انی رأیت من سیر الصالحین التوسل بأرواح الأولیاء فی الدعاء، وکان لھم تأثیر مجرب فی ذٰلک.” (القول الجمیل، ص140) ترجمہ: میں نے صالحین کی سیرت میں دیکھا کہ وہ دعا میں اولیاء کی ارواح کے وسیلہ سے توسل کرتے تھے، اور اس میں اثر مجرب تھا۔
مزید فرماتے ہیں: “والتوسل بالأولیاء وطلب الدعاء منهم جائز وواقع فی الحدیث.”
6۔ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1052ھ) کا قول ہے
“الناس یتبرکون بقبور الصالحین، ویتوسلون بھم، ولا ینکر ذٰلک إلّا من ضاق صدره عن معانی أهل السلوك.” (مدارج النبوة، ج2، ص 489) ترجمہ: لوگ اولیاء کی قبور سے برکت حاصل کرتے اور ان سے توسل کرتے ہیں، اور اس کا انکار وہی کرتا ہے جو تصوف اور معرفت کے رموز سے بے خبر ہو۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ( کتاب: مدارج النبوة (فارسی) کی اصل عبارت (فارسی) “قبر شریف رو برو شود و توجه تمام بنماید و شفاعت طلبد و استمداد کند از روحانیت آن سرور، و از خدا خواهد به حرمت او حاجات خود را۔ و این طریقہ مجرب است در حصول مقاصد دنیوی و اخروی۔” (مدارج النبوة، جلد دوم، صفحہ ۴۵۰، مطبع مجتبائی، دہلی) ترجمہ: “قبرِ مبارک (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑے ہو کر پورے انہماک سے متوجہ ہو اور شفاعت طلب کرے اور اُس برگزیدہ ہستی کی روحانیت سے استمداد کرے، اور اللہ تعالیٰ سے اس (نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلے سے اپنی حاجات مانگے۔ اور یہ طریقہ دنیاوی اور اخروی مقاصد کے حصول میں مجرب ہے۔” کتاب: اشعۃ اللمعات (عربی) کی اصل عبارت (عربی) “و طلب المدد من ارواح الأولياء والأكابر مشهور بين الناس، وتجربته قاطعة على صدقه۔” (اشعۃ اللمعات، جلد اول، صفحہ ۵۷۶، دارالکتب العلمیہ، بیروت) ترجمہ: اور اولیاء اور اکابرین کی ارواح سے مدد طلب کرنا لوگوں میں مشہور ہے، اور اس کا تجربہ اس کی سچائی پر قطعی دلیل ہے۔”
حضرت شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : کتاب: تحفہ اثنا عشریہ (فارسی) کی اصل عبارت (فارسی) “از ارواح انبیاء و اولیاء طلب استعانت و استمداد کردن و فیض خواستن جایز است، زیرا کہ حق تعالیٰ ایشان را واسطۂ فیوضات گردانیدہ است۔(تحفہ اثنا عشریہ، فصل پنجم، صفحہ ۳۶۷، مطبع نولکشور، لکھنو) ترجمہ: “انبیاء اور اولیاء کی ارواح سے استعانت اور استمداد طلب کرنا اور ان سے فیض حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کو اپنی فیوضات کا وسیلہ بنایا ہے۔”
شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت سے استمداد و توسل اور ان سے حاجات طلب کرنے کو نہ صرف جائز بلکہ مجرب (یعنی تجربہ شدہ مؤثر) فرمایا۔ شیخ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے واضح فرمایا کہ انبیاء و اولیاء کی ارواح سے مدد طلب کرنا اور فیض لینا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں واسطۂ فیوض بنایا ہے۔ دونوں اکابر نے توسل، استمداد، استعانت، استغاثہ اور ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے اعمال کے جواز و استحسان کی واضح تصریح کی ہے۔
باب دوازدہم : مشائخِ صوفیاء و اولیائے صالحین کی تعلیمات میں استغاثہ، استمداد، توسل، استعانت اور ندائے ‘یا رسول اللہ‘
استغاثہ، استمداد، توسل، استعانت اور ندائے “یا رسول اللہ” وہ مسائل ہیں جن پر اہل سنت و جماعت کا ہمیشہ سے واضح موقف رہا ہے۔ مشائخِ صوفیاء اور اولیائے صالحین کی تعلیمات میں ان امور کو خاص اہمیت دی گئی ہے، اور ان کی کتب میں صریح دلائل موجود ہیں۔ ذیل میں ہم کتبِ تصوف اور سیرِ اولیاء کی روشنی میں اس مسئلے کا تحقیقی جائزہ پیش کر رہے ہیں۔
(الف) استغاثہ و استعانت اور مشائخِ صوفیہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الفتح الرباني میں فرماتے ہیں: “إذا ضاقت عليك الأمور، فاستغث بنا، فإنّا نغيثك بإذن الله.” (الفتح الرباني، مجلس: 62) یعنی: “جب تم پر امور تنگ ہو جائیں تو ہم سے استغاثہ کرو، ہم اللہ کے اذن سے تمہاری مدد کریں گے۔”
(ب)شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“الاستمداد من أرواح الأولياء جائز شرعًا، وقد ثبت بالتجربة أن الاستغاثة بهم تنفع.” (الفتوحات المکیة، ج 3، ص 306)
یعنی: “اولیاء اللہ کی ارواح سے استمداد شرعاً جائز ہے اور تجربہ سے ثابت ہے کہ ان سے استغاثہ نفع بخش ہے۔”
توسل اور مشائخِ تصوف
(الف) خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“توسل بالأولياء والسادات من السنن المشهورة عند الصالحين.(سیرتِ خواجہ غریب نواز، ص 245) یعنی: “اولیاء اور سادات کے وسیلے سے دعا کرنا صالحین کی مشہور سنت ہے۔”
(ب) امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“التوسل بالأولياء حق، ومن أنكره فقد جهل طريق القرب من الله. (مکتوبات امام ربانی، ج 2، مکتوب 123)یعنی: “اولیاء کے وسیلے سے دعا کرنا حق ہے، اور جو اس کا انکار کرے، اس نے قربِ الٰہی کے راستے کو نہیں پہچانا۔”
3۔ ندائے ‘یا رسول اللہ’ اور اقوالِ اولیاء
(الف) حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“منادات النبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته جائز، وقد ثبت بالتجربة أن الاستغاثة به ترفع البلاء.”(کشف المحجوب، ص 212) یعنی: “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے بعد پکارنا جائز ہے، اور تجربہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ مصائب کو دور کرتا ہے۔”
(ب) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ فرماتے ہیں
“التوسل والتبرك برسول الله صلى الله عليه وسلم مشروع، وهو من أسباب القبول عند الله.” (فیوض الحرمین، ص 62) یعنی: “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے اور برکت سے دعا کرنا مشروع ہے، اور یہ اللہ کے ہاں قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔”
اولیائے کرام اور مشائخِ تصوف کی تعلیمات میں استغاثہ، استمداد، توسل، استعانت اور ندائے “یا رسول اللہ” کی مشروعیت واضح طور پر ثابت ہے۔ یہ امور نہ صرف جواز رکھتے ہیں بلکہ ان سے دین میں برکت اور قربِ الٰہی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے نیک و صالح بندوں کے فیوض و برکات سے مستفیض فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین وآلہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔
ھٰذا ماظھر لی والعلم عند ربی وھو اعلم بالصواب ۔
کتبہ
ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری
دار الافتاء جامعہ عربیہ مدار العلوم مدینۃ الاولیاء مکنپور شریف کا نپور نگر یوپی الھند
9793347086
