madaarimedia

عشق الٰہی اور محبوبان بارگاہ لم‌ یزل کا مقام

عشق حقیقی عشق خدا ہے اور وہ عشق ہمہ تن آگ ہوتاہے جس میں جلنے والا اپنی سوزش پرنہ گھی کے پھاۓ رکھتا ہے نہ بوروپلس کی مالش کرتاہے بلکہ *ھل من مزید* کی صدا سے بتانا چاہتا ہے کہ اس کی حرارت برودت کے معانی , اس کا سوز, تسکین نظر مشتاق , اور اس کی تپش وحرارت ,مکمل قرار کی تفسیر ہے
اس کمال محبت کے بعد محبوب کا چاہے اچٹتاہوا وجود ہی نظر میں ہو تو اس کو کمال عشق کی معراج سمجھتے ہیں اور اگر جلوہ جاناں نگاہوں سے اوجھل ہو تو یہ حرم عشق کے پردوں کو خاکستر کردیتی ہے اور عاشق کا وجود بے پردہ ہوکر تلاش یارمیں کبھی دیر و حرم کی خاک چھانتا ہے کبھی محراب و منبر کی کنکریٹ پر سر رکھ دیتاہے کبھی محبوب کی گلیوں میں سر گرداں پھرتا ہے اور مضطرب وپریشان وجود کی آنکھوں میں رچا بسا جہان, جہان یار سے ہم کنار ہوتا ہے

جنون عشق کی نظروں میں گلشن ہے نہ صحرا ہے
نگاہ جستجو میں ہاں مگر منزل کا نقشہ ہے

اور وہ محبوب کی آواز سننے کیلئے دیوانہ وار پھرتے ہیں چاہے محبوب انہیں پھٹکار ہی کیوں نہ دے انکی پھٹکار بھی لب جان بخش ہوتی ہے جیساکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے دن محبین کی جماعت بلائی جائے گی اللہ ان سے فرمائے گا تم کس سے محبت کرتے تھے وہ کہیں گے اے رب میں تجھ سے محبت کرتا تھا تب اللہ فرمائے گا تو پھر جہنم میں چھلانگ لگا دو وہ محبین جہنم میں دوڑ کر چھلانگ لگا دیں گے کہنے والا کہے گا کیا تم نے اسی دن کے لیے عبادت اور ریاضت کی تھی کیا تمہارا مجاہدہ تمہارا زہد تمہارا تقوی تمہارا تزکیہ نفس اسی دن کے لیے تھا کہ عبادت اور ریاضت کرو اور جہنم میں جاؤ تو وہ بندے کہیں گے ہمیں اس سے مطلب نہیں کہ جہنم میں ڈالے جائیں یاجنت میں ہم تو اپنے محبوب کا کلام سننے کے مشتاق تھے کاش میرا خدا مجھ سے بات کر لے اسی امید اور اسی تمنا میں زندگی خرچ کر کے یہاں تک ائے ہیں اب یہ اس کا حکم ہے تو ٹال نہیں سکتا
یہی عاشقوں کی دنیا ہے معشوق کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں تلاش یار میں خاک چھانتے ہیں یعنی عشق الٰہی اگر کسی جی میں گھر کرنے لگے تو وہ عشق ابتدا میں معرفت الھی کو ڈھونڈتا ہے اور جب عشق خدا اس کے دل کو اپنا آشیانہ بنا لیتا ہے تو

ہرسنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
کے مصداق پتے پتے ذرے ذرے سے معرفت الھی کا مشاہدہ کرتا ہے گم جلوہ ذات میں ہو کراب عاشق خود کو ڈھونڈ تا ہے تو اپنا وجود نہیں ملتا جب اپنے خیال سے فنا اور اپنے ہونے سے بے خبر ہو جاتاہے تو وہ ہی وہ ہوتا ہے حتی کہ اناالحق تک کہہ اٹھتا ہے

سلطان الاولیاء والعارفین حضرت بایزید پاک بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بیس سال تک اس کی تلاش میں رہا اور اپنے وجود اور اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہ پایا اور جب عشق الٰہی کا مزہ مل گیا تو اب بیس سال سے اپنا وجود تلاش کرتاہوں تو اپنے وجود میں بھی اللہ ہی اللہ نظر آتا ہے عاشق کاوجود معشوق کے خیال میں اتنا ضم ہوجاتاہے گویا عاشق کاوجود ہی نہیں اسی عشق و وجد کا ایک دوسرے سے اتنا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ من کان للہ کان اللہ لہ (جو اللہ کا ہوجاتا ہے اللہ اس کا ہو جاتا ہے) اس کا نتیجہ ہوتاہے اوراسی منزل قرب کو اولیایء تحت قبای لایعرفھم غیری سے تعبیر کیا گیاہے اس کا مقام کل عالم میں الگ ہوتاہے

ہرکہ عاشق شد جمال ذات را
اوست سید جملہ موجودات را
جو شخص اللہ کے جمال کا عاشق ہے وہ تمام موجودات کا سردار ہے

وفضلناھم علی کثیر
اور ہم نے ان کو بہتوں پر فضیلت دی
یہی مقام منزل قرب اقرب کہلاتاہے یہاں پر صرف خدا اور بندہ ہوتاہے

ہر کہ طالب ھو بہ ھو می رسید
ماسوی اللہ غیر را ہر گز نہ دید
جو اللہ کا طالب بنتا ہے اس تک پہونچ جاتاہے پھر وہ اللہ کے سوا غیر کی طرف ہرگز نہیں دیکھتا
دنیا و مافیہا سے ایک دم دور صرف اللہ اللہ اس کا مطمح نظر اس کا سکون قلب اس کی حرارت ایمانی, دنیا کی جاہ و حشمت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ,دھوپ کی تمازت اسے جلا نہیں سکتی ,سایہ کی برودت اس کی ضرورت نہیں، مخمل ودیبا اس کا بچھونا نہیں عیش و طرب اسے چاہیے نہیں یہی محبت ہے اور کمال محبت کا نام ترک طلب ہے ہرآن اللہ اس کی نظرمیں رہتا ہے

وہ کہتا ہے
اے در دل من اصل تمنا ہمہ تو
اے در سر من مایہ سودا ہمہ تو
اے کہ میرے دل میں اصل تمنا تو ہی ہے اے کہ میرے سر میں محبت کا سودا تو ہی ہے

حبیب لیس بعد لہ حبیب
یہ عشق ہی تھا جس نے آتش نمرود میں کودنے کا حوصلہ بخشا یہ عشق ہی تھا جس نے موسی کی تھالی میں جسم کے ہر عضو کی بوٹی ڈالدی یہ عشق ہی تو تھا جس نے دشت و بیاباں میں اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے

اللہ خود انکی طرف بڑھتاہے
جب سچا عاشق تلاش یار میں نکلتا ہے اور اس کا عشق و وجد تحمل اور ضبط کے تمام مراحل طے کرنے کے لایق ہوتاہے تو اللہ خود اس کی طرف بڑھتا ہے اسے اپنا راستہ دکھاتا ہے والذین جا ھدو فینا لنھدینھم سبلنا ان اللہ لمع المحسنین (العنکبوت 69) جو لوگ ہماری طرف کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنی طرف آنے کا راستہ دکھاتے ہیں حتی کہ اجسامھم فی الدنیا و قلوبھم فی الآخرتہ کی منزل پرہوتے ہیں

عاشق الہی کا مطلوب اور مقصود صرف اللہ ہی ہوتا ہے اللہ کے سوا کوئی اس کی تمنا نہیں قران کریم میں اللہ فرماتا ہے قل ان صلاتی ونسکی و محیای ومماتی للہ رب العالمین (سورہ الانعام 162) اےمحبوب اپ فرما دیجیے بے شک میری نماز میری قربانی میری زندگی میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے

عاشقان بارگاہ لم یزل کی یہی وہ پاک جماعت ہے جس کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ الا انبئکم بخیار کم قالوا بلی یا رسول اللہ قال اذارؤ ذکر اللہ کیا میں تمہارے بہترین لوگ تمہیں نہ بتلا دوں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کیوں نہیں یارسول اللہ حضور صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جب انہیں دیکھو تو خدا یاد آجائے
کبھی جو وقت ملے ان کے پاس بیٹھا کر
جو لوگ عشق میں بابا فرید ہو گئے ہیں

یہ جگر سوختہ عارفین کا مقام ہے کہ خدا کی طرف بڑھے اور منزل فنا فی اللہ سے گزر کر مقام بقاباللہ میں دوام حاصل کرلیا یہ انکی چاہت اور لگن کا ثمرہ ہے اور کیوں نہ ہو خدا تو ان لوگوں کے بھی قریب ہوجاتاہے جو تمام عمر معصیت کیشی میں گزارتے ارتکاب زدہ رہ کر خدا کو یاد بھی نہیں کرتے مگر وہ خدا پھر بھی رحمت تمام کے دروازے کھول دیتا اور آواز دیتا الست بربکم کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں قالوا بلی سب نے کہا کیوں نہیں تو ہمارا رب ہے پھر رب فرماتاہے یا ایہا الانسان ما غرک بربک الکریم الذی خلقک فسواک فعدلک فی أی صورت ماشاءرکبک اے انسان تجھے کس چیز نے فریب دیا تمہارے بے پناہ کرم والے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر برابر کیا پھر انصاف کیا اور جس صورت میں چاہا پیدا کیا

میرے قریب تو آ مجھ سے مانگ تو میری رحمت گنہگار خطا کار نہیں دیکھتی ہے جب بخشش پر اتی ہے تو اپنے الطاف و عنایات کے بادل برسا دیتی ہے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہ رو منزل ہی نہیں

کہتے ہیں کہ امیر المومنین سرکار سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ایک شخص مدینے میں رہتا تھا جو پیشے سے گائے کار تھا گانے گا تا تھا جب اس کی عمر 80 سال کی ہو گئی تو اس کی آواز نے ساتھ دینا چھوڑ دیا لوگوں نے اس سے گانے سننا بند کر دیا اب نوبت فقر و فاقہ تک پہنچ گئی گھر کا تمام مال و اسباب بک گیا پریشان حال ایک دن جنت البقیع میں پہنچا اور اپنے رب کو پکارنے لگا اے اللہ اے اللہ اے اللہ میں پریشان ہوں میری کوئی نہیں سنتا تو تو سن تیرے سوا میں اپنی پریشانی اور زبوں حالی کس سے کہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں ہے تو ہی میرا کارساز ہے بار الہ بتا تیرے سوا کس کو پکاروں جب کہ تو میرا خالق ہے تو نے مجھے پیدا کیا میرے رزق کا ضامن بھی تو ہی ہے
حضرت عمر مسجد نبوی میں سو رہے تھے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ عمر اٹھو اور جنت البقیع میں جاؤ میرا ایک بندہ پریشان ہے اس کی مدد کرو حضرت عمر اٹھے ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص جھاڑیوں کے پیچھے چھپا ہوا اپنے اللہ سے فریاد کر رہا تھا فریادی نے حضرت عمر کو اتے ہوئے دیکھا وہ ڈر کی وجہ سے بھاگنے لگا کہ ایسا نہ ہو کہ عمر کوڑے سے مارنے لگیں حضرت عمر نے آواز دی ٹھہرو بھاگو نہیں مجھ کو اللہ نے بھیجا ہے تمہاری مدد کے لیے اتنا سننا تھا کہ وہ شخص گھٹنوں کے بل گر گیا اور اللہ کے حضور رونے لگا عرض کرتا ہے بار الہ تمام زندگی میں نے گناہوں میں گزاری کبھی تجھے پکارا نہیں آج اپنے مطلب پر تجھے روٹیوں کے لیے پکارا تو تیری شان کریمی یہ ہے کہ تو نے مجھ کو پھر بھی نہ چھوڑا میری پکار پر لبیک کہا اور میری مدد کے لیے اپنے عظیم بندے کو بھیجا بار الہ میں تجھے منہ دکھانے کے لائق نہیں ہوں اللہ میری خطا کو معاف کر دے اے اللہ میری خطا کو معاف کر دے یہ کہتے کہتے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی

اسکے غصے پہ کہیں بھاری ہے رحمت اسکی
اتنا سنتے ہی گنہگار نے دم توڑ دیا
وفا مصباحی

حضرت عمر نے اس کی نماز پڑھائی اور اخراجات کیلئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا اللہ جس سے چاہے راضی ہو جائے جس پر چاہے وہ فضل کے بادل برسائے شرط یہ ہے کہ اخلاص قلب کے ساتھ اللہ کو پکارے تو کوئی
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
فقط والسلام

خاک در ولی باری سید ازبر علی مداری
دار النور مکن پور شریف

Leave a Comment

Related Post

Top Categories