از سید محمد ریاست علی گوند یا مہاراشٹر
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چہیتی اور لاڈلی بیٹی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام اولادوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول خدا کی بیٹی ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر خدا کی زوجہ اور سردارانِ جنت حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی والدہ ہونے کی وجہ سے تمام عورتوں سے افضل و برتر ہیں۔
عورتوں میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی ، آپ کا نام فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس لئے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آتش دوزخ سے آزاد فرما دیا، آپ کو بتول اس لئے کہا گیا کہ فضیلت ، دین اور حسب میں اپنے زمانے کی کل عورتوں سے وہ منقطع تھیں ، اللہ تعالی نے بشارت دی کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے محبان کو آتش دوزخ سے نجات ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس درجہ محبت فرماتے تھے کہ چشم فلک نے کسی اور کو ایسی محبت کرتے نہ دیکھا ہوگا ، جس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملتے اور جس وقت سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آتے ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ اپنی زندگی کے دن گزارے یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے غیر معمولی محبت تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی اولاد کو اتنا نہ چاہا جتنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو۔
شکل وسیرت اور خلق و اخلاق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ تھیں۔ یوں تو باپ کو بیٹی سے محبت ہوتی ہے، لیکن فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی محبت کا سبب یہ بھی تھا کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف رہتی تھیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد پسند تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اور ان کا ادب و احترام کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت فاطمہ رضی اللہعنہا سے اس درجہ محبت اور پیار کرنا اس وجہ سے ہی تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے عمر رسیدہ ہونے کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بڑی مستعدی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس سے فاطمہ خوش اس سے خدا خوش۔
ایک اور موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے جو اسے دکھ پہنچائے گا وہ مجھے تکلیف دے گا ، جو اسے خوش رکھے گا، وہ مجھے راحت پہنچائے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے آپ فرماتی ہیں: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے والد کے علاوہ کوئی ہستی ان سے افضل نہیں دیکھی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد ایک طرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جدائی کے غم میں مبتلا ہوگئیں، تو دوسری طرف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزاری کی ساری ذمہ داری حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر آن پڑی ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ماں کے انتقال کے وقت ایک کمسن بچی تھیں انہیں ماں کی جدائی شاق تھی۔ وہ ہر وقت پر مژدہ نظر آتی تھیں ۔ مستقل غم نے ان کی صحت پر اور اثر ڈالا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو گونہ محبت کا مرکز ہو گیا تھا ، باپ کی حیثیت سے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر معمولی محبت کرتے تھے، لیکن ماں کی محبت بھی سمٹ کر باپ کی محبت میں تبدیل ہوگئی تھی ، کفار مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچایاکرتے تھے۔
ایک دفعہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصروف عبادت تھے اوجھڑی رکھ دی ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جب خبر ہوئی تو وہ بے اختیار دوڑی دوڑی آئیں اور اوجھڑی کو آپ صلی اللہ علیہ پر سے ہٹایا اور کافروں کے لئے بد دعا کی۔
ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم دھوتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو سب سے زیادہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی متاثر تھیں , حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ اتنی زیادہ غمگین رہنے لگیں کہ صرف چھ ماہ بعد ہی آپ رضی اللہ عنہا نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے انسانیت کے نکتہ کمال پر فائز تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا آئینہ تھیں ، بے پناہ ذکاوت ، ذہانت اور علم کی دولت سے مالا مال تھیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی اس شادی کی خوشی سب سے زیادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں ہی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پروان چڑھے تھے۔ دونوں کو تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ، دونوں ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے پناہ محبت فرماتے تھے،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور خطبہ نکاح ارشاد فرمایا: میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں جو اپنی نعمتوں کے باعث ہر تعریف و تحسین کا سزاوار ہے اور اپنی قدرتوں کے باعث عبادت و پرستش کے لائق ہے، اس کی سلطانی ہر جگہ قائم ہے ، زمین و آسمان پر اس کا حکم چلتا ہے، پھر اپنےاحکام کے لئے انہیں آپس میں الگ الگ کر دیا اور اپنے دین کے ذریعے انہیں سربلندی عطا فرمائی۔ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انہیں عظمت و منزلت سے بہرہ ور کیا ، بلا شبہ خدا نے شادی کو ایک لازمی چیز قرار دیا ہے۔
رخصتی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے پناہ دعاؤں کے بعد اپنی لخت جگر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا اور اپنی بیٹی کو تسلی و تشفی دی اور فرمایا: میری بچی میں نے تجھے ایسے شخص کو سونپا ہے جس کا ایمان زیادہ قوی ہے، اس کا علم دوسرے سب لوگوں سے زیادہ ہے اور وہ ہماری قوم میں اخلاق علوئے نفس کے اعتبار سے افضل ہے۔
چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تربیت یافتہ اور پرورش کردہ تھے، یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ خلق و اخلاق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کرتے ، کوئی شبہ نہیں، وہ اپنے گھر میں اپنی رفیقہ حیات کا گھریلو کام میں بھی ہاتھ بٹایا کرتے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چکی پیستیں اور آٹا گوندھتیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ باہر جا کر لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور پانی بھر کر لایا کرتے تھے ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بڑی صابر اور اللہ والی خاتون تھیں، تمام زندگی مشقت اور کام کاج میں گزاری لیکن زبان سے کبھی شکوہ نہ کیا ، چکی پیستے پیستے آپ کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے لیکن اُف تک نہ کیا آپ نے جنگ احد میں مسلمان زخمیوں کی مرہم پٹی میں حصہ لیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پانچ اولادیں ہوئیں ، امام حسن ، امام حسین ، حضرت محسن ، زینب الکبری ، ام کلثوم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بعض مورخین حضرت محسن کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور بعض آپ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے بے انتہا اور غیر معمولی محبت کیا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، یا اللہ! جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے تو بھی اسے محبوب رکھے۔
حضرت براء عاذب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے دیکھا حسن بن علی رضی اللہ عنہما دوش مبارک پر سوار ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں: یا اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد ماجد کی رحلت کے چھ ماہ بعد اس فانی دنیا سے عالم جاودانی کو رخصت ہو گئیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ اہل بیت میں سے سب سے پہلے وہ مجھ مجھ سے ملیں گی ، اور ایسا ہی ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا ، وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر ۲۸ سال تھی۔ جنت البقیع کے قبرستان میں آپ رضی اللہ عنہا کو دفن کیا گیا۔