ذی الحجہ کی پہلی تاریخ اور نکاحِ نور و ولایت
باب اول: ذی الحجہ کی پہلی تاریخ — ایک تاریخِ نور
ذی الحجہ کا مہینہ ویسے تو خود فضیلتوں سے لبریز ہے، لیکن اس کی پہلی تاریخ میں ایک خاص نوری شان ہے۔ یہ وہ دن ہے جس دن سیدۂ کائنات، فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور امیرالمؤمنین، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا عقدِ نکاح ہوا۔ یہ وہ مقدس لمحہ تھا جو زمین پر نور کی بارش اور آسمانوں پر سرور و طرب کا باعث بنا۔
یہ نکاح دنیاوی مفادات پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا، نبوی سنت، اور طہارت و ولایت کی بنیاد پر قائم ہوا۔
باب دوم: جگر گوشۂ رسول ﷺ کا رشتۂ ازدواج
حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا:
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي۔
(صحیح البخاری، حدیث: 3767)
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
جس بیٹی کو یہ مقام حاصل ہو، اس کے نکاح کا معاملہ کیسے عام ہو سکتا ہے؟ اسی لئے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنِّي اُنتَظِرُ فِي فَاطِمَةَ اَمرَ رَبِّي
میں فاطمہ کے نکاح کے بارے میں اپنے رب کے حکم کا انتظار کر رہا ہوں۔
(الطبقات الكبرى، ابن سعد، جلد 8)
باب سوم: حضرت علیؑ کی خاموشی اور صحابۂ کرام کا احساس
جب کئی جلیل القدر صحابہؓ نے نکاح کا پیغام دیا اور انکار ہوا، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے آپس میں بات کی:
بہت سے اشرافِ قریش نے نکاح کا پیغام دیا مگر علی خاموش ہیں، شاید تنگ دستی ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
چنانچہ وہ دونوں حضرت علیؑ کے پاس گئے، جو اس وقت ایک باغ میں مزدوری کر رہے تھے۔ ان کے کہنے پر حضرت علیؑ نے عرض کیا:
حیا آتی ہے، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
لیکن اصرار پر وہ راضی ہو گئے اور بارگاہِ نبوی میں پہنچے۔
باب چہارم: نکاحِ فاطمہؑ کا سادہ اور روحانی منظر
آقا کریم ﷺ نے سیدنا علیؑ سے دریافت فرمایا:
یا علی! تمہارے پاس مہر کے لیے کیا ہے؟
عرض کیا:
“ایک تلوار ہے، ایک زرہ ہے، اور ایک اونٹ ہے۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
تلوار جہاد کے لیے ضروری ہے، اونٹ تمہارے کام آتا ہے، زرہ بیچ دو۔
(دلائل النبوۃ، امام بیہقی)
حضرت علیؑ نے زرہ کو 480 درہم میں بیچا۔ خریدار کون؟
حضرت عثمان غنیؓ، جنہوں نے زرہ خرید کر حضرت علیؑ کو رقم بھی دی اور زرہ بھی واپس کر دی۔
یہ ہے اخوتِ صحابہ کا اعلیٰ نمونہ۔
باب پنجم: جہیز اور نکاح کی سادگی
بی بی فاطمہؑ کے جہیز میں کیا تھا؟ ملاحظہ ہو:
ایک چادر، ایک چمڑے کا گدا جس میں کھجور کے پتّے بھرے تھے، ایک مشکیزہ، دو مٹی کے پیالے، ایک ہاتھ کی چکی۔ (مسند احمد، 6/414)
کوئی سونے کے زیور نہیں، نہ بیش قیمت لباس، نہ شوکت و طمطراق۔ یہ سادگی، یہی روحانیت ہے جس نے اس نکاح کو جنت کے نکاح میں بدل دیا۔
باب ششم: اللہ اور رسول ﷺ کی رضا
نکاح مکمل ہونے کے بعد آقا ﷺ نے خود بی بی فاطمہؑ کا ہاتھ حضرت علیؑ کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا:
بارک اللہ لکما، و بارک علیکما، و جمع بینکما فی خیر
اللہ تم دونوں کے لیے برکت فرمائے اور تمہیں بھلائی کے ساتھ جمع رکھے۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث 1905)
یہ ہے وہ برکت جس سے آج تک اہلِ بیتؑ کی نسل میں علم، شجاعت، تقویٰ اور روحانیت کا نور جاری ہے۔
باب ہفتم: آج کے معاشرے کے لیے سبق
آج کی شادیوں میں سادگی نہیں، دکھاوا ہے۔
عشقِ رسول ﷺ کا دعویٰ ہے، مگر اس عظیم الشان نکاح سے ہم نے کیا سیکھا؟
نہ جہیز کی شرط
نہ قیمتی سجاوٹ
نہ نکاح میں تاخیر
نہ مال و دولت کی نمائش
بس تقویٰ، حسنِ کردار، اور اللہ و رسول کی رضا۔
اختتامی پیغام
آج ہمیں بی بی فاطمہؑ اور مولا علیؑ کے نکاح سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اپنے بیٹوں کے لیے علیؑ جیسا حلم، تقویٰ اور غیرت پیدا کریں،
اور بیٹیوں کے لیے فاطمہؑ جیسی حیاء، طہارت اور سادگی۔
اگر ہم نے نکاح کو آسان نہ کیا،
تو گناہ کو آسان کر دیا جائے گا۔
آئیے عہد کریں:
نکاح کو سنت کے مطابق کریں، آسان کریں، بابرکت بنائیں۔
تحریر: سید مشرف عقیل حفظہ اللہ
قاضی و مفتی: ہاشمی دار الافتاء و القضاء موہنی شریف سیتامڑھی بہار انڈیا