فدینٰہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الآخرین
صٰفٰت ۱۰۷/۱۰۸
غریب وسادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا تها اسمٰعیل
محترم قارئین
ذبح اسمٰعیل سے ایثارکربلا تک
جس کڑی دھوپ میں آزمائش کے پتلے رسن بستہ رہے وہ صرف انکا اپنا مقصد نہیں تھا بلکہ نوشتئہ مشیت ایزدی میں بفحوائے
ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات
صبح اسمٰعیل سے شام کربلا تک وہ سبھی فرزندان شہادت وآزمائش جنہیں فطرت میں مذہب وملت کے احیا کا کام سونپا گیا تھا بھی نوشتہ تھے
اور وہ افراد انگلیوں پر گنے توجاسکتے ہیں مگر ان کے نصیبے کی ارجمند یوں کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا
اسلام جسکی تاریخ ایثارووفا کے مجسموں کے خون سے لکھی ہے وہیں وہیں پر حکم خداوندی پر اپنے ضعیف ہاتھوں کو بلا کپکپاہٹ اپنے جواں سال بیٹے کی حلق پر چھری پھیر نے والی ذات تنھا ہے اپنے محبوب نظرکواپنے ہاتھوں سے ذبح کرکے ایثار اورقربانی کاجونمونہ جدالانبیاء معمارکعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوة و السلام اور انکے شہزادے حضرت سیدنا اسمٰعیل ذبیح اللہ علیہ الصلوة و السلام
فلمااسلماوتلہ للجبین
کے پیکر عظیم علیہما التسلیم نے پیش کیا وہ صبح قیامت تک بلاتمثیل رہے گا اسلام اور مذہب کے نام پر بہنے والاہرقطرئہ خون ان عظیم نبیوں کے ایثار کے مصدر سے ہوگا
یوں توتاریخ میں سینکڑوں قربانیاں موجود ہیں اور صبح قیامت تک صلیب ودار کوچومنے والے پیدا ہوتے رہینگے
لیکن جس قربانی کا آغاز حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزندارجمند کی قربانی سے کیا اس قربانی کا انجام حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں
شکل میں تخریب کی تعمیر تھی کرب وبلا
خو اب ابراہیم کی تعبیر تھی کرب وبلا
استقامت اور آزمائش پرثبات قدمی کا جو نتیجہ نکلتا ہے اسے قربانی ہی کہئے قربانی جن آزمائشوں کو چاہتی ہے وہ سب کربلا میں موجود تھیں گھر سے بے گھر ہونا ، پانی کے قطرے قطرے کو ترسنا ، سورج کی قہر سامانیوں میں نوری اجسام کاجھلسنا ، پھر اپنے ہاتھوں سے سجاکر سنوارکر بھیجنا ، پھر انکی لاشیں بٹور بٹور کر نذر الٰہی کرنا ، پھر پوچھنا کہ مالک میری قربانی میں کوئ کمی تو نہیں رہی ، یہ حسین ابن علی کے دل گردے کی بات ہے
غرض آزمائش کی کوئ شئے باقی نہ رہی جوکربلا میں مجتمع نہ ہوگئ ہو
ابتدائے ذبح اسمٰعیل انتہائے ذبح حسینی ہے
جو امتحان خلیلی میں آزمائشیں نہیں تھیں سب پیاسے غریب الدیار حسین کی ذات میں سمٹ آئ تھیں حسین اس فرخندہ بخت کو کہتے ہیں جس کی شہادت نے سیرت رسول ﷺ کی تکمیل کی تو خواب ابراہیم کو شرمندئہ تعبیر کیا
قارئین عنوان بالا کے دو جزو ہیں
ذبح اسمٰعیل
ایثار کربلا
ذبح اسمٰعیل میں جذبہ ایثار کے جو تقاضے باقی رہ گئے تھے ایثار کربلا میں وہ شوق شہادت اور جذبہء وفا کوٹ کوٹ کر بھرے تھے
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوة والسلام کی تمام زندگی کی تمناؤں اور راتوں کی عبادتوں کا صلہ
رب ھب لی من الصالحین
جب شرف استجاب کو پہونچا
فبشرنٰہ بغلام حلیم
تو پیری کا سہارا عصائے ضعیفی
بشکل حضرت اسمٰعیل رب نے عطافرمایا
وکان فی ذالک الوقت ابن ثلاث عشر سنتہ
وہ جب تیرہ سال کی عمر کوپہونچا
فلمّابلغ معہ السعی
جب اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا
وہ جسکی پیشانی سے انوار نبوت کے سوتے پھوٹتے تھے تو خواب میں حکم ہوتا ہے اے میرے خلیل ! اپنے عزیز دل و جان کو اللہ کی راہ میں قربان کردو ، آنکھ کھلتی ہے نبوت کے حریم میں سونے والے نبی بارہ سال بعد اپنی اولاد سے ملنے گئے حکم ہوتا ہے جان عزیز کی قربانی پیش کرو ، یہ خواب تین دن دیکھا ، پہلی صبح کو تردد میں رہے کہ آیا خواب وخیال ہے یا حکم الٰہی سارادن فکر و تردد میں گزرگیا ، اس لئے اس کو یوم الترویہ کہتے ہیں ، بعض نے لکھا کہ پانچ سو اونٹ ذبح کئے ، دوسری شب کا خوا ب پھر پیغام قربانی لایا آنکھ کھلی سمجھ گئے کہ یہ خواب بنمزلہ وحی ہے
ان اللہ تعالیٰ جعل روءیا الانبیاء علیھم السلام حقا
پہچان لیا اسی لئے اسے یوم العرفہ کہا گیا
بعض نے لکھا کہ آپ نے پھر سو اونٹ قربان کئے تیسری رات پھر بستر نبوت پر جلوہ بار ہوئے
خواب نبوت کے جلوے بکھرے حکم ہوا اے ابراہیم سب سے عزیز چہیتی لاڈلی دل عزیز جان کا خون میرے نام پر بہاؤ صبح ہوئ تو آپ نے حضرت ہاجرہ سے فرمایا اسمٰعیل کو تیار کردو میں اپنے دوست کی دعوت پر لے جارہا ہوں ، جب تک ماں حضرت ہاجرہ نے بنایا سنوارا سجایا تب تک نگاہ حسرت فطری محبت پدری شفقت پسری قربت نے رسی اور چھری ماں کی نظر بچاکے آستین میں رکھ لی بڑهاپے کی لاٹھی ضعیفی کا سہارا پندرہ سالہ نوجوان معصوم انگلیوں سے باپ کی انگلی پکڑے چل رہا ہے
شیطان ایک دوست کی شکل میں آیا اور حضرت خلیل اللہ کو بہکانا چاہا کہ آپ اس عمر میں اور تمام زندگی کی منت و آرزو لیکے کہاں جارہے ہیں یہ محض خواب ہے ، غرض شفیق باپ کے سامنے اولاد کی محبت کے ڈھیروں افسانے لیکے آیا ، مگر پیکر فرمانبردارئ مالک و مولیٰ اور مجسمئہ للہیت کے جذبئہ ایثار کے سامنے ایک نہ چلی اور آپ نے لعنت بھج دی
تب ، اچانک ایک مہیب ہیئولہ سامنے کھڑاہوجاتا ہے اور مخاطب کرتا ہے کہ اسمٰعیل کہاں جارہے ہو فرمایا سخی دوست کی دعوت پر ، شیطان نے کہا کہ نہیں تمہاراباپ تمہیں ذبح کرنے لے جارہا ہے ، حضرت اسمٰعیل نے فرمایا کوئ باپ اپنے بیٹے کو قربان نہیں کرسکتا پھر وہ بیٹا جسکی چاہت میں پوری پوری رات اللہ کے حضور التجا گزار رہے ہوں جب وہ نعمت مل جائے تو کون ہوگا جو اسے ذبح کردے گا ، شیطان نے کہا کہ انہیں انکے اللہ نے حکم دیا ہے ، حضرت اسمٰعیل نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو اسمٰعیل کی اگر ہزار جانیں ہوں تو سب قربان ، شیطان مایوس ہوکر حضرت ہاجرہ کے پاس گیا اور کہا کہ اے ہاجرہ تمہارابیٹا اسمٰعیل کہاں ہے آپ نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ اپنے دوست کی دعوت پر گیا ہے اس لعین نے کہا کہ تمہیں خبر نہیں وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے جارہا ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا وہ باپ جسکی داڑھی اولاد کی طلب کے آنسؤں سے بھیگی رہتی ہو ، تمام زندگی کی دعاؤں کے مدعا کو اپنے ہاتھوں سے کیسے ذبح کرسکتا ہے ، شیطان نے کہا ہاجرہ تمہیں نہیں معلوم انکے معبود نے اسکی قربانی مانگی ہے ، تب حضرت ہاجرہ فرماتی ہیں کہ ایک اسمٰعیل کیا ایک ہزار اسمٰعیل ہوتے تو سب قربان کردیتی
شیطان مایوس ہوکر بھاگا اس وقت جس وادی سے حضرت ابراہیم واسمعیل گزر رہے تھے اس وادی کی طول وعرض کے برابر شیطان نے ہوکروادی کو بھر دیا تاکہ آپ اس وادی سے آگے نہ جاسکیں ، حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ ایک فرشتہ تھا اس نے عرض کیا حضور آپ اسے ماریں آپ نے سات کنکریاں اٹھاکر شیطان کو ماریں تو وہ راستے سے ہٹ گیا دوبارہ پھر آنے کی کوشش کی آپ نے پھر کنکریاں ماریں تیسری بار پھر اس نے آگے آکر راستہ روکنا چاہا آپ نے پھر اسی طرح کنکریاں مارکر راستے سے ہٹادیا (بحوالہ تذکرة الانبیاء)
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سعادت مند بیٹے کو منی کے مقام پر لائے تاکہ حکم کی تعمیل کی جائے ذبح سے پہلے آپ نے سوچا کے بیٹے سے بھی تو مشورہ کرلیا جائے ، فرمایا: یٰبنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک فانظر ماذاتریٰ. اے پیارے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تو بتا تیری کیا رائے ہے?
قال یاابت افعل ماتوءمر ستجدونی ان شاءاللہ من الصابرین. کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اللہ نے چاہا آپ مجھے صابر پائینگے!
یہ فرمانبرداریاں نبی کے بیٹوں کو ہی ملتی ہیں جذبۂ قربانی دیکھئے عرض کرتے ہیں کہ بابا جان مجھے قربان کرنے سے پہلے مجھے باندھ دینا تاکہ میری تکلیف آپ کو نافرمانی کی طرف راغب نہ کرے ، اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لینا تاکہ شفقت پدری چھری پھیرنے سے نہ روک دے ، اپنے کپڑوں کو مجھ سے بچاکر رکھ لینا تاکہ آپ کے کپڑے میرے خون سے آلودہ نہ ہوجائیں اور میری والدہ انہیں دیکھ کر پریشان نہ ہوجائیں ، چھری میں دھارکرلیں تاکہ جلدی ذبح ہوسکوں
جب میری والدہ کے پاس جانا تو انہیں سلام کہنا ، اس کے بعد باپ نے بیٹے کی پیشانی کو بوسہ دیا محبت کے آنسو چھلک پڑے لیکن ، فلمآاسلما وتلہ للجبین کے پیکر فرمانبرداری میں سراپا عمل رہے ، باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا چھری پھیر دی ، رب کائنات پکاراٹھتا ہے ونادیناہ ان یاابراہیم قد صدقت الرویاء انا کذالک نجزی المحسنین ان ھذالھوالبلوء المبین
و فدیناہ بدیناہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الآخرین. ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بے شک تونے خواب سچ کر دکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بیشک یہ واضح امتحان تھا اور ہم نے اسے ایک بڑا ذبیحہ دے کر بچالیا اور ہم نے پچھلوں میں اسکی تعریف باقی رکھی ، حضرت اسعیل علیہ السلام کی جگہ ایک موٹا تازہ سینگوں والا سفید مائل دنبہ آپ کا فدیہ بنا اور آپ کو ذبح ہونے سے بچاکر ذبح ہونے کا اجروثواب عطاکیا گیا ، کربلا خواب اہراہیم کی تکمیل یوں تھی کہ حضرت امام حسین کی پیدائش کے وقت ہی
اتانی جبرئیل علیہ السلام فاخبرنی ان امتی ستقتل ابنی
جبرئیل آئے اور مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے کو عنقریب قتل کردیگی
اور یہ خبر اس قدر شہرت پذیر ہوئ کہ کوئ شہید ہونے کے بعد مشہور ہوتا ہے میرا حسین شہید ہونے سے پہلے شہید مشہور ہوگیا
شہادت حسین وآل حسین نے مشیت کے تمام تقاضے پورے کردئیے ہر کڑی آزمائش حسین ابن علی کے نصیب میں تھی اور اس عظیم قربانی نے شاید “وترکنا علیہ فی الآخرین” کی عملی تفسیر کا مظاہرہ پیش کردیا اور “فدیناہ بذبح عظیم” بن کر قربانئ اسمٰعیل کا مقصد پورا کردیا
تاریخ کربلا ان عظیم باپ بیٹوں کے جذبات اور احسات کی تکمیل ہے جو خواب میں دیا گیا تھا ، تمام زندگی کی دعاؤں کے مدعا کی حلق پر خود چھری پھیر دینا کبھی جواب طعنہ ابتر کو کربلا کیلئے پالنا یہ عظیم المرتبت شخصیات کی ہمت کی بات ہے
ذبح اسمعیل اور ایثار کربلا کی چند جھلکیاں
حضرت اسمٰعیل کو اپنی قربانی کا علم جب ہوا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتایا کہ “یابنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک” یہ قربانی سے تھوڑی دیر پہلے کی بات تھی
جبکہ حسین کی شہادت کی خبر حسین کو کب ہوئ
عن انس قال استاذن ملک المطر ربہ ان یاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاذن لہ فدخل الحسین فجعل یقع علی منکبی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال الملک اتحبہ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم نعم قال فان امتک تقتلہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بارش برسانے والے فرشتہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کیلئے رب سے اجازت چاہی اجازت ملنے پر بارگاہ رسالت میں آئے تو اس وقت حضرت امام حسین دوش نبوت پر جھوم جھوم کر کھیل رہے تھے ، اس فرشتے نے حضور ﷺسے کہا کہ آپ حسین سے پیار کرتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں اس نے کہا کہ آپ کی امت اس کو شہید کردیگی
“عن ام سلمتہ قالت کان الحسن والحسین یلعبان فی بیتی فنزل جبرئیل فقال یا محمد ﷺان امتک تقتل ابنک ھذامن بعدک”
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حسن اور حسین میرے گھر میں کھیل رہے تھے تو جبرئیل علیہ السلام نے آکر عرض کیا آپ کے بعد آپﷺ کے بیٹے کو آپ کی امت شہید کردیگی
حضرت امام حسین کو بچپن میں معلوم ہوگیا تھا ، حضرت ابراہیم اپنے بیٹے اسمٰعیل سے مشورہ کرتے ہیں
“فانظر ماذاتریٰ”
ادھر حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ سے امام حسین علیہ السلام مشورہ نہیں لے رہے ہیں بلکہ باپ کی خدمت میں حاضر ہوکر شہادت کی اجازت علی اکبر مانگ رہے ہیں
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے عرض کیا بابا جان میری ماں کو نہ بتانا اور اپنے کپڑے مجھ سے دور رکھیں کہیں خون آلود کپڑے دیکھ کر میری ماں پریشان نہ ہوجاۓ حضرت علی اکبر ماں سے اجازت لیکر آئے ہیں اور پھوپھی زینب نے تیار کرکے بھیجا ہے
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں تاکہ پدری شفقت ہاتھ نہ روک دے
امام حسین کھلی آنکھوں سے علی اکبر کو ذبح ہوتے دیکھ رہے ہیں اور تڑپتی لاش کو اٹھاتے ہیں تو بقول ابن عساکر آپ کے سارے بال کالے تھے ایک دم سفید ہوجاتے ہیں
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ جلدی ذبح کریں تاکہ مجھے تکلیف نہ ہو حضرت علی اکبر زخموں سے چور چور ہیں پھر بھی جنبش نہیں
حضرت اسمٰعیل عرض کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ پیر باندھ دیں ، علی اکبر شمشیر بکف میدان کارزار میں اترتے ہیں
اب مینڈھا نہیں آئیگا بلکہ تکمیل قربانئ اسمٰعیل کیلئے عون ومحمد کے سرکاٹے جائینگے ، قاسم کی جوانی پامال کی جائیگی ، علی اکبر کی جوانی لوٹی جائیگی ، علی اصغر کا پیاسہ حلقوم ذبح کیا جائیگا ، حسین بہتر زخموں سے چور کرکے گھوڑے کی زین سے فرش زمین پر پھینکے جائینگے ، پیاسے سینہ پر چڑھ کر سر کو تن سے جداکیاجائیگا ، تب تکمیل قربانئ اسمٰعیل ہوگی
شکل میں تخریب کی تعمیر تھی کرب و بلا
خواب ابراہیم کی تعبیر تھی کرب و بلا
غریب وسادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اسکی حسین ابتدا ہے اسمعیل
از قلم سیدازبر علی مداری خادم آستانہ عالیہ قطب المدار رضی اللہ عنہ مکن پور شریف