استقامت اور کربلا
ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات (سورۃ البقرہ155)
بیڑیاں ہیں اور پاؤں ہے
نینوا کا ایک گاؤں ہے
مقصد حسین کو سمجھ
کربلا تو دھوپ چھاؤں ہے
معزز قارئین!
استقامت ،، اور کربلا،،
یہ دونوں جداجدا لفظ ہیں جنکا باہم ملاپ قیامت صغریٰ سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے
جب اس کی تصویر پردہء ذہن پر آتی ہے تو خانہء دل کے پرسکون ماحول میں اذیتوں کے تصورات کی کربلا بپا ہونے لگتی ہے
اور ایک مسلم الثبوت انسان کے وجود میں لرزہ پیداہوجاتا ہے کربلا کے ساتھ
،،استقامت،، تو ہمالیہ کی بھی قوت تحمل پر شگاف ڈال سکتی ہے
مضبوط پہاڑوں کے وجود پھٹ سکتے ہیں , آسمان ٹوٹ سکتا ہے زمین دھنس سکتی ہے ہوا سے اڑ جانے والے عام انسان کے بس کی کیا بات ہوگی مگر چراغ محمدی کی اس لو کو سلام جو طوفانوں کی زد پہ بهی جلتی رہی اور یہی لواستقامت ہے اور دنیا سمجھ گئ
شبیر کو آتے ہیں انداز جہاں بانی
کربلا کیا ہے ؟
،،کرب ،، اور ،، بلاء،، کی آمیزش کے بعد جو مجمع المصائب لفظ بنا اسے کربلا کہتے ہیں
وہ کربلاجو بے آب وگیا ہ ریگستان اور تپتا ہوا صحرا تها، جہاں سر چھپانے کیلئے کوئ درخت نہ تھا،
وہ کربلا جس کی ہواؤں میں درد وکرب ، رنج و محن اور آلام و مصائب کی زہریلی بو پهیلی ہوئ تھی
وہ کربلا جس کی چھاتی پر قیامت صغریٰ بپاہونا تھی , اس کربلا کے وجود کی تاریخ عین واقعہ کربلا کے وقت کی نہیں ہے نہ کاروان حسینی کے پڑاؤ کے وقت وہ خون آشام خطہ رونما ہوا بلکہ سینکڑوں سال پہلے ہی سے کسی گرجا گھر کی دیوار پرمظلومی کی داستان اس طرح تحریر تھی
اترجوا امتہ قتلت حسینا
شفاعت جدہ یوم الحساب
اس داستان ستم و قصئہ آلام کی بات یہیں تک نہیں ختم ہوگئ تھی بلکہ ولادت حسین پاک علیہ السلام کے بعد ہی اس زمین کی مٹی جبرئیل امین نے مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھادی تھی ”اتاہ بتربۃ“
اور زبان رسالت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلے ہوئے کلمات
”ان ابنی ھذا یقتل لھاء کربلاء“
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ریح کرب وبلاء
یہ الفاظ کربلا کے خونی مناظر کی عکاسی کررہے تھے یہ عالمگیر سانحہء عظیم ازل ہی سے متعین تھا
جیساکہ ”ھٰھنا مناخ رکابھم وموضع رحالھم ومھراق دمائھم فئۃ من آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقتلون بھٰذہ العرصۃ“ مولائے کائنات علیہ السلام جب قبرگاہ امام حسین پر پہونچے تو فرمایا یہ شہیدوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے اور اس جگہ کجاوے رکھے جائینگے اور یہ خون بہنے کا مقام ہے اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے لوگ یہاں قتل کردئیے جائینگے
امام پاک عالی مقام علیہ السلام پر آپکے انصارواعوان پر آپکے گھر خاندان پر جس شدت کے ساتھ مصائب کے پہاڑ توڑے گئے اس کا صدیوں سال پہلے سے اعلان عام تھا جبرواستبداد کی داستان الم ، سفاکی و بے دردی کے واقعات، وحشت وبربریت کی پرسوز روداد سن لینے کے بعد حتٰی کہ نقشئہ قتل گاہ بھی دیکھ لینے کے بعد ہے کوئ مائ کا لال جو موت کے منہ میں کود جائے ؟ نہیں نہیں لیکن ہاں ہاں اسی دھرتی پر دامن ارضی پر، کچھ ایسے استقلال کے وجود ، استقامت کے مجسمے ،صبرورضا کی پیکر ذاتیں رونما ہوئ ہیں خورشید فلک کی تمازت خیز شعائیں جنکے خیموں پر آتش فشانی کرتی رہیں تپش وحرارت سے ریت کےسرخ ذرات جنکے چھالوں کا مقدر بنے ، تین شبانہ روز کی بھوک و پیاس کی اذیت سے جو تڑپتی رہی ہوں، خنجروں کی نوکیں جنکی پشتوں کو پھاڑتی رہی ہوں ، ساون کی گھٹاؤں میں بجلیوں کی طرح تڑپتی تلواریں جن اجسام پر بپھر کے برستی رہی ہوں ، برچھیوں نے جن کے سینے چھلنی کردئیے ہوں، جنکے حلقوم نیزوں سے چھیدے گئے ہوں ، گرم لو میں، شدت کی گرمی میں جو پیاسے اجسام گھوڑوں سے پامال کئے گئے ہوں
جنہیں پانی کے ایک ایک قطرے سے ترسایا گیا ہو ،
گودیاں اجاڑی گئی ہوں، سہاگ چھینے گئے ہوں،
بچے یتیم کئے گئے ہوں ،
خانہ ویران کئے گئے ہوں،
خیمے جلائے گئے ہوں ،
بعد شہادت امام
اسباب لوٹے گئے ہوں
طمانچے مارے گئے ہوں،
در چھینے گئے ہوں،
عفت مآب حرم کی شہزادیاں بے پردہ کی گئی ہوں،
بیمار کے پاؤں میں بیڑیاں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں گردن میں خاردار بھاری طوق ڈال کر گھسیٹا گیا ہو،
لٹے قافلے کو پابند سلاسل کیا گیا ہو،
غرض وہ کونسی مصیبت تھی جوسیدہ کے لالوں پہ نہ توڑی گئ
وہ کونسا ستم تھا جو حسین ابن علی پہ نہ ڈھایاگیا خود وجود ستم , ستم کو دیکھ کہ تھرا گیا مگر امام حسین کے پائے استقلال میں لغزش تک نہ آئ جبین پاک پر شکن نہ دیکهی گئی تسلیم و رضا کے ان پیکروں کے ماتھوں پر پسینہ تک نہ آیا
بس اسی کو استقامت کہتے ہیں
چین کیا چیز ہے آرام کسے کہتے ہیں
اس پر شکوہ نہیں کچھ صبر اسے کہتے ہیں
جو تن تنہا کربلاوالوں کا خاصہ ہے ان مظالم کے بس کی بات نہ تھی قدم اکھاڑ پانے
بانئ شریعت کے بعد انکے گلستان مذہب کے اشجارونوپید گل بوٹوں اور نازک پودوں کو محض زمین بطحیٰ کی نمی اور مدینے کےخوشگوار موسم کے سہارے پر سایہ دار وپھلدار شجر بننے کی امید نہیں تھی
بلکہ امام جانتے تھے کہ میرے نانا کا باغ میرے خون سے سیراب ہوگا اسی وجہ سے مدینہ چھوڑکر آئے تھے مدینہ میں اچھا نہ تھا خوں بہانہ اپنے اور اپنے کنبے کے ایک ایک خون کے قطرےکو ان پیڑوپودوں کی جڑوں میں ڈال کر سرسبز رکھنے کا وعدہ نبھانے آئے تھے
بچپن کا جو وعدہ تھا وہ وعدہ نبھاتے ہیں
سردے کے حسین اپنا گھربار لٹاتے ہیں
اللہ اللہ
مولیٰ حسین کی استقامت واستقلال کا یہ عالم کہ اے خدا یہ ایک علی اکبر و اصغر کیا اس جیسے سینکڑوں اکبر واصغر ہوتے سب تیری راہ میں قربان کردیتا
حسین تیری ثبات قدمی کو سلام
حسین تیری استقامت کو سلام.
حسین تیرے جذبہ کو سلام حسین تیرے استقلال کو سلام
حسین تیری ہمت کو سلام
حسین تیری طاقت کو سلام
امام حسین کا صبر و تحمل پہاڑ سے زیادہ مضبوط
58 سالہ بوڑھے باپ کے ھاتھوں پر 18 سالہ جوان بیٹے کا لاشہ دیکھ کر پہاڑ لرز اٹھے زمین تھراگئ آسمان کا کلیجہ پھٹ گیا مگر حسین کے پائے ثبات میں لغزش تک نہ آئ جسے دیکھ کر
دنیاکہہ اٹھی
یہ عمر اور یہ لاشہ جوان بیٹے کا
ادیب ہمت شبیر کو سلام کرو
ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرٰت
سے سوا کا نام کربلا ہے
اور
اذااصابتھم مصیبۃ قالوا اناللہ واناالیہ راجعون
کی تفسیر کا نام استقامت ہے
حضرت امام حسین ہیں سورج کی تمازت ہے ، ریت کی حرارت ہے ، پیاس سے مرجھائے بچوں کے چہرے سامنے ہیِں مقابل میں یزید تها جس کا ناپاک عمل اسلام کا قلادہ گردن سے اتارکے حکومت کے زعم میں قوانین اسلام کے تقدس کو پامال کرنا تها
ایسے بد بخت کے منصوبوں کو خاک میں ملانا حسین کا مقصد تها
ایک طرف گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندے ہوئے جوانان جنت کے شہزادوں کے قالب ہیں
دوسری طرف اسلامی قوانین واقدار کو پامال کرنے کی سازشوں کو تہ خاک کرنا تھا
ایک طرف حضرت عباس جیسی طاقت کے بچھڑنے کا احساس تھا دوسری طرف حدود الٰہیہ کے نشانات ختم کرنے پر ثبت ہوچکی مہروں کو صاف کرنے کی تمنا تھی
ایک طرف حریم ناز کی شہزادیوں کی بے پردگی کی فکر تھی
دوسری طرف صحیفئہ حکمت کتاب نور کی سربازار بے ادبی کرنےکے لئے نکالے گئے طریقوں کو پامال کرنا تھا
ایک طرف عون و محمد کے سر بکھر رہے تھے
دوسری طرف احادیث کےبکھرکرگردش کرتے سماں پر کمند بچھانا تھا
ایک طرف حسین گھوڑے سے گر رہے تھے
دوسری طرف قرآن کے رحل سے گرائے جانے کی پرشباب تیاریوں پرحسرت ویاس کا پانی پھیرنا تھا
ایک طرف بوسہ گاہ مصطفٰی کو تن سے جداکرنے کیلئے بہتر زخموں سے چور امام کی مقدس چھاتی پر شمر سوار ہے
دوسری طرف آئین محمدی کے نہ مٹنے دینے کے عزائم تھے
ایک طرف سیدہ کا گھر ویران ہورہا تھا
دوسری طرف حرم و مساجد کے ویران نہ ہونے دینے کا جذبہ سرشت میں کروٹیں لے رہاتھا
اسی جذبہ کے تحت امام پاک نے مظالم کی فکر نہ کرتے ہوئے مصائب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کربلاکو دھوپ چھاؤں کہتے ہوئے ایثارو وفا کا جو ثبوت پیش کیا ہے اس کی مثال صبح قیامت تک نہیں مل سکتی ہے
مظالم کے کوہہائے گراں جسکی پشت پر چور چور ہو رہے ہوں اس کسمپرسی کے ساتھ کہ
اب نہ حامی نہ ہمدم کوئ ریت پر
آج تنھا ہے ابن علی ریت پر
نہ ساتھی ہے ، نہ ناصر ہے نہ حامی ہے ،نہ یاور ہے،
نانا جان بھی شہادت کو صرف ملاحظہ فرما رہے ہیں
بابا جان بھی صرف ستم پر ستم دیکھ رہے
امی جان بھی شہزادیوں کے سہاگ چھنتے بیٹیوں کی گودیاں اجڑتے بچوں کو یتیم ہوتے صرف دیکھ ہی رہی ہیں
بھائ جان بھی بازؤں کی طاقت پر گھوڑے دوڑتے صرف دیکھ ہی رہے ہیں
کربلا کے ریگزار پر حسین اکیلا تڑپ رہا ہے
نہ ماں کی شفقت سر حسین کواپنی گود میں لئے ہے
نہ باپ کاپیار نہ بھائ کی محبت نہ نانا کی الفت ناصر ہے
اختیارات عامہ کے باوجود اپنے حسین کی امداد کیلئے
نہ نانا جان ایک عظیم سالار کی حیثیت سے کمانڈری فرمارہے ہیں نہ بابا جان ذوالفقار حیدری کے تیور اور جوہر دکھارہے ہیں
نہ امی جان امام پاک کی اذیتوں کو دور کرنے کیلئے مصلی پر محو دعا ہیں
نہ بھائ جان حمایت میں سربکف ہیں
کیوں کہ
کوئ فکردل ناشاد نہیں کی جاتی
اپنی محنت کبھی برباد نہیں کی جاتی
کربلا میں تھے نبی و علی سب لیکن
امتحان گاہ میں امداد نہیں کی جاتی
استقامت کیلئے نانا جان نے گیسو تھمادئیے تھے ,,کربلا،، برداشت کرنے کیلئے سیدہ نے فاقوں میں پرورش کیا تھا کربلا میں ،،کربلا،، کے ساتھ جس استقامت واستقلال کو دیکھنے کیلئے نبی وعلی فاطمہ و حسن آئے ہوں آج حسین کے پاؤں کو کیسے جنبش آجائے
امام.حسین ایک آہنی دیوار بنکر کھڑے رہے
عون و محمد کے سروں کو بٹورتے رہے
مگر نالہ وفریاد نہ کیا
قاسم کی جوانی پر گھوڑے دوڑتے دیکھتے رہے کوئ ملال نہ ہوا،
علی اکبر کا جوان لاشہ خاک وخون میں تڑپتا دیکھا، ننھے علی اصغر کو ذبح ہوتے دیکھا ، عباس کے بازؤں کو کٹتے دیکھا، مگر کوئ حرف شکوہ نہ لائے کیونکہ پیکراستقامت کیلئے یہ غیرت کی بات تھی
اور حسین اس زمین کا نام ہے جس پر قصر دین محمدی کے بڑے بڑے مینارے قائم ہیں
اگر حسین کو جبنش آجاتی تو دین محمدی میں زلزلہ آجاتا اور احیاء دین ، ارتقاء دین ، فروغ دین ، کے محلات طوفانوں کی زد میں ہوتے اسی لئے امام کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہوئ
مدار دین کی استقامت پر قصورومحلات دین کی بنیادین زندہ رہیں
اور اس مظلوم.کربلا کی ثبات قدمی نے یہی پیغام دیاہے
بیڑیاں ہیں اور پاؤں ہے
نینوا کا ایک گاؤں ہے
مقصد حسین کو سمجھ
کربلاتو دھوپ چھاؤں ہے
مجبوری میں مصائب کےطوفانوں سے آنکھ ملانے والوں سے تقریباً تاریخ مکمل ہے
مجبوراً خورشید ظلم کی شعلہ ریز شعاؤں سے آنکھیں ملانے والوں کی داستانیں رقم ہیں
مجبوراً استبداد کے سیلابوں پر وار کرنے والوں کے قصہ زبان زد خاص و عام ہیں
لیکن تاریخ اس نظیر وتمثیل کے دریچے کھولنے کیلئے پست ہمت ہے
کہ جہاں بخوشی دارورسن کے پھندوں کو چوماگیا ہو
نوک سناں کااسقبال کیاگیا ہو گرم ریت اور نوکیلے پتھروں کو مخمل ودیبا کا وہ بستر سمجھاگیا ہو جس پر فرح وطرب کو حیرت ہو ان تمام حیرت شکن افراد کی مثال پیش کرنا ناممکن ہے
شام کربلا میں ڈوبتاہوا وہ سورج اپنی پہچان کی ہمیشہ روشنی بکھیرتا رہے گا جس کی کلفتوں کی شب دیجورسے راحت وآسائش کی صبحیں حسن و جمال کی خیرات مانگیں
امام حسین بخوشی زمین کربل پر تاریخ رقم کرنے آئے
روکنے والوں نے بقدر ہمت و جسارت روکنے کیلئے عرض کیا چاہے وہ دیار رسول کے صحابہ کی جماعت ہو یا مولد رسول کے صحابہ وتابعین کی پاک جماعتیں ہوں سب دست بستہ عرض گزار ہیں حضور آپ کوفہ تشریف نہ لے جائیں
اور آنے والے دردوکرب میں ڈوبے ایام سے واقفیت کرارہے ہیں امام پاک تسلیاں دیتے رہے
حضرت عبداللہ ابن زبیر حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھم نے بھی روکا راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئ اس نے عرض کیا حضور آپ کوفیوں پر اعتماد نہ کریں اور واپس چلے جائیں
عرب کا مشہور شاعر فرزوق حج کیلئے آرہاتھا اہلبیت کے قافلے کو دیکھ کر رک گیا شہزادہء رسول آپ کوفیوں پر بھروسہ مت کریں
حضرت عبداللہ بن جعفر خود راستہ میں آگئے اور عرض کیا حضور آپ مکہ واپس چلیں امام نے فرمایا کہ مجھے نانا جان نے خواب میں جو حکم دیا ہے اسے بہر صورت پورا کرونگا خواہ نتیجہ کچھ بھی نکلے مایوس ہو کر حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں عون و محمد کو ساتھ کردیا بات یہیں پر ختم نہیں ہوگئ بلکہ راستہ میں حضرت امام مسلم اور انکے شہزادوں رضوان اللہ علیھم کی شہادت کی غمگین خبر نے بھی آپکے قدموں کو پیچھے نہ ہٹنے دیا
خود یزید بھی نہیں چاہتا تھا کہ امام کوفہ میں آئیں اس لئے اس کے حاکم مکہ سعید بن عمرو بن العاص نے ہر طرف ناکہ بندی کردی اور اپنے بھائ کی کمان میں چند دستے سپاہیوں کے بھیج کر راستہ روکنا چاہا جب امام اپنے نیک ارادے سے واپس نہ ہوئے تو اس نے تلواریں نکال لیں شہسواران حسین کی تلواروں سے شکست کھاکر بھاگ گئے
دوسری طرف ابن زیاد نے بھی تمام شاہراہوں کی ناکہ بندی کردی اس نے کوفہ سے قادسیہ اور قادسیہ سے خفان اور خفان سے قطقطا نہ اور کوہ لعلع تک گھوڑسوار دستہ متعین کررکھے تھے
امام حسین کو جو نقشہ نانا نے خوابوں میں دکھایا تھا آپ اسی رستے سے چلتے رہے یہاں تک کہ
مقام عذ یب الہجانات پر پہونچ جاتے ہیں
وہاں کوفہ سے آنے والے چار اشخاص نے اہل کوفہ کی شرارتوں سے آگاہ کیا اسی کے ساتھ ساتھ حضرت قیس بن مسہر قاصد حسین کی شہادت کے بارے میں بھی عرض کیا کہ انہیں کوفیوں نے چھت سے گراگر شہید کردیا آپ واپس ہمارے ساتھ چلیں ہم کوہ آجا ء کے دامن میں رہتے ہیں اور وہاں ہم دشمن کے ہر قسم کے حملے سے محفوظ ہیں آپ وہاں جاکر ایک خطبہ ارشاد فرمائینگے تو قبیلہ طے کے بیس ہزار آدمی آپ پر فدا ہوجائینگے مگر امام انکا شکریہ اداکر کے یوں گویا ہوئے
میں راضی برضائے الٰہی ہوں جو اللہ کریگا وہ ہوگا
غرض مشیت الٰہی ہی تھی جو یہ تمام واقعات و حادثات ومعروضات امام کے پاؤں میں لغزش نہ پیداکرپائے اور آپکے مجسمئہ استقامت پر نقاہت نہ لاسکے اور یار کی خاطر نہ دن دیکھا نہ رات ، نہ گھر دیکھا نہ صحرا، راحت دیکھی نہ تکلیف بلکہ
صلیب ودار سہی دشت وکہسار سہی
جہاں بھی تم نے پکارا ہے جاں نثار چلے
سنی جو بانگ جرس توبقتل گاہ جفا
کفن بدوش اسیران زلف یار چلے
امام الشہداء حضرت سیدنا امام پاک عالیمقام حسین واہلبیت علیہم السلام نیز آپکے انصارواعوان رفقاء وجانثاران رحمھم اللہ المنان پر ڈھائے گئے مظالم پھر اس پر اسقامت کی رہتی دنیاء تک قسمیں کھائ جاتی رہینگی کیونکہ کربلاءاور استقامت یہ نظیر صبح قیامت تک نہیں پیش کی جاسکتی ہے
پیاس ایسی تھی کہ آآگئ جاں ہونٹوں پر
صبر ایسا تھا کہ پھیری نہ زباں ہونٹوں پر
راقم
سیدازبر علی جعفری المداری
خادم آستانہء قطب المدار
دارالنور مکن پور شریف