جانے والے مدینہ جانے والے مدینہ میرے آقا سے میرا سلام کہنا
میرا مشکل ہے جینا میں بھی دیکھوں مدینہ میرے آقا سے میرا پیام کہنا
نہ ہے دولت خزانہ میں تمہارا دیوانہ مجھ کو طیبہ بلانا آقا زینب کے نانا
در پہ آنا ہے مشکل سخت بے چین ہے دل ہے تڑپتا تمہارا غلام کہنا
جب مدینے پہنچنا ان کے روضے پہ جانا آنکھ کو اشک کے موتیوں سے سجانا
لب کو خاموش رکھنا سر کو بھی مت اٹھانا بھیگی پلکوں سے ان کو سلام کہنا
انشاء اللہ بنے گا رب نے چاہا بنے گا بی بی زہرا تمہارا ایک دن روضہ بنے گا
جب بقیع مبارک میں پہنچنا تو جا کر قبر زہرا پہ بس یہ پیام کہنا
تم یتیموں کے والی کاندھے پر کملی کالی تم غریبوں کے داتا ہر ادا ہے نرالی
میری مشکل بھی حل ہو نعمت بے بدل ہو سارے نبیوں کے تم ہو امام کہن
تم سے روشن جہاں ہے دین تم سے جواں ہے یہ خدا کا بیاں ہے کوئی تم سا کہاں ہے
تم ہو سب سے نرالے بال ہیں گھونگر والے تم سے ہی ہے میری صبح و شام کہنا
کیسے پہنچوں مدینہ کس طرح جاؤں طیبہ کچھ نہیں ساز و ساماں اور نہ جاتا ہے رَستہ
ہر گھڑی آہ و زاری اک اک لمحہ ہے بھاری ہجر میں ہے تڑپتا غلام کہنا
دید خضرا کی خواہش ہے دل مزہمل میں اپنے جلوے بسا دو یانبی اس کے دل میں
جو ہے رٹتا اے آقا ہر گھڑی نام تیرا ہے شجر اس دیوانے کا نام کہنا