ہر سو ہے گھنگھور اندھیرا ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
کرب و بلا میں والی سکینہ ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
ظالم نے مارے ہیں طمانچے کانوں سے دُر چھینے ہیں
کس کو سنائے دکھڑا اپنا ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
کرب و بلا میں جلتے خیمے دیکھ کے سہمی سہمی ہے
کوئی نہیں غم خوار ہے اس کا ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
سر رکھ کے سویا کرتی تھی چین سے جس پر راتوں میں
کس طرح پائے وہ سینہ ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
روٹھ گئی ہیں خوشیاں مجھ سے رو کے سکینہ کہتی تھی
ہر جانب ہے غم کا بسیرا ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
جس چہرے کے نور سے ہر اک تاریکی مٹ جاتی تھی
اب ہے کہاں وہ نوری چہرہ ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
پاؤں میں بیڑی طوق گلے میں ہاتھ بندھے ہیں رسی سے
کیسے چلے دشوار ہے چلنا ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
جس جانب بھی جاتی نظر ہے دشمن ہی آتے ہیں نظر
کوئی نہیں ہمدرد ہے اس کا ڈھونڈ رہی ہے بابا کو
بھوکی پیاسی ہے یہ سکینہ سر پہ غموں کے بادل ہیں
شاد یہ زینب کا تھا نوحہ ڈھونڈ رہی ہے بابا کو