کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ہمارے یہاں مسجد میں بعض نمازی آدھی آستین والی قمیض یا ٹی شرٹ پہن کر نماز ادا کرتے ہیں ۔
معلوم کرنا یہ ہے کہ اس حالت میں نماز ادا کرنا بلا کراہت درست ہے یا نہیں ؟
شریعت کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت فرمائیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا اجر و ثواب پائیں ۔
سائل
محمد حسان جعفری
محمد پور بہیڑی ضلع بریلی
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
سب سے پہلے تو آپ یہ دیکھیں کہ اللّٰہ رب العالمین جَلَّ شانہ کا فرمان عالیشان ہے ۔
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ( القرآن الکریم / سورۃ الاعراف / آیت 31 / پارہ 8 )
ترجمہ :- اے آدم کی اولاد ! جب مسجد میں جاؤ زینت اختیار کرو اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا ۔
اس آیتِ کریمہ میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہر نماز کے وقت جب تم مسجد جاؤ تو زینت اختیار کر لیا کرو جہاں تک ہو سکے اچھے لباس میں نماز ادا کرو اور مسجد میں اچھی حالت میں آؤ ۔
یعنی نماز ادا کرنے کے وقت صرف ستر چھپانے کیلئے کفایت کرنے والا لباس ہی نہ پہنا کرو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ لباس زیب تن کرو جو زینت والا بھی ہو یعنی عمدہ لباس میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضری دو ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ خوشبو لگانا بھی زینت میں داخل ہے یعنی نماز کیلئے ان چیزوں کا بھی اہتمام رکھو ۔ سُنت یہ ہے کہ آدمی بہترین حالت میں نماز کے لئے حاضر ہو کیونکہ نماز میں رب العالمین جَلَّ شانہ سے مناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرنا اور عطر لگانا مستحب ہے ۔
امامِ اعظم کا طریقہ
امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نمازِ تہجد کے لئے بیش قیمت قمیص ، پاجامہ ، عمامہ اور چادر پہنتے تھے جس کی قیمت ڈیڑھ ہزار درہم تھی ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہر رات تہجد ایسے لباس میں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ “جب ہم لوگوں سے اچھے لباس میں ملتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ لباس میں ملاقات کیوں نہ کریں” ۔ ( تفسیر روح البیان ، سورۃ الاعراف ، تحت الآیۃ 31 )
آپ کے یہاں مسجد میں جو بعض نمازی آدھی آستین والی قمیض یا ٹی شرٹ پہن کر نماز ادا کرتے ہیں ، وہ یا تو مسلسل آدھی آستین والی قمیص یا ٹی شرٹ پہن کر نماز ادا کرتے ہوں گے یا پھر کبھی کبھار ۔
اگر مسلسل آدھی آستین والی قمیص یا ٹی شرٹ بن کر نماز ادا کرتے ہیں تو پھر اس میں تین خرابیاں لازم آئیں گی ۔
اول خلافِ سنت ہے ۔
کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ
عن اسماء بنت يزيد بن السكن الانصارية، قالت ” كان كم يد رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليہ وسلم إلى الرسغ “
(سنن ترمذی / کتاب اللباس / باب ما جاء فی القمیص)
اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بازو کی آستین کلائی (پہنچوں) تک ہوتی تھی ۔
دوم مکروہِ تنزیہی ہے ۔
وَلَوْ صَلَّى رَافِعًا كُمَّيْهِ إلَى الْمِرْفَقَيْنِ كُرِهَ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ : جلد اول / صفحہ 106 )
وَالظَّاھِرُ اَنَّ الْکَرَاھَۃَ تَنْزِیْھِیَّۃٌ یعنی ظاہر یہی ہے کہ ان کپڑوں میں نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے ۔ (رد المحتار / جلد 2 / صفحہ 491 )
سوم خلافِ ادب ہے ۔
کیونکہ نمازی اس رب العالمین جَلَّ شانہ کے دربارِ نور بار میں حاضر ہے جو بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے حالانکہ انسان جب دنیاوی حکمران کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو عمدہ و نفیس لباس زیب تن کرکے ۔
اور رب العالمین کے دربار میں حاضر ہو تو ناقص لباس میں کیا عجب ہے ۔
تو انسان کو چاہیے کہ نماز ادا کرنے کے لئے اچھا وعمدہ لباس پہنےکہ رب العالمین جَلَّ شانہ کا دربار اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ انسان اس کی بارگاہ میں حاضری کے لئے زینت اختیار کرے ۔
لیکن ہاں کبھی کبھار اگر آدھی آستین والی قمیص یا ٹی شرٹ کے علاوہ دوسرا کوئی اور کپڑا نہیں ہے اور نماز کا وقت ہوگیا تو پھر معاف ہے ، نماز نہ چھوڑے اسی کو پہن کر نماز پڑھے اس لیے کہ نماز چھوڑ دینا حرام و گناہ کبیرہ ہے جس سے بچنا فرض ہے ۔
فتاویٰ امجدیہ میں ہے ۔
جس کے پاس کپڑے موجود ہوں اور صرف نیم آستین یعنی آدھی آستین یا بنیان پہن کر نماز پڑھتا ہے تو کراہت تنزیہی ہے اور کپڑے موجود نہیں تو کراہت بھی نہیں ۔ (فتاویٰ امجدیہ / جلد اول / صفحہ 193 )
یاد رکھو کہ یہ ساری بحث اس قمیض یا ٹی شرٹ کے بارے میں ہے جس میں صرف آدھی آستین ہو اور اگر پوری آستین ہے اور اس نے کہنیوں تک یا آدھی کلائی تک بھی سمیٹ لی یا فولڈ کر لی تو پھر اس حالت میں نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہے ۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ بالا مسئلہ صرف مرد کے واسطے ہے عورت کا اس پر کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ عورتوں کا سترِ عورت ، مردوں کے سترِ عورت سے بہت زیادہ ہے اسی لیے عورتوں کے مسائل بھی الگ ہیں ۔
واللّٰه و رسوله اعلم بالصواب ۔
کتبه
محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی
خادم :- دار الافتاء الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
تاریخ 29 / محرم الحرام 1447 ھجری , بروز جمعہ ، مطابق 25 / جولائی 2025 عیسوی ۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
حضرت علامہ مولانا مفتی فقیہِ اعظم فاتحِ نیپال سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
مفتی دار الافتاء آستانۂ عالیہ مداریہ دار النور مکن پور شریف ۔
Aadhi asteen men namaz ada karna kisa hai