حضرت امام حسین اور عظمت شھادت



اس مضمون کے عنوانات (آپ اس تحریر میں کیا کیا پڑھیں گے)

1- حق و باطل کا ازلی معرکہ
2- اہلِ حق کی قربانیوں کا تسلسل
3- شہادت: حیاتِ جاوداں کا دروازہ
4- قربانیوں کی طویل زنجیر
5- لفظ “شہادت” اور ذہن میں ابھرتی ایک ہی یاد
6- سوال: صرف امام حسینؑ کی شہادت ہی کیوں یاد آتی ہے؟
7- تمام شہداء کا احترام، مگر حسینؑ کی شہادت بے مثال
8- شہادتِ حسینؑ کے منفرد پہلو
9- کربلا: عظمتِ شہادت کا ابدی استعارہ

01- اذانِ بلال، نمازِ حسینؑ



ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مُصطفویؐ سے شرارِ بُولہبی

تاریخ کے صفحات خونِ شہادت سے لال نظر آتے ہیں حق و باطل، عدل و وفا اور جور و جفا , ہمیشه دست بگریباں رہتے ہیں از آدم تا این دم شہادتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے تائید حق و تردید باطل کیلئے کسی اہل حق نے کسی وقت کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں فرمایا- بلکہ نیام حق ہر مصیبت کو اپنے گلے سے لگایا۔ ہر پریشانی کو قبول فرمایا۔ ہر ظلم وستم کے مقابلے میں صف آرا ہوئے جور و جفا کے مقابلے میں سینہ سپر رہے اور اپنے عزم بلند اور باطل شکن حوصلے سے اللہ تعالٰی اور اسکے پیار کے حبیب علیہ الصلاة والسلام کے سہارے باطل کے مقابلے میں کوہ گراں کی کی طرح ڈٹ گئے باطل طاقتیں ان ایمانی پہاڑوں سے ٹکرائیں اور پاش پاش ہو کر ہمیشہ کے لئے موت کے گھاٹ اتر گئیں- اور تاریخ نے ان اللہ کے دیوانوں مصطفے پیارے کے مستانوں اور دین حق کے پروانوں کو زندہ جاوید بنا دیا بلکہ خود زبان حق اسطرح گویا ہوئی “ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله اموات بل احیاء و لكن لا تشعرونo”

زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا

خدا کے نام پر مرنا مرنا نہیں بلکہ حقیقی زندگی کا آغاز ہوتا ہے دراصل یہ ایک بندۂ مومن کی اعلیٰ کامیابی ہے تاریخ پر نظر رکھنے والوں سے قطعا یہ حقیقت در پردہ نہیں ہے نہ جانے کتنی مائیں تھیں کہ ان کی گود خالی ہو گئی۔ نہ جانے کتنی بیویاں تھیں جن کا سہاگ لٹ گیا نہ جانے کتنے باپ تھے جن کا بڑھاپا بے سہارا رہ گیا نہ جانے کتنے بچے تھے جو شفقت پدری سے محروم ہو گئے کتنے بھائی تھے? بھائی کے فیض صحبت سے الگ تھلگ ہو کر رہ گئے یہ اک تفصیلی داستان ہے یہ ایک ایسی لڑی ہے جو بے شمار کڑیاں رکھتی ہے-

مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ آج اگر لفظ شہادت کانوں کے پردے سے ٹکراتا ہے تو
نہ کسی صحابی کی شہادت یاد آتی ہے اور نہ کسی تابعی کی
نہ کسی مجتہد کی شہادت یاد آتی ہے اور نہ کسی امام کی
نہ کسی فقیہ کی شہادت یاد آتی ہے نہ کسی دلی کی اور
نہ کسی محدث و مفسر کی جبکہ یہ تمام ہی حضرات کرام اس راہ شہادت کے راہرو نظر آتے ہیں اور انھوں نے راہ حق میں جان دے کر آنے والی نسلوں کیلئے جلی نقوش قدم چھوڑے ہیں لیکن لفظ شہادت سن کر اگر کسی کی شہادت یاد آتی ہے تو وہ نواسہ رسول نورنگاہ بتول سیدنا امام عالی مقام علی کے نور عین حضرت حسین شہید کربلا رضى المولى القدیر کی شہادت ہے کسی شہید کی عظمت کو نشانہ بنانا مقصود نہیں بلکہ مجھے ایک تاثر پیش کرنا ہے کہ جب ہمارے کانوں کے دریچوں تک لفظ شہادت پہونچا فوراً شہ کربلا کی یاد تازہ ہوگئی معرکہ کربلا یاد آ گیا ماہ محرم کا تصور بندھ گیا- دل پر غم و اندوہ کے بادل گھر گئے آنکھوں نے ساون بھادوں کا روپ دھار لیا یہ ایک سوال ہے کہ آخر ایسا کیوں سوال بہت ہی اچھوتا ہے۔

ناظرین کرام میں بہت ہی صفائی کے ساتھ عرض کروں گا کہ بلا شبہ تمام ہی شہداء کرام قابل تقلید و ستائش ہیں ان کی قربانیوں کو سراہنا زندہ قوم ہونے کی روشن دلیل ہے اور تمام ہی شہداء عظام کی قربانیاں ہمارے لیے اپنے اندر درس عبرت و سبق غیرت رکھتی ہیں اور اہل حق میں جذبۂ شوق شہادت پیدا کرتی ہیں۔ تمام ہی شہداء کرام نے خدا کے لیے آلام و مصائب کا مقابلہ فرمایا اور اور خدا کے نام پر ہر ستم گوارا فرمایا اور ہر کٹھن منزل سے گزرے اور راہ حق میں جان بھی اس مسرت کے ساتھ دی۔

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ہر صحابی کی شہادت شہادت ہے ہر فقیہ کی شہادت شہادت ہے ہر ولی کی شہادت شہادت ہے۔
مگر میدان کربلا میں جس شان کی شہادت سیدنا حسین ابن علی نے پیش کی ہے اسکی نظیر نہیں ملتی بے شک جمیع شہداء کرام نے راہ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اپنا مال قربان کیا۔ ہر تکلیف قبول فرمائی مگر کسی نے اپنے جوان بیٹے کو اپنے سامنے شہید ہوتا ہوا دیکھا ہے?
اپنے بلکتے ہوئے شیر خوار شہزادے کو جام شہادت پیتے ہوئے دیکھا ہے?
راہ مولا میں بھانجے بھتیجوں کو قربان ہوتا ہوا دیکھا ہے?
لہلہاتا ہوا چمن اجڑتے ہوئے دیکھا?
اور اپنی جان کو راہ مولا میں اسطرح پیش کرنا کہ تین دن سے بھوک پیاس کا عالم ، اولاد کی جدائی کا غم خاندان کے فراق کا صدمہ خود اپنا جسم ناز زخموں سے چھلنی اور اس عالم میں بھی سر اقدس دربار مولا میں سجدہ ریزہ ہے اور اسی حالت سجدہ میں جام شہادت کا پنیا یہ طرۂ امتیاز اگر حاصل ہے تو سید ناحضرت امام عالی مقام کی شہادت عظمی کو حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جب ایک مرد مومن لفظ شہادت سنتا ہے تو اسے حسینی شہادت یاد آتی ہے کیونکہ ایسی شہادت تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے-

اذان دے گئی حضرت بلال کی ہستی
نماز پڑھ گئے دنیا میں کر بلا والے

رسالہ : استقامت کربلا نمبر کانپور
تاریخ : فروری 1977 عیسوی
معاون : بزم صدف انٹرنیشنل

مجدد مرادآبادی رضی اللہ تعالی عنہ کی اس تحریر سے ماخذ چند نکات

1- شہادت کی ابدی اہمیت
شہادت محض موت نہیں بلکہ ایک حقیقی زندگی کا آغاز ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
“وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِنْ لَا تَشْعُرُونَ” (البقرہ: 154)

2- امام حسینؑ کی شہادت کی منفرد حیثیت
کربلا کی قربانی صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک پورے خاندان اور اصحاب کی اجتماعی شہادت تھی۔
امام حسینؑ نے نہ صرف اپنی جان دی، بلکہ اپنے پیاروں—بیٹے، بھائی، بھتیجوں اور رفقاء—کو بھی راہِ حق میں قربان کیا۔ یہ شہادت صبر، استقامت، اور توحید کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

3- تاریخ میں شہادتِ حسینی کا مقام
جب بھی لفظ “شہادت” سنا جاتا ہے، ذہن فوراً کربلا کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
دیگر شہداء کی قربانیاں بھی عظیم ہیں، لیکن کربلا کی جامعیت، عظمت اور اثرات کی وجہ سے یہ واقعہ منفرد ہے۔

4- درسِ کربلا
کربلا صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ہر دور میں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام ہے۔
امام حسینؑ نے ثابت کیا کہ حق کے لیے قربانی دینے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

اقتباسِ تحریر کا ایک اور اثر انگیز حصہ

“زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا”
یہ شعر شہادت کی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جو لوگ راہِ حق میں قربان ہوتے ہیں، وہ درحقیقت امر ہو جاتے ہیں۔

نتیجہ:
امام حسینؑ کی شہادت صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جو ہر دور میں انسانوں کو حق پر ڈٹ جانے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کربلا کا ذکر دلوں کو گرما دیتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ “ہر روز عاشورا ہے، ہر زمین کربلا ہے۔”

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حق کی راہ میں استقامت عطا فرمائے اور شہداء کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!
“سلامٌ علی الحسینِ و علی علی بن الحسینِ و علی اولادِ الحسینِ و علی اصحابِ الحسینِ”

Hazrat imam Husain aur Azmate Shahadat

امام العلماء والمحققین حضور مناظر اعظم علامہ حافظ قاری مفتی سید محمد انتخاب حسین قدیری اشرفی مداری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *