غم حسین علیہ السلام اور ہم


مضمون کے عنوانات (آپ اس تحریر میں کیا کیا پڑھیں گ)

1- تاریخ میں ظلم و قربانی کے مناظر
2- حق و باطل کا دائمی تصادم
3- شہادت کا حقیقی مفہوم
4- ہماری عملی بے حسی
5- صالحین کا ردعمل
6- حضرت زین العابدین علیہ السلام کی کیفیت
7- حضرت احمد بدیع الدین رضی اللہ عنہ کا مشاہدہ

تاریخ میں ظلم و قربانی کے مناظر
اگر ہم تاریخ کی اوراق گردانی کریں تو ہم دیکھیں گے کہ انسانیت کا کوئی بھی دور ایسا نہیں ہے جس میں تاریخ کا دامن خون آلود نہ رہا ہو۔ ظلم و تشدد سے ہر دور میں مظلوموں کو کچلنے کی نازیبا حرکتیں کی گئی ہیں۔ دنیا نے بے شمار مرتبہ صبر و رضا اور ایثار و قربانی کے منظر دیکھے ہوں گے۔ کبھی کسی بھائی نے اپنی بہن کیلئے جان گنوائی ہوگی، کسی دوست نے اپنے دوست کیلئے خون بہایا ہوگا، کوئی اپنے پتی کی چتا میں جل کر راکھ ہوگئی ہوگی، کتنی بیٹیاں زمین میں زندہ دفن کر دی گئی ہوں گی۔ کسی نے سلطنت کیلئے خون کی ندیاں بہائی ہوں گی، کسی نے وطن کی خاطر اپنے کو قربان کیا ہوگا، تو کسی نے اپنی قوم کیلئے مصیبتیں جھیلی ہوں گی۔

حق و باطل کا دائمی تصادم
اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جتنی بھی تہذیبیں اور مذاہب دنیا میں آئے، انھیں اپنے وقت کے فرعون، نمرود اور شداد سے مقابلہ کرنا پڑا اور قربانیاں پیش کرنا پڑیں۔ لیکن کربلا کی سرزمین پر جو قربانی پیش آئی، دنیا اس طرح کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت حسین علیہ السلام کا یہ قول “ظلمت کی زندگی سے موت بہتر ہے” جسے کربلا کے میدان میں عملی جامہ پہنا کر پوری انسانیت کو باطل کے سامنے نہ جھکنے کا درس دیا گیا اور حق کی آواز کو بلند کیا گیا۔

شہادت کا حقیقی مفہوم
شہادت اور قربانی دوسروں کے نفع کیلئے خود کو فنا کر دینے کا نام ہے۔ حضرت حسین علیہ السلام نے یہ عظیم قربانی دے کر دین اسلام میں امانت و دیانت، حق و صداقت، عدل و انصاف، صبر و قناعت کا نیا باب جوڑ دیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم ان پاکیزہ اصولوں پر عمل پیرا ہیں؟ جس کیلئے حضرت حسین علیہ السلام نے اپنے کنبہ کو قربان کیا تھا؟ اگر نہیں، تو کیا یہ اس ذات اقدس کی توہین نہیں ہے؟

ہماری عملی بے حسی
جس نے ظلمت کی زندگی پر موت کو ترجیح دی اور پورے کنبہ کو دین کی خاطر قربان کر دیا، جسے سجدے کی حالت میں شہید کیا گیا ہو، اس کے نام لیواؤں اور جاں نثاروں کی پیشانیاں سجدوں سے محروم اور زندگیاں عمل نیک سے خالی۔ ہم صرف ڈھول تاشوں، کھیل تماشوں، تعزیہ داری میں “کیا جائز ہے، کیا ناجائز ہے”میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور ان پر ہوئے مظالم کو محسوس بھی نہیں کرتے۔ ہم کسی پر طعن نہیں کر رہے، بلکہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم ہی صحیح ہوں۔

صالحین کا ردعمل
ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ صالحین نے اس سانحہ کو کیسے محسوس کیا اور ان کا کیا ردعمل تھا؟ آئیے دیکھتے ہیں:

حضرت زین العابدین علیہ السلام کی کیفیت
ایک مرتبہ حضرت باقر علیہ السلام نے حضرت زین العابدین علیہ السلام سے دریافت کیا: “بابا جان! آپ نہ کچھ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں، نہ ہی سوتے ہیں، ہر وقت خاموش اور بے چین رہتے ہیں، آخر اس کا سبب کیا ہے؟”
حضرت زین العابدین علیہ السلام نے گہری سانس لیتے ہوئے فرمایا: “صاحبزادے! کاش آپ نے معرکہ کربلا دیکھا ہوتا۔ چند گھنٹوں میں دیکھتے ہی دیکھتے جس کا پورا کنبہ قتل کر دیا جائے اور وہ بیمار جس میں بولنے تک کی سکت باقی نہ ہو، بستر علالت پر لیٹے لیٹے اپنی حسرت بھری نگاہوں سے سارا ماجرا دیکھے۔ بھلا کیسے کہہ دیا جائے کہ تمام عمر اسے نیند آئی ہوگی، اس نے کھایا پیا ہوگا؟ ذرا سوچئے، آج ہمارے یہاں کوئی چھوٹا سا بچہ مر جاتا ہے تو ہمیں مہینوں کھانا پینا اچھا نہیں لگتا، نیند، بھوک، پیاس سب اڑ جاتی ہے۔”

حضرت احمد بدیع الدین رضی اللہ عنہ کا مشاہدہ
تاریخ کی اوراق گردانی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت احمد بدیع الدین رضی اللہ عنہ ظاہری تعلیم سے فراغت کے بعد مشہد الحسین پر تشریف لے گئے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دمشق جاتے ہوئے مظلومین کا قافلہ ٹھہرا تھا۔ اس وقت یہ مقام “ماروت مروسہ” کہلاتا تھا۔ اس مقام پر ایک پتھر پر حضرت حسین علیہ السلام کا سر مبارک رکھا گیا تھا اور اس پتھر نے حضرت حسین علیہ السلام کی گردن مبارک سے گرنے والے خون کو اپنے اندر محفوظ کر لیا تھا، تاکہ رہتی دنیا تک کوئی اس سانحہ کو بھلا نہ سکے۔

جب حضرت سید احمد بدیع الدین قطب المدار المعروف زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ مشہد الحسین پر تشریف لے گئے اور اس پتھر میں اپنے جد حضرت حسین علیہ السلام کے خون کا مشاہدہ کیا، تو آپ کی کیفیت حضرت زین العابدین علیہ السلام کی جیسی ہوگئی۔ یہاں تک کہ آپ نے تمام عمر غم حسین کو سینے سے لگائے رکھا اور دنیا بھر میں حق و باطل میں فرق کی تبلیغ کرتے رہے۔ آپ نے تمام عمر نہ کچھ کھایا، نہ پیا، نہ سوئے، یہاں تک کہ تمام عمر کا روزہ رکھ لیا۔

تحریر: ڈاکٹر سید اقتداء حسین جعفری المداری (مکن پور شریف)

ghame husain aur hum – syed iqtida husain jafari madari

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *