دعا عبادت کا مغز ہے پیام سرکار دوعالم

dua ibadat ka maghz hai

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں رونق افروز ، اور اصحاب” کا ہجوم تھا کہ ایک شخص نے دعا کی اہمیت اور فضیلت ، دریافت کی۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد در فرمایا ” دعا عبادت کا مغز ہے، اللہ جل شانہ کے نزدیک دعا سے زیادہ باعظمت اور کوئی چیز نہیں، ہر نبی کی ایک مخصوص دعا قبول کی جاتی ہے اور ہر نبی نے اپنے مخصوص دعا کے مانگنے میں جلدی کی ہے مگر میں نے اپنی دعا کو چھپا رکھا ہے قیامت کے دن اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے اور میری یہ دعا پہنچنے والی ہے اس امتی کو جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ (مسلم)

روایت ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی اثر آفریں تقریر سے شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں کے دل اس طرح ہل جاتے تھے جس طرح پھولوں کی پنکھڑیاں باد نسیم کی خاموش حرکت سے ہل جاتی ہیں ، شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی فضیلت اور اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، بے شک بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ گناہ کی دعا نہیں مانگتا اور جب تک وہ جلدی نہیں کرتا ہے، لوگوں نے دریافت کیا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے کیا مراد ہے؟ ارشاد ہوا، جلدی سے یہ مطلب ہے کہ دعا مانگنے والا یہ کہے میں نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہیں کی گئی اور اس کے بعد وہ مایوس ہو کر بیٹھ جائے اور دعا مانگنا چھوڑ دے، اس کے بعد فرمایا جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اس طرح نہ مانگے کہ اے اللہ بخش دے مجھے اگر تو چاہے اور اے اللہ مجھ پر رحم فرما اگر تو چاہے اور اے اللہ مجھے رزق دے اگر تو چاہے دعا مانکنے کا یہ طریقہ غلط ہے۔
جب تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے تو یقین کامل اور عزم کے ساتھ مانگے ، گریہ وزاری کے ساتھ مانگے ، اس لئے کہ حق سبحانہ تعالیٰ جو کچھ فرماتا ہے اس کا عطا کرنا اس کے لئے دشوار نہیں ہے، صرف وہ بندے کی آزمائش کرتا ہے اور جو اس کی آزمائش میں پورا اترتا ہے، پھر دنیا جہاں کی نعمتیں اس کی ٹھوکروں میں ہوتی ہیں۔

حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے پر فرمایا۔ بدعا نہ کرو اپنی اولاد اور مال کے لئے ، کیونکہ ممکن ہے کہ بددعا کی ساعت وہی ساعت ہو جو قبولیت دعا کے لئے ہے اور ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعا بھی قبول کر لی جائے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، دعا عبادت ہے اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی: ”وَقَالَ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ“ اور تمہارے رب نے کہا مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا ، اس کے بعد فرمایا، اللہ تعالیٰ سے فضل کو مانگو کیونکہ حق سبحانہ تعالیٰ مانگنے کو بہت پسند فرماتا ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا حق تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے پھر فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ سختی کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے اسے چاہئے کہ وہ فراخی، خوشحالی اور آسودگی کے وقت میں کثرت سے دعا مانگے ، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو اس امر کا یقین کر کے کہ وہ ضرور قبول فرمائے گا اور اس بات کو جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل قلب کی دعا کو قبول نہیں کرتا ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارا پروردگار بہت حیادار ہے، بغیر مانگے دینے والا ہے، اور حیا کرتا ہے اپنے بندے سے جبکہ وہ ہاتھ اٹھا کر التجا پیش کرتا ہے کہ خالی پھیر دے ان ہاتھوں کو، اس کے بعد فرمایا تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، یعنی ضرور قبول کی جاتی ہے۔
ایک تو روزہ دار کی دعا اس وقت جب کہ وہ روزہ افطار کرے-
دوسرے عادل کی دعا اور-
تیسرے مظلوم کی دعا۔-

اس کے بعد ذکر الہی کے سلسلہ میں سوالات کئے گئے ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بیٹھتی کوئی جماعت ذکر الہی کے لئے مگر یہ کہ گھیر لیتے ہیں اسے فرشتے اور چھا جاتی ہے اس پر رحمت حق۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کے فرشتوں کی ایک جماعت ہے جو راستے میں ان کو تلاش کرتی ہے جو ذکر الہی کرتے ہیں، اور جب کسی جگہ ذکر الہی کرنے والے لوگوں کو پالیتے ہیں تو اپنے ساتھیوں کو پکار کر کہتے ہیں ، آؤ اپنے مقصد کی طرف ، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہیں وہ فرشتے آجاتے ہیں اور اپنے پروں سے ذکر الہی کرنے والوں کو ڈھانک لیتے ہیں اور آسمان دنیا میں پھیل جاتے ہیں، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب یہ فرشتے واپس جاتے ہیں تو پروردگار عالم ان سے دریافت فرماتا ہے، حالانکہ وہ خود ان سے زیادہ اپنے بندوں کے حال سے واقف ہوتا ہے کہ میرے بندے کیا کہہ رہے تھے فرشتے کہتے ہیں، اے رب! تیری حمد وثناء تقدیس و بزرگی بیان کر رہے تھے، پھر حق سبحانہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے، کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے، فرشتے کہتے ہیں ، اے پروردگار ! انہوں نے تجھ کو نہیں دیکھا ہے ، پروردگار ارشاد فرماتا ہے اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہتے ہیں، اے رب ! اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو تیری بہت عبادت کرتے ، پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟

فرشتے کہتے ہیں وہ تجھ سے جنت مانگتے ہیں، رب کریم دریافت فرماتا ہے، کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں نہیں، ارشاد ہوتا ہے، اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تب ان کا کیا حال ہوتا ؟ پھر فرشتے کہتے ہیں اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو زیادہ تڑپ کے ساتھ جنت کی آرزو کرتے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے متعلق دریافت فرماتا ہے، کیا انہوں نے دور زخ کو دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں نہیں ، حق سبحانہ تعالی دریافت فرماتا ہے اگر وہ دوزخ کو دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہتے ہیں اگر وہ دوزخ کو دیکھ لیتے تو اس سے بہت زیادہ خوف زدہ رہتے ، حق تعالی فرماتا ہے، اے فرشتو! گواہ رہو، میں نے ان کو بخش دیا یہ سن کر ایک فرشتہ ان فرشتوں میں سے کہتا ہے، ان لوگوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو ان میں شامل نہ تھا ، راہ چلتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا، حق تعالیٰ فرماتا ہے ان کے قریب بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رکھا جا سکتا، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جولوگ کسی جگہ بیٹھ کر اٹھیں اور اس نشست میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کریں تو ان کا وہاں کھڑا ہونا مردار گدھے کی مانند ہو گا، ان پر سخت افسوس ہے۔
☆☆☆

ماخوذ : سہ ماہی رسالہ رہبر نور محرم ۱۴۴۳
تحریر : سید صلاح الدین

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *