دنیا کا سب سے عظیم ترین اور شفیق باپ

دنیا کا سب سے عظیم ترین اور شفیق باپ

ایک خاص طرح کا محدود دینی تصور رکھنے والوں کے نزدیک بزرگ اور خدا رسیدہ شخص کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ دنیا سے بالکل بے تعلق ہو۔ خدا کی یاد میں وہ ایسا محو ہو کہ اسے اپنے اہل و عیال کی مطلق کوئی پروانہ ہو۔ لیکن سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ دینداری کا یہ تصور سنت کے بالکل خلاف ہے۔ آپ کا اسوہ مبارک تو ہمیں اولاد سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ ہمیں ان کا ہمدرد اور غم خوار بناتا ہے آپ کے ارشاد کے مطابق تو مومن محبت کا محل ہوتا ہے پھر وہ اپنے متعلقین کو بالخصوص اپنی اولاد کو کیونکر بھول سکتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جس طرح ایک قائد، مصلح اور حاکم کے لئے سب سے بہتر نمونہ موجود ہے اسی طرح ایک باپ بھی آپ کی حیات طیبہ سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ یہ بعض روایات کے لحاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آٹھ بچے پیدا ہوئے۔ قاسم، طیب، طاہر، ابراہیم چار بیٹے اور فاطمہ ، زینب ، ام کلثوم اور رقیہ چار بیٹیاں تھیں۔ بیٹے تو سبھی شیر خواری ہی کے زمانہ میں داغ مفارقت دے گئے۔ بیٹیاں البتہ بڑھیں۔ جوان ہوئی، اور بیاہی گئیں ۔ حضرت ابراہیم کے علاوہ تمام بچے حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے۔

اولاد سے آپ کو والہانہ محبت تھی۔ ابراہیم پیدا ہوئے تو بے حد خوشی ہوئی۔ اور مژدہ سنانے والے کو ایک غلام عطا فرمایا۔ آپ ابراہیم کو دیکھنے کے لئے حوالی مدینہ میں ان کی دایہ کے یہاں برابر جایا کرتے۔ اور انہیں گود میں لے کر دیر تک برابر پیار کرتے رہتے۔ جب بیماری کی اطلاع ملی، فوراً تشریف لے گئے۔ نزع کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ان کے استفسار پر فرمایا یہ تو محبت و رحمت کے آنسو ہیں۔ میں نے صرف بیان کرنے اور چیخنے اور چلانے سے لوگوں کو منع کیا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جب شادی ہوئی تو پانچ سال تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ سب سے پہلے حضرت زیب رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی عتبہ بن ابو جہل اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی عتبہ بن ابولہب سے ہوئی تھی۔ بعثت کے بعد دونوں بیٹیوں کو طلاق ہوگئی۔ اور بعد کو یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کا انتقال غزوہ بدر کے بعد ہوا ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوا تھا مگر وہ بھی زندہ نہ رہا۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ جو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خالہ زاد بھائی تھے۔ حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں گرفتار ہو گئے تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان کو رہا کرانے کے لئے اپنے گلے کا ہار بطور فدیہ خدمت میں بھیجا تھا۔ انہیں اپنے شوہر سے بے حد محبت تھی۔ ہار دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا جب نکاح ہوا تھا تو یہ ہار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بطور جہیز دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تمہاری مرضی ہو تو بیٹی کو ماں کی یادگار واپس کر دی جائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو کیا عذر ہوتا۔ بیٹی کو ہار واپس فرما دیا۔ اور ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو اس وعدہ پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو فوراً مدینہ بھیج دیں گے۔ حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ مکہ آئے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ بھیج دیا۔ بعد میں حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ دولت اسلام سے فائز ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنتے کہ ابو العاص کا سلوک بیوی کے ساتھ نہایت شریفانہ ہے تو آپ کو بڑی خوشی ہوتی اور بار باران کی تعریف سب کے سامنے کرتے۔

آپ کو حضرت زینب، حضرت فاطمہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہن سب ہی سے انتہائی محبت تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب ہجرت کر کے حبشہ گئے تو ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ ان کی مفارقت کا آپ پر بے حد اثر تھا۔ جب تک خیریت معلوم نہ ہوئی پریشان و سراسیمہ رہے۔ کہیں ایک عورت حبشہ سے آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو فوراً بلوایا۔ اس نے کہا حضور دونوں خیریت سے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی بے چینی ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ تم ان دونوں کو دیکھ بھی آئی ہو۔ اس نے کہا جی ہاں! میں مل کر آئی ہوں۔ یہ سنتے ہی آپ کی زبان مبارک سے بے ساختہ نکلا۔ الحمد اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت علیہ السلام کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کو ساتھ لیکر ہجرت کی ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عقد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پانچ بچے حسن، حسین ، محسن، زینب اور کلثوم ہوئے۔ محسن کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی آخر میں تنہا رہ گئ تھیں۔ اور مدینہ میں آپ کے قریب ہی رہتی تھیں اس لیے شفقت پدری کی مرکز بنی ہوئی تھیں۔ آپ ذرا بھی زوجین کے تعلقات میں کوئی ناخوشگواری پاتے تو بعجلت پہونچ کر صفائی کراتے۔ ذراسی تکلیف سنتے بے چین ہو جاتے۔

آپ کی محبت کا یہ حال تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حاضر ہوتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے اور پیشانی پر بوسہ دیتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔ حضرت حسن، حضرت حسین اور امامہ سے بے حد محبت تھی۔ دوش مبارک پر لئے رہتے۔ پیار فرماتے اور کہتے کہ یہ میرے گلدستے ہیں۔ امامہ آپ کی نواسی تھیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے دو بچے تھے امامہ اور علی علی کا تو بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا مگر امامہ دیر تک زندہ رہیں۔

اولاد کے ساتھ حد درجہ محبت و شفقت کے باوجود آپ اپنے لئے کبھی دنیوی نمود و نمائش کے روادار نہ ہوئے۔ نہ بیویوں کو زیور پہننے دیتے نہ بیٹیوں کو۔ آپ کو اولاد سے ہزار محبت تھی مگر آپ کی محبت اندھی نہ تھی۔ محبت کا حال تو یہ تھا کہ فرمایا فاطمہ میری جگر گوشہ ہے جس سے اسے دکھ پہنچا اس سے مجھے دکھ پہنچے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا کی محبت اور عظمت کا دل پر یہ اثر تھا کہ ایک موقعہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک سوز و گداز سے معمور تھا۔ کوئی دل کشی اور خوبی یار عنائی نہیں جس سے آپ متصف نہ رہے ہوں۔ جو آپ کے پاس بیٹھتا اس کا دل معمور اور روح مسرور ہو جاتی۔ آپ حد درجہ دردمند خلیق اور محبت کرنے والے تھے کسی کی داستانِ درد سنتے تڑپ اٹھتے ، ایک صحابی نے آپ سے زمانہ جاہلیت کا اپنا ایک واقعہ تفصیل سے سنایا کہ میں اپنی چھوٹی سی بچی کو جب زمین میں دفن کرنے لگا تو حالت یہ تھی کہ میں اس پر مٹی ڈال رہا تھا اور وہ ابا ابا پکار رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں فرمایا تم یہ قصہ پھر سے سناؤ۔ دوبارہ سناؤ تو فرط تاثر سے آپ اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ یہ دردمندی تھی جس کا اظہار متعلقین کے ساتھ بھی ہمیشہ ہوتا رہا۔
☆☆☆

ماخوذ : رہبر نور مکنپور شریف

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *