حیات حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ

ghous e pak ki karamat, Ghous Pak ka vakya, Gaus pak ki takrir, Ghous Pak ka wazifa, ghous e pak ki zindagi, Ghous pak Peer history

اسلامی تاریخ کے دامن میں ہمارے برگزیدہ اسلاف کی سنہری زندگیوں کے زریں تذکرے ان کی سیرت و سوانح اور ان کے بے مثال کارنامے اور لازوال کردار کی سچی گرفت بطور امانت محفوظ ہے، اسلامی تاریخ جہاں مجاہدین، امراء وسلاطین علماء فلاسفہ اطباء و سائنس دانوں قاضیوں اور داعیان امت اور اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں ترین رجال کار اور نامور شخصیات کا تذکرہ و تعارف احترام و عظمت کے ساتھ پیش کرتی ہے وہیں روحانی تزکیہ و تربیت کے میدان میں سادہ خوار کی و سادہ پوشاکی کے باوجود ید اللہی تاثیر کے ساتھ انسانی زندگی میں حیرت انگیز و تعجب خیز انقلاب برپا کر دینے والے اولیاء اللہ کی شخصیات کا تذکرہ بھی بھر پور عقیدت و تکریم کے ساتھ کرتی ہے۔

پیغمبران عالی مقام کی بعثت کا سلسلہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر منتہی ہو چکا ہے۔ اس کے بعد انسانی معاشرے میں پیش آنے والے اصلاح طلب احوال کی دیکھ بھال صالح علمائے امت اور اولیاء عظام اور داعیان حق کی ذمہ داری ٹھہری اس ذمہ داری کو پورے انہماک کے ساتھ ہر دور کے صاحب توفیق علماء و صلی اولیاء کرام انجام دیتے رہے۔ پھر کسی کی خدمات کا دائرہ امت میں زیادہ وسیع ہوا اور کسی کی خدمات کا سلسلہ وقت کے تقاضوں کی حدود میں رہا۔

سرزمین عراق گذشتہ صدیوں کے تناظر میں اس حیثیت سے بڑی مردم خیز ثابت ہوئی ہے کہ اس کے مختلف خطوں میں بڑی عظمتوں و فضیلتوں کے مالک اولیاء کرام اور علماء عظام پیدا ہوئے جن کی علمی و عملی خدمات اس قدر وسیع ہیں کہ ان سے آج تک پوری دنیا استفادہ کر رہی ہے اور مسلسل سیرابی حاصل کر رہی ہے۔ روحانی اعتبار سے بھی اس سرزمین کو بڑا تقدس حاصل رہا ہے خاص طور پر علاقہ گیلان کو یہ شرف نمایاں طور پر حاصل ہوا ہے جہاں حضرت اقدس محبوب سبحانی امام اولیاء افضل الاتقیاء اسوة الشرفاء عمدة السالكين سراج السالكين تاج الفقراء سيدنا محی الدین عبد القادر الحسینی جیلانی نور اللہ مرقدہ پیدا ہوئے۔ علاقہ گیلان کے قصبہ ”نیف میں آپ پانچویں صدی ہجری کی آٹھویں دہائی کے آغاز میں پیدا ہوئے۔

علامہ شریف مرتضی نے اپنی تصنیف لطیف “تاج العروس” میں وضاحت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ آپ ۴۷۰ ھجری میں پیدا ہوئے اسی طرح امام ابن جوزی نے بھی منظم ” میں لکھا ہے۔

آپ کا نسب اس طرح ہے۔
“سیدنا عبدالقادر بن ابو صالح جنگی بن موسی بن عبد الله بن یحی الزاہد بن محمد بن داؤد بن موسى الجون بن عبد المحض بن حسن المثنی بن سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب”
اس ترتیب سے گیارہ واسطوں کے ساتھ آپ کا نسب حضرت علی بن ابی طالب خلیفہ راشد چهارم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل جاتا ہے۔ اور والدہ ماجدہ کی جانب سے آپ کا نسب پندرہ واسطوں کے بعد حضرت سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔

آپ نے اسلامی علوم وفنون میں سے تقریباً تمام ہی فنون متداولہ اور علوم متعارفہ کی تعلیم حاصل کی اور مہارت کی حد تک اس میں درک حاصل کیا مگر آپ کو جن علوم میں اختصاص کی حیثیت سے مہارت حاصل تھی وہ علم حدیث علم فقہ اور علم بلاغت ہے۔ آپ نے زمانہ تعلیم میں بڑے ادب وسلیقہ مندی کے ساتھ اساتذہ ومعلمین کی نگاہوں کا سایہ حاصل کیا اور ہر ممکن جدوجہد عمل کی ڈگر پر رواں رہے چنانچہ آپ کی تعلیمی زندگی بھی خالق کا ئنات کی ایک بے بدل عطا تھی جس کی اثر انگیزی آپ کی سیرت میں نمایاں ہوئی اور عقیدت مندوں کی نگاہوں نے بعد کو مشاہدات کے ذریعہ قرار حاصل کیا۔

غنیۃ الطالبین کے مقدمہ (اردو) میں محبوب سبحانی علیہ الرحمہ کی سوانح میں ایک عجیب و غریب واقعہ لکھا ہے جس کا تعلق آپ کی ابتدائی زندگی سے ہے جبکہ آپ تعلیمی مراحل طے کر رہے ہوں گے۔ ایک مرتبہ کھیلتے ہوئے آپ کے پاس سے کوئی گائے گذری اس کے پیچھے بچوں کی طرح دوڑے آپ گائے کو پکڑنا چاہتے تھے گائے نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور یہ جملہ کہا: “نہ آپ اس کام کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ہی آپ کو اس کام پر مامور کیا گیا ہے” گائے کی زبانی یہ جملہ سن کر آپ خوف زدہ ہو گئے اور بھاگ کر گھر کی چھت پر چڑھ گئے چھت پر سے دیکھا تو ایک قافلہ نظر آیا جو حج کے لئے جا رہا تھا۔ نیچے اترے قافلے کی معیت میں سفر علم کا شوق دل میں پیدا ہوا ماں سے اس مقدس آرزو کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ میں علم حاصل کرنے کے لیے بغداد جانا چاہتا ہوں نیک سیرت ماں نے اجازت دیتے ہوئے توشہ سفر تیار کیا توشہ سفر روحانی اور مادی دونوں قسموں کی چیزوں پر مشتمل تھا مادی چیز کی شکل میں چالیس دینار تھے جو والدہ نے قمیص کے کسی پوشیدہ حصے میں سی کر محفوظ کر دیئے تھے تا کہ بوقت ضرورت کام آئیں روحانی چیز یہ دی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولناغ جھوٹ کبھی مت بولنا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “سچائی باعث نجات ہے اور جھوٹ ہلاکت کا باعث ہے۔”

قافلے کے ساتھ سفر شروع کر دیا، دوران سفر کسی مقام پر ڈاکوؤں اور رہزنوں نے قافلے کو لوٹ لیا ایک رہزن نے دیکھا کہ ایک معصوم بچہ دور کھڑا ہے اس نے آکر پوچھا کہ تیرے پاس بھی کچھ ہے؟ جواب دیا۔ جی ہاں چالیس دینار ہیں۔ رہزن کو ننھے ولی کی بات کا یقین نہ آیا اس نے سمجھا کہ یہ چھوٹا بڑا جی دار معلوم ہوتا ہے میرا مذاق اڑا رہا ہے یا پھر عقل کا کمزور ہے وہ حضرت کو پکڑ کر اپنے گروہ کے سردار کے پاس لایا جس کا نام احمد تھا۔ احمد کے دریافت کرنے پر بھی آپ نے وہی سچا جواب دیا پو چھا وہ چالیس دینار کہاں ہیں؟ آپ نے گدڑی نما قمیص کا وہ پوشیدہ حصہ پھاڑ کر دینار سامنے ڈال دیئے احمد نے کہا۔ “یہ تو ایسی پوشیدہ جگہ تھی کہ تلاشی لینے کے بعد بھی کچھ برآمد ہونا دشوار تھا تو نے کیوں ظاہر کر دیئے؟” جواب میں فرمایا۔ ماں نے سچ بولنے کی نصیحت اور تاکید کی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا تھا اس لئے میں نے حکم کی تعمیل کی ہے اور دینار نہیں چھپائے ہیں۔
معصوم ولی اور ننھے ہادی، داعی برحق اور سچے رہبر کی صداقت کو دیکھ کر سنگدل ڈاکو کافی دیر تک روتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ معصوم سا لڑکا اپنی ماں کی نصیحت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا اتنا خیال رکھتا ہے اور میں نے اب تک اپنے مالک حقیقی کے کسی فرمان کی تعمیل نہیں کی دل پر اس قدر رقت طاری ہوئی کہ فوراً تائب ہو گیا سب رہزنوں سے کہا کہ تو انہوں نے بھی تو بہ کر لی۔ قافلے والوں کا لوٹا ہوا مال بھی سارا واپس کر دیا بیان کیا جاتا ہے کہ وہ سارے رہزن بڑے بڑے عارف باللہ اور اولیاء اللہ ہو گئے ۔”

ان دنوں میں بغداد مدینۃ العلم کہلاتا تھا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مدر سے دانش گاہیں معاہدہ علم و ہنر تربیت گاہیں دار العلوم اور بڑے بڑے مشہور علمی ادارے دنیا بھر کے تشنگان علم و ہنر کی تشنہ کامیوں کی سیرابی کا سامان کر رہے تھے۔ ان مدارس میں مدرسہ نظامیہ مدرسہ احناف بہت زیادہ مشہور و معروف مدر سے تھے اسی طرح مدرسہ باب الازج بھی شہرت کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ جس کے بانی مبانی قاضی ابوسعید تھے جو وقت کے اکابر فقہاء میں شمار ہوتے تھے۔ سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ نے مدرسہ باب الازج میں داخلہ لیا اور یہیں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کی۔

علوم دینیہ اور شرعیہ کے حصول کے بعد آپ نے تربیت باطن کے لئے سب سے بڑے شیخ حماد بن مسلم دباس کے دامن پر فیوض سے وابستگی اختیار کی جبکہ تربیتی طور پر باطنی تزکیہ و تعلیم کی تحمیل حضرت شیخ القاضی ابوسعید مبارک المحزونی کے زیر سایہ ہوئی یہی آپ کے استاد فقہ اور اصول فقہ بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے حضرت المخزومی کے ایما پر فراغت علوم کے بعد مدرسہ باب الازج ہی میں تدریس کا سلسلہ شروع فرمادیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ ابتدائے زمانہ تدریس میں آپ کے حلقہ درس میں طلبہ کی تعداد بہت ہی معمولی تھی مگر رفتہ رفتہ یہ تعداد اتنی بڑھ گئی کہ مدرسہ باب الازج کی زمین ناکافی ہوگئی اور ہجوم کو دیکھتے ہوئے مدرسہ کی تعمیرات میں بڑی توسیع کرنی پڑی۔ جب آپ نے حلقہ افادہ میں لوگوں سے وعظ و موعظت کا آغاز فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر پچاس سال کی تھی۔

آپ کے ملفوظات و مواعظ ہی امت کے لئے گرانقدر ذخیرہ ہیں تاہم مستقل بالذات طور پر آپ نے الفتح الربانی فتوح الغیب اور غنیۃ الطالبین نامی عظیم تصانیف چھوڑی ہیں جو عوام و خواص کے حلقے میں مقبول و متداول ہیں۔

اہل سیر و سوانح کا کہنا ہے کہ آپ نے یکے بعد دیگرے چار شادیاں کیں اور سب سے اولا دیں ہوئیں آپ کے کل گیارہ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔

اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ کرامات اولیاء برحق ہیں جس کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی ہے
چنانچہ قتان نے بیان کیا ہے کہ جب زکریا علیہ السلام حضرت مریم کے حجرے میں آتے تو دیکھتے وہاں بے موسم کے پھل فروٹ اور میوہ موجود ہے پوچھنے پر جواب دیتیں کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے۔ اسی طرح سورہ کہف میں موسی و خضر کا واقعہ بیان ہوا احادیث میں بھی کرامات اولیاء کا تذکرہ بکثرت ملتا ہے چنانچہ بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ جریح راہب کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس بچہ سے پوچھا کہ تو کس کا لڑکا ہے۔ تو اس نے کہا میں فلاں چرواہے کا بیٹا ہوں اسی طرح جمعہ کے منبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے ہیں اور حضرت ساریہ کو آواز دی کہ پہاڑ کی طرف توجہ کرو اور یہ آواز ہزاروں میل دور پہنچ گئی۔
ان آیات وروایات کی روشنی میں حقیقت واشگاف ہو گئی کہ بزرگان دین اولیاء کرام سے بھی کرامات صادر ہو سکتی ہیں اس میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں کیا جاسکتا۔

چنانچہ اب ہم چند کرامات حضرت کی بیان کرتے ہیں۔
ابو المظفر منصور کے ہاتھ میں ایک مرتبہ کوئی فلسفہ کی کتاب تھی حضرت نے اسے دیکھے بغیر فرمایا کہ یہ تیری بدترین رفیق ہے اس کو دھوڈال، میں نے سوچا کہ اسے گھر لے جا کر رکھ چھوڑوں گا۔ حضرت نے وہ کتاب مجھ سے تھوڑی دیر کے لئے لے لی پھر یوں پکڑ کو واپس فرمادی اب جو کھول کر دیکھا تو صرف صفحات تھے حرف سارے غائب تھے۔

ایک چور آپ کے گھر میں چوری کرنے کے لئے داخل ہوا بینائی سے محروم ہو گیا آپ نے اسے سمجھایا ہدایت فرمائی تو اس نے توبہ کرلی اور ولایت کے مرتبہ پر فائز ہو گیا۔

طریقہ سہروردیہ کے بارے میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کو علم الکلام اور معقولات سے کافی دلچسپی تھی وہ حاضر خدمت ہوئے حضرت نے فرمایا ان علوم کو چھوڑ دے مگر وہ اس سے مطمئن نہ ہوئے قریب بلا کر ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا تو سارے معقولی علوم محو ہو گئے اور جو کچھ یاد تھا سب بھول گئے اور سینہ معقولات سے بالکل صاف ہو گیا

اس طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جو حضرت کی کرامتوں میں منجملہ شمار ہوتے ہیں۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ آپ نے ۹۱ برس کی عمر پائی اس لئے آپ کی وفات ۵۶۱ میں ماہ ربیع الثانی کی ۹ یا ۱۱ یا ۱۷ تاریخ کو ہوئی۔ البتہ راجح قول یہ ہے کہ ۱۱ ربیع الثانی کو ہوئی۔
حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حلقہ درس میں ایسے ہزاروں لوگوں کو افادیت سے نوازا جن کی تعداد بے شمار ہے البتہ ان میں نمایاں ترین تلامذہ میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔

محمد جنید خاں دہلی
ماخوذ: سہ ماہی رسالہ رہبر نور مکن پور شریف

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *