مخدوم سید بڈھن شاہ بہرائچی: ایک عظیم روحانی ہستی کی سچی داستان

حضرت بڈھن بہرایچی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مخدوم سید بڈھن شاہ بہرائچی: ایک عظیم روحانی ہستی کی سچی داستان

مخدوم سید بڈھن شاہ بہرائچی
سید بڈھن شاہ بہرائچی قاضی سید عبد المالک المعروف سید اجمل شاہ بہرائچی کے خلیفہ تھے۔ سید بڈھن بہرائچی کی پیدائش شہر بہرائچ کے محلہ بڑی ہاٹ میں ماہ رمضان میں ہوئی تھی۔
سید بڈھن شاہ بہرائچی کا سلسلئہ نسب سادات حسینی سے ملتا ہے۔ آپ کے بزرگ ساتویں ہجری میں کاشغر سے وارد ہو کر بہرائچ میں متوطن ہوئے یہ اور شاہ اجمل بہرائچی ایک ہی خاندان سے تھے۔ قاضی جمال الدین عرف قاضی چندن کے بھائی قاضی دانیال کے یہاں رشتہ قائم ہونے کی وجہ سے انھوں نے بہرائچ میں توطن اختیار کیا۔ (۴۶)

معین احمد علوی کا کوروی آپ کے نام کے بارے میں مولانا شاہ اسلم سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں
مولانا شاہ محمد اسلم صاحب نے فرمایا کہ ہمارے خاندان میں ثقہ بزرگوں کے ذریعہ جو دو (۲) روایات سینہ بسینہ محفوظ چلی آرہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت مخدوم بڈھن رمضان شریف میں پیدا ہوئے۔ دن میں کبھی آپ دودھ نہیں پیتے تھے۔ دوسرے ان کے سر کے بال بوقت پیدائش سفید تھے۔ (۴۷)

سید ظفر احسن بہرائچی سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ آپ کے نام کے بارے میں لکھتے ہیں
آپ کی ولادت کے وقت آپ کے سر کے تمام بال سفید تھے اس لیے آپ کا نام بڈھن پڑ گیا تھا۔ آپ کے والد کا نام مخدوم سید اللہ داد تھا۔ سید بڈھن بہرائچی کا خاندان ساتویں صدی ہجری میں ہلاکو خاں کے پرفتن زمانہ سے پناہ حاصل کرنے کے لیے بغداد سے ہندستان آیا تھا اور علاقہ ادوھ کے بہرائچ میں اقامت اختیار کی اور بہرائچ میں ایک محلہ مخدوم پورہ کے نام سے آباد کیا جو موجودہ وقت میں بڑی ہاٹ کے نام سے مشہور ہے۔ (۴۸)

معین احمد علوی کا کوروی صاحب لکھتے ہیں
کہ مولانا شاہ محمد اسلم صاحب جانشین خانقاہ نعیمیہ نے خود راقم سے بیان کیا میرے دادا مولانا شاہ ابو محمد صاحب نواسہ شاہ نعیم اللہ (متوفی ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۹۱۶ء) کی ایک تحریر ہمارے خاندانی کا غذات میں محفوظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ بہرائچ کی آبادی پہلے پھوس کے چھپروں سے گاؤں کے انداز پر آباد تھی۔ پختہ مکانوں میں صرف ہمارا ہی پہلا مکان تھا جو مولسری والی مسجد سے ملحق اب بھی موجود د ہے۔ اس کی تاریخ تعمیر این است محل رکت، یعنی زمانہ شهنشاه جہانگیر ہے۔ زمانۂ قدیم میں پھوس کے مکانات ہونے کی وجہ سے بہرائچ میں دو بار بھیا نک آگ لگی۔ جس میں لوگوں کا اثاثہ ضائع ہو گیا کہ اسی آگ میں شاہ بڈھن کے گھر کا اثاثہ قیمتی نوادرات اور نسخ سب ضائع ہو گئے ۔ (۴۹)

سید بڈھن بہرائچی نے شیخ عبد المقتدر بن رکن الدین شریحی کے واحد شاگرد مخدوم شیخ حسام الدین فتح پوری سے حاصل کی تھی اور ان ہی سے سلسلہ چشتیہ کی اجازت پائی تھی۔ مخدوم شیخ حسام الدین فتح پوری کی وفات کے بعد آپ سید اجمل شاہ بہرائچی کی خدمت میں پہنچے اور ان سے مکمل باطنی تعلیم حاصل کر کے ان کے جلیل القدر خلیفہ ہوئے۔

درجنوں کتابیں لکھ چکے سالارِ ملت حضرت سیّد سالم علوی بلخرَوی صاحب (سجادہ نشین: خانقاہِ قادریہ علویہ بہرائچ شریف) کی تحقیق کے مطابق آپ سلسلۂ چشت میں حضرت مخدوم ہشام الدین فتحپوری علیہ الرحمہ سے مُرید و خلافت یافتہ تھے جو کہ قاضی عبدالمقتدر تھانَیسری سُمَّہ دہلوی سے اور حضرت خواجہ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلوی سے فیض یافتہ تھے۔
لیکن آپ کا زیادہ تر وقت سلطان العلما وقت حضرت سیّد شاہ اَجمل بہرائچی رحمۃُاللہ علیہ کی صحبت میں گزرا ہے۔ آپ حضرت شاہ اَجمل بہرائچی صاحب سے طالبِ بیعت بھی تھے اور انہوں نے آپ کو سلسلۂ قادریہ و سہروردیہ کی بھی خلافت عطا کی تھی، جس کی ترتیب اس طرح ہے

حضرت شیخُ الشیوخ شیخ عمر شہاب الدین سہروردی قُدِّس سرّہٗ
حضرت غوثُ العالمین حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی سہروردی قُدِّس سرّہٗ
حضرت شیخُ العالم شیخ رکن الدین سہروردی قُدِّس سرّہٗ
حضرت مخدوم جلال الدین جہاںیاں جہاں گشت بخاری سہروردی قُدِّس سرّہٗ
حضرت سیّد اَجمل شاہ بہرائچی سہروردی قُدِّس سرّہٗ
حضرت سیّدنا مخدوم شیخ بُڈھن سہروردی قُدِّس سرّہٗ
محض پانچ واسطوں سے آپ کا شجرۂ طریقت ایک طرف حضرت شیخُ الشیوخ شیخ عمر شہاب الدین سہروردی رحمۃُاللہ علیہ، اور صرف آٹھ واسطوں سے سلطان الاولیاء شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور صرف ایک واسطے سے حضرت قطبُ المدار سیّد بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمۃُاللہ علیہ سے ملتا ہے۔

خلاصہ
آپ مُرید سلسلۂ چِشت میں تھے، لیکن خلافت و اجازت آپ کو سلسلۂ قادریہ، سہروردیہ و مداریہ کی بھی حاصل تھی۔
اور آپ پر حضرت شاہ اَجمل بہرائچی رحمۃُاللہ علیہ کی عقیدت کا غلبہ زیادہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اب خواص و عوام آپ کو انہی کی نسبت سے یاد کرتے ہیں۔
حضرت شیخ دُرویش محمد بن قاسم اَوَدی رحمۃُاللہ علیہ آپ کے خلیفہ ہوئے۔

مولانا سید عبد الحئی حسنی اپنی کتاب نزہتہ الخواطر میں لکھتے ہیں
اشيخ الصالح الفقیہ السید بڈھن البہرائچی کا شمار مشہور و معروف مشائخ کرام میں ہوتا تھا۔ آپ نے علوم ظاہری کی تعلیم اور سلسلہ چشتیہ کی اجازت شیخ حسام الدین فتحپوری سے حاصل کی جو شیخ عبدالمقتدر بن رکن الدین شریحی کے شاگرد اور فیض یافتہ تھے۔ سید بڈھن بہرائچی نے سلسلہ مداریہ و سہروردیہ اور دیگر مشہور سلاسل کی اجازت و خلافت سید اجمل شاہ بہرائچی سے حاصل کی اور ان سے شیخ (درویش ) محمد بن قاسم اودھی نے اجازت اور خلافت حاصل کی ۔ (۵۰)

آپ کے فرزند اکبر سید شاہ فتح چشتی آپ کے خلیفہ اور جانشین ہوئے اور دوسرے خلیفہ شیخ درویش محمد اودھی بن شیخ قاسم اور دھی بہت مشہور ہوئے۔ شیخ درویش محمد اودھی (متوفی ۸۹۶ھ) کے خلیفہ شیخ عبد القدوس گنگوہی (متوفی ۹۴۴ھ ) ان کے خلیفہ شیخ رکن الدین گنگوہی” (متوفی ۹۸۳ھ) ان کے خلیفہ مخدوم عبد الاحد سرہندی (متوفی ۱۰۰۷ھ ) ان کے خلیفہ حضرت مجدد الف ثانی (متوفی ۱۰۳۴ھ )۔

آئینہ اودھ کے مصنف مولوی ابوالحسن مانکپوری اپنی ملازمت کے دوران ۱۸۷۵ء میں بہرائچ آئے اور مخدوم سید بڈھن بہرائچی کی اولادوں سے ملے تھے۔ مصنف ” آئینہ اودھ نے سید بڑھن بہرائچی کے حالات میں آپ کی اولاد کا ذکر اس طرح کیا ہے۔

ان مخدوم سید بڈھن بہرائچی کی اولاد میں مولوی سید ابوالحسن بہرائچی نواسئہ شاہ نعیم اللہ بہرائچی خلف الرشید مولوی شاہ بشارت اللہ بہرائچی صاحب ہیں۔ مولانا سیدنا مخدوم سید بڈھن کے طہارت نسب میں کوئی شک نہیں، مگر علی الاتصال شجرہ پدری مؤلف کو نہ ملا اس باعث سے اس کے لکھنے میں معذوری ہوئی ، اور کچھ چکوک و دیہات معانی کے اس خاندان میں تھے۔ عمل داری سرکار انگلیشیہ میں اثر قانونی سے ایک تعلقہ دار کے قبضہ جاتے رہے۔ اب محض تو کل پر بسر اوقات ہے۔“ (۵۱)

مخدوم سید بڈھن بہرائچی کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مولوی عبدالستار اپنی کتاب میں آپ کی وفات کی تاریخ لکھتے ہیں کہ سید بڈھن شاہ نے تاریخ ۸ شوال ۸۸۰ء کو بعہد سلطنت سلطان بہلول لودی کے وفات پائی۔ مزار پر انوار شہر بہرائچ میں بستی سے اتر قریب مزار حضرت مولوی شاہ نعیم اللہ قدس سرہ کے زیر درخت املی بالائی چبوترہ پر واقع ہے۔ (۵۲)

قطعہ تاریخ وفات بحوالہ مسالک السالکین
مقتدائے طریقہ احسن
شیخ اہل جہاں شہ بڑھن
رفت زین جهان حزن و ملال
ہشت مین بود از شوال
سال تر حیل آن خرد فرمود
صاحب کشف شاہ بڈن بود

معین احمد علوی صاحب آپ کی وفات کے بارے میں لکھتے ہیں
مخدوم بڈھن شاہ بہرائچی کی وفات ۱۸ شوال ۸۸۰ ھ مطابق ۴ فروری ۱۴۷۶ء کو ہوئی۔ مزار پر انوار زیارت گاہ خلائق ہے۔ ریلوے اسٹیشن جانے والی سڑک کے پورب جانب پڑتا ہے پہلے ایک بڑا املی کا درخت چبوترے پر سایہ فگن تھا۔ ۱۹۶۰ء کے قریب منتظمین نے املی کا درخت کٹوا کر نئے سرے سے چبوترہ کی مرمت کرا کے مزار پر چھت قائم کر دی۔ (۵۳)

سید ظفر احسن بہرائچی نے آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کی وفات ۱۷ رجب ۸۸۰ ھ مطابق ۱۷ نومبر ۱۴۷۵ء میں سلطان بہلول لودی کے زمانے میں ہوئی تھی ۔ (۵۴)
☆☆☆☆☆

(۴۶) معارف جنوری ۱۹۹۲ء، ص ۵۸
(۴۷) معارف جنوری ۱۹۹۲ ء ، ص ۵۹
(۴۸) آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید مطبوعه ۲۰۱۵، ص ۲۹۹
(۴۹) معارف جنوری ۱۹۹۲، ص ۵۹
(۵۰) نزیسته الخواطر جلد ۳ ص ۲۴۰
(۵۱) آئینہ اودھ ص ۱۳۶
(۵۲) مسالک السالکین ص ۴۴۰
(۵۳) معارف جنوری ۱۹۹۲ء ، ص ۶۰-۶۱ (۵۴) آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید ، جس ۳۰۲

نقل : از- بہرائچ ایک تاریخی شہر – مؤلفہ جنید احمد نور


پیدائش اور نام کی وجہ

ماہِ رمضان المبارک کی ایک پر برکت ساعت تھی جب بہرائچ کے محلہ بڑی ہاٹ (جو اس وقت مخدوم پورہ کہلاتا تھا) میں سید اللہ داد کے گھر ایک نومولود نے آنکھیں کھولیں۔ یہ بچہ پیدا ہی ایسے ہوا جیسے کوئی نورانی پیکر اس دنیا میں اتر آیا ہو۔ مولانا شاہ اسلم سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ کے مطابق دو عجیب باتوں نے اس بچے کی ولادت کو خاص بنا دیا

پہلی یہ کہ دن کے وقت یہ بچہ کبھی دودھ نہ پیتا تھا، جیسے رمضان کے روزے کی پابندی پیدائش سے ہی اس کی فطرت میں شامل تھی۔

دوسری سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ پیدائش کے وقت ہی اس کے سر کے تمام بال بالکل سفید تھے، جیسے بڑھاپے کی چاندی بچپن ہی سے اس کے مقدر میں لکھی ہو۔ یہی وجہ تھی کہ سب نے اس کا نام “بڈھن” رکھ دیا۔ جبکہ آپ کا مبارک نام سید محمد افضل تھا لیکن زمانے بھر میں بڈھن بہرائچی کے نام سے مشہور ہوئے

خاندانی پس منظر

سید بڈھن کا خاندان ساداتِ حسینی سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس نسب سے وابستہ ہے۔

آپ کا شجرۂ نسب ۱۵ واسطوں سے مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے
سید محمد افضل عرف مخدوم بڈھن شاہ بہرائچی رحمۃ اللہ علیہ
بن
سید حامد شرفِ جہاں حسینی (مزار: سردھنا، میرٹھ)
بن
سید یحییٰ کرم اللہ یحییٰ حسینی (دہلی)
بن
سید ظفر عطا اللہ حسینی (دہلی)
بن
سید ظہیر الدین ابو نجیب حسینی
(آپ آفتابِ ہند سید اسد الدین جعفرآبادی جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کے سگے بڑے بھائی ہیں)
بن
سید احمد حسینی
بن
سید طاہر حسینی
بن
سید ابو بکر حسینی
بن
سید احمد حسینی
بن
سید عمر کرمانی
بن
سید یحییٰ شہید رحمۃ اللہ علیہ
(آپ غازی سرکار کے جدِّ اعلیٰ سید آصف غازی کے ساتھ جُزان میں شہید ہوئے تھے)
بن
سیدنا امام زید شہید رضی اللہ عنہ
بن
شہیدِ کربلا سیدنا امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام
بن
مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
اس طرح آپ زیدی حسینی سید ہیں۔

ساتویں صدی ہجری میں جب ہلاکو خان کے فتنے نے بغداد کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا، تو یہ خاندان حفاظت کی تلاش میں ہندوستان آیا اور بہرائچ میں سکونت اختیار کی۔ قاضی جمال الدین (قاضی چندن) کے بھائی قاضی دانیال کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے انہوں نے یہیں مستقل طور پر قیام کیا اور مخدوم پورہ نامی محلہ آباد کیا۔

تعلیم و تربیت

نوجوانی میں ہی سید بڈھن نے روحانی تلاش کا سفر شروع کیا۔ پہلے انہوں نے مخدوم شیخ حسام الدین فتح پوری سے سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اور اجازت حاصل کی، جو خود قاضی عبدالمقتدر تھانِیسری اور خواجہ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلوی جیسے عظیم شیوخ کے فیض یافتہ تھے۔

لیکن روحانی سفر کا یہ محض آغاز تھا۔ مخدوم شیخ حسام الدین فتح پوری کی وفات کے بعد سید بڈھن نے سلطان العلما حضرت سید شاہ اجمل بہرائچی کی خدمت میں حاضر ہو کر باقاعدہ بیعت کی۔ یہ وہ روحانی رشتہ تھا جو ان کی زندگی کا مرکز بن گیا۔

اولاد اور خاندانی حالت

ایک کتاب کے حوالے سے معلوم ہوا کہ اس خاندان کے پاس کچھ چکوک اور دیہات تھے جو برطانوی دور میں قانونی اثرات کی وجہ سے ان کے قبضے سے نکل گئے اور وہ محض روزی روٹی پر گزارا کر رہے تھے۔

وفات اور مزار

آپ کا مزار پرانوار بہرائچ میں ریلوے اسٹیشن جانے والی سڑک کے مشرقی جانب واقع ہے۔ پہلے یہاں ایک بڑا املی کا درخت تھا جو 1960ء کے قریب کٹوا دیا گیا اور نئے سرے سے چبوترہ بنا کر مزار پر چھت تعمیر کر دی گئی۔

خلاصہ
سید بڈھن شاہ بہرائچی درحقیقت ایک جامع الکمالات روحانی ہستی تھے۔ اگرچہ وہ سلسلہ چشتیہ کے مرید تھے، لیکن انہیں قادریہ، سہروردیہ اور مداریہ سلسلوں میں بھی خلافت حاصل تھی۔ تاہم ان پر حضرت شاہ اجمل بہرائچی کی عقیدت کا غلبہ اس قدر تھا کہ خواص و عوام انہیں اسی نسبت سے یاد کرتے ہیں۔

آج بھی بہرائچ میں ان کا مزار روحانی تسکین کا مرکز ہے، جہاں سے ان کے روحانی فیض کے اثرات اب بھی جاری و ساری ہیں۔ یہ عظیم بزرگ ہمیشہ اپنے علم، روحانیت اور تقویٰ کی بدولت یاد رکھے جائیں گے۔

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *