نحمده و نصلی و نسلم على رسوله الكريم و على آله و اصحابه اجمعین
کربلا کے ذرے ذرے پر یہی تحریر ہے
آبیاری دین کی قربانئ شبیر ہے
بفضل پروردگار و بطفیل سید ابرار واخیار و بوسیلہ قطب المدار، تمام گوشہ ہائے اذہان و قلوب کو اس عطر بیز و شگفتہ گل فاطمی کی خوشبو سے معطر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جس کی ذات سے دینی بقا مربوط ہے جس کے نام سے انسانی ضمیر میں حوصلہ انگیزی ہے جس کا ذکر گم گشتگان راہ ہدایت کے لیے مشعل ہدی ہے جس کی محبت سبب قرب مصطفی و کبریا ہے وہ ذات بابرکات امام الشہدا علمبر دار صدق وصفاء پاسبان مرکز ہدی منبع جود و سخا، سبط مصطفی جگر گوشہ علی مرتضی لخت دل فاطمہ زہرا حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام ہے۔ اس عظیم و بابرکات شخصیت کے ایثار کا تلخیصی تبصرہ مقصود ہے۔
قارئین کرام! مطلع سال پر رونما ہونے والا ماہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اسی سال کا آخری مہینہ ذی الحجہ ہے اول الذکر وآخر الذکر دونوں مہینوں میں ایک ایسا با ہمی ربط و ہم آہنگی ہے جسے بآسانی فہم و ادراک میں سمایا جاسکتا ہے۔ پروردگار عالم نے بطور آزمائش اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی راہ میں (راہ خداوندی) قربانی طلب کی خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کر دی ساتھ ہی ساتھ ابدی حقیقت کا اظہار واعلان بھی فرمادیا کہ پروردگار عالم کی رضا و خوشنودی کے مقابل دنیاوی مال و زر دنیاوی دولت و ثروت جو ایک حقیرشی ہے کیا مقام رکھتی ہے؟ بارگاہ الہی میں مال و دولت نہیں بلکہ آل و اولاد کی قربانی پیش کردینا اطاعت و فرمانبرداری رب تعالیٰ کا ایک ادنی نذرانہ ہے۔
مادی شکل میں، مال و جائیداد کی شکل میں یا انسانی شکل میں ہوں یہ ساری نعمتیں پروردگار عالم کی عطا کردہ نعمتیں ہیں اور ان کو راہ خداوندی میں رضائے خدا برتر جل و علی کے لیے قربان کر دینا اللہ رب العزت کے حوالے کر دینا، اعلاء کلمتہ الحق کے لیے حکم رب کائنات کی بجا آوری کیلئے قربانی نفس و جان اللہ کی بندگی کاسچا تر جمان ہے۔
آیئے تاریخ کے اوراق و صفحات پر غائرانہ نگاہ پردازی کر کے دیکھیں کہ اللہ رب العزت کے حکم پر کس نے سر تسلیم خم کیا کس نے تابع مرضاة الله بن کرحق فرمانبرداری ادا کیا۔ جبکہ اس کے برعکس کثیر تعداد نے اللہ رب العزت کے قائم و دائم کردہ نظام کو اپنے دست حرص و ہوس سے آلودہ کرنا چاہا، قلب دین و اسلام میں دنیاداری کا خنجر اتار کر روح آخرت مجروح کر لی، کفران نعمت کا اظہار کر کے پروردگار عالم کی لعنت حاصل کر لی۔
پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا) کے مصداق بن گئے۔)
حق و باطل کی یہ آویزش ابتدا سے چلی آرہی ہے۔ جب آتش نمرود نے شعلہ انگریزی دکھائی، حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے سوز نفس سے کافور کر دیا، فرعون نے خدائی دعوی کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعونی باطل دعوے چکنا چور کر دیے، یہی سلسلہ جس وقت نبی آخر الزماں محبوب رب العالمین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا تو نمارید فراعین کی ایک جماعت مقابل آگئی اور وحدانیت کی مہم میں رخنہ اندازی کرنے لگی ، دعوت دین و اسلام میں مداخلت کی ناکام کوشش کرنے لگی مگر محبوب پروردگار صلی اللہ علیہ وسلم نے شکست فاش دے کر دین الہی کی تکمیل فرمائی اور نعمات الہیہ کو بھی اتمام تک پہونچایا۔ آل رسول کی زندگی کا مقصد وحید بھی تحفظ وحدانیت تحفظ شریعت تحفظ قرآن و ایمان رہا اور جان کی قربانی دے کر باطل اور باطل پرستوں کا دفع کیا۔ جب وہ وقت آیا کہ اسلام پر یزید کی شکل میں آفت کا کوہ گراں ٹوٹ پڑا تو صحبت نبی کا فیض یافتہ خاندان رسول کا بوڑھا، جوان بچہ بچہ دین محمدی کی بقا کیلئے استبدادی نظام کے خاتمے کے لیے ملوکیت و آمریت کو نیست ونابود کرنے کیلئے غیر اسلامی راہیں مسدود کرنے کیلئے گلشن اسلام و شریعت کو تازہ بہار دینے کے لیے سامنے آجاتا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو دولت سے محبت ہے اسے حاصل کرنے کے لیے سکون و آرام قربان کر دیتا ہے لیکن اگر جان بچانے کی باری آجائے تو یہی انسان دولت کو قربان کر کے اپنی جان بچا لیتا ہے۔
مگر چراغ مصطفوی کی اس لو کو لاکھوں سلام جو یزیدی طوفانوں اور باطل زدہ آندھیوں کی زد پر جل کر شمع اسلام کو مدھم پڑنے سے بچالیا کر بلا کا خونی منظر ہے مقابل میں یزیدی لشکر ہے سورج کی تمازت ہے ریت کی حرارت ہے اور یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ یہ وہی مقام کرب و بلا ہے جس کی نشاندہی برسوں پہلے غیب داں رسول باوقار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادی تھی۔
ههنا مناخ ركابهم و موضع رحالهم ويهراق دمائهم فئة من آل محمد يقتلون بهذه العرصة
مولائے کائنات علیہ السلام جب قبرگاه امام عالی مقام حسین علیہ السلام پر پہونچے تو فرمایا یہ شہیدوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے اور اس جگہ کجاوے رکھے جائیں گے اور یہ خون بہنے کا مقام ہے اہل بیت محمد کے کتنے لوگ یہاں قتل کر دئے جائیں گے۔
اللہ الله امام عالی مقام علیہ السلام پر اعوام و انصار پر خاندان والوں پر آلام و مصائب کے توڑے جانے والے پہاڑ کے اعلان ونشاندہی کے بعد ، وحشت و بربریت کی پرسوز روداد سن لینے کے بعدحتی کہ نقشہ قتل گاہ دیکھ لینے کے بعد ہے کوئی مائی کا لال جو موت کو خوش آمدید کہہ کر موت کا نوالہ بنے کو تیار ہو جائے؟ اور صرف تنہا نہیں بلکہ بوڑھے جوان حتی کہ چھ ماہ کا بچہ بھی ہو۔
جبکہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام نے اپنے بیٹے کو قرباں کرتے وقت اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی تاکہ اپنے بیٹے کوتڑ پتا نہ دیکھیں۔ اور میدان کربلامیں ایثار وفا کا پیکر جوان بیٹے کی لاش پرگھوڑے دوڑتے دیکھ رہا ہے عباس علمبردار کے بازو کٹتے دیکھ رہا ہے عون ومحمد اور قاسم کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھا رہا ہے حد یہ کہ چھ ماہ کے علی اصر کواپنی گود میں شہید ہوتا دیکھ رہا ہے اور خود بصد شوق نوش کرنے کو تیار بھی ہے۔ ایمان و انصاف کی آنکھوں سے دیکھو اور جواب دو کیا اس سے بڑی قربانی کوئی اور بھی ہوسکتی ہے؟ نہیں نہیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی وہ بھی بیٹے کی جگہ بحکم رب جنتی دنبہ کی قربانی مگر اللہ پاک نے اس قربانی کا انعام دیا اور فرمادیا انی جاعلک للناس اماما۔ اے میرے پیارے خلیل اس سے پہلے تم نبی تھے لیکن آج سے تم نسل انسانی کے امام بھی ہو، آنکھوں پر پٹی باندھ کر قربانی پیش کرنے والانسل انسانی کا امام بن جائے تو وہ مجسمہ تسلیم ورضا وہ پیکر ایثار و وفا جو پورے خاندان کو قربان ہوتے ہوئے اپنے ماتھے کی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو اور لاشوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھارہا ہو اُس کا معیار امامت کیسا ہوگا اُس کا مرتبہ امامت کتنا بلند ہوگا؟
مجبوراً آلام و مصائب کے طوفان سے آنکھ ملانے والوں کی تعداد بہت ہے مجبوراً ظلم کے سورج کی شعلہ ریز شعاعوں کا مقابلہ کرنے والوں کی داستانیں مرقوم ہیں مجبوراً سفاکی کے سمندر کے تیراک اور ان کی کہانیاں بھی ملتی ہیں لیکن تاریخ کے اوراق اسی نظیر و تمثیل کے سطور ظاہر کرنے میں پست ہمت ہیں جہاں بخوشی دار و رسن کے پھندوں کو چوما گیا ہو۔ تلواروں کا خیر مقدم کیا گیا ہو گرم ریت کو نوکیلے پتھروں کو مخملی بستر سمجھا گیا ہو ان تمام حیرت شکن افراد کی مثال پیش کرنا ناممکن ہے۔
چشم فلک متحیر و خیرہ ہے ستم دیکھ کر خود وجود ستم بھی سہما سہما اور تھرایا ہوا ہے مگر حسین کی ہمت و جواں مردی ہے حسین کا جذبہ ایثار ہے جو مقصد بقائے دینی اور تحفظ قوانین اسلامی سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹا مظالم و مصائب کی پرواہ نہ کر کے بہتر زخموں سے چور چور ہوکر ایثار و وفا کا جو ثبوت پیش کیا ہے قیامت تک اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
یا درکھیں! کوئی ایسی صبح نہیں جس کی شام نہ ہو ایسا دن نہیں جس کی رات نہ ہو سورج نکلتا ہے اور ڈوبتا بھی ہے چمن میں بہار بھی آتی ہے اور خزاں بھی پھول کھلتے ہیں اور مرجھاتے بھی ہیں انسان پیدا ہوتا ہے اور مرتا بھی ہے اور زندگی کی انتہاہی موت ہے۔ اسلئے اے حسین پاک علیہ اسلام کی محبت کا دم بھرنے والے غیور حسینیو! محرم کے دس دنوں کو ہی یادگار حسینی نہ بناکر زندگی کے ہر دن کو یوم حسین اور ہر رات کو شب عاشورہ سمجھ کر اپنی زندگی کے لمحات صرف کرو۔ محبت آل نبی میں فنا و بقاء کی دعا کو وظیفۂ حیات بنالو دارین کی سعادت مندی اور گوشہ ہائے زندگی کی کامیابی وکامرانی تمہیں نصیب ہوگی۔
شہادتوں کی سند کو حسین کہتے ہیں
وفا کی آخری حد کو حسین کہتے ہیں
یزیدیت تیرے منھ پر جو روز پڑتا ہے
اسی طمانچے کی زد کو حسین کہتے ہیں
مولا نا عبدالقیوم شکوہی، سیتا پوری
Maulana Abdul Qayyum Shikohi Sitapuri