madaarimedia

حضور مدار پاک کی بارگاہ میں بادشاہوں کی حاضریاں

Muqtida husain

جون پور حکومت کا بانی خواجہ جہاں ”ملک الشرق“ نے چھ سال حکومت کی اور اس کے بعد ۸۰۲ھ مطابق ۱۳۹۹ء میں مبارک شاہ تخت پر بیٹھا مگر سلطان محمود شاہ تغلق کے حملوں اور کچھ جسمانی بیماریوں کی وجہ سے وہ زیادہ دنوں تک حکومت نہ کر سکا اور ۸۰۴ھ یعنی ۱۴۰۱ء میں اس کا انتقال ہو گیا اس کی حکومت کی مدت صرف ایک سال اور چند مہینوں کی ہے۔ ویسے تو ہندوستان کے تمام تر علائق میں خود مختار حکومتیں رہی ہیں مگر ایسے وقت میں جب شہر دہلی ایک بہت بڑی ریاست کا پایہ تخت اور دار الحکومت تھا ، تب بھی جون پور کی شرقی حکومت کے خود مختار بادشاہوں کی حکمرانی ، سیاسی سرگرمیوں ، جنگوں اور نظام حکومت کے طور طریقوں نے ایک الگ تاریخ رقم کر دی تھی۔

جن بادشاہوں نے اپنا دارالحکومت جو نپور کو بنایا تھا اور جون پور پر حکومت کی ان بادشاہوں کو مؤرخین کی اصطلاح میں سلاطین شرقیہ کہا جاتا ہے۔

اس شرقی حکومت کا تیسرا بادشاہ ابراہیم شاہ شرقی تھا اس بادشاہ نے ۸۰۴ھ سے لیکر ۸۴۴ھ مطابق ۱۴۴۰ء تک پورے ۴۰ برس جون پور پر حکومت کی ۔

کیا ابراہیم شاہ شرقی بادشاہ حضور مدار پاک کا مرید و خلیفہ تھا؟

ارادہ اور خلافت ظاہری طور پر باضابطہ بادشاہ کو حاصل ہونے کا بین ثبوت موجود ہے اور اس کی تنکیر و تنقیص کا نظریہ رکھنا بھی تاریخی حقیقتوں کے خلاف ہوگا۔ کیوں کہ بادشاہ ابراہیم شاہ شرقی کی حضور مدار پاک سے حد درجہ عقیدت و محبت اور آپ کی خدمت عالیہ میں بار بار حاضر ہو کر اپنی کامیابیوں کی دعائیں کرانا، مزید حضور مدار العالمین کے مقام و مرتبہ پر کسی دوسرے کو ترجیح نہ دینا، بادشاہ کے مرید و خلیفہ ہونے پر دالالت کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بادشاہ جب آپ کی خدمت میں میں کوئی تحفہ نذر کرتا تو آپ فرماتے ”مجھ کو میرا رب کافی ہے“۔ اس بات کا اثر بادشاہ کے دل پر ایسا ہوا کہ وہ سب سے زیادہ آپ کی عقیدت و محبت کا قائل ہو گیا تھا۔

تمام مورخین نے اتفاق رائے سے تحریر کیا ہے کہ بادشاہ ابراہیم شاہ شرقی کو حضرت قطب المدار سے حد درجہ عقیدت تھی۔

دو تاریخی واقعے

پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ جب حضرت قطب المدار جونپور تشریف لے گئے اور بادشاہ کو آپ کے آنے کی خبر ملی تو بادشاہ خود شہر سے چل کر بہت دور تک پیدل چل کر آیا اور آپ کا استقبال کیا اور آپ کو نہایت تزک واحتشام اور عزت کے ساتھ جو نپور کی سرحد تک لے گیا اور آپ کو اپنے محل میں قیام کرنے کیلئے اصرار کرنے لگا۔ حضور مدار پاک نے اس کو کامیابیوں کی دعائیں دیں اور فرمایا ”فقیر آبادی کے باہر ہی قیام کریگا تاکہ مخلوق خدا استفادہ کر سکے۔ بادشاہ مجبور ہو کر لوٹ گیا اور آپ کی نگہ داشت کیلئے حکم جاری کیا کہ اگر حضور کو کسی بھی چیز کی حاجت یا ضرورت در پیش آئے تو فوراً حاضر کی جائے۔

دوسرا تاریخ ساز واقعہ یہ ہے کہ ۸۳۷ھ میں جب بادشاہ ابراہیم شرقی کو کالپی فتح کرنے کا ارادہ ہوا اور ایک لشکر جرار لیکر روانہ ہوا تو روانگی سے پہلے بادشاہ نے حضور مدار پاک کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت طلب کی تھی۔ راستے میں ہی اس کو یہ اطلاع ملی کہ دہلی کا بادشاہ مبارک شاہ ایک زبردست لشکر لیکر جونپور کو فتح کرنے دہلی سے نکل چکا ہے، ابراہیم شرقی یہ سن کر پریشان ہوا اور واپس جو نپور آ گیا۔

جو نپور پہنچ کر اپنے وزارئے سلطنت سے کچھ خاص مشوروں سے روبرو ہوتے ہوئے کہا کہ میرے مرجع عقیدت سید بدیع الدین قطب المدار نے اپنے تمام تر مریدین و خلفاء کو ملک بھر کے تمام تر علاقوں میں جا کر تبلیغ دین اسلام کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جو نپور کا علاقہ کسی بزرگ شخصیت کی خدمات کا حصہ بنتا ہے۔

شیراز ہند کے علمائے اسلام اور شرقی حکمراں

آٹھویں صدی ہجری کے نصف آخر سے لیکر نویں صدی ہجری تک ہندوستان کا یہ چھوٹا سا شہر جونپور علماء اور فضلاء کی ایک ایسی آماجگاہ بن کر چمکتا رہا ہے جہاں عالموں اور فاضلوں کی باراتیں نکلتی تھیں سیکڑوں علمائے اسلام کی رہائش گاہوں کا مرکز جو نپور علمی ادبی شاہکار بن گیا تھا۔ اور اس کو شیراز ہند کہا جانے لگا تھا۔

ابراہیم شاہ کے تعلق سے لکھا گیا ہے کہ یہ بادشاہ عقل و فہم اور علم و فضل کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھا۔ اس کے عہد حکومت میں ہندوستان کے عالموں فاضلوں کے علاوہ ایران اور توران کے علماء بھی جو نپور میں آتے رہے۔ بادشاہ نے ہر طرح سے ان کی دلجوئی فرمائی اور انہیں اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کا سامان بہم پہنچایا تھا۔ اس کے دربار میں پڑھے لکھے لوگوں اور علماء و فضلاء کی ایسی جماعت تھی جس کی تعداد کا شمار نہیں اور شہر جو نپور ایک علمی مرکز بن گیا تھا۔

علمائے کرام کی اتنی بڑی جماعت میں ایک بہت بڑی شخصیت کے مالک تھے حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی۔ ان کو ”ملک العلماء“ کا خطاب حاصل تھا۔ ان کے علم وفضل اور عالمانہ صلاحیتوں کا ہر شخص لوہا مانتا تھا۔ قاضی صاحب کا آبائی وطن تو غزنی تھا لیکن ان کی نشوو ونما دولت آباد دکن میں ہوئی تھی۔ بادشاہ قاضی صاحب کے علم و فضل کا بڑا قدردان تھا اور ان کا بہت خیال کرتا تھا۔

قاضی شہاب الدین دولت آبادی کو جس قدر شہرت حاصل تھی وہ ایک الگ امر ہے مگر جب حضور قطب المدار کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا تو ان کی شہرت کا ستارہ معراج کمال پر پہنچ گیا تھا۔

قاضی صاحب کی مشہور تصانیف یہ ہیں: حاشیہ ہندی ، بدیع البیان، فتاوی ابراہیم شاہی ،تفسیر فارسی المعروف بحر امواج اور رسالہ مناقب سادات و غیر ہم۔

علم ظاہر نے علوم باطن کے قدموں پر سر رکھ دیا

مؤرخین نے تحریر کیا ہے کہ حضرت سید بدیع الدین قطب المدار جو عظیم رہبر راہ شریعت وطریقت تھے۔ شرعی مسائل، علوم فقہ اور تعلیم مصطفیٰ کے بیش بہا خزانوں کے مالک تھے۔ اگر فقہاء اور علمائے ظاہر نے سوالات کئے تو ان کو اطمینان بخش جواب دیا گیا اور اگر اہل باطن نے کوئی عریضہ پیش کیا تو ان کی تسکین فرمادی گئی۔ تمام تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ فقہاء اور علماء ظاہر نے ہمیشہ ہی اولیائے کاملین اور اہل تصوف کی کارگزاریوں پر سخت اعتراضات کئے ہیں۔ فقراء کاملین کے خلاف بادشاہوں کے کان بھرتے رہے۔ مگر جب سچائیاں سامنے آئیں اور حقیقتوں کی روشنی دکھائی دی تو ان علماء ظاہر کو اپنی ناکامیوں اور خامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے راہ تلاش کرنا پڑی۔

حضرت قطب المدار ایک عرصہ دراز تک جونپور میں قیام پذیر رہے۔ اس اثناء میں حضرت قطب المدار سے اکثر کرامتوں کا ظہور ہوتا رہتا تھا۔ ظاہر ہے وہ معاملات جو انسان کی عام زندگی سے کچھ ہٹ کر ظاہر ہوں تو اس کی طرف لوگوں کی توجہ کچھ الگ سے ہوتی۔ حضور مدار پاک سے ظاہر ہونے والی کرامات کا ذکر جو نپور کے شاہی محل تک پہنچتا رہتا۔ بادشاہ خود مدار پاک کا بہت بڑا عقیدت مند تھا۔ مگر ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی ابتداء میں بوجہ کمال تصرفات آپ کی ولایت کے قائل نہ تھے اور بادشاہ سے بسبب قربت اور مشیر سلطنت کچھ نہ کچھ کہا کرتے تھے مگر بادشاہ خود صاحب علم اور اہل باطن تھا اور اس کو حضرت قطب المدار سے سب سے زیادہ عقیدت تھی اس لئے کسی بات کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ ملک العلماء قاضی شہاب الدین نے آخر میں دو سوال حضرت قطب المدار کی خدمت میں تحریر کر کے بھیجے ملک العلماء کی یہ خام خیالی تھی کہ جواب اگر شریعت مطہرہ کے تعلق سے ہٹ کر اگر صرف صوفیانہ لب و لہجے میں ہوں گے علماء ظاہر کے رو برو شکایت کا موقع ہاتھ آجائے گا۔ مگر حضرت قطب المدار نے جو محققانہ جوابات دیئے ہیں تو قاضی صاحب حیران و ششدر رہ گئے اور فوراً ہی بارگاہ مدار پاک میں حاضر ہو کر تائب ہوئے اور معافی طلب فرمائی پھر سلسلہ مداریہ میں داخل ہو کر حضور مدار پاک کو اپنا دینی و دنیاوی رہنما تسلیم کر لیا۔

دو سوال اور ان کا محققانہ جواب

ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے حضور مدار پاک سے جو دو (۲) سوالات کئے ان سوالوں کو مع جوابات کے تذکرہ نگاروں نے اپنی اپنی تصانیف میں بڑے فخر کے ساتھ تحریر کیا ہے جن سے حضور مدار العالمین کی خدادا صلاحیتوں ، آپ کے مقام ومرتبے، ولایت کے اعلیٰ مقام، خالق کا ئنات کی جانب سے عطا کئے گئے بے شمار علوم کا خزانہ اور مولائے کائنات علی مرتضی علیہ السلام کی تعلیم و تربیت کی سچائیوں پر مہر ثبت ہو جاتی ہے۔

فارسی تذکرہ نگاروں نے اخبار الاخیار، اخبار الاصفياء ، خزينة الاصفياء ، نجات الرشید اور بحر ذخار میں بڑی ہی تفصیل سے تحریر فرمایا ہے۔ عربی زبان میں نزہت الخواطر، الكواكب الدریہ، وغیرہ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اور اردو تصانیف میں تذکرہ نگار قاضی اطہر مبارک پوری نے دیار پورب میں علم اور علماء حکیم فرید احمد عباسی نقشبندی نے کتاب مدار اعظم میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ قاضی صاحب کے سوال اور مدار پاک کے جوابات کو تحریر کیا ہے۔ویسے تو بادشاہ ابراہیم شاہ شرقی قاضی شہاب الدین سے بہت زیادہ عقیدت و محبت رکھتا تھا مگر جب قاضی صاحب حضور مدار العالمین کے مرید و خلیفہ ہو گئے تو بادشاہ کی چاہت میں اور اضافہ ہو گیا ۔ حال یہ تھا کہ شاہی محل میں قاضی صاحب چاندی کی کرسی پر بیٹھتے تھے۔

کتاب تاریخ فرشتہ کے صفحہ نمبر ۸۷۷ پر محمد قاسم فرشتہ نے ایک واقعہ تحریر کیا ہے:

ایک بار قاضی صاحب سخت بیمار پڑے۔ تو بادشاہ ان کی مزاج پرسی کیلئے گیا۔ ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد بادشاہ نے ایک پیالہ پانی کا طلب کیا۔ پانی جب آ گیا تو ابراہیم شرقی نے اس کو قاضی صاحب کے سر پر سے تصدق کر کے خود پی لیا اور کہا کہ اے اللہ جو مصیبت قاضی صاحب کے سر پر پڑی ہے اس سے انہیں نجات دے دے اور مجھ کو اس مصیبت میں ڈال دے۔ تا کہ قاضی صاحب صحت یاب ہو جا ئیں ۔ اس واقعہ سے بادشاہ کے کردار اور عقیدت و محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مخدوم سید جہانگیر اشرف سمنائی بھی اُس وقت جو نپور ہی میں تشریف فرماتھے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری حقیقت بتلائی ۔ حضرت مخدوم نے حضور سیدی قطب المدار کے ظاہری و باطنی کمالات و مقامات کو تفصیل سے بیان کیا اور ان کے دل و دماغ کو منور کر کے فرمایا کہ تمہارے لئے اسی میں فلاح و بہبودی ہے کہ بلا توقف نیاز مندی و اخلاص کے ساتھ حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر تقصیرات کرو اور جب حضرت والا کو یہ معلوم ہوگا کہ تم اس حقیر اشرف سمنانی کے پاس آئے ہو تو بہت توجہ و مہربانی فرمائیں گے۔ چنانچہ ملک العلماء قاضی شہاب الدین نے اپنے ظاہری و باطنی خیالات کو حضرت مخدوم کی خاص توجہ سے درست کیا اور بہت ہی بے چینی و عقیدت و محبت کے ساتھ حضور اقدس سید بدیع الدین احمدقطب المدار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تقصیرات گذشتہ کی معافی چاہی اور سلسلہ عالیہ مداریہ میں داخل کرنے کی درخواست کی حضور اقدس نے آپ پر نہایت شفقت و محبت فرمایا اور سلسلہ کی پاک برکتوں و نسبتوں سے سرفراز فرما کر اجازت و خلافت سے نوازا۔ یہی ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی ثم جو نپوری ہیں جو حضرت قطب المدار کے سامنے بے اختیار سجدہ کرنے پر کفر کا فتوی دیا کرتے تھے لیکن جب قاضی موصوف حضرت قطب المدار کے حضور میں حاضر ہوئے اور آپ نے چہرہ مبارک سے نقاب الٹی اور ملک العلماء قاضی شہاب الدین کی نظر روئے انور پر پڑی تو آپ نے ہوش و حواس کھو دیئے اور بے ہوش ہو کر سجدہ میں گر گئے اور جب ہوش آیا تو کہا کہ یا نور الانوار میں اپنی غلطیوں پر توبہ کرتا ہوں اور معافی کا خواستگار ہوں۔ سیف زبان اور کن فیکون کا مظہر تھے جو کہتے تھے فوراً ہو جاتا تھا۔

جواب مکتوب سید بدیع الدین زنده شاه قطب المدار

هو الموجود! برادرم قاضی شہاب الدین ابن شمس عمر دولت آبادی کو معلوم ہو کہ مکتوب آن برادر نبیرۂ سید المرسلین سید طاهر دام سیادتہ و نظافتہ۔ اس درویش بے خویش کو پہونچا۔ آپ کے خط میں ایسا دیکھا گیا کہ لوگوں سے سنا جاتا ہے کہ مخصوص ملاقات حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بے واسطہ بحسب ظاہر آپ کو میسر آئی ، یہ امر نہایت عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے اور کوئی شخص اُس بند دروازے کو نہیں کھولتا کہ کیونکر ہوئی۔ دوسرے یہ کہ العلماء ورثۃ الانبیاء سے مراد یہی علم جو ہم نے حاصل کیا ہے یا کوئی اور علم مراد ہے ، ان دونوں باتوں کا جواب دیگر مطمئن فرمائیے۔

الجواب بالصواب:

اے برادر عوام کو حضرت الوہیت کے خواص واسرار کا جاننا بہت ہی مشکل ہے۔ آگاہ ہو کہ وہ لوگ خانقاہ عدم کے گوشہ نشین اور نفخت فی من رحی کے وسیع میدان کے شہسوار ہیں اور لوگوں کو ان کے اسرار وامور مخفیہ میں کچھ دخل نہیں، چونکہ حضرت الوہیت کے لم یزل بارگاہ قدس میں قرب و اختصاص کی خلعت فاخرہ اور عطیہ عظمی سے سرفراز ہیں اور اپنے حدوث وفنا سے بیگانہ ہیں۔ وہ جبرئیل علیہ السلام کو اپنی رکابداری میں نہیں لیتے اور نہ میکائیل علیہ السلام کو اپنی حاشیہ برداری میں قبول کرتے ہیں۔ ایک قدم میں دونوں عالم سے نکل جاتے ہیں اور صحرائے الوہیت اور عالم لامانی میں جو ایک لامحدود غیر متناہی ہے جولانگری کرتے ہیں خداوند قدوس کی بارگاہ میں شب و روز بسر کرتے ہیں اور ”یمحو مايشاء ويثبت“ پڑھ کر نام و نشان جمیع مخلوقات سے بیگانہ رہتے ہیں۔

حق سبحانہ تعالیٰ اس قوم کی عزت کو لوگوں سے محفوظ و مامون رکھتا ہے مگر جس کو چاہے ”ان مقاليد السموات والارض“ اس کے واسطے خاص ہے یہ درویش بے خویش درہائے بستہ کھول رہا ہے اور ”مامور بامر الله“ ہے اور ”لا غالب“ سے دکھلاتا ہے کہ اس کا حکم ہے اور تم نے اس کو پڑھا اور سنا ہو گا کہ حضرت سید حیدر الغالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ولادت سے کم و بیش دو سو سال قبل ہی حق سبحانہ تعالی کے حکم سے متمثل ہو کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو شیر کے سامنے رہائی دلائی تھی۔ پس مقربان بارگاہ الوہیت کو اس وجود عنصری کے بعد ہر وقت تصرف رہتا ہے وہ کبھی تو لباس عنصری پہنتے ہیں اور کبھی وجود مثالی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی مناجات کے وقت موجود تھے اور جب پوشیدہ باتیں خداوندعالم نے شب معراج میں ”قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنی“ کے مقام پر حضرت رسالتمآب فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائی تھیں اُس وقت بھی وہ لوگ سن رہے تھے اور اصحاب صفہ کے درویشوں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مصافحہ کرتے تھے اور حیات و ممات میں ان کے ساتھ اور اب بھی ہیں اور وہ کل کو پاچکے ہیں جز کی کیا حقیقت ہے۔ اب آپ پر اس سوال کا جواب کما حقہ واضح ہو گیا تو

دوسرا سوال آپ کا یہ ہے:

(۲) جواب: العلماء ورثة الانبياء سے کون اور کس علم کے علماء مراد ہیں؟

واضح ہو کہ حضرت مردانِ حق اور بادشاہ کشان میخانہ مطلق بار یافتگان حرم و شیفتگان پر نوجمال بے مثال معشوق حقیقی قبل اس کے بفوائے منطوق لازم الوثوق حضرت ”سبحنه تعالى يخرج من بين الصلب والترائب“ عدم کے نہاں خانہ سے منزل وجود التسلیم نے مساکین کے ساتھ خدا تعالیٰ سے شرکت کی درخواست فرمائی ہے۔ اس اہم نکتہ کو جو سمجھا سو سمجھا۔ تک پہونچتے ہیں اول میں روز میثاق کو بھی جلیل الجبار اور ایزد لایزال کی طرف سے بلا حرف وصوت صدائے الَستُ بِرَبِّكُمُ سنتے تھے اور ہنوز اس کی یاد ان کے سینہ عرفان سے محو نہیں ہوئی ہے بلکہ وہی حالت اس وقت تک ان پر طاری ہے ان کے مکان میں نہ ماضی ہے نہ مستقبل جو کچھ ازل و ابد کی کتاب میں موجود ہے۔ ان کے اذہان صافیہ پر کالشمس في نصف النہار روشن و ہویدا ہے۔ یہ میراث صرف انبیاء علیہم السلام ہے اور مواہب الہیہ اور اسرار باطنیہ سے ہے تحصیل اکتساب سے نہیں ملتی ہے۔

اور موافق ان من العلم المكنون لا يعلمها الا الله والعلماء بالله مخفی و متعجب ہے۔ یہ حضرات جو کچھ لوح محفوظ و مکنون میں ہے معائنہ و مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کی نظر کے سامنے ہے اور اس سے واقف و مطلع ہیں ۔ ازل سےلیکر بہشت و دوزخ میں داخل ہونے تک جو کچھ ہوا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے از ماہ تا بماہی جانتے ہیں اور کل و پرسوں کے حالات سے واقف ہیں جیسا کہ وَامْتَازُ و الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُون۔ اہل جنت واہل دوزخ کے ظہور کے واسطے ان کے محبت کرنے والوں کو باہم مجتمع نکالو اور آج ان مخلصوں سے مجرموں کو علاحدہ کر دو تاکہ سعید و شقی پہچانے جائیں۔ یہ حضرات عالم خدایگانی پر محیط اور ”العلماء ورثة الانبیاء“ کے لقب سے ملقب ہوئے کیونکہ وہی لوگ ذرا سے علم پر مغرور اور ذرا سے زہد و تقویٰ سے مسرور اور ادنیٰ سے شکر پر مشکور ہو جاتے ہیں۔ اس کا کیا علاج عموماً زمانے کا یہی حال ہے۔ اور جو علم آں عزیز نے تحصیل کیا ہے اس کے وسیلہ سے اس سر مخفی اور راز پوشیدہ تک پہونچنا ممکن نہیں کیونکہ اس سر مخفی کے معنی اور اس کا بیان طویل ہے اور یہ امر مسلم ہو چکا ہے کہ علماء ظاہر یہ اقوال و حقائق سننے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے بالکل جدا کر دیا۔ علاوہ بریں بعض اولیاء مستہلک راس سخت راہ سے۔

مکتوب پڑھ کر ملک العلماء کی حیرت

یہ واقعہ ابراہیم شاہ شرقی جونپوری کے دور کا ہے جب حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ قطب المدار متصل کوتوالی جہاں عبادتی روضہ بنا ہے وہیں مقیم تھے۔ ملک العلماء قاضی شہاب الدین مشیر سلطنت شرقیہ اور بورے شمالی ہند حدود سلطنت شرقیہ کے قاضی القضاۃ تھے ۔ جو کسی حکومت میں سب سے بلند پایہ منصب و مرتبہ ہے۔ آپ چودہویں صدی عیسویں کے شمالی ہند میں سلطنت شرقیہ جونپور کی طرف سے سیاہ وسفیدکے مالک تھے بلکہ مختار کل تھے۔ آپ حضرت قطب المدار کا یہ جواب پڑھ کر بے حد متحیر اور سراسیمہ ہوئے۔ لیکن غرور مرتبہ و منصب کو یکبارگی دل و دماغ سے دور نہ کر سکے۔ اس لئے انہوں نے چاہا کہ حضرت سیدی قطب المدار رضی اللہ عنہ کو گھر پر بلا کر سعادت و ملازمت سے مستفیض ہوں اور اپنی تقصیرات کی معافی چاہیں چنانچہ یہ شعر خدمت اقدس میں بھیجا

اے نظر آفتاب پیچ زمان دارت
کیں درودیوار ما از تو منور شود


چونکہ حضور والا جاہ قطب المدار کشف صریح کے مالک تھے قاضی صاحب کی نیت اور دل کا حال آپ پر روشن ہو گیا۔

یہ شعر جواب میں بھیجا ه
پر تو خورشید عشق برہنہ ناہد ولے
سنگ بیک نوع نیست تا همه گوهر شود

اس شعر کے بعد ملک العلماء قاضی شہاب الدین بہت ہی گھبرائے اور چونکہ حضرت معرض قتل میں آگئے اور اپنے مقصود و مطلوب تک نہیں پہونچے کیونکہ مقام “العلماء ورثة الانبیاء“ پر نہ تھے عمل کے اقسام میں سے اگر سب کو بیان کیا جائے تو دفتر ہو جاوے۔ مقصود تمام عالم سے باری تعالیٰ عزاسمہ ہے جو بیان کیا جا چکا ہے۔

بعض علماء ظاہر نے جب یہ خوب سمجھ لیا کہ یہ علم بغیر دستگیری مرشد کامل حاصل نہیں ہو سکتا اور بغیر صفائی باطن یہ دروازہ ہرگز نہیں کھل سکتا اور اپنی استعداد اور قابلیت سلوک صوفیہ واہل صفا نہ پائی یا علوم ظاہر کی تحصیل میں مشغور ہو گئے اور غم آخرت دل میں لے گئے اور آخر میں اس علم کو حجاب الاکبر پایا ”العلماء ورثۃ الانبیاء“ کے یہی معنی ہیں اور جو علم آپ نے حاصل کیا ہے وہ کسبی ہے جو محنت شاقہ وجد و جہد بیشمار سے حاصل ہوا ہے۔ اور علم ”ورثة الانبیاء“ جو وہبی ہے نہ محنت سے نہ مشقت اگر چہ اہل علوم ظاہریہ کے نظریہ میں رنج و مشقت معلوم ہوتی ہے۔ مگر فی الحقیقت یہ افضال و مواہب الہیہ اور الطاف ربانیہ اور حکم لامتناہی ہے جس کو یہ مقام حصال ہوا اُس کے لئے از بالائے عرش تا زیر زمین سب اُس کے زیر قدم ہے۔ بارگاہ الوہیت تبارک و تعالٰی سے یہ جنت بخشی اور دوزخ آشامی پر مقدم کر دیئے گئے ہیں۔ پشت پدر و رحم مادر سے با میراث آئے ہیں اور قول سبحانہ تعالی علم ادَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلْئِكَةِ فَقَالَ انْبِتُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ. کے مصداق و ہی مرادان بارگاه ایزد لم یزل ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں درویشوں کی ایک جماعت تھی جو اصحاب صفہ کے لقب سے ملقب تھے۔ جب سلطان لولاک لما خلقت الافلاک اظهرت الربوبيت سرکار کائنات علیہ الصلوة والسلام نے جس کا مرتبہ و مقام اور منزل اللہ پاک کے نزدیک بلند دیکھا تو ان مسکینوں کی جانب متوجہ ہوئے اور جناب الہی میں دعا فرمائی اللهم احييني مسكينا وامتني مسكينا واحشرني في زمرة المساکین برحمتک یا ارحم الراحمين. امین غور فرمائیے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام۔

شرقی حکمراں کی بارگاہ قطب المدار میں حاضری اور ایک عظیم الشان عمارت کی تعمیر

۸۳۸ھ میں جب ابراہیم شاہ شرقی جونپوری نے تیسری مرتبہ کالپی پر حملہ کیا اور وہاں کے گورنر قادر شاہ جو کہ محمد تغلق کا ناظم تھا اس کو شکست دی اور کچھ دنوں کالپی میں قیام کرنے کے بعد مکن پور شریف پہنچا حضور مدار پاک کی ملاقات کو مگر اس کو خبر مل گئی مدار پاک دنیا سے تشریف لے جاچکے ہیں، تو اس نے ان کے مزار شریف پر اپنی حاضری درج کرائی۔ مزار شریف پر ایک خوبصورت ساحجرہ تعمیر کرایا اور اس کے چاروں طرف چہار دیواری بنوائی۔
اس ضمن میں فارسی تصنیف تذکرۃ المتقین کے صفحہ نمبر ۱۸۰ پر تحریر ہے

روضہ شریف
این قبہ پر نور تعمیر کنایندہ سلطان ابراہیم شرقی جونپوری ست- در اصل درینجا تالابی بود داروغہ سے مداری یا عزیز پیہم می آمد- وقتیکہ حضرت قطب المدار قدس سرہ بادشاہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ و باتمام رونق افروز شدند – آن ندا از رسیدن آنجناب سکون گرفت – حضرت قدس سره از حجرا بیان والا شان مخاطب شده ارشاد فرمودند کہ مدفن خویش عین جاشد نیست کہ تالاب از مشیت ایزدی خشک گردید۔ پس جانجا حجر و تیار ساختہ گشت – دوران حجره تا حیات آنجناب بیاد حق مصروف ماندند و ہمون جا مدفون ہم شدہ۔ سلطان ابراہیم شرقی جونپوری موصوف کہ یکی از مریدان آنحضرت بود بر مرقد منور حاضر گردید بنابر بنای گنبد و خانقاه عالی اجاز تے داد تعمیر گنبد آغاز شد- وقتیکہ کہ بتقریب عرس آنحضرت حاضر شد بر ملا زمان خویش غضبناک گردید و گفت کہ حکم ما بنا بر گنبد عالی و عمارت بلند بود- ایں جہ کرده اید باز از سرنو عمارت نفیس تیار کرده اید مہتم عمارت دست بستہ عرض کرد کہ عجیب معاملہ ایست کہ درین حضرت اجازت عمارت خالی نیست از روئے بشارت ایں قدر تیار نموده شد- چنانچه سلطان ابراهیم بشارت شد۔ بس آن ہمہ ہم از معرض عتاب شاہی خلاصی یافتند- ظاہرا کار سنگے نیست مگر قبہ انور کہ سراسر نورست چنانکہ میضر ماند-

مرقدش فیض مجسم قبہ اش نور جسیم
حضرتش خير المرقد ………..

معنی نور علی نور بیاض گنبدش
مصرعہ بایش …………..

خینا ہی بنجره بنگر کہ ہر اثنین آن
عینک …………………

شرقی دور حکومت کی عجیب کاریگری
ابراہیم شاہ شرقی جونپوری کے بنوائے ہوئے مقبرے کے بارے میں بڑی تفصیل کے ساتھ تذکرہ نگاروں نے بحث کی ہے۔ ایک جو عجیب سی حقیقت سامنے آئی وہ یہ ہے کہ مقبرے کے بالائی حصہ پر جو گنبد تعمیر ہے اس کا سایہ دیواروں پر رہتا ہے زمین پر نہیں نظر آتا ہے۔ صبح دو پہر یا شام سورج کسی طرف ہو گندب کا سایہ زمین پر پڑتے نہیں دیکھا گیا ہے۔

بادشاہ کا بنوایا ہوا مقبرہ چاروں طرف دیواروں سے مزین ہے اور ہر ایک دیوار کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی بالکل برابر ہے۔ مقبرے کی ایک دیوار ۳۱.۵ فٹ لمبی اور ۱۵ فٹ اونچی ہے۔ اسی طرح چاروں دیواروں کا طول و عرض برابر ہے۔ مقبرے کے باہر ایک بہت بڑی چہار دیواری ہے جس کی ایک دیوار کی لمبائی ۷۰ فٹ ہے اسی طرح چاروں دیواروں کی لمبائی برابر ہے۔ یہ ایک بہت بڑا احاطہ ہے جس کو حرم کہا جاتا ہے۔ آستانہ عالیہ مدارالعالمین پر حاضری دینے والوں کی رسائی اسی حرم تک ہوتی ہے کیوں کہ مقبرے شریف میں اندر کوئی نہیں جاتا ہے۔ حرم میں بیٹھ کر ہی اذکار و وظائف اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ مقبرے میں ہر دیوار میں بڑی بڑی جالیاں نصب ہیں جن کے خوبصورت روزنوں سے اندر مزار مبارک کی زیارت کی جاتی ہے۔

حرم کی چہار دیواری میں ایک خاص دروازہ بادشاہ ابراہیم شاہ شرقی نے لگوایا تھا مگر عرس اور میلے میں بھیڑ بہت زیادہ ہوتی اور لوگوں کو حاضری دینے میں بڑی مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا تھا۔ تو کانپور کے ضلع مجسٹریٹ مسٹر بیرسٹن نے جنوبی دیوار میں ایک دروازہ اور لگوا دیا تھا اس طرح اب حرم میں آنے اور جانے کیلئے دو دروازے ہیں۔

كتاب تذكرة المتقین فارسی تصنیف کے صفحہ نمبر ۱۸۲ پر تحریر ہے:
که گرد روضہ اطہر محاصره است در زمانہ حضرت قطب المدار بود مگر خام شمس نانی تکیہ بر حصازده ایستاده مے ماند- بجز اوقات خمس نماز از جانجب بدے کسی را بلا اجازتش مجالے نبود کہ اندر شدی ایں حصار نیز از اہتمام میرسید صدر جهان کہ یکی از مقربان سلطان ابراہیم شرقی و از مریدان خصوصیت اختصاص آنحضرت قدس سره بود تعمیر شد ودروے یک دروازه پختہ نصب ساختہ گشت در سنہ ہشت نصد و چہل مقبره شریف تعمیر گردید و چہار دیوارسی روضۂ اقدس هم در ہمون ایام با انجام رسید و دروازه جدید جنوب در یہ عہد مسٹر بریسین کلکٹر بہارد مجسٹریٹ ضلع کانپور تیار نموده شد تا رفت-

روضہ مبارک کے تعلق سے ابراہیم شاہ شرقی کی کار کردگی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تصنیف ” مدار عالم کے صفحہ نمبر ۱۲ پر الحاج سید ظہیر المنعم بن میاں تحریر فرماتے ہیں:
حضرت ابراہیم شاہ شرقی جونپوری کو عقیدت سرکار مدار العالمین قدس سرہ سے جو رہی وہ کچھ غیر معمولی نہ تھی جس کے لکھنے کو ایک الگ کتاب ہو۔ تیسری بار جب کالپی میں قادر شاہ کو جو محمد تغلق کا ناظم تھا شکست دے کر آیا تو آپ کا وصال ہو گیا تھا اور آپ کے جانشین خواجہ سید محمد ارغون موجود تھے۔ یہاں پہنچ کر اس نے روضہ شریف اور متعلقہ عمارات کی تعمیر کرنے کا بندو بست کیا۔ تعمیرات کے علاوہ پانچ سو بیگہ آراضی آستانہ عالیہ کے نام وقف کی اور اپنے معتمد خاص محمد نظام کو چھوڑ کر جو نپور واپس آگیا۔

صفحہ نمبر ۱۳ کتاب مدار عالم میں مصنف نے آگے تحریر فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ :
محمد نظام مداری کی معرفت سید ابو محمد ارغون کی سجادہ نشینی کے دور میں روضہ منورہ کی تعمیر ہوئی۔ صدر دروازے پر محمد نظام کے نام کا کتبہ سن تعمیر کے ساتھ نصب ہے۔ یہ عمارت ۸۶۸ھ سے ۸۷۴ھ تک تعمیر ہوئی تھیں۔ اس آراضی کا تملیک نامہ جونپور سے خواجہ سید ابو محمد ارغون کے پاس بھیجوا دیا گیا تھا۔

تاریخی اختلاف اور اس کا جواب
خانقاہ عالیہ مدار العالمین کے صدر دروازہ یعنی حرم اول کے دروازے پر جو کتبہ نصب ہے اس میں عمارت کی تعمیر ۸۶۸ سے ۸۷۸ھ تک تعمیر ہونا تحریر کیا گیا ہے جب کہ مورخین نے جب بادشاہ ابراہیم شاہ شرقی جو نپوری کی تاریخ وفات تحریر کی تو کسی نے ۸۴۴ھ اور کسی نے ۸۴۰ھ تحریر کی ہے۔ اس طرح کسی نے اس کی حکومت کی مدت ۴۰ سال تو کسی نے ۳۶ برس تحریر کی ہے۔ اس طرح بادشاہ کی وفات کے ۲۰ برس کے بعد عمارت کا تعمیر ہونا لکھا ملتا ہے جو کتبہ میں تحریر ہے۔ مگر بادشاہ ابراہیم شاہ شرقی کا فرمان جس میں اس نے پانچ سو بیگہ آراضی وقف کرنا اور عالی شان عمارت تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا وہ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ یہ فرامین حضور مدار العالمین کے وصال مبارک کے فوراً بعد یعنی ۸۳۸ھ کے ہی ہیں اور ان فرامین پر یہی تاریخیں ثبت ہیں۔

ایک مدلل تحقیق
مندرجہ بالا تاریخیں جو تعمیرات سے تعلق رکھتی ہیں بلا شک و شبہ صحیح اور درست ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم شاہ شرقی بادشاہ کی حیات میں ہی مقبرہ شریف بن کر تیار ہو گیا تھا البتہ چہار دیواری کا جو حصہ باقی رہ گیا تھا اس کی تعمیر بعد میں ہوئی ہے۔ اور جب چہار دیواری بن گئی اور اس میں ایک بڑا سا دروازہ نصب کر دیا گیا تو اس دروازے پر جو کتبہ لگایا گیا وہ چہار دیواری کی تعمیر کی تاریخ بیان کرتا ہے۔

چونکہ بادشاہ کے فرامین بتاتے ہیں کہ حضور مدار العالمین کے رحلت فرمانے کے بعد جب بادشاہ نے مزار مقدس پر حاضری دی تو اسی وقت ایک عالی شاہ حجرہ تعمیر کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا جو بادشاہ کی زندگی ہی میں پائے تکمیل تک پہونچ گیا تھا۔

Leave a Comment

Related Post

Top Categories