بہار کو جہاں ایک طرف قبل مسیح اور بعد مسیح اکثر علاقہ ہندوستان کی راجدھانی ہونے کا شرف حاصل رہا ہے وہیں روحانی اعتبار سے بہار معاصر دینی و مذہبی حرکات و سکنات کا بھی کلیدی محور رہا ہے۔ غرض کہ بہار سناتن، جین اور بودھ افکار و خیالات کے نشو و نما اور ارتقا میں بھی مرکزی رول ادا کرتا رہا ہے۔ عہد وسطی میں جب اسلامی افکار و عملیات مطلع عالم پر نمایاں ہوئے اور مشایخ صوفیہ کا رخ ہندوستان کی جانب ہوا تو شمال سے مشرق کی جانب بڑھنے والا ہر قدم بہار سے گذرا اور ان میں سے بعض اہم شخصیات نے اسی کو اپنا مرکز عمل بنایا چنانچہ تقریباً تمام سلاسل طریقت کے اہم مراکز یہاں قائم ہوئے۔ چشتی اور سہروردی سلسلے کے نہایت اہم مراکز یہاں اس زمانے میں نہ صرف قائم بلکہ مضبوط اور معروف ہو چکے تھے جس زمانہ میں بدایوں اور دہلی میں مراکز جاذب نظر ہو رہے تھے۔ فردوسی سلسلے کا تو بہار دارالسلطنت رہا۔ شطاری سلسلہ کے بانی شیخ عبداللہ شطار کے بعد دوسرا اہم نام حضرت قاضن علا شطاری کا ہے جن کی وجہ سے بہار سلسلہ شطاریہ کا سب سے بڑا مرکز بنا اور آج سلسلہ شطاریہ کی 99 فی صد شاخیں انہیں کے توسط سے دنیا میں نمو پذیر ہیں۔ حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاکباز کی بدولت بہار سلسلہ قادریہ اور مشرب ابو العلائیہ کا بھی مرکز نگاہ بنا۔ آج سلسلہ مداریہ کے حوالے سے بہار پر ایک سرسری نظر ڈالنا مقصود ہے۔ سلسلہ مداریہ کے مزاج و آهنگ اور شجرے پر بحث کسی دوسرے موقع پر یہاں صرف فیضان کا ایک جائزہ پیش ہے۔
سلسلہ فردوسیہ کا شمس بازغہ نماز ظہر کے بعد جب صلوۃ وسطی کی خبر دینے کی جانب رواں دواں تھا تو سایہ روحانی دو مثل ہورہا تھا یعنی فردوسیہ کے ساتھ ساتھ مدار یہ بھی زمانہ کے لیے سبب توقیت بن رہا تھا۔ اگر مرآۃ الاسرار اور بحر زخار کی اطلاع پر اعتبار کریں تو بہار وہ سرزمین ہے جہاں حضرت مدار کی آمد کی پیش گوئی کی جارہی ہے اور وہ بھی حضرت مخدوم جہاں کی زبان مبارک سے، ملاحظہ ہو
“عن قريب درين سر زمین شیخ بدیع الدین قطب المدار ميرسيد”
مرآة الاسرار، بحرز خار اور گنج ارشدی سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ بہار میں ایک ایسی ذات گرامی آسودہ ہے جو ذو بحرین ہے یعنی فردوسی اور مداری دونوں فیوضات سے بہرہ ور ہے اور وہ ذات کریمہ حضرت مخدوم حسین بن معز نوشہ توحید/ سمندر توحید بلخی فردوسی (م841ھ) کی ہے۔
:صاحب مرآة الاسرار فرماتے ہیں
کہتے ہیں کہ آپ نے نصف کتاب عوارف المعارف حضرت شیخ شرف الدین ( مخدوم جہاں ) سے پڑھی تھی کہ آپ نے کمال جوہر شناسی سے ان کو نوشتہ توحید کہا۔ جب حضرت شیخ کی وفات کا وقت آیا تو شیخ حسین کو فکر لاحق ہوئی۔ آپ نے آنکھ کھول کر فرمایا، بابا حسین! فکر مت کرو، میرے بعد حضرت بدیع الدین شاہ مدار اس ولایت میں آئیں گے تم باقی نصف کتاب ان سے پڑھ لینا۔ چند سال کے بعد جب شاہ مدار جو نپور تشریف لائے تو آپ بہار سے روانہ ہو کر ان کی خدمت میں پہنچے۔ شاہ مدار کی عادت تھی کہ ہمیشہ برقعہ منھ پر رکھتے تھے۔ شاہ حسین کے آتے ہی انہوں نے برقعہ اتار کر فرمایا، آؤ توحید کے سمندر خوش آمدید، میں تمہارے انتظار میں تھا۔ شیخ حسین نے سرزمین پر رکھ یہ شعر فی البدیہہ کہا:
کہ میگوید کہ حق صورت نہ بندد
من اينك ديده ام ذات مصور
(کون کہتا ہے کہ حق تعالیٰ کی صورت نہیں ہے، میں اس وقت صورت حق دیکھ رہا ہوں۔) یہ سن کر شاہ مدار بہت خوش ہوئے اور ان کو بغل میں لے کر بہت نوازش فرمائی۔ اس کے بعد آپ نے نصف کتاب عوارف آنحضرت سے پڑھی اور روحانی فیوض بھی (ص.1232…….1233) حاصل کئے۔
:صاحب بحرز خار بھی اس اطلاع کو نقل فرماتے ہیں
چو جذبه بدو رسید نصف کتاب عوارف خوانده بود که شیخ شرف الدین او را نوشۀ توحید فرموده درین اثنا شيخ بمرض موت مبتلا شد او متردد گردید شیخ وقت اخیر چشم باز کرد و فرمود که عنقریب درین سر زمين شيخ بديع الدين قطب المدار میرسید نصف کتاب که باقی است از و خوابی خواند. چون قطب المدار بجونپور رسید وی از بهار خدمت قطب المدار را دریافت برخود رسیدن او قطب المدار فرمود بياسمندر توحید چیست در کنارش گرفت باقی عوارف بموجب اشاره وصيت شيخ شرف الدین از و بخواند و تربیت یافت.
:صاحب بحر ز خار ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں
شیخ مظفر بلخی کے بھتیجے ہیں، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی درگاہ کے صاحب سجادہ تھے ، آج تک آپ کی اولا د نسلاً بعد نسل اس سجادہ مشیخت پر متمکن ہے۔
:تحفة الابرار میں لکھتے ہیں
قطب المدار سے ملاقات اور تلقین پانے کا واقعہ اس طرح ہے کہ شیخ شرف الدین یحیی منیری رحمۃ اللہ علیہ نے عوارف المعارف کے کچھ اوراق کے درس نہ دیے اور فرمایا کہ ان اوراق کا پڑھنا کسی دوسرے بزرگ سے تمہارے نصیب میں ہے وہ ان اوراق کو دیکھتے ہی تم سے لے لے گا اور تم کو ان کا درس دے گا۔ جب آپ جون پور کے اندر حضرت قطب المدار کے حجرے پر پہنچے، اندر سے سید جمن کو آواز آئی کہ حسین آیا ہوا ہے، حاضرین میں جتنے بھی حسین تھے، سب نے اس صدا کو اپنے حق میں گمان کیا، پھر اندر سے آواز آئی کہ حسین معز بلخی آیا ہے ، آپ دور بیٹھے ہوئے تھے، حکم ہوا کہ قریب آؤ، جب کچھ قریب آئے ، تو اور زیادہ قریب آنے کا حکم ہوا، آپ نے شیخ سعدی کا یہ شعر پڑھا:
اگر يك سر موئے برتر پرم
فروغ تجلی بسو زد پرم
قطب المدار نے اس وقت فرمایا کہ تم سمندر ہو ، اسی وقت سے آپ کا لقب سمندری ہو گیا۔ اس لقب کے سوا اور کوئی لقب آپ کا نہیں ہے۔ شیخ شرف الدین کے لکھے ہوئے اوراق عوارف المعارف کو ملاحظہ فرماکر قطب المدار نے ان کا درس دیا اور خرقہ خلافت سے ممتاز فرمایا، رخصت کے وقت معانقہ کے بعد فرمایا، جو کچھ بدیع الدین کے سینے میں ہے، سینہ حسین میں موجود ہے۔ آپ کا مزار مبارک بہار شریف میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ (جلد سوم ص: 248)
:گنج ارشدی (حصہ چہارم ص: 147) میں گوہرستان مصنفہ شیخ عزیز اللہ بنارسی سے منقول ہے
شیخ حسین معز شمس بلخی مقتدائے وقت خود بود و پیشوائے ارباب توحید در روزگار پیوسته توحید بر زبان داشت و شیخ بدیع الدین مدار وے را سمندر توحید خواندی. (حاشیه وسیله شرف و ذریعہ دولت ، ص : 100)
مرآۃ الاسرار” اور ” بحرز خار کی مذکورہ روایت کی تائید مناقب الاصفیاء و گنج لایخفی“ اور ” مونس القلوب وغیرہ قدیم ماخذ سے نہیں ہوتی ہے۔ حضرت مخدوم جہاں کے وقت اخیر میں مخدوم حسین کا پیش مخدوم ہونا دو وجہ سے ممکن نہیں۔
اول۔ وصیت نامہ مخدوم جہاں جو اخیر وقت کا چشم دید حال ہے اس میں مخدوم حسین کا ذکر موجود نہیں۔
دوم۔ مخدوم حسین ہمیشہ سفر وحضر میں اپنے چا مولانا مظفر بلخی کے ہمراہ ہے اور وہ ان دونوں عرب میں تھے۔
ہاں یہ قرین قیاس ہے کہ حضرت شیخ بدیع الدین مدار اور حضرت مخدوم حسین نوشتۂ توحید بلخی کی ملاقات واقع ہوئی ہو اور ان کے بارے میں حضرت مدار نے سمندر توحید فرمایا ہو۔
بہار میں سلسلہ مداریہ کی دوسری اہم شخصیت حضرت شیخ جمال الدین المعروف بہ جمن مداری (جان من جنتی) کی ہے۔ آپ کا فیض آستانہ بمقام جلسہ ضلع پٹنہ مرجع خلائق ہے۔ حضرت شیخ جمال الدین شمال مشرقی ہندوستان میں سلسلہ مداریہ کے اولین شیخ ہیں اور آپ کی عظمت و بزرگی پر زمانہ گواہ ہے۔آپ سرخیل سلسلہ مداریہ کے سب سے مقرب مرید اور مایہ ناز خلیفہ ہیں۔ صاحب بحر ز خار ( جلد 3 ص: 237) فرماتے ہیں: حضرت قطب المدار کے افضل خلفا اور اعلیٰ مریدوں میں ہیں، مدتوں مرشد کی صحبت میں رہے، فیوض حاصل کیے اور صاحب ارشاد بن گئے ۔
:مرآة مداری میں شیخ عبد الرحمن لکھتے ہیں
جب شیخ مدار سے نعمت و خلافت حاصل کی ، شیخ شرف الدین احمد یحییٰ بہاری کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ایک مدت تک آپ کے آستانے پر مزار مبارک کے سامنے ایک تختہ بنا کر کھڑے رہے اور اپنی استقامت کے لیے دعا کرتے رہے، شیخ شرف الدین مخدوم بہار علیہ الرحمہ نے از راہ کرم عالم خواب میں آپ سے فرمایا کہ ہلسہ میں ایک طاقتور دیو ہے جو مخلوق کو ایذا پہنچا رہا ہے، اسے قتل کر کے استقامت حاصل کرو، حضرت نے اس جگہ پہنچ کر دیو کو قید کر لیا، زنجیر میں جکڑ کر پتھر کے نیچے ڈال دیا ، اب تک جو لوگ بھی آپ کے مزار کی زیارت کے لیے ہلسہ جاتے ہیں، ایک پتھر پر قدمرکھ کر جس کے نیچے وہ دیو قید ہے مزار مبارک تک پہنچتے ہیں۔
ایک دن شیر شاہ سوری با دشاہ ہندوستان آپ کی خدمت میں امتحان کرامت کے لیے پہنچا، دل میں سوچا کہ سخت جاڑے کے موسم میں اگر سید مجھے آم عطار کریں گے تو میں جان لوں گا کہ آپ کامل ولی ہیں۔ اس وقت حضرت کے ہاتھ میں آم تھا، آدھا آم کھا کر شیر شاہ سوری کے ہاتھ میں دیا، وہ آپ کی کرامت کا قائل ہو گیا، لیکن آم کو جوٹھا سمجھ کر نہ کھایا اور اپنے خادم کو دے کر رخصت ہو گیا۔ حضرت نے اپنے مریدوں سے فرمایا ، اگر بادشاہ اس جو ٹھے آم کو کھا لیتا ، تو اس کے فرزندوں میں حکومت باقی رہتی، لیکن اس کے نصیب میں یہ بات نہیں تھی ، وہ کیوں کھاتا۔
:تحفة الابرار کے مصنف لکھتے ہیں
آپ ستر پوشی کی مقدار ایک لباس کے علاوہ دوسر الباس نہ پہنتے (فقط النگی زیب تن کرتے ) اس بارے میں ارشاد فرماتے ، جس طرح میں عدم سے عریاں عالم وجود میں آیا ، اسی طرح مجھے قبر میں عریاں دفن کریں۔ ایک بزرگ نے اس مقام پر یہ شعر کہا:
ز مادر بر ہنه رسیدم فراز
به حاکم بر بنه سپارند باز
شیر شاہ سوری کے عہد حکومت میں 14 محرم الحرام کو وفات پائی۔ آپ غیر شادی شدہ دنیا سے تشریف لے گئے ، وفات کے بعد آپ کے منہ بولے بیٹے ملک آدم جانشین ہلوئے۔
شیخ آدم کے بیٹے شیخ عالم کے دور سجادگی میں بعہد شیر شاہ حضرت شیخ جمن مداری ہلسوی کے گنبد کی تعمیر نو ہوئی جس کا کتبہ ہنوز موجود
بسم الله الرحمن الرحيم
لا اله الا الله محمد رسول الله
تذکره مرمت ۸
گنبد بندگی حضرت میران سید جمن مداری قدس الله روحه بحضور بندگی میاں شیخ عالم آدم شاه جمن مداری در عمل حضرت سلیمانی شیر شاه سلطان خلد الله ملكه وسلطانه بر آورده دریا خان زنگی هود نو حانی خاص خيل التاسع والعشرون من ماه صفر ختم الله بالخير والظفر
سنه 950 کار فرمان شمس مداری
:ایک دوسرا کتبہ آپ کی درگاہ کی مسجد کا ملتا ہے جسے شیر شاہ کے بیٹے سلیم شاہ کے دور میں تعمیر ہوئی
يا مالك الملك لبانيه —– وقائله و كاتبه
بدرگاه ولی حق جمن شاه —– که او مردی زمردان خدا بود
بدور شه سلیم اکبران شاه —– که او حامی شرع مصطفی بود
بنای مسجد [ی] بنیاد مردی —– که از جان دوستدار مرتضی بود
خرد پرسید کیں شخصی که با نیست —– بگو نامش چه تاریخ از کجا بود
ز غیب آمد ندای کای خردمند —– بگو تاریخ و نام او رضا بود
ر ض ا ب و د —– سنه الف وثلاثه عشر بزار و سیزده
ا ۴ ۶ ۲ ۱ ۸ ۰[۰] ۲۰۰ —– ۱۰۱۳
آپ کے مریدین اور اور خلفا کا حلقہ کافی وسیع تھا لیکن امتداد زمانہ سے اس کی تفصیل پردہ خفا میں ہے۔ حضرت شیخ جمال الدین (جمن جتی) جان من جنتی بلسوی قدس سرہ سے حضرت شیخ قطب الدین بینائے دل جو نپوری کو بھی اجازت حاصل تھی اور مدار یہ سلسلہ کا فیضان جملہ سلاسل قطبیہ سے مالا مال خانوادوں میں جاری ہے۔ بہار شریف میں خانقاہ معظم کے قریب گنگن دولہا کا ایک ٹیلے پر آستانہ ہے وہ بھی آپ ہی کے خلیفہ ہیں اور مہاراشٹر میٹی کے کلیان میں آسودہ معروف مداری صوفی حاجی ملنگ ان کے خلیفہ ہیں۔
مدار یہ سلسلہ کا فیضان حضرت قاضن علا شطاری (م 901ھ) کے ذریعہ بھی کافی وسیع ہوا۔ آپ بانئی سلسلہ کے ممتاز خلیفہ حضرت شیخ حسام الدین سلامتی جو نپوری کے خلیفہ ہیں اور آپ کے ذریعہ پورے برصغیر میں اس سلسلہ کی اجازت پھیل گئی ہے۔ مدار یہ منعمیہ سلسلہ کا شجرہ بھی اسی واسطے سے رائج ہے۔
حضرت مخدوم منعم پاک عن حضرت دیوان خليل عن حضرت دیوان ابوسعید جعفر عن دیوان سید اہل اللہ عن حضرت سید نظام الدین بہاری عن حضرت سید نصیر الدین بہاری عن حضرت شیخ عبد السلام علن جونپوری عن حضرت حاجی حمید حصور عن شیخ ابوالفتح ہدية الله سرمست عن حضرت قاضن علا شطاری عن حضرت شیخ حسام الدین سلامتی جو نپوری عن حضرت سیدنا بدیع الدین مدار قدس اللہ اسرار ہم۔
بہار کی راجدھانی پٹنہ میں حضرت مدار العالمین کے ایک اور جید خلیفہ حضرت قاضی محمود کنتوری کا فیضان بھی پہنچا۔ حضرت قاضی صاحب کے صاحبزادے اور جانشیں شیخ ابوالحسن مٹھا مداری کے پوتے شیخ محمود مداری کنتور (اودھ) سے پٹنہ تشریف لائے اور لودی کڑہ میں قیام فرمایا۔ اس زمانے میں ایک نامور جوگی جئے کشن بہت معروف تھا۔ وہ آپ کا شہرہ سن کر آپ سے ملاقات کا مشتاق ہوا اور بعد ملاقات اس قدر معتقد ہوا کہ آپ ہی کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو کر حلقہ مریدین میں داخل ہو گیا۔ لودی کٹرہ میں شیخ محمود مداری کی مسجد حجرہ اور مقبرہ ہنوز موجود ہے۔
پٹنہ سیٹی کے سیٹی اسکول کے میدان کے ایک گوشے میں حضرت شاہ مٹھا کا مزار مبارک ہے۔ موجودہ سیٹی اسکول سے منگل تالاب کے علاقہ تک آپ ہی کی خانقاہ کا علاقہ تھا۔ آپ ہی نے ایک گڑھی کھدواتی تھی جو شیخ مٹھا کی گڑھی کہلاتی تھی۔ انگریزی دور سلطنت میں ایک انگریز افسر مینگل نام کا پٹنہ میں ذمہ دار تھا، اس نے شیخ مٹھا کی گڑھی کی نشاۃ ثاینہ کرائی تو اس کے نام سے منسوب ہو کر مینگلس ٹینک اور منگل تالاب کہلانے لگا۔
یہ شیخ مٹھا بھی مداری سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بعض روایت میں یہ ہے کہ حضرت شیخ مٹھا مداری کنتور سے یہاں تشریف لائے تھے اور قیام فرمایا تھا اور آج جہاں آپ کا مزار کہا جاتا ہے وہ دراصل ان کا چلہ تھا۔ واللہ اعلم۔
یہ بات قرین قیاس ہے اس لیے کہ شیخ محمود مداری کو بھی پٹنہ کنتور سے ان کے دادا شیخ مٹھ مداری نے ہی بھیجا تھا۔
حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی زیب سجادہ خانقاہ منعمیہ مین گھاٹ پٹنہ سیٹی






