مختصر تعارف۔ حضور فاتح اجمیر علیہ الرحمہ

syed marghub alam miyan

اسم گرامی۔ ڈاکٹر سید محمد مرغوب عالم جعفری مداری ہے۔
تخلص۔ قیصر ہے
القابات۔ مجاہد اعظم ہند ، شیر بیشۂ مداریت، فاتح اجمیر، بڑے میاں، اور بھائی جان ہیں
نسبا۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں

چند واسطوں کے بعد آپ کا شجرہ نسب سرکار سیدنا سید حضور مدار العالمین رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی سے ملتا ہوا فاتح خیبر حضور مولائے کائنات علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ کا ئنات سیدہ طیبہ طاہرہ عابدہ ، نیرہ منيره فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ملتا ہوا سر کار ابد قرار، حضور احمد مجتبی محمد مصطفےﷺ تک پہنچ جاتا ہے

ولادت

آپ کی پیدائش، ۱۹ نومبر ۱۹۴۳ء کو بروز جمعہ دار النور مدینتہ الاولیاء مکن پور شریف میں ایک ایسے معزز خوش حال و خوش خصال گھرانے میں ہوئی کہ جس گھرانے کے افراد ہر دور میں ہر محاذ پر دین و سنیت کی قیادت فرماتے ہوئے احقاق حق اور ابطال باطل کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے ہیں
دار النور مدینتہ الاولیاء مکن پور شریف کے جن مشائخ اور علماء کرام نے ناموس رسالت ﷺ کی محافظت کیلئے تحریر و تقریر سے کلیدی کردار ادا کیا ہے ان سب کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اس خاندان کا صف اول میں شمار ہوگا، جہاں تقوی وطہارت علم فضل ، تصوف اور روحانیت نسلا بعد نسل خاندانی ورثہ کے طور پر منتقل ہوتی رہی ہے، باتوفیق رب العالمین اس خاندان نے اپنے بزرگوں کی روحانی وعلمی میراث کی نہ صرف یہ کہ حفاظت کی بلکہ شب و روز اس میں اضافہ ہی کیا ہے اور آج بھی یہ طریقہ کار جاری وساری ہے، حضور فاتح اجمیر کے خاندان میں ہر دور میں شریعت و طریقت کے علمبردار اور قومی و ملی قائد پیدا ہوتے رہے ہیں، جنھوں نے اپنے اپنے دور میں اسلام وسنیت اور تبلیغ سلسلہ عالیہ مداریہ اور قوم و مذہب کی خدمت میں بے شمار کا رہائے نمایا پیش کئے ، ایسے معزز ومحترم خاندان میں یہ نیر تاباں رونق افروز ہوا، ایام رضاعت ماں کی گود میں اور والد گرامی کے زیر شفقت گذرے۔

دینی تعلیم

عہد طفلی ہی سے اپنے والد گرامی کی نظروں میں سب سے زیادہ عزیز تھے، اور سلف صالحین کے رسم و رواج کے مطابق جب چار سال چار ماہ چار دن کے ہو گئے تو خانقاہ عالیہ حضور سیدنا سید مدار العالمین رضی اللہ عنہ میں لے جائے گئے ، اور رسم بسم اللہ کی ادائیگی کی گئی ، اور بعدہ وہیں خانقاہ عالیہ مداریہ سے متصل آپکے جد کریم حضور سیدنا سید دادا ارغون رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے مدرسہ قدیم میں علمی سفر کا آغاز کیا۔
ذہن خداداد تھا اس لئے ابھی عمر مبارک کوئی پانچ سال کی نہ ہو پائی تھی کہ حضرت مولانا محمد عنایت حسین صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن مجید کو کمل کر لیا، اور ساتھ ہی ساتھ عربی و فارسی کا آغاز بھی کر دیا،

آپ نے اس زمانے کے ممتاز علماء کرام سے تحصیل علم کیا، اس دور میں علامہ سید احمد الدین منشی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ ومولانا محمد حکیم ظہیر الحق صاحب قبلہ بالخصوص حضرت علامہ مفتی محدث سید سلطان احمد صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ مداری ، طوطئی گلشن رسالت و حسان الہند حضرت علامہ و مولانا سید معزز حسین ادیب رضی اللہ عنہ اور فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی محمد عبد الوہاب صاحب قبلہ کہ جن کے علم و فضل کا آفتاب نصف النہار پر تھا ، ایسے مخلصین اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین وفطین تھے، اور بیحد طلب علم کا شوق رکھتے تھے ، آپ کی ذہانت و فطانت کو ہی دیکھ کر تمام اساتذہ نے بڑی شفقتوں اور لگن سے پڑھایا ، جس بناء پر آپ نے کم سنی ہی میں کمال حاصل کر لیا تھا اور ظاہری علوم میں وہ امتیازی و الگ شان قائم کی کہ آپ کے ہم عصروں میں کوئی آپ کے ہم پلہ نہ تھا حتی کہ آپ کی تحقیق و تنقید کا یہ حال تھا کہ بڑے بڑے بزرگ آپکو اپنی مجالس مخصوصہ میں شریک کر کے آپ سے مشورہ لیا کرتے تھے

عصری تعلیم

اتنی زیادہ کامیابی کے باوجود بھی آپ کے والد گرامی مرتبت نے عصری علوم کی طرف بھی آپ کو رغبت دلائی جس کے لئے وہیں کے اسکول میں آپ کا داخلہ کرا دیا ، کیونکہ رب نے آپ کے والد محترم کو عملی شعور اور بیداری مغز عطا کیا تھا، اور زندگی کے بے شمار تجربات اور اپنی شان ولایت سے پہچان لیا کہ اللہ تعالی نے میرے اس نور نظر لخت جگر کو ایک خاص مقصد کیلے منتخب کر لیا ہے، جس مقصد حقہ کی تکمیل کیلئے آپ نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کو بھی پڑھانا ضروری سمجھا، جہاں آپ کے والد گرامی نے آپ کو ہمت و استقلال سے رہنے کا ہنر اور طریقہ سکھایا ادب و تہذیب سے مالا مال کیا وہیں دنیاوی تعلیم میں آپ کو اونچا مقام حاصل کرانے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا، حالانکہ دنیوی تعلیم دلانے کی بنا پر کچھ مشائخ و احباب نے آپ کے والد گرامی کی مخالفت ضرور کی، لیکن حضور فاتح اجمیر کے والد گرامی نے مخالفت کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا، اور نہایت عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے پاک ارادوں پر قائم رہے، حالانکہ کچھ معمولی مشکلات سے سامنا ہونے کے باوجود زندگی کی پر خار راہوں پر آگے کا سفر جاری رکھا، وہ چاہتے تھے کہ ان کا یہ بیٹا زمانے کے تقاضوں کے مطابق اعلی تعلیم حاصل کر کے مسلک و مشرب و قوم وملت کی خدمات انجام دے سکیں ، اور بھی لوگوں کے کام آسکیں ۔

اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ زمانے نے دیکھا کہ وہ سنہرا اور پر خلوص خواب جو آپ کے والد گرامی نے دیکھا تھا وہ حضور فاتح اجمیر کی شکل میں شرمندہ تعبیر ہوا حضور فاتح اجمیر میں آپ کے والد گرامی باوقار کے خصائل و عادات بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ، ایسے ہی عارف بالله ، عابد شب زندہ دار ، اور بہادر باپ کے بیٹے ہی ایسا کام انجام دے سکتے ہیں، جو حضور فاتح اجمیر نے دیا، اور آپ کو بھی بے حد لگاؤ اپنے والد گرامی سے تھا، جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو ایک بار آپ نے خود مجھ سے بیان کی۔
“کہ میں اپنے والد گرامی کو کبھی نہیں بھول سکتا ، آج میں جو کچھ ہوں اور جو کچھ میرے پاس ہے وہ خداوند کریم نے مجھے میرے والد کے ذریعہ سے ہی عطا کیا میرے اپنے تمام تجربات کے درمیان قسم قسم کے لوگوں سے سابقہ پڑا لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہیں کہ جسے میں اپنے والد گرامی مرتبت رضی اللہ عنہ سے زیادہ عقل مند اور فہم و فراست کا مالک کہہ سکوں اور یقینی طور پر ان میں سے کوئی بھی میرے والد گرامی سے زیاد حق گو حق شناس ایک قوم پرور قائد ، الوالعزم مجاہد و جرات و استقامت و دینی حمیت والا اور خلوص و محبت کا عظیم پیکر ، وغرباء ومساکین کی دادرسی کرنے والا و اہل اللہ اور عاشق رسول اللہ ﷺ و روحانیت کا حامل نہ دیکھا آپ کے اوصاف و کمالات ہی کو دیکھ کرمز ید میں آپ کی عزت کرنے لگا اور ایک دن میں نے بیعت کی درخواست کو پیش کر دیا جس کو آپنے قبول فرما کر مجھ پر ایک اور احسان کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ کچھ اوراد و وظائف کی وصیتیں کیں ، جن کو میں نے بعد فرائض اپنے تمام معمولات پر فوقیت دی جن پر میں آج بھی عمل کرتا ہوں اور جب تک زندگی ہے ان کو کرتا ہی رہوں گا، اور پھر ایک روشن دن میری زندگی میں اور نمودار ہوا کہ جس دن میرے والد بزرگوار نے مجھ کو اجازت و خلافت کے منصب جلیل سے نوازا، والد گرامی کی بیعت و خلافت اور آپ کی وصیتوں سے آپ کی عزت و مرتبت میری نظروں میں اور زیادہ بڑھ گئی”

جدید تعلیم

اس کے بعد ایمان کی جو چنگاری ابھی تک آپ کے نہا خانوں میں محصور تھی وہ آپ کے پدر بزرگوار کی نگاہ کیمیاء اثر کی بدولت شعلہ جوالہ بن گئی ، آگے تعلیم کیلئے ۱۹۵۸ء میں اسلامیہ انٹر کالج میں آپ داخل ہوئے اور جب کالج میں زیر تعلیم تھے تب بھی متعلمین کے درمیان حضور فاتح اجمیر کی کالج میں بھی طوطی بول رہی تھی ، آپ اس وقت طالب علموں کے رہنما تھے ان کے مسائل زندگی اور تعلیمی سوالات کا حل تلاش کرتے تھے ، اور ہمیشہ اپنے کلاس میں مانیٹر کی حیثیت سے رہتے تھے، بعدہ آگرہ یونیورسٹی سے حضور فاتح اجمیر نے ۱۹۶۶ء میں ، بی۔ اے اور ایم ، اے کی ڈگریاں حاصل کیں ، اور پورے کلاس میں آپ نے مقام اول حاصل کیا تھا۔
بعدہ آپ میں جو لگن طلب علم کی تھی ، اور اتنی کم عمری میں اتنی شاندار کامیابی ملنے کے بعد آپ نے اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا، اور حضور فاتح اجمیر وکالت کرنے کیلئے روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں ایل، ایل ، بی، کے ٹیسٹ کیلئے بیٹھے، اور وہاں پر بھی آپ نے ٹیسٹ کو انفرادی حیثیت سے پاس کیا تھا، چند برس آپ اس میں زیر تعلیم رہے اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ ۱۹۷۲ء میں ایل ، ایل، بی کی سند کو حاصل کیا اور اس طرح سے آپ نے اپنے ارادوں کو پورا کیا، وکالت کا حضور فاتح اجمیر کو بڑا شوق تھا حاضر جوابی میں یونیورسٹی میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا، اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر مسائل کو حل کرنے میں ذرہ برابر تردد نہ کرتے تھے، آپ کی اس صلاحیت کو دیکھ کر آپ کے اساتذہ بھی دنگ رہ جاتے تھے، اور آپ کی خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کو دیکھ کر اکثر کہا کرتے تھے، اگر یہی کاوش رہی آپ کی تو ایک دن سپریم کورٹ کے وکیلوں میں بھی کوئی آپ کا ہم پلہ نہ ہوگا۔

لیکن جو اللہ والے ہوتے ہیں انھیں دنیا داری سے کیا مطلب وہ تو جو بھی کرتے ہیں رضاے الہی کیلئے کرتے ہیں، مندرجہ ذیل سطروں کو پڑھنے کے بعد آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس قد رضائے ربی اور بزرگوں کی حکم پروری آپکی زندگی میں اہمیت رکھتی ہے۔

تبحر علمی

حضور فاتح اجمیر مدظلہ النورانی کے وسعت علم کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے آپ علم کا ایک بہت بڑا خزانہ ہیں مشکل ترین اور دقیق سے دقیق مسائل میں آپکا ذہن اس سرعت کے ساتھ صحیح نتائج تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسرے لوگ حیران رہ جایا کرتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جن مسائل کو دیگر علماء حل کرنے سے گریز کرتے ہیں ان مسائل کو آپ نہایت خندہ پیشانی سے حل کر دیتے ہیں خطابت کا اسٹیج ہو یا مناظرہ و مباحثہ کا مقام ہو ہر جگہ آپ اپنے مد مقابل پر چھا جایا کرتے ہیں اور سامنے والا لا جواب ہو جاتا ہے ، حضور فاتح اجمیریوں تو دینی مسائل حل کرنے میں عصر حاضر کے علماء اہلسنت کے سردار ہیں مگر بعض پیچیدہ مسائل کے کچھ مواقع پر فی البدیہہ اور بالفور جواب دیکر اپنے علم و عقل کے جھنڈے گاڑ دئے ہیں، کچھ واقعات جن کو میں نے مشاہدہ کیا اور معتبر لوگوں سے سنا ہے ان کو تحریر کئے دیتا ہوں جس سے آپکے وسعت علم کا کما حقہ تو نہیں البتہ ہلکا سا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

شاعر اسلام جناب عبد الطیف خان مرغوبی مداری کے ہمراہ میں جبلپورائیم، پی، پروگرام کرنے کیلئے جارہا تھا ، دوران سفر خطباء ومقررین کی بات چلنے گئی ، تب شاعر اسلام جناب عبد الطیف خان صاحب مرغوبی مداری نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار کا نفرنسیں کی ہیں اور جلسے کئے جن میں دنیا کے مشاہیر و مائناز مقررین کی خطابت کو سنا کئی مقابلے بھی دیکھے لیکن حضور فاتح اجمیر جیسی علمی و تحقیقی تقریریں میں نے کسی سے نہیں سنی ہیں۔
جن میں سے ایک بڑا دلچسپ واقعہ بہیڑی میں رونما ہوا ۱۲، ربیع النور شریف کے موقعہ پر مدار چوک پر جلسہ عید میلادالنبی کا انعقاد ہوا جس میں مناظر اہلسنت انتخاب العلماء اور حضور فاتح اجمیر دونوں جلوہ فرماں تھے، جس میں انتخاب العلماء رحمۃ اللہ علیہ کے حکم کے مطابق تقریر کیلئے مدعو کر دیا، جس میں مناظر اہل سنت حضرت علامہ و مولانا و حافظ و قاری مفتی مجدد مراد آبادی حضرت سید انتخاب قدیری اشرفی مداری علیہ الرحمہ نے کم و بیش دو گھنٹے سے زائد تقریر کی اور کئی پہلوؤں پر روشنی ڈال کر تقریر ختم کر دی پھر میں نے نعت خوانی کی اور میرے بعد حضور فاتح اجمیر کو کرسی خطابت پر بٹھا دیا گیا۔
جب آپ نے تقریر شروع کی تو میں نے انتخاب العلماء علیہ الرحمہ کومسکراتے ہوئے دیکھا لیکن میں کچھ بھی نہیں سمجھ پایا کہ آخر ماجرا کیا ہے حضور فاتح اجمیر تقریر کرتے رہے حتی کہ فجر کی آذان اسٹیج پرہی ہوگئی ، بعد صلاة وسلام جاے قیام پر پہونچے وہاں انتخاب العلماء کھڑے ہو گئے اور حضور فاتحاجمیر کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ حضور میں نے اپنے اس انداز خطابت سے دنیا کے بڑے بڑے علماء کو دھول چٹا دی لیکن کوئی انتخاب کا ثانی نہیں ملا جس نے میرے زور خطابت کو تسلیم نہ کیا ہو لیکن میں آج بھرے مجمع میں اعلان کرتا ہوں کہ آپ کے علم و ذہن کے آگے ہار گیا میں نے ایسا کوئی پہلو دوران تقریر نہیں چھوڑا جس پر کچھ نہ کچھ ے بیان نہ کیا ہو کہ جس پر تقریر کی جاتی۔ لیکن میری جہاں انتہا ہوگئی وہاں سے آپ نے ابتداء کی اور وہ براہین و دلائل پیش کئے جہاں تک میرا وہم و گمان تک نہ پہونچا حضرت یہ علم ظاہری نہیں ہے بلکہ آپکے علم سینہ کا نتیجہ ہے جو مجھ جیسے علماء ظواہر سے بیحد دور ہے میں دل و جان سے آپکے علم کا اعتراف کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ دنیاے سنیت میں کوئی ایسا نہیں ہے جس سے آپ کی تلنا کی جائے

زہد و تقوی

میں اپنے معمول کے مطابق حضور فاتح اجمیر کی صحبت میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کہ حضور آپ اتنے ماہر وکیل ہونے کے باوجود کیوں وکالت کو ترک کر دئے؟ جوابا آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد گرامی کے حکم سے وکالت ترک کردی جب انھوں نے میری دلچسپی اور شہرت کو دیکھا تو فرمایا بیٹا! میں نے تم کو دنیا کمانے کیلئے پیشہ ور وکیل نہیں بنایا ہے، اس میں جھوٹ و مکر و فریب کا بہت دخل ہوتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی محبت غالب آجائے اور کسی کی حق تلفی ہو جاے اور بروز حشر ندامت کا سامنا کرنا پڑے، اس لئے وکالت چھوڑ دو۔
کیونکہ میں نے تمہیں دنیا نہیں دین اور حق کی جنگ لڑنے کیلئے وکیل بنایا ہے میں نے اسی وقت سے وکالت چھوڑ دی، جس کا مجھے ذرہ برابر احساس تک نہ ہوا ، اور آپ کے جملہ کو بھی کوئی توجہ نہ دی لیکن جب میں اجمیر کے مناظرہ کیلئے مناظر منتخب ہوا تو میرے والد بزرگوار کی کہی ہوئی وہ بات یاد آ گئی اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور یہ خیال کر کے رونے لگا کہ کس قدر اونچے پایہ کے اللہ کے ولی تھے میرے والد گرامی جن کو میں پہچان نہ سکا، کہ انکی نگاہ ولایت جبکہ مناظرہ کاکسی کو وہم وگمان تک نہ تھا، اور نہ اس کا کہیں چرچا تھا، اور اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ اس ناصبی گروہ سے ٹکرانے کیلئے ان بد مذہبوں کو سبق سکھانے کیلئے ، انکی ضلالت و بدعات کو اجاگر کرنے کیلئے ہی میرے والد گرامی نے مجھ کو وکیل بنایا تھا، اور وہ لوگ بھی جنھوں نے میری دنیاوی تعلیم پر اعتراضات اٹھائے تھے، میرے والد بزرگوار کے مداح اور دل سے آپ کی ولایت کے معترف ہو گئے۔

حضور فاتح اجمیر نے ترک وکالت کے بعد حکمت اور ڈاکٹری کو سیکھا اور اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا، آپ بے حد فیاض ہیں ، اگر چہ یہ فیاضی سب کیلئے عام ہے لیکن اپنے برادران اور اعزاء و اقرباء کیلئے اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انکی تمام ضرورتوں میں اول اول رہتے ہیں ، اگر کوئی غریب و تنگ دست آپ سے دوائی لیتا تو آپ اس سے پیسوں کا مطالبہ نہیں کرتے تھے، میں نے حضور فاتح اجمیر کے مکان و دوکان سے کسی سائل کو تہی دامن لوٹتے نہ دیکھا ، عطاء و بخشش آپ کی زندگی کا فن ہے

مجاہدانہ کردار

حضوفاتح اجمیر کی شخصیت نہایت اعلی مقام رکھتی ہے جس تک رسائی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، آپ کے دل میں دین وملت کا درد ہے، آپ طوفان کا رخ موڑنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہیں، آپ کے اندر نہایت جوش کھاتے آتش فشاں کے مانند حوصلہ ہے، ان سارے واقعات و حالات سے جو آپ کے خلاف جاتے ہیں، ان سے بھی کبھی ہار نہیں مانی آپ کی مرضی اور مقصد زندگی یہی ہے کہ حق کا بول بالا ہو، آپ ایسا مزاج رکھتے ہیں کہ جب تک اپنے خیالات کا اظہار آزادانہ طریقے سے نہ کردیں اس وقت تک آپ کو چین وسکون نہیں آتا ہے آپ کی بات میں کسی جگہ خوشامدی پہلو کا دخل نہیں ہے، قول و فعل فکر و عمل میں یکسانیت ہے خلوت ہو یا جلوت آپ کی زباں کی سچائی اور بے باکی آپ کی ساری خوبیوں پر حاوی ہے، آپکی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ
مناظرہ اجمیر کے بعد پورنپور سے متصل شیر پور ضلع پیلی بھیت میں ایک کا نفرنس ہوئی جس میں حضو فاتح اجمیر کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا، جہاں کے اعداے حضور سیدنا سید مدار العالمین رضی اللہ عنہ نے اجتماعی منصوبہ بنالیا تھا کہ وہ حضور فاتح اجمیر کو اسٹیج پر ہی اپنی دشمنی کا نشانہ بنائیں گے اور وہیں گولی مار دیں گے جس کو وہاں کے دنیا دار ناصبی مولویوں نے خوب ہوادی ایسے خواہش پرست علماء ناصبیہ جو اس قابل بھی نہ تھے کہ پستیوں میں گری ہوئی انسانیت کو بلندی کردار پر لاسکیں ، لوگوں کا تزکیہ کر سکیں ، اور ان کے اخلاق کو سنوار سکیں ، لوگوں کو امن وسلامتی کا پیغام دے سکیں ارے وہ گری ہوئی انسانیت کو کیا سہارا دیتے جو خود اپنے آپکو سنبھالنے کے قابل نہیں تھے، وہ معاشرے کی کیا اصلاح کرتے کہ جن کا مشغلہ سواے بدمعاشی کے اور غنڈہ گردی کے کچھ نہ تھا، دنیا کا ہر روگ انکی رگ و پے میں بس چکا تھا، اور اپنے کسی مرض کا علاج کرنے کی سمجھ کھو بیٹھے تھے، جنھوں نے تہذیب و شرافت کو اٹھا کر بالائے طاق رکھ دیا تھا ، عداوت حضور سید نا سید مدار العالمین رضی اللہ عنہ کی گندی بیماری جن میں انتہا درجہ کی پیدا ہو چکی تھی جن سے انسانیت و شرافت کا لحاظ بالکل ختم ہو گیا تھا ، جو اپنے بدطینت رو پر شرافت کی جھلیاں چڑھائے ہوئے تھے، بد زبانی اور دشنام دہی جن کا معیار بن چکا تھا ، جن کو حق و انصاف اور سچائی سے کوئی واسطہ نہ تھا ، کہا جاتا ہے کہ انسان کا ہر بول اور اس کا انداز گفتگو اس کی سیرت کا اسی طرح ترجمان ہوتا ہے کہ جس طرح کھانے کی دیگچی میں پکنے والی سبنری اپنی خوشبو پھیلا کر کھانے کی نوعیت اور ذائقہ کا اظہار کرتی ہے، سو اگر کسی کے دماغ و دل کی ہانڈی سے بد تمیزی اور بد زبانی کی بو آ رہی ہو تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے اندر پاکیزہ جذبات اور شریفانہ خیالات کی ترکیب پاکر کوئی بہترین سیرت تیار ہو رہی ہوگی۔

جب کسی جماعت کو دیکھو کہ وہ اصلاح کرنے والوں کے خلاف بد زبانی اور بد تمیزی کی ادنی سطح پر اتر آئی ہے، تو سمجھو کہ یہ جماعت اصلاح کرنے والوں کے مقابلہ میں دلیل کی بازی بھی ہار چکی ہے اور اخلاق کے مقابلے میں بھی ہار چکی ہے، اجمیر معلیٰ میں ناصبیوں و خارجیوں کے پیشواؤں اور رہنماؤں کے شکست کھانے کے بعد شیرپور ہی کیا ہر جگہ کے ناصبی حضرات مثل یزید کے رویہ اپنانے لگے، جو دمشق کے دربار میں سر امام حسین علیہ السلام پر چھڑی مار رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ آج میں نے مقتولان بدر کا بدلہ لے لیا ہے، وہاں اس نے دشمنی رسول ﷺ کا نشانہ امام حسین علیہ السلام کو بنایا ، اور یہاں دشمنی حضور سیدنا سید مدار العالمین رضی اللہ عنہ کا ہدف حضو فاتح اجمیر کو بنا گیا ، اور وہ تمام عمل اختیار کئے کہ جو ایک ظالم طبقہ اختیار کرتا ہے، اور رآج تک اس ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح رہے ہیں، جو ہارنے کے بعد اپنے خیالات اور اوہام سے اپنے دل کا بخار نکالتا ہے، لیکن
حقانیت کا چراغ تو آندھیوں کی زد پر بھی جلا کرتا ہے، پر چم دین متین تو پہاڑوں کی چٹانوں کا سینہ چیر کر بھی بلند ہوتا ہے ، صداے حق کی برق تو کفر و شرک کے سیاہ اور گھنے بادلوں کو پھاڑ کر گونجتی ہی ہے، ایسا ہی شیر پور میں ہوا، حضور فاتح اجمیر وہاں پہونچے اور اسٹیج پر کھڑے ہو کر شیر بانی کے بٹن کھول دئے ، اور خوب نڈر لہجہ میں کہا کہ میں آ گیا ہوں ، اور میر اسینہ کھلا ہے ، اب جس کی ماں نے دودھ پلایا ہے وہ آئے اور ڈاکٹر سید محمد مرغوب عالم کے سینہ پر گولی چلاے، جب اس جرات مندانہ لہجہ کو سنا تو یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے کہ لا تعداد بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں ایک شیر آ گیا ہے، اور ساری بکریاں اور بھیڑیں اپنی دم دبا دبا کر بھاگ رہی ہیں ، اس وقت عشاق حضور فاتح اجمیر نے ایک ایک فلک شگاف نعرہ بلند کیا یہ کہتے ہوئے۔ کہ

کس شیر کی آمد ہے کہ دن کا نپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کا نپ رہا ہے

اس مضمون میں اتنا ہی بقیہ حال اور معلومات دوسری تحریر میں ارسال کی جائے گی لیکن آپ مزید معلومات کے لیے حضرت مولانا مفتی ایوب صاحب قبلہ مداری کی کتاب “شمشیر مدار العالمین مع مکالمہ اجمیر” کا مطالعہ ضرور کریں یہ معلومات بھی اسی کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *