madaarimedia

مختصر سیرت قطب المدار

مختصر سیرت قطب المدار

مختصر سیرت قطب المدار

فرد الافراد، قطب الاقطاب شمس الافلاک ، غوث الاغواث حضور سید ناسید بدیع الدین احمد علی حلبی شامی مکنپوری المعروف به زنده شاه مدار رضی اللہ تعالی عنہ آسمان ولایت کے اس نیر تاباں کا نام ہے جس کی مقدس شعاؤں اور پر نور کرنوں سے پورا عالم اسلام عموما اور خطئہ ایشیا مخصوصا منور و تابناک ہے۔
حضور سید نامدار العلمین رضی اللہ تعالی عنہ کی پانچسو چھیانوے سالہ طویل حیات طیبہ کو مکمل طور سے تحریر میں لانے کی سعی محض ایک خواب ثابت ہو سکتی ہے تاہم حتی المقدور آپ کی حیات طیبہ کے چند ضروری نقاط و نقوش کو محض استوار نسبت اور نذرانہ بارگاہ مداریت کی غرض سے زینت قرطاس و قلم ضرور بنایا جا سکتا ہے، کچھ عرض و معروض سے قبل میں سب سے پہلے اپنے محبوب با وقار اور اعلی معیاری مجلہ ماہنامہ غوث العالم کے چیف ایڈیٹر شہزادہ مخدوم سمناں قائد ہند، مجد د تعلیمات اشرفیہ، مفکر اسلام، اشرف ملت حضرت علامہ مولانا الحاج الشاہ سید محمد اشرف میاں قبلہ اشرفی الجیلانی دامت برکاتہم قومی صدر آل انڈیا علماؤ مشائخ بورڈ نیز ماہنامہ کی پوری مجلس کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں جن حضرات کے جذبئہ اخلاص و ایثار و فکر خدمت مداریت نے ہم غلامان سید نامدار العلمین رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی ذات ملکوتی صفات سے متعلق کچھ تحریری ن کچھ ریری خدمت کا موقعہ فراہم کیا۔ فا الحمد لله على هذا

سرکار مدار پاک کی ولادت

سرکار مدار پاک کا اسم گرامی سید بدیع الدین احمد ہیے، قطب المدار زندہ شاہ مدار قطب الاقطاب زنده مدار زندہ ولی زنده پیر مدار العلمين مدار اعض راعظم مدار پاک و غیر ہم آپ کے القاب و مقامات ہیں ۔ امام الاولیا سر کا رسید نا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہتعالی عنہ یکم شوال المکرم سن 242 ھ مطابق سن 856 ء کو دوشنبہ کے دن صبح صادق کے وقت ملک شام کے شہر حلب محلہ چنار میں پیدا ہوئے ، آپ کا مادہ تاریخ ولادت صاحب عالم ہے۔ سرکار مدار پاک نجیب الطرفین یعنی والد بزرگوار کی طرف سے حسینی اور والدہ ماجدہ کی جانب سے حسنی سید ہیں ۔


سر کار مدار پاک کا شجرہ جدید

امام الاولیا سر کا رسید بدیع الدین احمد علی حلبی ابن قاضی سید قدوة الدین علی حلبی ابن سید بہاؤ الدین ابن سید ظہیر الدین احمد ابن اثانی ابن سید محمد ابن سید اسمعیل ابن سید امام جعفرصا عفر صادق ابن سید اسمعیل خانی سید امام المتقین امام محمد الباقر ابن امام الساجدین امام سید محمد زین العابدین ابن سید الشهد اامام حسین شہید کر بلا ابن امام الاولیا، خلیفة الرسول امام علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم و رضوان اللہ یھم اجمعین ۔


والدہ مخدومہ کی طرف سے سرکار مدار پاک کا شجرہ نسب

امام الاتقیا حضرت سید بدیع الدین احمد ابن بی بی سیدہ فاطمہ ثانیه ( بی بی ہاجرہ ) بنت سید عبداللہ ابن سید زاہد بن سید عابدا بن سید صالح محمد ابن سید عبداللہ ابن سید ابوالقاسم محمد معروف به نفس زکیه ابن سید عبداللہ محض ابن سید حسن حسن مثنی ابن ا اما امام الصالحین سید السادات سیدنا امام حسن مجتبی ابن سید نا مولی المسلمین علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم ورضی اللہ تعالی عنھم اجمعین


 آپ مادر زاد ولی ہیں آپ کی ولادت مبارکہ سے قبل آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی فاطمہ ثانیہ رضی اللہ تعالی عنھا نے خواب دیکھا کہ سورج آپ کے آنگن میں اتر اہوا ہے اور اس کی منور شعائیں قریب اور دور تک پورے کرۂ ارض کو روشن کیے ہوئے ہیں۔جس وقت حضور سید نا زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر شریف چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی آپ کے والد ماجد حضرت قاضی سید قدوۃ الدین علی حلبی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق آپ کو اپنے وقت کے شیخ الشیوخ علامئہ کبیر حضرت مولانا سدید الدین حذیفہ شامی مرعشی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ علم وفضل میں حاضر کیا اور انھوں نے آپ کی رسم بسم اللہ خوانی ادا کراتے ہوئے آپ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھایا۔ آپ کی زبان اقدس سے بسم اللہ الرحمن الرحیم ادا ہونے کے ساتھ ہی علامہ مرعشی نے آپ کی خداداد صلاحیتوں کا مشاہدہ فرمالیا اور بیساختہ پکار اٹھے ۔ ھذا ولی اللہ ھذا ولی اللہ یعنی یہ نو وارد کم سن بچہ اللہ تعالی کا ولی ہے
چودہ برس کی مختصر سی عمر میں آپ نے قرآن و تفسیر و حدیث اور دیگر علوم مروجہ میں مہارت تامہ حاصل فرمالی ۔ تذکرۃ الکرام اور لطائف اشرفی کے مطابق سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کریم کے ساتھ دیگر کتب سماویہ یعنی توریت زبور اور انجیل وغیرہ کے بھی حافظ و عالم تھے، نیز علوم نوادرہ مثلا علم کیمیا، ریمیا، سیمیا، اور ہیمیا میں بھی نابغہ روزگار تھے۔

حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ

madaarimedia.com
ولادت محسن اسلام خواجئہ بطحہ حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ کے موقع پر
جس نے اسلام کو پالا وہی کافر ٹھہرا?
محسن اسلام محافظ نبوت ناصر رسالت سیدالامت جدالحسنین وسلیتنا فی الدارین سرکار وفا خواجئہ بطحا خسر سیدہ طیبہ زہرا تفسیر آیئہ فآویٰ متولئ کعبہ نذر محبوب خدا
حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ کی آمد آمد 29شوال المکرم 534عیسوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے 35سال پہلے شہر مکہ میں قبیلئہ قریش خاندان بنوہاشم میں رئیس مکہ حضر سیدنا عبدالمطلب کے چمنستان کی بہار بنے
آپ اپنی کنیت (ابوطالب) سے اس قدر معروف ہوئے کہ کنیت نام پر غالب آگئی

والدہء ماجدہ فاطمتہ بنت عمرو بن عائذ قبیلہ بنو مخزوم کی شہزادی تھیں

برادران آپ کے سگے دو بھائی حضرت زبیر اور حضرت عبداللہ تھے

خواہران سگی 5 بہنیں تھیں

آپ کے والد مکرم معظم حضرت سیدناعبدالمطلب کی چھ شادیاں ہوئ تھیں جن میں سے12بیٹے اور6بیٹیاں پیداہوئیں

نکاح حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے دو نکاح ہوئے

پہلی زوجہ محترمہ کا اسم با عصمت فاطمتہ بنت اسد رضی اللہ عنھا ہے آپ سابقون الاولون اور مبشرہ باالجنتہ اور حبشہ کی ہجرت میں مولاعلی المرتضی علیہ السلام کے ہمراہ پیدل ہجرت فرمانے والی پہلی خاتون اسلام ہیں جنھیں ان کی عزت و شرافت اور منفرد مقام بزرگی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ماں فرمایا اور ان کو کفن کیلئے اپنا کرتہ عنایت فرمایا آپ انکی قبر مبارک میں لیٹے

اولاد امجاد

چار بیٹے طالب،عقیل،جعفرطیار،اور مولاعلی رضی اللہ عنھم

شہزادیاں

دوسری زوجہ محترمہ سے تین بیٹیاں ام ہانی،جمانہ،اسماء جنھیں رہط بنت ابوطالب بھی کہا جاتا ہے پیدا ہوئیں

پیشہ

حضور ابوطالب پیشے سے شہر مکہ کے بڑے تاجر وں میں شمار کئے جاتےتھے

کفالت رسالت

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت آپ کی عمر شریف آٹھ سال تھی بس 8سال کی عمر سے کفیل و ناصر ومحافظت فرماتے رہے اور42سال تک حمایت و نصرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مقدس زندگی کے نقوش تاریخ اسلام کی قرطاس پر سنہرے حروف میں لکھے

Read more

کونڈوں کے تعلق سے ایک اہم نظریاتی خاکہ

madaarimedia.com
کونڈوں کے تعلق سے ایک اہم نظریاتی خاکہ
آج ملت اسلامیہ میں نئے نئے اختلافی مسائل پیدا کرکے کاروباری علماء نے اہلسنت کو سیدھے راستے سے ہٹاکر اپنے مسلک ومشرب طرق و اطوار کا سلاسل کا پابند کرنے کیلئے نئ نئ تاویلوں کے خرمن تعمیر کرلئے ہیں بالخصوص حضرات اہلبیت علیھم السلام سے منسوب ومربوط القاب وتقاریب کا گلا گھوٹنے کیلئے خون آشام خنجر آستینوں میں چھپے ہیں اور جب جہاں موقعہ لگا ایک ایک حسین گلے پر فتوے کا خنجر پیوست کردیا
مثال کے طور پر حضرات ائمئہ اہلبیت کیلئے علیھم السلام کا استعمال حرام ہے
تعزیہ داری حرام ہے!
علم مہندی جلوس حسینی حرام!
نعرئہ حیدری لگانا شیعت!
مولی علی سے محبت کرنا رفض!
جشن عید میلادالنبی ﷺ میں ذکر شہادت حسین کرنا ناجائز!
مولی علی کرم اللہ وجہ الکریم ُُ سید نہیں!
اسی طرح سے ٢٢رجب کو نذرو نیاز امام جعفر صادق پر بھی فتوی کہ یہ اہل تشیع کا شعا ر ہے
لہذا سنی مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ شیعوں نے حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر بطور تبراو مسرت رائج کیا ہے جبکہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت ١٥ رجب ہے تو ٢٢ کو کونڈے کیسے?
بعض کا کہنا ہے کہ یہ ١٥٠ سال پرانی ایجاد ہے
اس سلسلے میں سب سے پہلے تاریخی حقائق وشواہد کی روشنی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اختلافی نظریات قارئین کی پیش خدمت ہیں تاکہ پہلی غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وصال ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے چنانچہ
حضرت علامہ سعد بن ابراہیم کے نزدیک تاریخ وصال یکم رجب المرجب ہے
علامہ ابن اسحاق نے لکہا ہے کہ ۸ رجب تاریخ وفات ہے بحوالہ البدایہ و النھایہ علامہ ابن کثیر
۱۵ رجب المرجب تاریخ وصال ہے
علامہ ابن جوزی تلقیح فحول اھل الاثر علامہ ابن حجر و ابن عبد البر نے فرمایا کہ جب آپکی وفات ھوئی تو رجب کی چار راتیں باقی تھیں یعنی ۲۵/۲۶ رجب کو وفات ہوئی بحوالہ الاستیعاب فی معرفة الاصحاب و تھذیب التھذیب
علامہ طبری نے تین اقوال نقل کیئے ہیں ۱. یکم رجب ۲. ۱۵ رجب ۳.وفات کے وقت رجب کی آٹھ راتیں باقی تھیں بحوالہ تاریخ الامم و الملوک جریر طبری
اس حوالہ میں اگر مہینہ انتیس کا تھا تو ۲۱ رجب وفات کی تاریخ ہوئی اور اگر ۳۰ کا مہینہ تھا تو ۲۲ رجب وفات کی تاریخ ھوئ
اب جبکہ معتبر ائمہ تواریخ و سیر کے بیانات سے واضح ہوگیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ وفات ۲۲ رجب علمائے اھلسنت کے نزدیک متیقن نہیں ھے نہ جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات سن 60 سے لیکر سن 1440ہجری تک یعنی تقریبا 1380 سال تک کہیں اس 22رجب کو عرس نذرونیاز یا انکی وفات کا دھوم دھڑاکہ اہلسنت کے یہاں بالخصوص نہیں ملا
پھر ٢٢رجب کو انکی وفات کی خوشی منانے کاالزام ہمارے سر کیوں ؟
ہاں اگرشیعوں میں یہی وجہ ہو تو ہم سے شیعوں سے کیا مطلب کہ ہم نے تو ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ سنا ھے کہ اس ۲۲ رجب کی تاریخ میں حضور امام جعفررضی اللہ عنہ کو امامت کبریٰ و قطبیت عظميٰ کے منصب پر فائز کیا گیا اس عظیم نعمت کے حصول کی خوشی میں امام پاک شیرینی تقسیم فرمایا کرتے تھے بعد کے زمانے میں وہ کونڈوں کی نیاز کی شکل میں تبدیل ہوگیا طریقہ اھل سنت کے مطابق اس نیاز میں کوئی شرعی قباحت نھیں ہے سنی مسلمان بائیس رجب المرجب کو طریقہ شرعیہ کے مطابق نذرو نیاز کا اہتمام کریں
رہا یہ کہنا کہ ١٥٠ سال پرانی ایجاد ہے تو میں گوش گزار کئے دیتا ہوں کہ
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہــلوی رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق اہلبیت سے وابسطہ تقاریب وایام جیسے ۲۲ رجب کے کونڈوں کی فاتحہ قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے، جو ہندوستان کی ایجادیں نہیں ہیں ـ
(تحفۂ اثنا عشریہ)
مفتئ اعظم پاکسـتان علامہ و مولانا مفتی محـمـدخلیل خان قادری برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ بانی و شیخ الحدیث احسان البرکات حیدرآباد فرماتے ہیں
         ماشاءاللہ اس ماہ رجب میں حضرت جلال بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور بعض جگہ حضـرت سیـدنا امام جعفر صــادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصال ثواب کے لئے کھیر پوری پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ ( نذر نیاز) دلاکر لوگوں کو کھلاتے ہیں یہ بھی جائز ہے ـ
( سنی بہشتی زیور ـ کامل / ۳۱۸)
اب ان دلائل کی روشنی میں بات اظہر من الشمس ہوگئ کہ ٢٢ رجب کو اہلسنت کے معمولات میں نذر نیاز کونڈے شریف شامل ہیں لہذااس تقریب کونڈے کو شرعی طریقہ پر منانا جائز ہے
واللہ اعلم بالصواب

Read more

روشن ہے مثل آفتاب سلسلہ مداریہ

madaarimedia.com
 روشن ہے مثل آفتاب سلسلہ مداریہ
تیسری صدی ہجری سے لیکر نویں صدی ہجری تک جس عظیم  خانوادہ کے بانی کی قربانیوں کا لہوکشت اسلام پر باغ و بہار بن کر پھیلا ہوجس کے حبس دم سے نسیم سحری کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے چلے ہوں جس کی ٹھوکروں سے سبزے اگے ہوں جس کی دعا سے مرادوں کی گرہیں کھلی ہوں جس کے دم سے دم کائنات قائم ہوجس کے دست حق پرست پرکرڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہو ہر دور ہر زمانے میں ،،شاہی جہاں کی رہی ہوگدائ، کائنات عالم میں وہ کیا کچھ نہیں ہوگا?

 

صرف غیر منقسم ہندوستان میں جس کی تین لاکھ خانقاہوں کے حریم وفصیل سے وحدانیت کا پیغام دیا جاتا ہو سینئہ ارضی پرجسکی محنت نے اسلام کی عظمت کا مینار ہ کھڑا کردیا ہو پھر اسکی فلک بوس چوٹیوں سےصدائے اللہ اکبر نے کفر کے کان پھاڑ دئیے ہوں پورے ملک میں جس کے چودہ سو بیالیس چلے اسلام کی عظمتوں کا خطبہ پڑھ رہے ہوں تو پوری دنیا پر اس کے احسان کیا نہیں رہے ہونگے ؟؟

راجہ بلوان سنگھ ، جس کی محنت سے حلقہ بگوش اسلام ہوجائے راجہ جسونت سنگھ کو جو داخل اسلام کرلے محمود غزنوی جسکی دعا ئیں لے کر سومنات فتح کرلے , حضور قطب المدار کی حیات طیبہ میں ابرہیم شرقی بادشاہ جونپور عشق مدار میں گرویدہ ہوکرعرض کرتا ہے حضور اگر آپ حکم دیں توآپکے شہزادوں کیلئے محلات تعمیر کرادیں آپ فرماتے ہیں ہم خاک نشین محلوں میں نہیں رہتے

 

بادشاہ ابراہیم شرقی ہجری 840 میں جس کا روضہ تعمیر کرائےاور متعلقہ آراضی کے علاوہ پانچسو بیگھا آراضی بھی لکھ دے جلال الدین اکبر کی جلالت جہاں لرزہ براندام1565ءمیں حاضر آستانہ ہوکرفرمانئہ شرقیہ کی تجدید کردےپھر 555 بیگہ آراضی کا اضافہ کرکے مزار مقدسہ پر چادر چڑھاکرجبین نیاز خم کردے نورالدین محمد سلیم حاضر آستانہ ہوکر منت مانگے اور پوری ہونے کےبعددریائے ایسن پر پل تعمیر کرادےشاہجہاں جس کے در پہ حاضر ہوکر مسجد،اور مسجد سےمتعلقہ حجرہ اور ایک وسیع دالان تعمیر کرائے اورنگ زیب عالمگیر جہاں گھٹنوں کے بل آئےاس صاحب بصیرت سے پوچھو کیا شہنشاہ ہند ؟

Read more

حضور مدار العالمین حسنی حسینی سید ہیں

madaarimedia.com
حضور مدار العالمین حسنی حسینی سید ہیں

معزز و مکرم قارئین!  کئ دن سے سوشل میڈیاپر فتین و حاسدین متعصبین سلسلہ عالیہ مداریہ !

سلسلہ عالیہ مداریہ کی پر شکوہ جلالت پر طرح طرح کے الزامات عائد کر کے بین المسلمین انتشار کے موجد بن کر عتاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں کئ فتنوں میں سے یہ فتنہ بھی زبردست پھیلایا جارہا ہے

 

حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار سید نہیں ہیں 

اس شروفساد کا ایک ہنگامہ برپا ہے جو سابقہ کچھ محققین کی لاپرواہی کانتیجہ ہے جس سے امت آج برسر پیکار ہے جبکہ حسب و نسب پر طعن فخر اور مناظرہ اس امت کیلئے جائز نہیں ہے مگر مسئلہ مداریت کا ہے تو اب خوساختگی کی کرسی کاناجائز اور غصب شدہ بھرم باقی رکھنا ہے  اب فساد پھیلے یاشر ان سے مطلب نہیں

 

 اسی سلسلہ میں  عرض کردینا چاہتا ہوں کہ  جہاں کہیں بھی مرتبئہ مداریت پر تعصب اور حسد کی پیداوار ہوتی ہے تو وہاں کی زہریلی آب ہوا حب ولایت کی فضا کو برباد کرکے  نظام تنفس کو زہر آلود کردیتی ہے اور اس روحانی نشو نماپر ضیق النفس اس درجہ اثر انداز ہوجاتی ہے کہ پھرکسی روحانیت کے ہاسپٹل کا آکیسجن بھی پھولتی سانس کیلئے اکسیر نہیں ہوسکتا جسکی سچی مثالیں دنیامیں موجود ہیں کالپی کی تاریخ گواہ ہے  کہ سراج الدین ،،سوختہ،، ہوگیا

 

خیر مضمون کی طوالت کا خیال رکھتے ہوئے آمدم بر سر مطلب کے تحت عرض کرنا چاہتاہوں کہ شہنشاہ ولایت قاسم نعمات علی حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ ولی قطب المدار رضی اللہ عنہ نجیب الطرفین  حسنی حسینی سید ہیں 

آپ کی سیادت پر جن لوگوں نے کلام کیا ہے یا تو اس حقیقت سے واقف ہی نہیں تھے یا پھر بین المسلمین انتشار و فساد کی  وراثتی ذمہ داری کے عہدہ کو کھونا نہیں چاہتے تھے بہر کیف جو بھی ہو اللہ ہدایت عطافرمائے آمین

ازیں قبل کہ حضور قطب المدار رضی اللہ عنہ کے نسب شریف پر بات کی جائے پہلے یہ جان لیں کہ تنھا حضور قطب المدار کا نسب نہیں ہے جس پر اختلاف ہے بلکہ شہنشاہ بغداد حضور سیدناسید محی الدین عبد القادر جیلانی و سلطان الہند حضور سرکار غریب نواز و قاسم فیضان چشتیت حضور سرکار سید ناصابر کلیری رضی اللہ عنھم کے حسب و نسب میں بھی اختلاف ہے

Read more

سلسلہ برکاتیہ پر سلسلہ مداریہ کی ضوبارياں

madaarimedia.com
سلسلہ برکاتیہ پر سلسلہ مداریہ کی ضوبارياں

دارالنور  مکن پور شریف مرکز اہل یقین،خزینتہ الاصفیاء عاصمہ الولایت،اور تصوف کی راجدھانی ہے  اسکی مٹی اہل عشق کیلئے سرمہء نگہ طلب اہل ثروت کیلئے چندن ، اہل معرفت  کے حسن جمال جہاں آرا کیلئے غازہء حسن افزا ہے اس کا ذکر اکسیر قلب کی حیثیت کے ساتھ  ساتھ  گناہوں کا کفارہ بھی ہے

یہی وجہ ہے کہ اولیاءاللہ  کے آستانوں کے منڈیروں پر اسی زمین پر آرام فرمانے والی شخصیت کے فیضان کے دیپ روشن ہیں چاہے بوسیدہ خانقاہوں کے ذرات ہوں یا مرمرین آستانوں کے نگارشات سب قطب زمین و زماں کے انوار سے تابندہ ہیں اور اقلیم ولایت کے بڑے بڑے تاجدار انکی دہلیز پر سرعقیدت خم کرکے طلب سے سوا پاتے رہے

اور آج بھی اہل دل اہل نظر اہل محبت کے حلقوں میں صدائے دل نواز آرہی ہے

 ہر اک ولی کڑی تری زنجیر کا لگے

ہر سلسلے سے اعلی ترا سلسلہ لگے

کیونکہ

کوئ ولی ہوا کوئ حق آشنا ہوا

ذات مدار آئ تو سب کا بھلا ہوا

کے مصداق ارباب ولایت خوب خوب اس چشمہ فیضان مرتضویہ سے سیراب ہوئے

نظامی قادری چشتی سہروردی کہ ہوں نوری

سبھی کو سلسلہ پہنچامدارالعالمیں کا ہے

لیکن اس وقت ہم جس واحد  خانوادہ کی بات کررہے ہیں اس خانوادہ کی عقیدت کا سکہ لاکھوں  انسانوں کے دلوں پر رائج الوقت ہے اور کیوں نہ ہو

بے وجہ کوئ دیوانہ نہیں ہوتا

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

خانوادهء برکاتیہ

 جس کی ہمہ جہت اور عالمگیر مقبولیت ضرور کسی صاحب دل کی بندہ نوازی کا صدقہ ہہوگا اس سلسلہ میں اگر برملا کہوں کہ خاندان برکات کے قصر شاہی کے کلس پر جس خورشید ولایت کی سنہری دھوپ پڑ رہی ہے تو وہ مدارالعالمین ہیں خاندان برکات کے خم خانہء تصوف میں جس نے معرفت حق کی شراب طہور بھر دی وہ سلسلہ مداریہ ہے

جس کی نسبت روحانی سے خانوادہ چمک گیا وہ عکس جمال قطب المدار کی عنایتیں ہہیں خانوادهء مداریہ کے فیضان کا بادل برسا تو تمام سلاسل کے ساتھ ساتھ سلسلہ برکاتیہ بھی سیراب ہوا اور  پانچ طریقوں سے  سلسلہ مداریہ حاصل کیا

 سلسلہ برکاتیہ بھی  اتنا باظرف اور احسان مند رہا کہ ہر بار اپنی نئ  نسبت  کا اعلان کرتارہا

اب

قارئین حضرات کی معلومات اور دلچسپی کیلئے پانچوں نسبتیں تحریرکررہاہوں

گر قبول افتد زہے عزو شرف باشد

Read more

سیرت حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مداررضی اللہ تعالی عنہ

madaarimedia.com

حضرت سید

بدیع الدین احمد قطب المدار

زندہ شاہ مداررضی اللہ تعالی عنہ

 

فقیرنے حضرت الشاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ کی کتاب” اخبارالاخیار” شریف کے ترجمہ کے دوران حضرت زندہ شاہ مدارکے احوال پڑھے تو تجسس ہوا کہ ان کے تفصیلی حالات معلوم کئے جائیں مختلف ذرائع سے ان کی زندگی کے جو بھی گوشے سامنے آئے فقیرجمع کرتا رہا یوں ایک مستقل کتاب بن گئی جو نذرقارئین ہے ۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت زندہ شاہ مدارقدس سرہ، کے روحانی فیوض وبرکات سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔

آمین بحرمت سیدالانبیاء والمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

 

سرزمین ہند کی یہ خصوصیت رہی ہے 

کہ یہاں ہزارہا اولیاء اﷲ کے قدوم بابرکت نے اس گلستان کو شرف و زینت بخشا ۔ ان اولیاء اﷲمیں حضرت سید شاہ بدیع الدین احمد المقلب بہ حضرت قطب المدار ، زندہ شاہ مدار کا نام نامی بھی ہے۔

 

اسم گرامی کنیت والقاب

سید بدیع الدین احمد ہے کنیت ابوتراب ہے بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں,اہل تصوف اور اہل معرفت وحقیقت آپکو عبداللہ قطب المدارفردالافرادکہتے ہیں”مدارعالم,مداردوجہاں”مدارالعالمین’شمس الافلاک آپکے القابات ہیں برصغیر ہندوپاک میں زندہ شاہ مدار اور زندہ ولی کے نام سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔

 

ولادت باسعادت

آپکی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت پیر کے دن یوم عیدالفطریکم شوال المکرم سنہ دوسوبیالس ہجری(242 مطابق856)عیسوی میں عباسیہ دور حکومت میںملک شام کے شہرحلب میں محلہ جنار”میں ہوئی” صاحب عالم” سے سن ولادت کی تاریخ نکلتی ہے والدماجد کا نام نامی سید قاضی قدوۃ الدین علی حلبی ہے اوروالدہ ماجدہ سیدہ بی بی فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ سے مشہورہیں۔

 

آپ حسنی حسینی سید ہیں

حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی اپنا حسب ونسب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔

اناحلبی بدیع الدین اسمی۔بامی وامی حسنی حسینی جدی مصطفے سلطان دارین۔محمداحمدومحمودکونین

(الکواب الدراریہ)

میں حلب کا رہنے والا ہوں میرانام بدیع الدین ہے,ماں کیطرف سے حسنی اورباپ کی طرف سے حسینی سید ہوں,میرے نانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنکی تعریف دوجہاں میں کی جاتی ہے۔

 

حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں آپکا شجرہ نسب اسطرح نقل فرمایا ہے کہ

آں (زندہ شاہ مدار) اجلہ ازاولادامجادحضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ واسم پدرآں عالی قدرسیدعلی حلبی ابن سیدبہا ء الدین ابن سید ظہیر الدین ابن سیداحمد ابن سیدمحمد ابن سید اسماعیل ابن سید امام الائمہ جعفر صادق ابن سیدامام الاسلام سید باقرابن سیدامام الدارین زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء ۔

یعنی حضرت قطب المدار حضرت سید مولا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیںآپکے والد ماجد کا شجرہ نسب یہ ہے سید علی حلبی ابن سید بہاء الدین ابن سیدظہیرالدین ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید اسماعیل ابن.سیدامام الائمہ جعفر صادق ابن امام الاسلام سید باقر امام الدارین امام زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

Read more

بعض امور تعزیہ داری پر غلط فہمیاں

بعض امور تعزیہ داری پر غلط فہمیاں الزام تراشیاں اور ان کا ازالہ
غلط فہمی
تعزیہ دار محرم کے دنوں میں
مصنوعی قبریں بناتے ہیں – یہ بھی ناجائز ہے
ازالہ
ہماری شریعت میں مصنوعی قبریں بنانا بیشک ممنوع و ناجائز ہے – مگر تعزیوں کو مصنوعی قبریں کہنا ہرگز درست نہیں ہے – کیونکہ تعزئیے مصنوعی قبریں نہیں ہیں بلکہ قبر کے نقشے ہیں اور شرع شریف میں قبروں کے نقشے بنانا ممنوع و ناجائز نہیں
مصنوعی قبر تو وہ ہوتی ہے کہ زمین پر قبر نما بنا دی جائے اور ان کے اندر میت دفن نہ ہو اور لوگ دھوکہ کھائیں کہ یہ قبر ہے – اس میں کوئ دفن ہے – یہ ہے مصنوعی قبر اور شریعت میں یہی منع ہے – رہا قبر نما تعزیہ تو وہ قبر کا نقشہ ہے مصنوعی قبر ہرگز نہیں – دنیا میں اتنا بڑا بیوقوف کون ہوگا جو کھپاج سے بنائے ہوئے اور کاغذ، پنی یا کپڑے سے سجائے ہوئے ڈھانچے سے (جسے لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ادھر ادھر پھرتے ہیں ) دھوکہ کھائے اور سمجھے کہ یہ کسی کی قبر ہے اور اس میں کوئ دفن ہے – غرض تعزیہ مصنوعی قبر نہیں ہے بلکہ قبر کا نقشہ ہے اسے مصنوعی قبر کہنا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے
غلط فہمی
کسی کے گھر میں میت ہوجائے تو کیا وہاں ڈھول باجے بجائے جائیں گے یا جنازہ ڈھول باجوں کے ساتھ اٹھایا اور لے جایا جائے گا ؟
ازالہ
 اول تو یہ کہ تعزیوں کو جنازہ باور کرانا کھلا ہوا فریب اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے – کیونکہ تعزیہ جنازہ نہیں ہے – بلکہ روضۂ امام پاک کا تصوراتی نقشہ ہے – خواہ روضہ شریف سے مشابہ ہو یا نہ ہو اسے کوئ بھی امام پاک کا جنازہ نہیں سمجھتا ہے لھذا تعزیہ کو جنازہ باور کرانا بھی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی ہے –
دوسرے یہ کہ ڈھول نقارے وغیرہ اعلان کے لئے بجانا جائز ہے جیسا کہ اوپر تفصیل گذری لھذا اگر کسی جگہ میت کے اعلان کیلئے ڈھول وغیرہ بجا نا ہی معمول و مقرر و متعارف ہو کہ لوگ اس علامت سے سمجھ لیں کہ میت ہوگئ یا یہ کہ جنازہ اٹھ گیا اور قبرستان کو لے جایا جا رہا ہے تو شرعاً میت کے گھر اور جنازے کے ساتھ ساتھ ڈھول بجانا بھی ممنوع نہیں ہوگا
غلط فہمی
– جاہلوں نے مصنوعی کربلائیں بنا لیں ان میں تعزیوں کو دفن کرتے ہیں – پھر تعزیہ کا تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں کرتے ہیں
ازالہ
مصنوعی کربلائیں در اصل یادگار کربلا ہیں اور ایسی یادگاریں بنانا شرعاً ممنوع نہیں – رہی بات تعزیوں کو دفن کرنے کی تو جن کے پاس سال بھر تک ادب و احترام کے ساتھ تعزیوں کو محفوظ رکھنے کی جگہ ہوتی ہے وہ محفوظ رکھتے ہیں – اور جن کے پاس جگہ نہیں ہوتی ہے وہ بے ادبی اور بے حرمتی سے بچانے کے لئے یا تو تعزیوں کو دفن کر دیتے ہیں یا پھر دریا برد کر دیتے ہیں کہ اس میں بھی شرعاً کوئ خرابی نہیں ہے – بلکہ یہ بھی تعظیم ہی کا ایک طریقہ ہے جیسے قرآن کریم کے کہنہ اور بوسیدہ اوراق کو یا تو دفن کر دیا جاتا ہے یا پھر دریا برد کر دیا جاتا ہے – رہی تعزیوں کے تیجے، دسویں، بیسویں اور چالیسویں کی بات تو یہ مسلمانوں پر کھلا ہوا بہتان ہے –
خدارا انصاف
لوگ شہیدان کربلا کا تیجہ، دسواں ، بیسواں، چالیسواں کرتے ہیں کہ تعزیوں کا؟
تعزیوں کا تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں، بتانا یقیناً بہتان تراشی ہے اور خواہ ۔مخواہ مسلمانوں کی تجہیل و تحمیق اور ان کا تمسخر ہے جو بجائے خود حرام ہے
غلط فہمی
– تعزیہ داری روافض کا شعار ہے اس لئے جائز نہیں
تعزیہ داری کا موجد تیمور لنگ شیعہ تھا اسی نے تعزیہ داری کو ایجاد کیا
ازالہ
پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ صدیوں سے غیر منقسم ہندوستان کے چپے چپے پر سنی مسلمان تعزیہ داری کر رہے ہیں پھر یہ روافض کا شعار کیسے ہوگیا دور حاضر میں روافض بھی تعزیہ داری کر رہے ہیں مگر کوئ یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ تعزیہ داری روافض کی ایجاد ہے اور ان کو دیکھ کر سنیوں نے اختیار کی ہے
شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جب روافض کا وجود بھی نہیں تھا تب سے سنی مسلمانوں خاص کر اللہ والوں میں تعزیہ داری رائج تھی بعد میں جسے دیکھ کر رافضیوں نے بھی تعزیہ داری شروع کر دی مگر طریقہ میں قدرے ترمیم بھی کی جس سے سنیوں اور شیعوں کی تعزیہ داری میں واضح فرق ہوگیا
حضرت امیر تیمور لنگ گورگان رحمۃ اللہ علیہ اول تو رافضی نہیں تھے – سنی تھے – دوسرے یہ کہ تعزیہ داری کے موجد نہیں تھے – عاشق اہلبیت تھے تعزیہ داری کرتے ہونگے – ممکن ہے ان کے زمانہ میں تعزیہ داری کو فروغ ملا ہو – مگر وہ تعزیہ داری کے موجد نہیں تھے – ان سے تقریباً دو صدی قبل سلطان الہند، حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چاندی کا تعزیہ شریف بنوایا تھا جو آج بھی اجمیر شریف میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ عنہ کی چلہ گاہ میں موجود ہے اور ہر سال 5/ محرم الحرام کو اس کی زیارت کرائ جاتی ہے
(تفصیل کیلئے دیکھیں “راہ اسلام ص 87/74)

Read more

تعزیہ شریف شریعت کی روشنی میں

تعزیہ شریف شریعت کی روشنی میں

تعزیہ شریف روضئہ امام عالی مقام علیہ السلام کا تصوراتی نقشہ ہے اسے بنانا ، چومنا اور تعظیم کرنا جائز ہے جیسے دوسرے آثار و تبرکات کے نقشوں کو چومنا اور ان کی تعظیم کرنا صحیح و درست ہے –  اور نقشہ بنانا اس کو چومنا اور اس کی تعظیم کرنا حدیث رسول ﷺ نیز بزرگان دین کے آثار سے ثابت ہے اس سلسلہ میں یہاں سب سے پہلے ہم ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس سے اس امر پر خاص روشنی پڑےگی کہ شریعت مطہرہ میں تصور، نقشہ اور نسبت کی کیا حیثیت ہے ؟

چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے

         ان رجلا جآء الی النبی ﷺ قال یا رسول اللہ !  انی حلفت ان اقبل عتبتہ باب الجنتہ فامر النبی ﷺ  ان یقبل رجل الام وجبهۃ الاب ویری’ انه قال یا رسول اللہ ! ان لم یکن لی ابوان ؟  فقال قبل قبرهما  قال فان لم اعرف قبرهما قال خط خطین و انوبان احدهما قبر الام والآخر قبر الاب فقبلهما فلا تحنث فی یمینک

( رواہ فی کفایت الشعبی ومغفره الغفور )

ترجمہ

 بیشک ایک شخص حاضر ہوئے پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ میں – تو عرض کیا انہوں نے  یا رسول اللہ بیشک میں نے قسم کھائی ہے کہ میں بوسہ دوں گا جنت کی چوکھٹ کو –  تو حکم فرمایا پیارے نبی اکرمﷺ نے یہ کہ چومو پاؤں ماں کے اور پیشانی باپ کی – اور روایت کیا جاتاہے کہ بیشک انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !  اگر نہ ہوں میرے والدین ؟

تو فرمایا پیارے نبی نے کہ چوم لو والدین کی قبروں کو –  انہوں نے عرض کیا  نہیں پہچانتا میں والدین کی قبروں کو –  فرمایا پیارے نبی نے کہ

 کهینچ لو دو لکیریں اور نیت کر لو کہ ایک ان دونوں میں کی ماں کی قبر ہے اور دوسری  باپ کی قبرپهر چوم لو دونوں لکیروں کوتو حانث نہیں ہوگا اپنی قسم کے بارے میں یعنی قسم پوری ہوجائیگی

( جامع مداری شریف جلد اول صفحہ 1096 )

 

Top Categories