شہنشاہ ہفت اقلیم سیدنا بابا تاج الدین اولیاء رضی اللہ تعالی عنہ
← پیدائش : سامعین حضور سید نا بابا تاج الدین کی پیدائش ۲۷ جنوری ۱۸۶۱ء مطابق ۵رجب ۱۲۷۹ھ بروز پیر ناگ پور کے قریب کا مٹی میں ہوئی جو ناگپور سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلہ پر آباد ہے۔ ان دنوں کامٹی میں انگریزی فوج کی چھاؤنی ہوا کرتی تھی آپ کے والد ماجد جنکا نام سید بدرالدین علیہ الرحمہ تھا جوکہ فوج میں صوبیدار تھے
← نسب : سرکار بابا تاج الاولیاء کا سلسلہ نسب سید نا امام حسن عسکری سے ملتا ہے ۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں والد کی جانب سے آپ کا شجرہ نسب امام عالی مقام مولا امام حسین علیہ السلام سے ملتا ہے اور روایت کے مطابق ۳۳ واسطوں سے آپ کا شجرہ نسب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے- آپ ۱(ایک) سال کے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا
آپکی والدہ کا نام مریم بی صاحبہ تھا جو زیادہ دن تو زندہ نہ رہ پائیں یعنی جب بابا تاج الاولیاء کی عمر ۹ سال کی ہوئی تو آپکی شفیق والدہ صاحبہ کا بھی سایہ اٹھ گیا یعنی آپکے بچپن میں ہی آپکے والدین کا سایۂ اٹھ گیا اور آپ یتیم ہوگئے تو پھر آپ کی نانی صاحبہ نے آپ کی پرورش فرمائی
←تعلیم : آپکی ابتدائی تعلیم کامٹی کے مدرسہ میں ہوئی ۱۵ سال کی عمر تک آپنے اردو , عربی , فارسی , انگریزی کی تعلیم حاصل کی طالب علمی کے ہی زمانے میں آپکے مدرسے میں کامٹی کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ نوشاہی مداری قادری تشریف لائے اور اس وقت بابا تاج الاولیاء اپنے استاذ سے درس لے رہے تھے آپ نے پڑھانے والے سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو انہیں کیاپڑھاتا ہے یہ تو خدا کی جانب سے پڑھے ہوئے ہیں اور پھر حضرت عبد اللہ شاہ بابا سرکار تاج الاولیاء کی طرف بڑھے کہ بابا عبداللہ شاہ نے اپنی جھولی سے ایک کھجور کو نکالا اور اس کو چبا کر کھجوروں کا آدھا حصہ سرکار تاج الاولیاء کو دے دیا تاج الاولیاء نے بے جھجک اسکو کھالیا اسکے بعد بابا عبداللہ شاہ نے بابا تاج الاولیاء کو سبق دیکر فرمایا کم کھاؤ کم بولو اور قرآن کریم کی تلاوت ایسے کرو جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اسکے بعد سے ہی سرکار تاج الاولیاء کی حالت بدل گئی اور آپ پر ایک کیفیت طاری ہوگئی آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے اور آپ کی یہی حالت مسلسل تین شب وروز تک رہی اور اتنا اثر ہوا کہ آپ نے دوسرے بچوں کی طرح کھیلنا کودنا بند کر دیا ۔ خلوت پسند ہو گئے اور اپنا زیادہ تر وقت پڑھنے اور فکر کرنے میں گزارنے لگے ۔ عربی ، فارسی کے شاعروں اور صوفیوں کا کلام زیر مطالعہ رہنے لگا تھا ۔ مولانا روم اور حافظ شیرازی کے اشعار اکثر زبان پر رہنے لگے ۔ اس طرح نہایت خلوص کے ساتھ آپ پڑھنے اور ظاہری علوم حاصل کرنے میں لگے رہے ۔آپ ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے ۔ ہندو مسلمان ، سکھ ، عیسائی اور پارسی ، دلت پست ، نیچے اونچے ان کی نظر میں سب یکساں تھے ۔ صحیح معنی میں وہ اپنے وقت کے میں امن کے سچے رہنما تھے