madaarimedia

مکنپور شریف کا شغل دمال

مکنپور شریف کا شغل دمال
 مکنپور شریف کا شغل دمال

شغل دمال کیا ہے؟

سرزمین مکنپور شریف کے عرس  مدار العالمین کی رسموں میں سے
 ایک خاص رسم ہے    شغل دمال!
جس میں مدار کے ملنگ اپنی ایمانی و روحانی طاقت کا مظاہرہ یعنی شکتی پردرشن کرتے ہوئے مخصوص اذکار کے ساتھ ایک مخصوص ریاضت کرتے ہیں جسے شغل دمال کہا جاتا ہے 
 شغل دمال سے قبل ایک کشتی ملنگان چوک سے اٹھا کر روضہء حضور مدار العالمین تک لے جائ جاتی ہے پھر وہاں سے دمال خانہ میں تخت نشین صاحب سجادہء عالیہ کے پاس رکھ دی جاتی ہے اس کشتی میں قرآن کریم بھی ہوتا ہے  
ملنگان کرام شغل دمال کرتے ہیں
بعض جگہوں پر مثلا حیدر آباد کے مدار چلہ پر شغل دمال انگاروں پر کرتے ہیں 
یہ سب پرنور نظارے دل کو بالیدگی اور روح ایمان کو تازگی عطا کرتے ہیں

شغل دمال کی ابتداء

قارئین !  سلسلہء عالیہ مداریہ میں شغل دمال کی ابتداء حضرت سرکار سید جمال الدین محمد، جان من جنتی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی تھی جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ
حضرت جمال الدین جنتی بغدادی رضی اللہ عنہ جو کہ  سرکار قطب المدار  کی دعا سے پیدا بھی ہوئے تھے اور امر ناگہانی سے بچپن میں ان کا انتقال ہوگیا تھا تو مدار پاک نے ان کے بال پکڑ کر قم باذنی کہتے ہوئے انہیں زندہ بھی کر دیا تھا  ـ جس کی وجہ سے پھر انہوں نے ادبا و تعظیما کبھی اپنے سر کے  بال نہیں کٹوائے کہ سرکار کا دست مبارک ان بالوں سے مس ہوا ہے اس لئے ان کے بال بڑھتے چلے گئے اور بہت بڑے بڑے ہوگئے
مدار پاک جب انہیں بغداد سے لیکر وارد ہندوستان ہوئے تو اجمیر شریف کی مدار ٹیکری پر انہیں چلہ میں بٹھایا اور خود اطراف و جوانب میں دعوت و تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے گئے عرصہء دراز کے بعد جب کوکلا پہاڑی یعنی مدار ٹیکری کی طرف واپس ہوئے تو پہاڑ کی بلندی سے جمن جتی نے پیر و مرشد کو آتے دیکھا تو والہانہ انداز میں خوشی سے کودنے لگے  ـ آپ کے بال تو بڑے بڑے تھے ہی وہ آپ کے کودنے سے لہرانے لگے
لوگوں نے دور سے دیکھا کہ بابا کچھ تماشہ کر رہا ہے  بابا کا تماشہ دیکھنے کے لئے بھیڑ اکٹھا ہوگئی تب تک مدار پاک بھی کوکلا پہاڑی پر تشریف لے آئے  آپ نے لوگوں کا ہجوم دیکھا تو تقریر فرمائ اور لوگوں کو دعوت اسلام دی ان میں سے بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو مدارالعالمین نے جمن جتی کی اس ادا سے خوش ہوکر فرمایا
جان من!  تم ایسے ہی کیا کرو تمہاری اس ادا سے اسلام کو فائدہ پہنچا
تب سے سلسلہء مداریہ کے درویش یعنی ملنگ شغل دمال کرنے لگے اور مدار پاک کے بعض چلوں پر دمال ہونے لگا
  • شغل دمال جمال الدین جان من جنتی سے شروع ہوا
درگاہ معلی حضور سید بدیع الدین شیخ احمد زندہ شاہ مدار پر شغل دمال کی شروعات  بھی سرکار جمال الدین جان من جنتی نے ہی کی تھی  آپ نے مدار پاک کے برادر زادے،  فرزند معنوی،  مرید و خلیفہ اور جانشین اول  حضور قطب الاقطاب خواجہ سید ابو محمد ، محمد ارغون رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے کیا تھا جس کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب محسن ہندوستاں قطب الاقطاب فرد الافراد حضرت سید بدیع الدین شیخ احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کے تمام خلفاء باوقار نے حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون کو جا نشین منتخب کیا اور نذرو نیاز تحفہ و  سوغات  پیش کئے اور حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون جب پہلی بار مسند سجادگی پر جلوہ افروز ہوئے تو حضرت جمال الدین جانمن جنتی اور آپکے دیگر ملنگان پاکباز نے حضرت خواجہ سید ارغون کے سامنے  فرط مسرت سے شغل دمال اس وجہ سے کیا کہ مدار پاک نے خواجہ سید ابو محمد ارغون کو اپنا نائب بناکر اپنے خلفاؤ مریدین کے درمیان یہ کہکر چھوڑا کہ اے لوگوں میں رب کائنات کے دربار میں پہونچنے والا ہوں میں وصال خالق کیلئے تمہارے درمیان سے رخصت ہونے والا ہوں تم سب اپنا اپنا فریضہء منصبی ادا کرتے رہنا اگر میرے بعد کوئ مشکل در پیش آئے تو تینوں شہزادوں    (حضرت ابو محمد ارغون .ابو تراب فنصور ابو الحسن طیفور )کو میری جگہ سمجھنا 

Read more

khuwaja syed abu turab fansoor r.a | حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور رحمۃ اللہ علیہ

حضرت سید ابو تراب فنصور رحمۃ اللہ علیہ جامع علوم صوری و معنوی تھے بوجہ وفور علم کے آپ کو لوگ ملک العرفا کہتے تھے آپ سادات حسینی و حسنی سے ممتاز ہیں جن کی مقدس نسبت والد ماجد کی طرف سے حضرت سیدنا امام عالی مقام حسین علیہ السلام شہید کربلا اور والدہ محترمہ … Read more

हुजूरे पाक की मक्की जिंदगी की वह 80 बातें

  हुजूरे पाक की मक्की जिंदगी की 80 बातें 1.हुजूरे पाक कहां पैदा हुए मक्का में (जो अरब का शहर है)2.हुजूरे पाक किस सन ईसवी में पैदा हुए 20 अप्रैल सन 5713.हुजूरे पाक किस दिन पैदा हुए पीर के दिन4.हुजूरे पाक मक्का के किस मोहल्ले में पैदा हुए सुकुल लैल5.हुजूरे पाक का खानदान कुरेश की … Read more

خواجہ معین الدین حسن چشتی

  سلطان الہند، عطائے رسول، خواجہ خواجگاں سرکار

سیدنا خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری ثم اجمیری

المعروف خواجہ غریب نواز، ہندالولی رضی اللہ تعالٰی عنہ


آپ اللہ کے وہ مقبول بندے ہیں کہ جب اپنی حیات ظاہری میں میں جلوہ گر رہے تو مرجع خلائق بن کر رہے اور جب ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو اپنی راجدھانیوں میں بہ فیض ربی حاجت رواے عالم بن کر رشک دارا و سکندر ہو گئے


سرکار خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی ولادت 537ھ میں خطئہ سجستان کے موضع سنجر شہر خراساں میں میں ہوئی

آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت خواجہ سید غیاث الدین حسن ہے۔ آپکا شجرہ نسب چند واسطوں سے امام عالیمقام سیدنا امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ آپکی والدہ محترمہ کا نام بی بی ام الورع رضی اللہ عنہما ہے ۔ آپ بی بی ماہ نور کے نام سے مشہور تھیں۔ چند واسطوں سے آپکا شجرہ نسب ہم شبیہہ مصطفے سیدنا حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے جا ملتاہے۔ اسی باعث سرکار غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ والد کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی یعنی نجیب الطرفین سید ہیں۔


سرکار غریب نواز کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار حضرتخواجہ سید غیاث الدین حسن اپنے وقت جید عالم دین تھے۔ خواجہ صاحب نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ فرما لیا اور اس کے بعد سنجر کے ایک مکتب میں حصول علم کی غرض سے داخلہ لیا۔ آپ نے یہاں ابتدائی طور سے تفسیر، فقہ اور حدیث کی تعلیم پائی اور تھوڑے ہی عرصے میں آپ نے تمام علوم میں مہارت تامہ حاصل کرلی۔


مسالک السالکین سے پتہ چلتا ہے کہ خواجہ غریب نواز اور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور سیرالاقطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ غریب نواز ایک رشتے سے حضرت غوث پاک کے ماموں ہوتے ہیں۔ (مسالک السالکین صفحہ 271، 272، سیر الاقطاب صفحہ107)


آپکا شجرہء بیعت

پندرہ واسطوں سے قبلہ گاہِ اولیاء امام العالمین سیدنا مولا علی علیہ الصلاۃ والسلام تک ملتا ہے۔ جسکو آپ اپنی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں

۔

حضرت خواجہ معین الدین

خواجہ عثمان ہارونی

حاجی شریف خدندنی چشتی

قطب الدین مودور چشتی

خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی

خواجہ ابو محمد چشتی

خواجہ ابدال چشتی

خواجہ ابو اسحاق چشتی

خواجہ ممشاد علادنیوری

شیخ امین الدین بصری

شیخ سدید الدین حذلقۃ المرعشی

سلطان ابراہیم ادہم بلخی

خواجہ فضیل بن عیاض

خواجہ عبدالواحد بن زید

حضرت خواجہ حسن بصری

شہنشاہ ولایت سیدنا مولا علی علیہ السلام

حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی

حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی

حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی کی ولادت 1203 ہجری یعنی سن 1789 عیسوی کو ہوئی آپ خاندانی امیر و رئیس تھے کوینکہ آپ کے دادا محترم سید جلال الدین عادل گولکنڈہ کے فرماں روا تھے اور سید قطب علی شاہ کی یادگار تھے اورآپ کی مادری زبان اردو تھی۔آپ نے عربی ،فارسی اوربعدازاں انگریزی زبان سیکھی۔

آپ خوب صورت اور خوب سیرت شخصیت کے مالک تھے ۔آپ نے عملی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن میں فوج کی ملازمت سے کیا۔آپ نے دوران ملازمت انگریزوں کو بہت قریب سے دیکھاجانااوربعض انگریز رفقا کی ترغیب سے برطانیہ کاسفرکیا،

پھر مصرگئے ،حجازمقدس کی زیارت کی،حج کیا، بعدازاں ترکی،ایران اورافغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان لوٹے ۔ آپ نے یہ سیر وسیاحت اپنی جوانی کے دور میں کی۔

القصہ آپ ایک جہاندیدہ اور باہمت شخصیت کے حامل تھے ۔گویاکہ کہ آپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت نوابی یعنی امیرانہ ماحول میں ہوئی مگر آپ کی طبیعت میں بچپن سے ہی فقیری یعنی طلب صادق غالب تھی۔آپ کاتصوف سے خاص تعلق تھا۔اور اسی روحانی جستجونے آپ کو سارے ہندوستان کی سیاحت کرائی۔ اور آپنے بیکانیر اورسانبھر میں 12سال تک ریاضت،مجاہدہ اور چلہ کشی بھی فرمائی اور جب تصوف کی طرف آپ کی طبیعت مائل ہوئی اور جب دادا محترم سید جلال الدین عادل سے ٹیپو سلطان کا تختہ الٹنے کا واقعہ سنا تو طبیعت بلکل کمزور ہوگئی اور پھر احمد اللہ شاہ مدراسی نے سب کچھ چھوڑ کر سیاحت اختیار کر لی اور سیاحت کرتے ہوئے ٹونک راجستھان پہنچے اور ٹونک راجستھان سے آپ جے پور پہنچے اور جب آپنے حضرت سیدنا محراب علی شاہ قلندر مداری کا چرچہ سنا تو ان سے فیض حاصل کرنے کے لیے آپ گوالیر پہنچے اور حضرت سید محراب علی شاہ قلندر مداری کی خدمت میں پہنچکر آپنے بیعت و ارادت یعنی مرید ہونے کا عریضہ پیش کیا حضرت محراب علی شاہ قلندر مداری نے فرمایا کہ اے احمد اللہ شاہ میں تمہیں اس شرط پر مرید کروں گا کہ تم ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کا وعدہ کرو جب سیدنا محراب علی شاہ قلندر مداری نے یہ شرط رکھی تو حضرت سید احمد اللہ شاہ مدراسی نے ایسا جواب دیا کہ جس سے وطن کی محبت اور مرشد سے عقیدت دونوں اپنے کمال کی حد تک پہنچ جاتے ہیں


یعنی حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی نے فوراً جواب دیا کہ یہ شرط مجھے منظور ہے

لہٰذا آپ مجھے اپنا مرید بنا لیں میں ضرور ملک کو آزاد کراؤں گا اور یہ وعدہ کرنے کے بعد آپ نے پورے ملک میں آزادی کی تحریک چلائی اور آپ راجہ پوائیں سے تعاون لینے کے لیے یعنی مدد لینے کے لیے بندیل کھنڈ آئے راجہ پوائیں اگر مدد دینے کے لیے تیار ہو جاتا تو احمد اللہ شاہ مدراسی کو سانس لینے کا موقع ملتا مگر راجہ پوائیں نے غداری کی اور غداری بھی اس طرح سے کی کہ پتھر دل ظالم بھی ایسی غداری دیکھ کر شرم سارہو جائے یعنی پہلے تو راجہ پروائی بھائی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا اور جب تیار ہوا بھی تو اندر سے حویلی کا دروازہ بند کر کے حضرت احمد اللہ شاہ مداری مدراسی پر اتنی گولیاں چلوائیں کہ آپ کا جسم چھلنی ہو گیا

اتنے میں راجہ بلوان سنگھ نے آپ کا سر تن سے الگ کرکے صاحب کلیکٹر شاہ جہاں کے سپرد کردیا اور جسم اقدس کو آگ میں پھینک دیا اور آپ کے سر مبارک کو دریا پار محلہ جہان آباد مسجد متصل احمد پور کے پہلو میں دفن کردیا گیا

حضرت حذیفہ شامی

 ملک الاولیاء امام الفقراء شیخ و الشیوخ علامۂ کبیر ہست جامِ بے غشی

حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی شامی رضی اللہ تعالی عنہ

جو جماعت اولیاء کے ایک عظیم ولی ہوئے ہیں اور آپکا سیدنا حضور مدارالعالمین سے کا تعلق

کچھ اس طرح ہے

کہ جب حضرت مدار پاک کی عمر شریف چار سال چار مہینہ چار دن کی ہو گئی تو مدار پاک کے والد بزرگوار حضرت قاضی قدوۃالدین علی حلبی نے سرکار مدار پاک کو حضرت حذیفہ شامی کی خدمت میں پیش کیا تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جب پہلے دن حضرت مدار پاک کو حضرت حذیفہ شامی نے الف پڑھایا تو مدار پاک نے الف کی تشریح بیان فرمانا شروع فرمادی اور آپ کئی روز تک استاذ کے سامنے الف کی شرح بیان فرماتے رہے مدار پاک کی زبان سے الف کی شرح بیان سنتے سنتے اچانک مولانا حذیفہ شامی کی زبان سے برجستہ یہ جملے نکلے “ہذا ولی اللہ” یہ اللہ کے ولی ہیں اور سعید ازلی ہیں


سامعین کبھی کبھی حضرت حذیفہ شامی کی بارگاہ میں سرکار قطب المدار ایسی باریک باتیں بیان فرماتے کہ حذیفہ شامیں بھی حیران رہ جاتے(جدید مدار اعظم) غرض کے مدار پاک چودہ برس کی عمر تک قرآن حدیث تفسیر , فقہ , اصول معانی , اور دیگر علوم مروجہ میں مہارت حاصل فرمائی اور تمام علوم ظاہری سے آراستہ و پیراستہ ہوگئے

سامعین تذکرۃ الکرام اور لطائف اشرفی کے مطابق دیگر کتب سماویہ یا یعنی توریت و زبور انجیل کے بھی حافظ عالم ہو گئے تھے اس کے علاوہ علوم نوادرہ یعنی ریمیا کیمیا سیمیا ھیمیا بھی حاصل کر لیے تھے(انوار سلسلۂ مداریہ)


حضرت حذیفہ شامی بھی اپنے وقت کے بہت بڑے ولی اور عالم باعمل و علم و فضل میں میں یکتائے روزگار اور ایک صاحب دل و کشف و کرامت بزرگ گزرے ہیں جس کا کچھ اندازہ آپ آگے بیان ہونے والے واقعات سے لگا پائیں گے


سامعین مولانا محمد امام الدین حنفی چشتی لکھتے ہیں

(مراۃ السالکین)

حضرت قطب غوری رضی اللہ تعالی عنہ

    حضرت قطب غوری رضی اللہ تعالی عنہ     

قطب الاقطاب سید المشائخ حضرت سرکار قطب الدین رضی اللہ تعالی عنہ کے حالات کے پیش نظر ہے سامعین حضرت قطب الدین رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام نام قطب الدین ہے لیکن آپ قطب غوری یا قطب شاہ غوری کے نام سے مشہور ہیں آپ کے آباواجداد کا تعلق ملک افغانستان کے رہنے والے شاہی خاندان سے تھا تاریخ مدار الاولیاء کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کا اسم گرامی قطب الدین اور آپ کے والد کا نام ناصرالدین اور آپکے دادا بہاوالدین ابن محمود بن غیاث الدین غوری ہے غرض کہ سال ولادت اور حسب و نسب کے بارے میں تذکرہ نگاروں کا اتفاق نہ ہوسکا ہے مگر مشہور یہ ہے کہ آپ ۱۶ رجب المرجب ۶۵۷ ہجری مطابق ۱۲۵۷ء میں پیدا ہوئے حضرت قطب غوری رضی اللہ عنہ نے کے ایک معزز گھرانے میں پرورش پائی بچپن ہی سے آپ کے دل و دماغ میں دین کی محبت موجزن تھی اور حکومت کے نشیب و فراز آپ اچھی طرح سے جان چکے تھے

ابتدائی تعلیم سے مکمل فارغ ہوکر مزید تعلیم آپنے اپنے سلسلے کے مشائخ سے حاصل فرمائی

یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ افغانستان کے بادشاہ تھے اور بادشاہت چھوڑ کر مرشد حق کی تلاش میں بیرون ملک ہندوستان آئے تھے کیونکہ سرکار قطب غوری جس زمانے میں اپنی زندگی گزار رہے تھے اس دور میں سیاسی حالات سازگار نہ تھے اور آپ بادشاہت سے بیزار ہو چکے تھے آپ نے بچپن ہی سے دنیا کی بے ثباتی کو ملاحظہ فرما لیا تھا اور بادشاہوں کے ظلم و ستم سے آپ کا دل لرزنے لگاتھا چنانچہ کم عمری ہی میں آپنے سلطنت کو خیر آباد کہہ دیا اور ہندوستان تشریف لےآئے جس وقت آپ ہندوستان میں تشریف لائے اس وقت آپکی ۱۴ یا ۱۵ سسل کی تھی اور اس وقت ہندوستان میں سلطان ناصرالدین قباچہ کی حکومت تھی اور سلطان ناصر الدین قباچہ کا دور اقتدار ۱۲۴۶ء سے ۱۳۲۶ء تک ہے سلطان الدین نے طینت اور خداترس انسان تھے تھے جس وقت سلطان ناصر الدین دین تخت نشین ہوئے اس وقت حضرت قطب غوری کی عمر تقریبا 11 سال تھی

دنیاوی شاہی تخت و تاج کو چھوڑنا معمولی بات نہیں ہوتی مگر جس دل میں خدا کی محبت و الفت بس جائے ان کے لئے دنیا ایک مچھر کے پر سے زیادہ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتی آپ نے اپنے مہربان استاد سے سنا کہ دنیا فانی ہے یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے باقی رہنے والی ذات اللہ کی ہے تو پھر آپ کے دل میں خدا کی عظمت و محبت گی گی اور آپ جنگلوں اور بیابانوں میں اکثر اوقات صرف کیا کرتے تھے اور ذکر الہی میں محو ہو جاتے تھے اتنی بڑھ جاتی تھی کہ آپ بے خود ہو جایا کرتے تھے آپ کے اساتذہ کرام کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات فراہم نہ ہوسکیں تاہم آپ کے ابتدائی اساتذہ کرام میں شاہی اتالیق ہوا کرتے تھےآپنے بالخصوص مولانا برہان الدین محمود بن ابولخیرا سعد بلخی متوفی ۶۸۷ھجری سے بھی تعلیم حاصل فرمائی جو صرف مذہبی علوم میں یہ گانا حیثیت کے حامل ہی نہ تھے بلکہ اپنے وقت کےعلما سے آگے بڑھے ہوئے تھے آپ نے اپنی زندگی میں ایک ایسی کتاب لکھی جو آج بھی ابھی دنیا جہان میں مشہور ہے جس کو ہدایت شریف کے نام سے جانا جاتا ہے اس کتاب کے مصنف حضرت قطب غوری رضی اللہ تعالی عنہ کے استاذ محترم تھے ان کے علاوہ دیگر اساتذہ کرام سے بھی آپ نے علوم شرعیہ ظاہرہ حاصل کیا اور علوم طریقت اپنے پیر و مرشد حضرت محمود برمکی رضی اللہ عنہ سے حاصل ہوا اورحضرت محمود برمکی خلیفہ تھے حضرت جمال الدین جان من جنتی رضی اللہ عنہ اور آپ خلیفہ خاص تھے حضور مدار العالمین رضی اللہ تعالی عنہ کے

یہ وہ عظیم شخصیتیں ہیں جنہوں نے حضرت قطب غوری کو بے مثل بے مثال بنا دیا آپ صرف عارف کامل ہی نہیں بلکہ واقفیت روموز شریعت بھی تھے اور علومِ معرفت و طریقت کے علوم اور شریعت کے بحر ذخار بھی تھے بس اِس شیخِ طریقت و معرفت کی نگاہ کرم نے آپ کو طریقت میں اس بلندی پر پر فائز فرمایا اور علوم دین میں آپ کو بصیرت تامہ عطا فرمائی آپ مسلکاً حنفی اور مشرباً طیفوری طبقاتی مداری تھے سامعین حضرات غوری کی شخصیت ایک معمہ ہے جو لفظ بنجر کے مقام میں ہے آپ بھی ایک عظیم راز ہے جسے سمجھنے کے لئے عقل اور خرد ہی نہیں بلکہ عقیدت اورمحبت درکار ہے آپ پوری زندگی دا نیت کے گیت گاتے رہے اور بعد از وصال بھی اپنے معبود حقیقی کی قدرت کو اجاگر فرماتے رہے آپ نے اپنے وصال سے پہلے اپنے تمام مریدین خاص و خلیفہ مقرب حضرت سید فتح قادری مداری دیدار مست اور چند مریدوں کو بلا کر فرمایا کہ فلاں دن فلاں وقت میں اس دار فانی سے کوچ کروں گا لہذا بعد وصال غسل و کفن اور جنازہ کے بعد دفن مجھے وہی کرنا جہاں تمہیں دفنانے کا حکم ملے اس کی علامت یہ ہے کہ میرا جنازہ لے کر چلنا جہاں بھاری ہو جائے تم اٹھا نہ سکو تو سمجھ لو کہ وہی مقام ہے دفنانے کا‘ جب آپ کا انتقال ہو گیا تو ۷۰ مریدوں کی ایک جماعت تشکیل دی گئی اور اس جماعت کے امیر آپ کے خلیفہ مقرر حضرت سید فتح قادری مداری دیدار مست تھے ان کی ماتحتی میں جنازہ مبارک کاندھوں پر اٹھایا گیا اور نعرہائے تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے جنازہ کو لیکر چلے سامعین یہ ایک ایسا منظر تھا کہ ستر پروانوں کے جھرمٹ میں شمع اسلام جل رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسا کہ دولہا اپنے باراتی کے ساتھ چل رہا ہو جدھر سے گزرتے گئے کفر کے بادل چھٹتے جاتے تھے اور پرچم اسلام بلند ہوتے جا رہا تھا اب اسے مشیت الہی کہیے کہ اللہ تعالی آپ کے جنازے سے اشاعت اسلام کا کام لے رہا تھا الغرض وہ مریدان بامراد جنازۂ مقدسہ لیکر ذکر الہی کے ساتھ لے کر پھرتے رہے شہر شہر قریہ قریہ چلتے رہے اور وہ مرید باوفا تھے اور پیر بھی ایسے باعمل تھے آج کے مرید ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا کہا جاتا ہے کہ بارہ سال ملک ہندوستان کے چپے چپے کونے کونے میں آپ کا جنازہ گزشتہ لگاتا رہا اور 12 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی چہرے میں وہی شگفتگی وہی تازگی باقی تھی جو وصال کے وقت تھی بلکہ اس سے زیادہ نورجمال ٹپک رہا تھا المختصر وہ جگہ آئی جس کی حضرت قطب غوری نے نشاندہی فرمائی تھی کہ دفن وہیں کرنا جہاں تمہیں دفنانے کا حکم ملے مجھے جہاں پر جنازہ بھاری ہو جائے تم اٹھا نہ سکو

Read more

حضرت سید احمد بادیا پا رضی اللہ عنہ

حضرت سید احمد بادیا پا رضی اللہ عنہ

حضرت سید احمد بادیا پا رضی اللہ عنہ کا نام تو سنا ہی ہوگا

جو کہ میراں شاہ بابا کے نام سے مشہور ہیں اور تصوف کی پرانی کتابوں میں

ان کی درگاہ شریف کے علاقے کا نام

کلہاوابن ملتا ہے جسے آج مدھوبن کہا جاتا ہے جو کہ ضلع مؤ میں لگتا ہے

ان کا مختصر ذکر ہم اپنی ایک ویڈیو میں کر چکے ہیں

جس کا لنک آپ کو ڈسکرپشن میں مل جائے گا


لیکن پھر بھی ہم یہاں پر بطور یاددہانی بتاتے چلیں

کہ حضرت سید احمد بادیاپا جو کہ میراں شاہ بابا کے نام سے مشہور ہیں پانچویں صدی ہجری کو بغداد میں سرکار مدار العالمین رضی اللہ عنہ کی دعاؤں سے

پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد کا نام نام حضرت سید محمود اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی نصیبہ ہے جو کہ سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی سگی بہن تھی آپ کے بڑے بھائی حضرت سید محمد ہیں

جو سرکار جمال الدین جان من جنتی رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہیں

چنانچہ آپ یعنی سید احمد بادیاپا المعروف میرا شاہ اور سید محمد جمال الدین جان من جنتی آپ دونوں حضرات سرکار غوث پاک رضی اللہ عنہ کے حکم سے مدار پاک رضی اللہ عنہ کی صحبت میں آکر مدار پاک کے ساتھ ہی ہندوستان آئے اور آپ ہی کے دست حق پرست پر بیعت کی اور سلسلہ مداریہ میں اجازت و خلافت حاصل فرمائی

آپکی ایسی مقدس ذات ہے کہ آپکو شیخ وجیہ الدین اشرف نے تاج بخش سلاطین فقرہ کے القاب سے یاد کیا ہے یعنی حضرت سید احمد بادیاپا رحمتہ اللہ علیہ المعرف میرا شاہ کی کرامات میں خاص کرامت یہ تھی کہ آپ نے بادشاہوں اور فقیروں کے سر پر تاج رکھا اور سامعین اس بات میں کتنی سچائی ہے آپ اگے بیان ہونے والے واقعات کو سن کر جھٹلا نہیں پائینگے چنانچہ جب آپ کا سفر مشرق کی جانب ہوا اس وقت ایران و تاتار میں مجیب خانہ جنگیاں تھیں کشت و خون کا بازار گرم تھا ترکوں کے حملے اور تاتاریوں کی لوٹ مار سے سے سخت ابتری پھیلی ہوئی تھی

Read more

سیدنا بابا تاج الدین اولیاء

 شہنشاہ ہفت اقلیم سیدنا بابا تاج الدین اولیاء رضی اللہ تعالی عنہ

← پیدائش : سامعین حضور سید نا بابا تاج الدین کی پیدائش ۲۷ جنوری ۱۸۶۱ء مطابق ۵رجب ۱۲۷۹ھ بروز پیر ناگ پور کے قریب کا مٹی میں ہوئی جو ناگپور سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلہ پر آباد ہے۔ ان دنوں کامٹی میں انگریزی فوج کی چھاؤنی ہوا کرتی تھی آپ کے والد ماجد جنکا نام سید بدرالدین علیہ الرحمہ تھا جوکہ فوج میں صوبیدار تھے

← نسب : سرکار بابا تاج الاولیاء کا سلسلہ نسب سید نا امام حسن عسکری سے ملتا ہے ۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں والد کی جانب سے آپ کا شجرہ نسب امام عالی مقام مولا امام حسین علیہ السلام سے ملتا ہے اور روایت کے مطابق ۳۳ واسطوں سے آپ کا شجرہ نسب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے- آپ ۱(ایک) سال کے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا

آپکی والدہ کا نام مریم بی صاحبہ تھا جو زیادہ دن تو زندہ نہ رہ پائیں یعنی جب بابا تاج الاولیاء کی عمر ۹ سال کی ہوئی تو آپکی شفیق والدہ صاحبہ کا بھی سایہ اٹھ گیا یعنی آپکے بچپن میں ہی آپکے والدین کا سایۂ اٹھ گیا اور آپ یتیم ہوگئے تو پھر آپ کی نانی صاحبہ نے آپ کی پرورش فرمائی

←تعلیم : آپکی ابتدائی تعلیم کامٹی کے مدرسہ میں ہوئی ۱۵ سال کی عمر تک آپنے اردو , عربی , فارسی , انگریزی کی تعلیم حاصل کی طالب علمی کے ہی زمانے میں آپکے مدرسے میں کامٹی کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ نوشاہی مداری قادری تشریف لائے اور اس وقت بابا تاج الاولیاء اپنے استاذ سے درس لے رہے تھے آپ نے پڑھانے والے سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو انہیں کیاپڑھاتا ہے یہ تو خدا کی جانب سے پڑھے ہوئے ہیں اور پھر حضرت عبد اللہ شاہ بابا سرکار تاج الاولیاء کی طرف بڑھے کہ بابا عبداللہ شاہ نے اپنی جھولی سے ایک کھجور کو نکالا اور اس کو چبا کر کھجوروں کا آدھا حصہ سرکار تاج الاولیاء کو دے دیا تاج الاولیاء نے بے جھجک اسکو کھالیا اسکے بعد بابا عبداللہ شاہ نے بابا تاج الاولیاء کو سبق دیکر فرمایا کم کھاؤ کم بولو اور قرآن کریم کی تلاوت ایسے کرو جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اسکے بعد سے ہی سرکار تاج الاولیاء کی حالت بدل گئی اور آپ پر ایک کیفیت طاری ہوگئی آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے اور آپ کی یہی حالت مسلسل تین شب وروز تک رہی اور اتنا اثر ہوا کہ آپ نے دوسرے بچوں کی طرح کھیلنا کودنا بند کر دیا ۔ خلوت پسند ہو گئے اور اپنا زیادہ تر وقت پڑھنے اور فکر کرنے میں گزارنے لگے ۔ عربی ، فارسی کے شاعروں اور صوفیوں کا کلام زیر مطالعہ رہنے لگا تھا ۔ مولانا روم اور حافظ شیرازی کے اشعار اکثر زبان پر رہنے لگے ۔ اس طرح نہایت خلوص کے ساتھ آپ پڑھنے اور ظاہری علوم حاصل کرنے میں لگے رہے ۔آپ ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے ۔ ہندو مسلمان ، سکھ ، عیسائی اور پارسی ، دلت پست ، نیچے اونچے ان کی نظر میں سب یکساں تھے ۔ صحیح معنی میں وہ اپنے وقت کے میں امن کے سچے رہنما تھے

حیات سید اشرف جہانگیر سمنانی

شہنشاہ سمناں غوث العالم 

سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی

 رضی اللہ تعالی عنہ

شہنشاہ سمناں غوث العالم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم شخصیت ان پاکیزہ ہستیوں میں سے ایک ہے جنکے قدموں کی برکت سے جونپور اور اسکے اطراف  و جوانب کے علاقے مثلاً فیض آباد، اعظم گڑھ، دیوریا، گورکھپور، بنارس وغیرہ میں اسلام کی اشاعت کا نیا دور شروع ہوا۔ 

آپ کی ولادت 688ھ سمنان میں ہوئ۔ آپکے والد بزرگوار کا اسم گرامی سلطان سید محمد ابراھیم علیہ رحمۃ اور والدہ نام حضرت بی بی خدیجہ بیگم تھا۔ جو حضرت خواجہ احمد لیسوی کی شہزادی تھی۔ آپکی ولادت کے متعلق یہ روایت مشہور ہیکہ ولادت سے قبل ایک مجذوب بزرگ سمنان کی فصیلوں کے باہر جبکہ شہر کا دروازہ بند ہوچکا تھا۔ بلند آواز سے لوگوں کو خبردار کرتے تھے کہ لوگوں خبردار ہوجاؤ شہنشاہِ ولایت غوث العالم کی تشریف آوری ہونے والی ہے۔ وہ مجذوب بزرگ حضرت ابراھیم شاہ تھے۔ جنہوں نے غوث العالم حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر کی ولادت کا مڏدہءِ جانفزا سنایا۔ 

حضور مخدوم اشرف جہانگیر نے صرف سات سال کی عمر میں شعبئہِ قراءت کے ساتھ قرآن مجید بھی حفظ کرلیا۔ اور چودہ سال میں علومِ ظاہر و باطن حاصل کرکے پورے عراق میں شہرت حاصل کرلی۔ ابھی تعلیم کے مرحلے سے گزر ہی رہے تھے کہ آپکے والد سلطان سید محمد ابراھیم کا وصال ہوگیا۔ حکومت کی ذمہ داریاں آپکے کاندھو پہ آگئیں۔ اسکے باوجود یادِ الہی میں مشغول رہتے تھے۔ اسی زمانے میں خواب میں خواجہ اویس کرخی نامی بزرگ کی زیارت ہوئ انہوں نے آپکو ذکر اویسیہ کی تلقین کی آپ اس ذکر میں مشغول ہوئے۔ اور کچھ ہی دن گزرے تھے کہ حضرت خواجہ خضر علیہ السلام سے آپکی ملاقات ہوئ اور انہوں نے فرمایا ایک وقت میں دو قسم کی سلطنت دشوار ہے خدا کی طلب ہے تو ہندوستان کا سفر کرو۔

Read more

Top Categories