بعض امور تعزیہ داری پر غلط فہمیاں الزام تراشیاں اور ان کا ازالہ
غلط فہمی
تعزیہ دار محرم کے دنوں میں
مصنوعی قبریں بناتے ہیں – یہ بھی ناجائز ہے
ازالہ
ہماری شریعت میں مصنوعی قبریں بنانا بیشک ممنوع و ناجائز ہے – مگر تعزیوں کو مصنوعی قبریں کہنا ہرگز درست نہیں ہے – کیونکہ تعزئیے مصنوعی قبریں نہیں ہیں بلکہ قبر کے نقشے ہیں اور شرع شریف میں قبروں کے نقشے بنانا ممنوع و ناجائز نہیں
مصنوعی قبر تو وہ ہوتی ہے کہ زمین پر قبر نما بنا دی جائے اور ان کے اندر میت دفن نہ ہو اور لوگ دھوکہ کھائیں کہ یہ قبر ہے – اس میں کوئ دفن ہے – یہ ہے مصنوعی قبر اور شریعت میں یہی منع ہے – رہا قبر نما تعزیہ تو وہ قبر کا نقشہ ہے مصنوعی قبر ہرگز نہیں – دنیا میں اتنا بڑا بیوقوف کون ہوگا جو کھپاج سے بنائے ہوئے اور کاغذ، پنی یا کپڑے سے سجائے ہوئے ڈھانچے سے (جسے لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ادھر ادھر پھرتے ہیں ) دھوکہ کھائے اور سمجھے کہ یہ کسی کی قبر ہے اور اس میں کوئ دفن ہے – غرض تعزیہ مصنوعی قبر نہیں ہے بلکہ قبر کا نقشہ ہے اسے مصنوعی قبر کہنا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے
غلط فہمی
کسی کے گھر میں میت ہوجائے تو کیا وہاں ڈھول باجے بجائے جائیں گے یا جنازہ ڈھول باجوں کے ساتھ اٹھایا اور لے جایا جائے گا ؟
ازالہ
اول تو یہ کہ تعزیوں کو جنازہ باور کرانا کھلا ہوا فریب اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے – کیونکہ تعزیہ جنازہ نہیں ہے – بلکہ روضۂ امام پاک کا تصوراتی نقشہ ہے – خواہ روضہ شریف سے مشابہ ہو یا نہ ہو اسے کوئ بھی امام پاک کا جنازہ نہیں سمجھتا ہے لھذا تعزیہ کو جنازہ باور کرانا بھی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی ہے –
دوسرے یہ کہ ڈھول نقارے وغیرہ اعلان کے لئے بجانا جائز ہے جیسا کہ اوپر تفصیل گذری لھذا اگر کسی جگہ میت کے اعلان کیلئے ڈھول وغیرہ بجا نا ہی معمول و مقرر و متعارف ہو کہ لوگ اس علامت سے سمجھ لیں کہ میت ہوگئ یا یہ کہ جنازہ اٹھ گیا اور قبرستان کو لے جایا جا رہا ہے تو شرعاً میت کے گھر اور جنازے کے ساتھ ساتھ ڈھول بجانا بھی ممنوع نہیں ہوگا
غلط فہمی
– جاہلوں نے مصنوعی کربلائیں بنا لیں ان میں تعزیوں کو دفن کرتے ہیں – پھر تعزیہ کا تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں کرتے ہیں
ازالہ
مصنوعی کربلائیں در اصل یادگار کربلا ہیں اور ایسی یادگاریں بنانا شرعاً ممنوع نہیں – رہی بات تعزیوں کو دفن کرنے کی تو جن کے پاس سال بھر تک ادب و احترام کے ساتھ تعزیوں کو محفوظ رکھنے کی جگہ ہوتی ہے وہ محفوظ رکھتے ہیں – اور جن کے پاس جگہ نہیں ہوتی ہے وہ بے ادبی اور بے حرمتی سے بچانے کے لئے یا تو تعزیوں کو دفن کر دیتے ہیں یا پھر دریا برد کر دیتے ہیں کہ اس میں بھی شرعاً کوئ خرابی نہیں ہے – بلکہ یہ بھی تعظیم ہی کا ایک طریقہ ہے جیسے قرآن کریم کے کہنہ اور بوسیدہ اوراق کو یا تو دفن کر دیا جاتا ہے یا پھر دریا برد کر دیا جاتا ہے – رہی تعزیوں کے تیجے، دسویں، بیسویں اور چالیسویں کی بات تو یہ مسلمانوں پر کھلا ہوا بہتان ہے –
خدارا انصاف
لوگ شہیدان کربلا کا تیجہ، دسواں ، بیسواں، چالیسواں کرتے ہیں کہ تعزیوں کا؟
تعزیوں کا تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں، بتانا یقیناً بہتان تراشی ہے اور خواہ ۔مخواہ مسلمانوں کی تجہیل و تحمیق اور ان کا تمسخر ہے جو بجائے خود حرام ہے
غلط فہمی
– تعزیہ داری روافض کا شعار ہے اس لئے جائز نہیں
تعزیہ داری کا موجد تیمور لنگ شیعہ تھا اسی نے تعزیہ داری کو ایجاد کیا
ازالہ
پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ صدیوں سے غیر منقسم ہندوستان کے چپے چپے پر سنی مسلمان تعزیہ داری کر رہے ہیں پھر یہ روافض کا شعار کیسے ہوگیا دور حاضر میں روافض بھی تعزیہ داری کر رہے ہیں مگر کوئ یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ تعزیہ داری روافض کی ایجاد ہے اور ان کو دیکھ کر سنیوں نے اختیار کی ہے
شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جب روافض کا وجود بھی نہیں تھا تب سے سنی مسلمانوں خاص کر اللہ والوں میں تعزیہ داری رائج تھی بعد میں جسے دیکھ کر رافضیوں نے بھی تعزیہ داری شروع کر دی مگر طریقہ میں قدرے ترمیم بھی کی جس سے سنیوں اور شیعوں کی تعزیہ داری میں واضح فرق ہوگیا
حضرت امیر تیمور لنگ گورگان رحمۃ اللہ علیہ اول تو رافضی نہیں تھے – سنی تھے – دوسرے یہ کہ تعزیہ داری کے موجد نہیں تھے – عاشق اہلبیت تھے تعزیہ داری کرتے ہونگے – ممکن ہے ان کے زمانہ میں تعزیہ داری کو فروغ ملا ہو – مگر وہ تعزیہ داری کے موجد نہیں تھے – ان سے تقریباً دو صدی قبل سلطان الہند، حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چاندی کا تعزیہ شریف بنوایا تھا جو آج بھی اجمیر شریف میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ عنہ کی چلہ گاہ میں موجود ہے اور ہر سال 5/ محرم الحرام کو اس کی زیارت کرائ جاتی ہے
(تفصیل کیلئے دیکھیں “راہ اسلام ص 87/74)
Read more