madaarimedia

دئے بھی چپ خیمے جل چکے ہیں نہیں ہے اب روشنی سکینہ

 دئے بھی چپ خیمے جل چکے ہیں نہیں ہے اب روشنی سکینہ

جو کھو گئے دشت کربلا میں انہیں کہاں ڈھونڈتی سکینہ


لرز اٹھا ہائے سارا عالم فرشتے لائے نہ تاب اس دم

کہ لاش بابا پہ آئے جس دم لپٹ کے رونے لگی سکینہ


غموں کے دن ہیں الم کی راتیں کرے بھی اب کس سے پیاری باتیں

جدا ہوا عمر بھر کو اصغر عجیب سی ہو گئی سکینہ


تھا بدلا بدلا سا گھر کا نقشہ رہا نہ کچھ لٹ چکی تھی دنیا

ہیں اور احباب یاد آئے مدینے جب آگئی سکینہ


یہ فکر عباس دل میں لے کر چلے ہیں خلد بریں کی جانب

نہ دشت کرب و بلا میں تیری بجھا سکا تشنگی سکینہ


تھکی تھکی سی تھی غم سے بوجھل فراق عباس سے تھی بیکل

نہ پایا بابا کا سر پہ سایہ تو دھوپ میں سوگئی سکینہ


نہیں مرے پاس کچھ بھی محضر کروں قدم پر جسے نچھاور

قبول ہو تو میں پیش کردوں حقیر سی زندگی سکینہ
  ——

کوفہ تری دھرتی پہ دو آئے ہوئے بچے

 کوفہ تری دھرتی پہ دو آئے ہوئے بچے

گلہائے رسالت ہیں مرجھائے ہوئے بچے


کچھ خواب میں فرمایا سرکار رسالت نے

لیٹے ہیں گلے باہم گھبرائے ہوئے بچے


مجبور ہیں بے کس ہیں جائیں تو کہاں جائیں

غربت میں تیمی سے گھبرائے ہوئے بچے


پاتے نہیں چھپ نے کی صحراء میں بھی جا کوئی

طوفان مظالم سے ٹکرائے ہوئے بچے


جس طرح سے چھاتی ہے بدلی مہ کامل پر

یوں گرد سے ہیں دونوں دھندلائے ہوئے بچے


کہتے ہیں کہ اے ظالم کر قتل مجھے پہلے

اس جینے سے ہیں شاید اکتائے ہوئے بچے


ظالم بھی لرز اٹھے جس وقت کہ پہنچے ہیں

دربار میں سر اپنا کٹوائے ہوئے بچے


گذریں تو شہادت کو صدیاں ہیں مگر اب بھی

احساس پہ دنیا کی ہیں چھائے ہوئے بچے
  ——

Top Categories