دئے بھی چپ خیمے جل چکے ہیں نہیں ہے اب روشنی سکینہ
جو کھو گئے دشت کربلا میں انہیں کہاں ڈھونڈتی سکینہ
لرز اٹھا ہائے سارا عالم فرشتے لائے نہ تاب اس دم
کہ لاش بابا پہ آئے جس دم لپٹ کے رونے لگی سکینہ
غموں کے دن ہیں الم کی راتیں کرے بھی اب کس سے پیاری باتیں
جدا ہوا عمر بھر کو اصغر عجیب سی ہو گئی سکینہ
تھا بدلا بدلا سا گھر کا نقشہ رہا نہ کچھ لٹ چکی تھی دنیا
ہیں اور احباب یاد آئے مدینے جب آگئی سکینہ
یہ فکر عباس دل میں لے کر چلے ہیں خلد بریں کی جانب
نہ دشت کرب و بلا میں تیری بجھا سکا تشنگی سکینہ
تھکی تھکی سی تھی غم سے بوجھل فراق عباس سے تھی بیکل
نہ پایا بابا کا سر پہ سایہ تو دھوپ میں سوگئی سکینہ
نہیں مرے پاس کچھ بھی محضر کروں قدم پر جسے نچھاور
قبول ہو تو میں پیش کردوں حقیر سی زندگی سکینہ