madaarimedia

مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنا،رشوت لینے والا،ہولی میں شرکت کرنے والا کیا حکم ہے

کیا فرماتے  ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ(1) زیدنے اپنی بیوی کو صراحتاً تین طلاق دیاجس کےبے شمار لوگ آج بھی گواہ ہیں اسکے باوجود اپنی مطلقہ بیوی کےساتھ اٹھنا بیٹھنا ،کھانا پینا،سوناجاگنا اوربچے پیدا کرناوغیرہ سب چالو کررکھا ہے۔لہذا ایسے شخص کےلیے احکام شرع کیا ہیں ؟(2) کباری خاندان کا لڑکا شیخ برادری کی لڑکی کو لیکر بھاگ جاتا ہے اس کے بعد مہواگاچھی چوراہے پر سر عام ایک عالم سے طعنہ دیتے ہوئے تکبر و گھمنڈ کا اظہار کرتے ہوئےزید یہ کہتا ہے کہ اگر اس کی لڑکی کو لیکر بھاگ گیا تو کیا ہوا کم از کم شادی میں جو لاکھ دو لاکھ خرچ ہوتا بچ وہ بچ گیا. کون ہے جو ایسے گھر میں شادی کریگا کون ہے ایسے گھر کے لائق ؟ ایسا کہنے والے متکبر پر احکام شرع کیا نافذ ہونگے؟(3) اگر کوئی بندہ رشوت کے پیسے سے ہی کھاتا اور اپنے بچوں کو کھلاتا ہو، بسا اوقات پنچیتی و فیصلہ بھی رشوت پانے کے سبب الٹا دیدیتا ہو، اور فساد کرادیتا ہو، اور مسلمانوں کے بیچ کیس مقدمہ تک کبھی کبھی پیسہ لیکر یا دیکر کرتا اور کرواتا ہو ،ایسے رشوت خور مفسدین پر احکام شرع کیا نافذ ہونگے؟(4) زیدنےمہوا گاچھی چوراہے پر دیوالی کی رات ہندوئوں کے ساتھ پٹاخے وغیرہ چھوڑا اور چھوڑوایا، اس کےعلاوہ ہمیشہ تہوارِ ہنود کا جشن بھی مناتا ہےتاکہ ہندو یہ سمجھے کہ ہمارے تہوار میں فلاں شخص شامل ہوتا ہےاوروہ ہم سے محبت کرتاہےوغیرہ وغیرہ۔لہذااب ہمیں معلوم یہ کرناہے کہ ہندوئوں کے تہوار چاہے وہ دیوالی ہو یا ہولی ہو یا دسہراہو یا اس کے علاوہ ان کاکوئی بھی تہوار ہواس میں شامل ہونا یا منانا شرعاً کیسا ہے؟ اورایسے آدمی پر احکام شرع کیانافذہوگا ؟ نیز ان لوگوں کےلیے کیا حکم ہے جو جاننے کے بعد بھی اس سے دعا سلام و کلام اور چائے نوشی و گپے بازی کرتے ہیں؟

المستفتیان: (۱)محمد ہاشم راعین ،(۲)محمد افروز شیخ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب:اللھم ہدایۃ الحق و الصواب

            (ج:۱)

تین طلاق کے بعد عورت نکاح سے نکل کر حرام حرام اشدحرام ہوجاتی ہے ۔اس کے ساتھ رہناایسا ہی ہےجیساکہ کسی اجنبیہ کے ساتھ یعنی اس کے ساتھ رہنا ہر لمحہ زنائے خالص میں گزارناہے ۔ برصدق سوال صور ت مستفسرہ میں زید ؔ کی بیوی پر اسی وقت تین طلاقیں مغلظۃ واقع ہو چکی تھی جس وقت اس نے تیں طلاق دیا،لہذازید کا اسکےساتھ اٹھنا بیٹھنا ،کھانا پینا،سوناجاگنا اوربچے پیدا کرناوغیرہ سب حرام حرام سخت حرام ہوا ،زید اور اس کی مطلقہ بیوی پر لازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔اور علانیہ توبہ واستغفار کریں اگروہ ایسا نہ کریں تو تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کا سخت سماجی بائیکاٹ کریں۔

خدا پاک کا ارشادِ پاک ہے:

 وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ‘‘[پ۱۲،ہود،آیت۱۱۳]۔

اگر ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں تو بعد توبہ ان دونوں کو مسجد میں ضروری اشیا مثلاًلوٹا جانمازوغیرہ رکھنے اور قرآن خوانی وغیرہ کرانے کی تلقین کی جائے کہ نیکیاں قبولِ توبہ میں معاون ہوتی ہیں۔

خدائے پاک کا فرمان ہے:

“وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَإِنَّہُ یَتُوبُ إِلَی اللَّہِ مَتَاباً ‘‘[پ۱۹،فرقان،آیت۷۱]

یادرہے! زیدکے لیے ہر گز ہر گزحلال نہیں ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو بغیر حلالہ اپنے پاس رکھےیا بیوی سامعاملہ کرے ۔ جیساکہ قرآن حکیم کاصاف لفظوں میں اعلان ہے:’’ فَإِن طَلَّقَہَافَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُحَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہٗ‘‘ پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پا س نہ  رہے[پارہ:۲،رکوع:۱۳،آیت:۲۳۰]

اگر بلاحلالہ رکھے گا تو ہر لمحہ زنائے خالص میں گزرےگا۔ اور جو لوگ اس کا ساتھ دیں گے(بلا حلالہ رکھنے میں) ،یا طلاق کو نہیں ماننے میں توسب کے سب زنا کے دلال ، مستحق عذاب نار اور قہر اِلٰہی میں گرفتار ہوں گے۔ا گر زید ؔ ،اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے پاس ر کھناچاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے حلالہ کرائے۔ اورحلالہ کا طریقہ :یہ ہے کہ عورت پہلی طلاق ِثلثہ کی عدت گذار کرکسی دوسرے شخص سے نکاحِ صحیح کرے پھر وہ شخص اس کے ساتھ کم از کم ایک بار ہمبستری (وطی)کر ے پھر وہ طلاق دیدے یا مرجائے تو دوبارہ عدت گذارنے کے بعدمہر جدیدکے ساتھ شوہر سابق سے نکاح ِصحیح کرے۔

فتاویٰ عالمگیری مع خانیہ جلد :۱،ص:۴۷۳میں ہے:

ان کان الطلاق ثلاثالم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحاصحیحاویدخل بھاثم یطلقھااویموت عنھا کذا فی الھدایۃ۔ملخصاً۔اگر دوسرے شوہر نے ہمبستری کے بغیرطلا ق دیدی یا مرگیا تو حلالہ صحیح نہ ہوگا۔کما فی حدیث العسیلہ۔ مطلقہ کی عدت کی تفصیل :یہ ہے کہ حاملہ کی عدت وضع ِحمل اور اگرمطلقہ نابالغہ ہے یا کسی سبب سے حیض نہیںآتا ہے تو تین ماہ اور حیض آتا ہے تو تین حیض۔

جیساکہ قرآن کریم  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :ــ’’وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَء ٍ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِن کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ“[پارہ :۲،سورۃالبقرۃ،الآیۃ:۲۲۸]یعنی طلاق والیاں اپنے کو تین حیض تک روکے رہیں اور انھیں یہ حلال نہیں کہ جو کچھ خدانے ان کے پیٹوں میں پیدا کیا اسے چھپائیں اگر وہ اللہ عزوجل اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں ۔

فتاوٰی رضویہ میں ہے :

“حاملہ کی عدت وضع حمل ہے مطلقہ ہو یا بیوہ،اورمطلقہ اگرحیض والی ہے توبعدِطلاق تین حیض شروع ہوکر ختم ہوجائیںاوراگرصغیرہ کہ ابھی حیض نہیںآتایاکبیرہ کہ حیض آنے کی عمرگزرگئی توعدت تین مہینے ‘‘۔ [فتاوٰی رضویہ،ج:۵،ص:۸۳۵[

(ج:۲)

کسی بھی خاندان کی لڑکی ہو اسے بھگا لے جانا سراسر ظلم وزیاتی اور گناہِ کبیرہ ہے۔کسی بھی بندہ مومن کوطعنہ دینایااس سے تکبروگھمنڈ کا اظہار کرناسب خلافِ شرع ناجائزوحرام گناہ عظیم ہےجسے قرآن نے صاف لفظوںمیں ارشاد فرمایا:’’أَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَکَبِّرِیْنَ ‘‘کیا متکبروں(مغرور) کاٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے؟[سورۃ الزمر:۳۹؍آیت:۶۰]

اور زید کا یہ کہنا کہ’’ اس کی لڑکی کولیکر بھاگ گیا تو کیا ہوا ‘‘یہ بھی خلافِ شرع ناجائزوحرام نیز راہِ زنا ہموار کرنا ہوا ایساشخص شریعت اسلامیہ کی نظر میں سخت مجرم ہے۔ علاوہ ازیںجوبھی ایسے برے افعال کواچھاکہے وہ سب کے سب زنا کے دلال ہیں ،بلاشبہ ایساشخص مستحق عذاب نار اور قہر اِلٰہی میں گرفتار ہوں گے ۔

(ج:۳)

رشوت لینا دینا دونوںمطلقاً حرام حرام اشد حرام ہے رشوت لینے والے کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے۔

امام احمد علیہ الرحمہ نےحضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہےکہ رسول اﷲ صلیٰ اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لعن اﷲ الراشی والمرتشی والرائش الذی یمشی بینھما‘‘یعنی اﷲ کی لعنت ہے رشوت دینے والے اور لینے والے اور ان کے دلال پر۔[ مسند احمد :ج۵/ص ۲۷۹]

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

رشوت لینامطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں جو پرایا حق دبانے کے لئے دیاجائے رشوت ہے یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیاجائے رشوت ہے لیکن اپنے اُوپر سے دفع ظلم کے لئے جو کچھ دیاجائے دینے والے کے حق میں رشوت نہیں یہ دے سکتا ہے لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔[فتاویٰ رضویہ ،ج:۲۳،ص:۱۴۰] اور اسی میں ہے: رشوت لینا حرام رشوت لینے والے کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے [فتاویٰ رضویہ ،ج:۶،ص:۱۱۴]

فتین ومفسدین کے متعلق قرآن مقدسہ اوراحادیث طیبہ میں متعدد جگہوں پروعیدیں نازل ہوئی ہیں ۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: إِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوبُوا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ‘‘بلا شبہ جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو فتنے میں ڈالاپھر (اس جرم سے )توبہ نہ کی تو ان کے لئے عذاب دوزخ ہے اور جلا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔ [سورۃالبروج؍۸۵/آیت؍۱۰]اور فرماتاہے:اَلْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ‘‘فتنہ وفسادکرنا قتل سےبھی سخت براہے[سورہ بقرہ،آیت:۱۹۱]اور فرماتاہے:وَأَنفِقُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ‘‘اوراللہ کی راہ میں خرچ کرواوراپنے ہاتھوںہلاکت میںنہ پڑواوربھلائی والےہوجائوبےشک بھلائی والےاللہ کے محبوب ہیں۔[سورہ بقرہ،آیت:؍۱۹۵]اور فرماتاہے:وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا ‘‘اورزمین میں فسادنہ پھیلائو اس کی اصلاح کے بعد[ سورۃالاعراف: ۷،آیت:۵۶]

اورحدیث پاک میں ہے:الفتنۃ نائمۃ لعن اﷲ من ایقظھا‘‘یعنی فتنہ سوئی ہوئی خرابی ہے لہذا جو کوئی اسے جگائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے[ الجامع الصغیر بحوالہ الرافعی عن انس حدیث ۵۹۷۶ دارلکتب العلمیہ بیروت ۲ /۳۷۰]

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

مسلمانوں میں فساد پیدا کرنا حرام ہے۔[فتاویٰ رضویہ،ج:۲۱،ص:۱۳۵]

 لہذا دلائل مذکورہ کی روشنی میں رشوت کھاناوکھلانا، الٹا فیصلہ کرناوکروانااور مسلمانوں کے درمیان فساد برپاکرکےکیس و مقدمہ وغیرہ کرنا وکروانا سب ناجائزوحرام اور گناہ کبیرہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے،اوران افعال بدکے مرتکب پر توبہ واسغفارکرنالازم ہے ورنہ سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہوگا۔واللہ اعلم۔

(ج:۴)

’’دیوالی‘‘یہ ہندوئوں کاایک خاص تہوار ہے جس میں وہ لوگ لکشمی کی پوجاکرتے ہیں اور خوب روشنی کرکے خوشیاں مناتے ہیں،دیوالی کا جشن منانا اوراس رات پٹاخے چھوڑناچھوڑوانا خاص شعائر ہنود ہے،اور ایسے کاموں کا کرناعند الشرع صریح کفر ہے۔

غمز العیون والبصائر میں ہے:

اتفق مشائخناان من رای امر الکفارحسنا فقدکفرحتٰی قالوا فی رجل قال ترک الکلام عند اکل الطعام حسن من المجوس او ترک المضاجعۃعندھم حال الحیض حسن فھوکافر‘‘ہمارے مشائخ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کفار کے کسی طرز ووضع کو اچھا جانا تو وہ کافر ہوگیا ۔

فقہائے کرام نے یہاں تک فرمایاہے کہ جو آدمی مجوسیوں کی طرح ،کھاتے وقت کلام کے ترک کو اچھا سمجھے ،یاحالت حیض میں مجوسیوں کا اپنی بیویوں سے الگ رہنا مستحسن امرجانے،وہ کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ ‘‘ اورجو تم میں سے ان سے دوستی رکھے وہ انہیں میں سے ہے۔[سورۃ المائدۃ، ۵/ ۵۱]

 اور حدیث پاک میں ہے: من تشبہ بقوم فہو منہم ‘‘یعنی جو کسی قوم کی مشابہت اخیتار کرے گا وہ انہیں میں سے ہوگا۔ [سنن ابوداؤد با ب فی لبس الشہرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۰۳؍مسند احمد بن حنبل مروی از عبداللہ بن عمر دارالفکر بیروت ۲/ ۵۰]

بخاری شریف میں ہے:

المرء مع من احب ‘‘آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھے۔[ صحیح البخاری باب علامۃ الحب فی اﷲ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۱۱] اسی میں ہے:انت مع من احببت ‘‘۔تو اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ دوستی رکھے۔[صحیح البخاری باب مناقب عمر بن الخطاب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۲۱]

اور ایک حدیث میں ہے قسم کھاکر ارشادفرمایا:مااحب رجل قوما الاحشرہ اﷲ فی زمرتہم  اوکما قال صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔جو کسی قوم کے ساتھ دوستی رکھے گا ضرور اللہ تعالیٰ انہیں کے ساتھ اس کا حشر کرےگا۔[المعجم الکبیرحدیث ۲۵۱۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۳/ ۱۹]

فتاویٰ امجدیہ میں ہے:

ہولی ہندئوں کی آتش پرستی کا ایک خاص دن ہے، جس میں آگ کی پرستش کرتے اور اپنے طور پر خوشی مناتے ہیں،ہولی کھیلنا یا اوس زمانہ میں بدن یا کپڑے پر رنگ ڈالنا یا ڈلوانا خاص شعائر ہنود ہے،اور ایسے امور کا ارتکاب کفر ہے۔حدیث میں ہے من تشبہ بقوم فھو منھم۔ اوس شخص پر توبہ فرض ہے اور تجدید نکاح لازم۔اور اسی میں ہے:کفار کے تہواروں میں شریک ہونا حرام اور سخت حرام بلکہ کفر ہے خصوصاً جبکہ اونہیں کے مثل اونکے تمام کاموں میں شرکت کرے حدیث میں ارشاد فرمایا من کثر سواد قوم فھو منھم . واللہ تعالی اعلم[فتاویٰ امجدیہ جلد چہارم ص 151]واللہ اعلم۔

کتبہ

سید مشرف عقیل

ہاشمی دارلافتا،موہنی، مہواگاچھی ،تھانہ نانپور،ضلع سیتامڑھی بہار

۲۴؍محرم الحرام ۱۴۳۹؁ھ؍مطابق۱۵؍اکتوبر۲۰۱۷؁ءبروز اتوار

Leave a Comment

Related Post

Top Categories