اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے ہر دور میں انبیاءِ کرام بھیجے۔ سب سے پہلے حضرت آدم علیہِ السَّلام کو دنیا میں بھیجا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہِ السَّلام کو سجدہ کریں۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے انکار کیا۔ اس کا انکار تکبر اور حسد کی وجہ سے تھا، اور یہی انکار اُس کی ہمیشہ کی لعنت کا سبب بن گیا۔
یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کے چُنیدہ بندوں کی فضیلت کو ماننا ہی ایمان کی بنیاد ہے۔ جیسے حضرت آدم علیہِ السَّلام کو اللہ نے فضیلت دی اور سجدہ کروایا، ویسے ہی نبی کریم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم نے حضرت علی علیہِ السَّلام کی ولایت کو تمام اُمت کے سامنے واضح کیا۔
غدیرِ خُم کا عظیم اعلان
١٨ قافلے کو روک کر، اللہ تعالیٰ کا حکم اُمت تک پہنچایا:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (سورۃُ المائدہ، آیت 67) ترجمہ: اے رسول! پہنچا دیجیے وہ پیغام جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے، اور اگر آپ نے نہ پہنچایا تو گویا آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔
یہ آیت، حضرت علی علیہِ السَّلام کی ولایت کے اعلان کے لیے نازل ہوئی۔
اعلانِ ولایت
نبی کریم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم نے حضرت علی علیہِ السَّلام کا ہاتھ اُٹھایا اور ہزاروں صحابۂ کرام کے مجمع میں فرمایا: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی بھی مولا ہے۔ اے اللہ! جو علی سے محبت کرے، تُو اس سے محبت کر، اور جو علی سے دشمنی رکھے، تُو اس سے دشمنی رکھ۔”
یہ اعلان قیامت تک کے لیے تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت علی علیہِ السَّلام سے فرمایا: بَخٍ بَخٍ! يَا عَلِيُّ، أَصْبَحْتَ مَوْلَايَ وَمَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ یعنی مبارک ہو اے علی! آج تم میرے اور ہر مؤمن مرد و عورت کے مولا بن گئے۔
حضرت علی علیہِ السَّلام کی فضیلت
حضرت علی علیہِ السَّلام کی شان الفاظ میں مکمل نہیں ہو سکتی، مگر چند حقائق دل کو جھنجھوڑ دینے والے ہیں:
1. آپ، نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔
2. سب سے پہلے بچوں میں اسلام قبول کیا۔
3. جنگوں میں شیرِ خدا بن کر دشمنوں پر جھپٹے۔
4. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
5. أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ
اے علی! تُو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔”
ایک اور حدیثِ مبارکہ:
عَلِيٌّ مِنِّي كَرُوحِي مِنْ جَسَدِي
علی مجھ سے ایسے ہے جیسے جان جسم سے ہوتی ہے۔
فرمایا: النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ عِبَادَةٌ
علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔
علی سے محبت اور دشمنی کا معیار
رسول اللہ صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم نے فرمایا:
يَا عَلِيُّ، لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ
ترجمہ: اے علی! تم سے صرف مؤمن محبت کرے گا، اور تم سے صرف منافق دشمنی رکھے گا۔
یہی تو اصل ایمان کا معیار ہے!
جو علی علیہِ السَّلام سے محبت کرتا ہے وہ جنتی ہے، اور جو دشمنی رکھتا ہے وہ جہنمی ہے۔
ولایتِ علی: دین کا ستون
حضرت علی علیہِ السَّلام کی ولایت کو ماننا، دراصل نبی کی اطاعت ہے، اور نبی کی اطاعت، اللہ کی رضا ہے۔
جو لوگ حضرت علی علیہِ السَّلام کی ولایت کو کم سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت دین کے ایک بڑے مقام کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
ہماری ذمہ داری
1. حضرت علی علیہِ السَّلام سے محبت دل میں رکھیں۔
2. ان کی سیرت، عدل، عبادت، حلم اور شجاعت کو اپنی زندگی میں لائیں۔
3. اپنی نسل کو اُن کے نام سے، کردار سے اور سیرت سے وابستہ کریں۔
4. علی علیہِ السَّلام کا نام آئے، تو دل جھک جائے، زبان درود سے معطر ہو جائے۔
یا رب العالمین! ہمیں حضرت علی علیہِ السَّلام کی سچی محبت عطا فرما،
اُن کی ولایت کو ہمارے دل کی دھڑکن بنا دے،
ہمیں ان کے دشمنوں سے دور رکھ،
اور قیامت کے دن اُن کے ساتھ ہمیں رسولُ اللہ ﷺ کی صحبت نصیب فرما۔
آمِیْن، یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن۔
✍️ تحریر: مفتی سیِّد مُشرف عقیل اَمجدی ہاشمی
دارُ الافتاء و القضاء، موہنی شریف، سِیتا مَڑھی، بِہار (ہند)