حضرت چیتن شاہ ولی مداری علیہ الرحمہ

2 नदी के बीच में है ये दरगाह | इस दरगाह को देखने

Hazrat ibrahim ali shah chetan shah wali madari lankapati padmi madna bahedi Bareilly

همارے ملک ہندوستان میں ہزاروں صوفی سنت اور خدا رسیدہ بزرگ ہر دور اور ہر زمانے میں جنم لیتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہیں بزرگوں کی خدمات جلیلہ نے ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ انسانیت کی بے لوث خدمت، برائیوں کے خلاف آواز حق بلند کرنا، لوگوں کو گناہوں سے بچانا، نیک راستوں پر گامزن رہنے کی تلقین کرتے رہنا اور گناہوں کے اندھیروں میں اسلام کی روشنی پھیلانا ان بزرگوں کا مقصد حیات رہا ہے۔

نویں صدی ہجری کے نصف اول کا زمانہ روہیلکھنڈ اور اس کے اطراف و جوانب کیلئے نہایت انقلابی دور رہا ہے۔ مغل بادشاہ بابر کے پے درپے حملوں، سرکشوں کی سرکوبی اور میوات سے لیکر قنوج تک روہیل کھنڈ کے مختلف علاقوں اور سنبھل سے لیکر علی گڑھ تک ہر چہار جانب نہایت ہنگامہ خیز حالات تھے۔ کتاب تاریخ فرشتہ جو کہ تاریخ کی سب سے مستحکم تاریخ ہے، اس کے مؤلف محمد قاسم فرشتہ نے صفحہ ۶۰۴ پر ان حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آگرے کی طرف واپسی کے وقت بابر نے شہزادہ ہمایوں کو کابل اور بدخشاں کے انتظام اور بلخ کی فتح کیلئے روانہ کیا۔ حسین خان، دریا خاں اور قطب الدین خاں کی سرزنش کیلئے جو کہ اٹاوہ کے علاقوں میں تھے محمد علی خنگ کو روانہ کیا۔ دریان خاں روہیلکھنڈ کے جنگلوں میں جا چھپا اور دوسرے باغی فنوج کی طرف بھاگ گئے ۔ ۹/ذی الحجہ ۹۴۳ھ میں بادشاہ بابر نے سنبھل اور آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کر کے پورے علاقے میں انقلاب پیدا کر دیا تھا۔
سنبھل سے بریلی تک کوئی جگہ جنگوں اور لوٹ مار سے خالی نہ تھی۔ جگہ جگہ بغاوتیں اور باغیوں کی سرزنش اور ان کی سرکوبی کیلئے لڑائیاں ایک عجیب سا ماحول تھا۔

ہم جس تاریخی مقام کے تعلق سے اپنا زاویہ پیش کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اسی علاقہ کا ایک حصہ ہے۔ میری تحقیق ضلع بریلی کی تحصیل بہیڑی کے ایک چھوٹے سے گاؤں پدمی مدناپور سے تعلق رکھتی ہے۔ جو نہایت جنگلات سے گھرا ہوا شہر کی آبادی سے بہت دور ایک موضع ہے۔ اگر چہ جغرافیائی نقطہ نظر سے اس علاقے کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں رہی ہے مگر جس دن سے اس جنگل میں سلسلہ عالیہ مداریہ کے عظیم بزرگ و ابراہیم علی شاہ عرف چیتن شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا قدم رنجہ فرمایا تو یہ زمین شعائر اللہ بن کر چمکنے لگی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس مقام پر اللہ کا نیک بندہ کوئی ولی کامل آرام فرما ہو وہ مقام اللہ کی نشانی بن جاتا ہے۔

تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جس مقام پر آج حضور ابراہیم علی شاہ عرف چیتن شاہ مداری کا آستانہ ہے یہاں دور دور تک بڑا وسیع جنگل تھا۔ جنگل سے کچھ فاصلے پر چھوٹی چھوٹی سی بستیاں آباد تھیں۔ حکومت کی ناپائیداری اور پورے علاقے کے انقلابی ماحول سے لوگوں کا رہن سہن بالکل تنگ ہو گیا تھا۔ زندگی کے تمام ذرائع اور وسائل مفقود ہوکر رہ گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان جنگلوں اور آبادیوں میں ڈاکوؤں اور لٹیروں کی حکومت چلتی تھی۔

بہت قدیم کتابوں میں پہلا واقعہ یہ ہے

موضع پرمی مدنا پور کے جنگلات میں ایک ڈاکوؤں کا خطرناک گروہ تھا۔ اس میں ایک شخص لاکھن سنگھ یا ماکھن سنگھ نام کا بڑا ہی شاطر قسم کا ایک ڈاکو تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ اتنا خطر ناک طبیعت کا تھا کہ سیدھے سچے انسانوں کا بے مقصد قتل عام کرنا اور مقتول کی لاشوں کو پامال کر دینا اس کا شوق ساتھا۔ اس کی دہشت سے پورا علاقہ کانپ جاتا تھا اور وہ ایک بہت بڑے گروہ کے ساتھ جنگل میں رہتا تھا۔

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ کچھ تذکرہ نگاروں نے تحریر کیا ہے

کہ اس جنگل میں ایک نہایت قوی ہیکل دیور ہتا تھا (کوئی شاطر قسم کا جن) کیوں کہ مذہب اسلام میں جناتوں کے جو تذکرے ملتے ہیں ان سے اس قسم کے واقعات کی تائید و تصدیق ہوتی ہے۔
وہ زبوں شمائل اور دیو ہیکل جن اس قدر خطر ناک تھا کہ رات کی تنہائیوں میں جب بستیوں میں لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے یہ بڑی تیز تیز آوازیں نکالتا تھا اس کی بھیانک آوازوں میں اس قدر خوف تھا کہ لکھا ملتا ہے کہ حاملہ عورتوں کے حمل تک ساقط ہو جاتے تھے۔ قریب کی آبادیوں میں لوگ ڈر کے ایک دوسرے کو آواز دینے لگتے اور بتاتے کہ دیکھو وہ خطرناک “جن” کی آوازیں آرہی ہیں۔

مؤخر الذکر واقعہ سے یہ بات تو ثابت ہے کہ یہ کوئی شرارتی جن رہا ہو گا۔ اس لئے کہ اسلام کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں جناتوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا تھا۔ اور جو اس نعمت سے محروم رہے وہ خبیثات بن کر لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کا کام کیا کرتے ہیں۔ اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بارگاہ مدار العالمین میں بہت سے اجنا کی ڈیوٹی لگتی ہے۔ وقتا فوقتا اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جب کسی نہ کسی جن سے بزرگوں سے ملاقات ہوتی اور وہ جن یہ بتاتا تھا کہ میری ڈیوٹی قطب المدار کی بارگاہ میں ہے۔

چونکہ نویں صدی ہجری کا زمانہ ایسا دور ہے کہ جب پورے ملک ہندوستان میں صرف اور صرف سلسلہ عالیہ مداریہ کا سورج چمک رہا تھا۔ اور اس کی ضیا بار کرنوں سے ہندوستان کے ہر حصہ ارضی کا گوشہ گوشہ جگمگا رہا تھا۔ حضور مدارالعالمین کے اجتہادی سفر اور تبلیغ اسلام کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اسلام کا ہر شیدائی روحانیت کے اس پیشوا کے احسان تلے دبا ہوا تھا۔ اور گھر گھر گلی گلی حضور مدار پاک کی ولایت کا ڈنکا بج رہا تھا۔
ایسے خوشنما ماحول میں “پدمی مدناپور” اور بریلی کے اطراف و جوانب میں بھی مدار پاک کی ولایت کا شور سنائی دے چکا تھا۔ علاقے کے کچھ لوگ جمع ہوئے اور باہمی مشورہ کیا کہ ہمارے علاقے کو اگر اس بلا اور وبا سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ شخصیت مدار پاک کی ہے کیوں کہ بڑے بڑے لوگوں سے سنا ہے کہ اس قسم کے جنات وغیرہ حضور مدار پاک کے تابع اور فرمانبرادار ہیں۔
غرض کہ کچھ لوگوں کا ایک وفد پیدل سفر کر کے مکن پور شریف پہنچا۔ خانقاہ شریف میں موجود ایک قلمی دستاویز بہار خمسہ میں لکھا ہوا ہے کہ “بریلی” کے علاقہ سے ایک جماعت اپنی کچھ معروضات لیکر مدار پاک کی خدمت میں آئی ۔ یہ ۸۳۸ھ کا زمانہ تھا یعنی حضور مدار پاک کے وصال سے تقریباً کچھ ہی دن پہلے۔ آگے لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے جب اپنی عرضیاں پیش کیں تو حضور مدار پاک نے ان لوگوں کو حضرت سید جمال الدین جانمن جنتی کے حوالے کر دیا۔

تذکرہ نگاروں نے تحریر کیا ہے کہ حضرت سید جمال الدین جانمن جنتی نے وفد کے لوگوں سے کچھ دن وہیں بارگاہ قطب المدار میں ٹھہرنے کیلئے کہا۔ اور وہ لوگ وہیں ٹھہر گئے۔ چند ہی دن گزرے تھے کہ حضور مدار العالمین نے وصال فرمایا اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ کچھ ایام تک تو بڑا عجیب سا ماحول رہا۔ کرب والم، یاس و غم اور رنجیدہ ماحول سے فضائیں گونج اٹھی تھیں۔ دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان لوگوں نے واپس اپنے وطن آنے کی اجازت طلب کی۔ تو حضرت سید جمال الدین جانمن جنتی نے ان لوگوں کے ہمراہ حضرت ابراہیم علی شاہ عرف چیتن شاہ ولی لنکا پتی کو روانہ کر دیا۔

حضور ابراہیم علی عرف چیتن شاہ ولی کون تھے؟

عام طور پر حضرت ابراہیم علی شاہ عرف چیتن شاہ ولی کو لوگوں نے حضور مدار پاک کا مرید و خلیفہ ہونا لکھا ہے۔
چنانچہ اس ضمن میں کتاب گوہر آبدار، مصنف مولانا احمد عمر بدھولیا بریلی اور دوسری کئی کتابوں میں حضرت چیتن شاہ ولی کو مدار پاک کا خلیفہ لکھا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ اس طرح بھی ملتا ہے جس کو جدید مدار اعظم میں بھی قدیم کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔

جب حضور مدار پاک مکن پور شریف تشریف لائے یعنی ۸۱۸ھ میں تو علاقہ میں ایک بہت بڑے ڈاکو کو آپ کی آمد کی خبر ہوئی۔ اس لٹیرے نے جب پتہ لگایا تو عجیب سا ہیجان اس کے دل پر چھا گیا اور خوف و حراس میں مبتلا ہو گیا کیوں کہ اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ ایسے بزرگ ہیں جو ہر ایک کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اور تم کو بھی نام لیکر بلایا ہے۔ وہ شخص حضور مدار پاک کی خدمت میں اپنا سب لٹا ہوا سامان سونا وغیرہ لیکر حاضر ہوا اور آپ کی باتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ لوٹا ہوا سونا آپ کے قدموں پر رکھ کر کہا کہ بابا اسے قبول کر لیجئے۔
حضور مدار پاک نے حضرت چیتن شاہ ولی کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت چیتن شاہ نے اس شخص سے کہا کہ اپنی آنکھیں بند کرلے اور تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ اب آنکھیں کھول لے۔
اس لٹیرے نے جب آنکھیں کھولیں تو جس چیز کو وہ دیکھتا وہ سونے کی نظر آتی وہ حیران ہو کر قدموں پر گر گیا اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کی نیز داخل اسلام ہو کر کلمہ طیبہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گیا۔ مگر اس واقعہ کے برعکس جو تاریخ ہے وہ کچھ اور بیان کرتی ہے۔

ان واقعات کی تردید و تنقیص کرنا مقصود خاطر نہیں ہے مگر تاریخی حقائق کو سامنے لانا حق و دیانت کی پاسداری کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ تاریخی حقائق میں اختلاف رائے ہونا کوئی منافی امر نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علی شاہ عرف چیتن شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ حضور سید جمال الدین جانمن جنتی کے مرید و خلیفہ ہیں۔ کیوں کہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور سبھی تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں میں جہاں چیتن شاہ کا ذکر کیا تو ان کے نام کے ساتھ”لنکا پتی” لفظ ضرور لکھا ہے ویسے تو لگتا یہ ہے کہ یہ کوئی ایسا لفظ ہے جو ان کے نام کا کوئی حصہ ہے۔ مگر سلسلہ عالیہ مداریہ کی تاریخ سے واقف لوگوں کو فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ لنکا پتی لکھنے والے جمال الدین جانمن جنتی کے مرید و خلیفہ ہوتے ہیں۔

سلسلہ دیوانگان لنکا پتی

حضرت سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہ کے خلیفہ اجل حضرت سید جمال الدین جانمن جنتی سے جو سلسلہ جاری ہوا وہ دیوانگان کہلایا۔ سلسلہ عالیہ مداریہ کے تمام ملنگان ذیشان دیوانگان مداریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ گروه عاشقان اور سلسلہ خادمان میں ملنگان حضرات ہوئے ہیں مگر ملنگان حضرات کے سلسلہ کا اجراء حضرت سید جمال الدین جانمن جنتی سے ہی ہے۔ اور انہیں کو اولیت وافضلیت حاصل رہی ہے۔

سلسلہ دیوانگان سے 72 شاخیں نکلی ہیں۔ جیسے دیوانگان حسینی ، دیوانگان سلطانی ، دیوانگان رشیدی، دیوانگان آتشی، دیوانگان جمشیدی، دیوانگان ماہی یوت، دیوانگان سروشاہی، دیوانگان لنکا پتی وغیر ہم۔ اس طرح ان بہتر شاخوں میں ہر ایک شاخ سے وابستہ افراد میں سیکڑوں برس سے اب تک نہ جانے کتنے ایسے مستحکم بزرگ ہوئے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے بڑے مقام و مرتبے سے نوازا اور ان کی خدمات جلیلہ سے اس روئے زمین پر لاکھوں لوگوں نے فیض حاصل کیا۔ ہنوز یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

حضرت چیتن شاہ ولی کا شجرہ

حضرت ابراہیم علی عرف چیتن شاہ ، حضرت سید جمال الدین جانمن جنتی، حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار، حضرت با یزید پاک بسطامی عرف طیفور شامی ، حضرت حبیب عجمی، حضرت حسن بصری ، حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم، حضور سرور کونین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت چین شاہ ولی کو مورخین نے شاہ برادری کے تعلق سے مولیٰ علی کی اولاد میں لکھا ہے۔

لفظ چین کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟

حضرت ابراہیم علی شاہ کے آبائی وطن کا ذکر بہت تلاش کرنے پر بھی نہیں حاصل ہو سکا مگر جو تاریخ ان کی زندگی کا حصہ ہے وہ اس طرح ملتی ہے کہ آپ بچپن سے نہایت ہوش مند شخصیت کے مالک تھے۔ لوگ آپ کی ہوشمندی سے خوش ہو کر آپ سے کہتے تھے کہ اے ابراہیم علی آپ اپنے ہر معاملے میں نہایت چیتنا (ہوشمندی ) کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ خالص ہندی لفظ ہے اور ہندوستان میں رہ کر ہندی زبان کے الفاظ اکثر لوگوں کے نام کا حصہ ہیں۔ جیسے بابا رتن رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔ اسی لئے لوگ انہیں چیتنا والے کہنے لگے۔ دھیرے دھیرے یہ لفظ ان کے نام اور پہچان کا حصہ بن گیا۔

شرارتی جن یا دیو

مدنا پور گاؤں کے لوگوں میں جو خوف تھا وہ ڈر کی وجہ سے جن کی ہر آواز کو دیو کی آواز کہتے تھے۔ جب حضرت سید جمال الدین جانمن جنتی نے اس علاقہ میں ان جناتوں کی سرکوبی کیلئے حضرت چیتن شاہ کو یہاں بھیجا تو سب سے پہلے حضرت چیتن شاہ نے دریا کے بالکل کنارے پر اپنی کٹیا بنائی اور لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں چلے جانے کو کہا بس ایک خادم خاص کو اپنے ساتھ رکھنا پسند فرمایا۔
رات کے اس بھیانک سناٹے میں دریا کے کنارے گھنے جنگل میں اللہ کا یہ برگزیدہ بندہ عبادت الہی میں مصروف تھا۔ دور آبادی میں مخلوق خدا نیند کے آغوش میں تھی۔ اس وقت ایک حولناک آواز نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔
آواز اتنی مہیب اور ڈراونی تھی کہ لوگ نیند سے بیدار ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ عین اسی وقت ولی کامل عارف باللہ حضرت چیتن شاہ نے اس جن کو اس کا نام لیکر آواز دی۔ کسی انسان کی زبان سے اپنا نام سن کر وہ جن حیرت زدہ ہو کر حیران رہ گیا اور تیز قدموں سے چلتا ہوا ایک لمحہ میں اس مقام پر پہنچ گیا جہاں حضرت چیتن شاہ عبادت الہی میں مصروف تھے ۔
پہلے تو اس دیو ہیکل جن نے حضرت چیتن شاہ کو ڈرانے اور دھمکانے جیسے جملوں کا استعمال کیا مگر ان کے جلال اور ہیبت کے آگے اس کی آواز گم ہو گئی۔ وہ حضرت کی زبان سے اپنا نام سن کر پہلے سے خوفزدہ سا تھا۔

حضرت چین شاہ نے اس شرارتی جن سے کلام فرماتے ہوئے کہا کہ خالق کا ئنات نے قرآن پاک میں واضح لفظوں میں فرمایا ہے کہ “وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون” بیشک میں نے انسانوں اور جناتوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ کون سی شئی ہے جو تجھ کو مخلوق خدا کو پریشان کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اگر اللہ نے تجھ کو بے حساب طاقت سے نوازا ہے تو اللہ کی مخلوق کے کام آنے کا جذبہ پیدا کر ورنہ بہت جلد خاک میں مل جائے گا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اس دیو ہیکل جن کے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے توبہ کی اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور حضرت چیتن شاہ کے دست مقدس پر ایمان لے آیا۔ وعدہ کیا کہ آج کے بعد آپ کو شکایت کا موقع نہ ملے گا۔ جب آبادی کے لوگوں نے اس رات کے بعد کوئی آواز نہ سنی تو دوڑ کر حضرت چیتن شاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ سن کر اطمینان کی سانس لیتے ہوئے کہا کہ حضور آپ نے جس مقام پر بیٹھ کر اللہ کی عبادت کی اور ایک بہت بڑی مصیبت سے ہم سب کو نجات دلائی ہے تو آپ یہیں مستقل قیام فرمائیں جہاں تک آپ کا جی چاہے وہاں تک ساری زمین آپ کے نام وقف کر دی جائے گی۔ آپ نے لوگوں کی رائے کو بہتر جانا اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

تاریخ میں لکھا ہے کہ تقریبا ۱۰۶ سال کی عمر میں یعنی ۹۰۴ھ میں آپ کا وصال ہو گیا تھا۔
حضرت چیتن شاہ کی خانقاہ کے گدی نشین عرصہ دراز سے اب تک گاؤں مدنا پور میں آباد ہیں جن کا تعلق شاہ برادری سے ہے۔ وہی حضرات آپ کی خانقاہ کے مکمل نظام اور خانقاہ کی جائیداد کے مالک و مختار ہیں دوسرا کوئی نہیں ہے

بے حد خوشی کی بات یہ ہے کہ کافی دنوں سے حضرت چیتن شاہ کی درگاہ کے گدی نشین ایک نہایت سلیم الطبع اور برد بار فرد جناب حیدر علی شاہ ملنگ اس آستانہ پاک کی نگرانی اور یہاں کے خانقاہی نظام کو روز افزوں ترقیوں سے ہمکنار فرمارہے ہیں۔
جناب حیدر علی شاہ مداری اس خانقاہ کے سجادہ نشین اور گدی نشین ہیں۔ آپ کو بابا مستقیم علی شاہ عرف مسکین بابا سلسلہ عالیہ مداریہ میں اجازت و خلافت حاصل ہے۔ حضرت معصوم علی شاہ ملنگ مداری نے جناب حیدر علی شاہ کو طریقت کے راستوں کی سب سے مشکل منزل طریق سے بھی نوازا ہے۔ اس طرح جناب حیدر علی شاہ ملنگ بھی ہیں اور چیتن شاہ کی درگاہ کے گدی نشین بھی ہیں اس لئے خانقاہ عالیہ چیتن شاہ کی تمام تر ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے خانقاہ کی تعمیر و ترقی میں خوب اضافہ فرمارہے ہیں۔

فقط ابو المشرب مولانا سید مقتداء حسین جعفری مداری مکنپور شریف
سولہ ذیقعده ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۵ رمتی ۲۰۲۴ء بروز سنیچر

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *