madaarimedia

صلح میں پیکررحم والفت جنگ میں ایک بہادرسپاہی

maulana syed ajbar ali

پندرہ رمضان المبارک ولادت حضور امیر المومنین امام حسن کے موقع پرایک مختصر مضمون 

صلح میں پیکررحم والفت جنگ میں ایک بہادرسپاہی

کون سمجھے گا آپ کیا ہیں حسن
جان محبوب کبریاء ہیں حسن
مصطفی سونگھتے ہیں یوں انکو
خوشبوئے قلب فاطمہ ہیں حسن

(صاحب زادہ سید تحذرعلی مصباحی مداری )

جس طرح ناقابل زراعت خشک زمین کو لالہ زار بنانے کیلئے اللہ رب العالمین نے آسمانوں کے دبیز شامیانوں میں بادلوں کے بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور ٹکڑیوں کے نرم ونازک کاندھوں پر بارش کا پانی لدا کر ضروت مند زمین کی تشنگی بجھاکر سبزہ اگانے کاانتظام فرمایا ہے ٹھیک اسی طرح امت کی خشک روحانی کھیتیوں پر ابرفیضان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی موسلادھار بارش کیلئے عترت رسول کے چھوٹے چھوٹے بڑے بڑے سحاب مقدسہ پوری امت کی آبیاری کیلئے ہمہ وقت برس رہے ہیں نیز فیضان مصطفی کے ابر باراں سے امت کے قلوب کی زمینوں کو باغ وبہار بنائے ہوئے ہیں 

 ان نفوس قدسیہ کاسایہ حسرت ویاس کے دھکتے سورج سے اماںن کا اعلان کرتا ہے
اس پاک جماعت میں ایک ذات بابرکات اس مرد جری کی ہے جو شجاعت وبہادری کاپیکر عظیم ہوکر صبروتحمل کاتاجدار لگتا ہے 
دستارامت پر افتخار کی کلغی لگانے والے آسمان صداقت کے بازؤں پر اپنی شعائیں بکھیرنے والے  ہیں اسلام کی  
عدالت عظمی کے احاطہ اور فصیلوں پراپنے  ہرے ہرے جھنڈے لہرارہے ہیں 
بحرسخاوت کے چمک دار پانی کی سطح پر اپنی عظمت وسطوت کی ناؤ چلانے والے میدان شجاعت کے کھلے اوروسیع علاقوں میں اپنی بہادری کے  جھنڈے گاڑنے والے 

بردبار، سلیم الطبع، شریف النفس، منکسرالمزاج کریم اہلبیت، بحرطہارت و ولایت کے لؤلو و مرجان ،بحرالعرفان، سیدالانس والجان ،گلزار اخلاق کے سب سے نفیس پھول ، جگر گوشۂ بتول ریحانتہ الرسول حضرت سرکار امیر المومنین سیدنا امام حسن مجتبی علیہ السلام ورضی اللہ عنہ وارضاہ عنا ہیں آپ کوئ متاع گم شدہ تو نہیں ہیں جنکی پہچان کرائ جائے لیکن یقینا آپ خزانئہ مصطفی کے ایک  درنایاب اور آسمان امامت کے وہ خورشیدکمال ہیں جس کی مثال کائنات عالم میں نہیں ملتی ہے یہ ساری کائنات جس کے زیرنگیں ، ہواؤں کے نرم وگدازجھونکوں سے لیکر سنامی کی لہروں تک پھولوں کے رخساروں پر شبنمی درسے لیکر کارخانئہ عالم کو  پھاڑتے بہاتے سیلابوں کے زور تک 

ٹمٹماتے ہوئے چراغ سحری سے لیکر آسمانوں کی وسعتوں پر چکرلگانے والے سورج تک وادیوں کی نالیوں سے لیکر سمندر کی طغیانی تک موجوں کی روانی سے لیکربارش کے پانی تک زمین کی تنگی سے آسمان کی وسعتوں تک کہکشاں کے جھرمٹ سے ستاروں کی انجمن تک اوج ثریا سے لیکر پھولوں کے بانکپن تک اس فرد وحید کاتصرف وکمال ہے جسے دنیائے اسلام میں بلکہ دنیاو آخرت میں سرداری حاصل ہے 

اسمِ شریف حسن ★ کنیت ابو محمد
القاب
خاتم خلافت راشدہ، کریم اہلبیت ,التقی،النقی،الجواد، الزکی، السید ،الحلیم ، السلیم، الکریم ،متواضع شباب اہل الجنۃ، سبطِ رسول، مجتبیٰ،شبیہ مصطفیٰ، ریحانۃ النبی۔
نسب عالی
حضرت امام حسن مجتبیٰ بن علی المرتضیٰ بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم 
مولود سعید
بروز سہ شنبہ  15/رمضان المبارک سن 3ھ،مطابق فروری/سن 625ءکو مدینہ طیبہ کی باغ وبہار کی رونق بنے

محسن انسانیت فخر کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری دی گئی یارسول اللہ سیدہ کے گھر بچے کی ولادت ہوی ہے اللہ کے نبی کو اس خبر سے جو خوشی ہوئی وہ کیا بیان ہوسکتی ہے ساری کائنات کی خوشی ایک طرف مصطفی کے تبسم کی ایک لکیر ایک طرف جوش مسرت سے آپ تشریف لائے ننھے شہزادے کو گود میں اٹھایا بچے نے آنکھ کھول کر سب سے پہلے اسے دیکھا جسے دیکھنے کیلئے حورو غلمان چلمن سے جھانکتے ہیں آپ نے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی ، لعابِ دہن کی گھٹی سے دہن مبارک کو رشک مشک وعنبر بنایا

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے  “واللہ ماقامت النساء عن مثلِ الحسن بن علی‘‘ اللہ کی قسم کسی عورت نے حسن بن علی کی مثل بچہ نہیں جنا (البدایہ والنہایہ)
آپ رضی اللہ عنہ  منکسر، صابر،متوکل اور با وقار تھے، ہمہ وقت زہدو مجاہدۂِ نفس میں مشغول رہتےتھے

خاتم خلافت راشدہ

سرکارکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کےمطابق آپ آخری خلیفۂِ راشد ہیں نماز میں خضوع وخشوع کے کمال درجے کا حاصل تھا آپ نے پچیس حج پیدل کیے جبکہ اصطبل میں اعلیٰ نسل اور عمدہ نسل کےگھوڑے اور دروازےپر لا قیمت اونٹ بندھے ہوتے تھے

سخاوت

امام حسن مجتبی اپنے زمانے میں سب سے بڑے بخشنے والے اور جودوعطاوالے تھے بے پناہ سخاوت کی وجہ سے آپ کو کریم اہل بیت کہاجاتا ہے جس کے معنی سب سے زیادہ بخشنے والے کے ہیں آپ جودوکرم کے پیکرتھے

علامہ امام ابن‌جوزی
(متوقی: 654ھ) اپنی کتاب تَذکرۃ الخَوَاص ہمارے  دوسرے امام کو جود و کَرَم کی نامدار شخصیات میں شمار کرتے ہوئے آپ کی فضیلت میں کہتے ہیں کہ حسن بن علیؑ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنی پوری دولت اور مال و متاع خدا کی راہ میں بخش دیئے اور تین مرتبہ اپنے اموال کو فقراء کے درمیان بطور مساوی تقسیم کردیا
یہاں تک کہ ایک فقیر کی طرف سے امداد کی درخواست پر اسے 20 ہزار درہم عطا کئے یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کی کفالت نصب العین تھا

فضائل وکمالات کے محاسن

آپ کے محاسن وکمالات میں بہت سی احادیث وارد ہیں

ولادت سے قبل بِشارت
رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی چچی جان حضرت سیّدتنا اُمُّ الْفَضْل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے آپ سے اپنا خواب عرض کیا یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! آپ کے مبارک جسم کا حصہ میرے گھر آیا ہے ۔‘‘ یہ سنتے ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایاتم نے اچھا خواب دیکھا ، فاطِمہ کے یہاں بیٹا پید ا ہوگا اور تم اسے دودھ پلاؤ گی ۔‘‘ جب حضرت سیّدتنا فاطِمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے یہاں حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ولادت ہوئی تو حضرت سیّدتنا اُمُّ الفضل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دودھ پلایا (الذریۃ الطاھرۃ للدولابی ص۷۲)

کوئ تجھ سا نہیں دیکھا
حضرت سیّدناعبدُ اللّٰہ ابن زُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابھی دیگرصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی طرح نواسہ ٔرسول حضرت سیّدنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے بہت محبت فرماتے تھے ایک موقع پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم عورَتوں نے حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جیسا فرزند نہیں جنا (سبلُ الھدی ج۱۱ص۶۹)
رحمت عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے بہت محبت تھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت سیّدُناامام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوکبھی آغوشِ شفقت میں اُٹھاتے تو کبھی دوشِ اقدس پر سوار کئے ہوئے در دولت سے باہَر تشریف لاتے، کبھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دیکھنے اور پیار کرنے کے لئے سیّدہ فاطِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے کاشانہ اقدس پر تشریف لے جاتے حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بے حد مانوس ہوگئے تھے کہ کبھی نماز کی حالت میں مبارَک پیٹھ پر سُوار ہو جاتے

سوار دَوشِ مصَطفٰے
ایک مرتبہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت سیِّدُنا امامِ حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو شانۂ اقدس پرسُوار کئے ہوئے تھے تو ایک شخص نے عرض کیا “نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ یَا غُلَام” یعنی صاحبزادے !آپ کی سواری توبڑی اچھی ہے۔رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا “وَنِعْمَ الرَّاکِبُ ہُوَ” یعنی سواربھی تو کیسا اچھا ہے (ترمذی ج۵ص۴۳۲حدیث۳۸۰۹)

بے ساختہ آنسو
ابوہُریرہ دیکھتے تو رو پڑتے حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں میں جب امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دیکھتا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک دن باہر تشریف لائے مجھے مسجد میں دیکھا ،میرا ہاتھ پکڑا ، میں ساتھ چل پڑا،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ ہم بنو قینقاع کے بازار میں داخل ہوئے اور پھر ہم وہاں سے واپس آئے توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا:’’چھوٹا بچہ کہاں ہے ، اسے میرے پاس لاؤ!‘‘حضرت سیّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :میں نے دیکھا، امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ آئے اورآقائے کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک گود میں بیٹھ گئے رحمت دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زَبان مبارک ان کے منہ میں ڈال دی اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا “اے اللہ عَزَّوَجَلَّ میں ا سے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ اور جو اس سے محبت کرتا ہو اسے بھی محبوب رکھ (الادب المفرد ص۳۰۴حدیث۱۱۸۳)

حضرت معاویہ ابنِ ابو سفیان رضی اللہ عنھما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ “میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت حسن بن علی کی زبان یا لب چوس رہے تھے اور جس زبان یا لب کو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے چوسا ہو اسے ہرگز عذاب نہیں ہو سکتا (مسند احمد 62/28)

اربابِ سیروتواریخ نے لکھا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا بدن مبارک ناف سے لے کر اوپر تک حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک کے مشابہ تھا اور ناف سے لے کر نیچے تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بدن مبارک کے مشابہ تھا اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا بدن مبارک ناف سے لے کر نیچے تک حضورِ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کے مشابہ تھا اور ناف سے لے کراوپر تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بدن مبارک کے مشابہ تھا
مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللّٰہ علیہ نقل فرماتے ہیں “جب امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے اور خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ، کسی نے پوچھا: آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟
فرمایا امام حسن مجتبیٰ ہم شکلِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہیں میں اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں (مرآۃ المناجیح ، ج 8 ص 461)

حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب احادیث مبارکہ میں بڑی کثرت سے وارد ہوئے ہیں چنانچہ حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ منبر پر جلوہ افروز ہیں اور حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف توجہ فرماتے اور کبھی ان کی طرف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا “ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین”
میرایہ بیٹا سردار ہے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان مصالحت کرا ئے گا- (صحیح بخاری)

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہوتے اور حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ آتے، اورآپ صلی اللہ علیہ کی گردن مبارک یا پشت مبارک پر سوار ہوجاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں اُتارتے نہیں تھے، بلکہ وہ خود ہی اُتر جاتے تھے،اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں اتارتے نہیں تھے بلکہ وہ خود ہی اُتر جاتے تھے اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں ہوتے تو اپنے پاؤں کے درمیان اتنا فاصلہ کردیتے کہ حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اُن کے درمیان سے دوسری طرف گزر جاتے۔

علم بیکراں
حضرت امام حسن علیہ السلام علم لدنی کے حامل تھے وہ دنیا میں کسی مکتب مدرسہ میں تحصیل علم کے محتاج نہیں تھے
ان کامدرسہ ان کے نانا جان کی آغوش تھا یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائل علمیہ سے واقف تھے جن سے دنیا کے عام علماء اپنی زندگی کے آخری عمر تک بے بہرہ رہتےہیں
آپ علیہ السلام کا علم و فضل براہ راست نبوت و رسالت کا فیضان تھا لہذا آپ کے علم و فضل کی کوئی انتہا نہ تھی
ابن سعد (متوفی 230ہجری)، بلاذری (متوفی 279 ہجری) اور ابن عساکر (متوفی 571 ہجری) نقل کرتے ہیں کہ امام حسن بن علی علیہ السلام صبح کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث و گفتگو کرتے تھے ظہر کی نماز کے بعد بھی آپ کا یہی معمول ہوتا تھا (تاریخ مدینہ و دمشق/ ابن عساکر 13/241، الطبقات الکبرى/ ابن سعد 10/297،أنساب الأشراف/ بلاذری ، 3/21)

امام حسن بن علی علیہ السلام مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے اور لوگ آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر مختلف موضوعات پر آپ سے سوالات کرتے تھے جن کے آپ جوابات دیتے تھے
(الفصول المہمۃ /ابن صباغ مالکی علیہ الرحمہ 2/702)

چنانچہ علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفسیر واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اورابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک آیت سے متعلق „شاہد و مشہود“ کے معنی دریافت کئے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعد وہ شخص امام حسن علیہ السلام کے پاس پہنچا آپ نے شاہد سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی’’ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تم کوشاہد و مبشر اورنذیر بناکربھیجاہے “ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود” قیامت کاوہ دن ہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع کردئیے جائیں گے اوریہی یوم مشہود ہے ‘سائل نے سب کاجواب سننے کے بعدکہا “فکان قول الحسن احسن” حضرت امام حسن علیہ السلام کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے (مطالب السوال صفحہ 235)

مقام مجتبی دوش مصطفی
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ کو دیکھا کہ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھائے ہوئے ہیں اور یہ دُعا فرما رہے ہیں – ترجمہ: اے اللہ! میں اِس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما (صحیح بخاری)

حضرت مولا ئے کائنات علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد رمضان المبارک 40ھ میں مسلمانوں نے حضرت امام حسن کے دستِ حق پرست پر بیعت کی جب یہ خبر والیٔ شام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی انھوں نے لشکر کشی کا ارادہ کیا اور اپنا لشکر لے کر عراق کے لئے نکلے، ادھر حضرت امام حسن مجتبیٰ کو جب یہ خبر پہنچی کہ شام سے ایک لشکر آرہا ہے،تو آپ دفاع کے لئے ایک لشکر لے کر روانہ ہوئے ،اور مقامِ مسقف،مدائن میں لشکر ٹھہر گیا،فوج نے یہ گمان کرلیا تھا کہ آپ جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے ۔جب آپ سے اس امر میں تصدیق کی گئی تو آپ نے فرمایا:’’مجھے مسلمانوں کا اتحاد،اور ان کی خوشحالی اور ان کی جان واموال، اور ان کی آپس میں صلح پسندی بہت محبوب ہے‘‘۔

آپ کے ان ارشادات سے آپ کی فوج میں اختلاف ہوگئےآپ بہت باوقار اور نہایت ہی بردبار شخصیت کے مالک تھے۔جذباتیت وانانیت نام کی کوئی چیز آپ کےپاس بھٹکی بھی نہ تھی آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور خلافت سے دستبردار ہوگئے ہزاروں مسلمانوں کی قیمتی جانیں بچالیں،اور اپنے نانا جان کے فرمانِ عالیشان کے مصدق ہوئے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا:’’ میرا یہ فرزند سید ہےجس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کےدوبڑے گروہوں کے مابین صلح کرادے گا۔ (بخاری۔حدیث:2704)

جب آپ خلافت سے دستبردار ہوگئےتو آپ کے بعض شیعے کہنے لگے:’’یاعارالمسلمین‘‘ آپ نے برجستہ جواب دیا:’’العارخیرمن النار‘‘۔ان جملوں میں آج امتِ مسلمہ کے لیڈروں قائدین کے لئے بہت بڑاسرمایہ ہے۔اقتدار کی جنگ میں لاکھوں مسلمانوں کاخون ضائع ہوجاتا ہے نا اتفاقی کی وجہ سے آج امتِ مسلمہ زبوں حالی کاشکار ہے۔شاطر دشمن انتشار کے ذریعے امتِ مسلمہ کو تہہ و بالا کررہے ہیں ان کے چلمن حیات کوبرباد کررہے دم حیات تنگ کررہے ہیں ،اور مسلم حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔کاش!یہ حکمران وقت حضرت امام حسن کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اتحاد و امن کے داعی بن جائیں،اور زندہ وجاوید زندگی کا مژدہ پائیں

احترام سادات
تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابوالحواری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام سے پوچھا: آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث یاد ہے؟ فرمایا: ہاں حدیث یاد ہے کہ میرے بچپن کا واقعہ ہے کہ میں نے ایک مرتبہ صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر مُنہ میں ڈال لی تو نانا جان، حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے میرے مُنہ سے وہ کھجور نکالی اور صدقے کی کھجوروں میں واپس رکھ دی۔
عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ایک کھجورانہوں نے اُٹھالی تو اس میں کیا حرج ہے؟
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اِنَّااٰلُ مُحَمَّدٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ” آلِ محمد کیلئے صدقہ کا مال حلال نہیں ہے (اسد الغابۃ 2/16)

حسن اخلاق اور حسن گفتار
ابن سعدیہ روایت کرتے ہیں کہ آپ کی شیریں کلامی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ کسی سے تکلم فرماتے توجی چاہتا کہ بس آپ اسی طرح سلسلہ کلام جاری رکھیں اور خاموش نہ ہوں میں نے آپ کی زبان سے کبھی کوئی فحش بات نہیں سنی (تاریخ الخلفاء صفحہ 395)

تحمل اور صبرورض
قوت برداشت اتنی تھی کہ خارجی لوگ منہ پر گالیاں دیتے تھے مگر آپ اس کاکوئ جواب نہ دیتے تھے بعض اوقات تو کھانا بھی کھلادیتے تھے قوت وطاقت ہونے کے باوجود بدلہ نہ لینا یہ علئ مرتضی کی وراثت سے تھا بہادر اتنے تھے کہ جنگ صفین ونہروان آپ کی شجاعت وبہادری کا قصیدہ پڑھ رہی ہیں ثانئ حیدر علمبردار کربلا شہنشاہ وفا حضرت عباس علبردارجن کا نام سن کر اب بھی کلیجے پھٹ جاتے ہیں شجاعت وبہادری میں جنگ وجدال کے ہنر اور پینتروں کے کے استاد حضرت امام حسن مجتبی ہی تھے
آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل وکمالات کے ورثہ دار تھے قوت وطاقت کے باوجود تحمل و صبر ورضا کاپیکر حسین نظر آتے تھے صلح میں پیکررحم والفت جنگ میں ایک بہادر سپاہی

کرامت
یوں تو آپ سے بہت سی کرامتوں کاظہور ہوامگر مضمون کی طوالت کو پیش نظر رکھ کر صرف ایک کرامت پر پراکتفا کرتاہوں
خشک دَرَخت پر تازہ کھجوریں
حضرت سیّدنا نورُ الدِّین عبدالرحمن جامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی فرماتے ہیں :امام عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سفر کے دوران کھجوروں کے باغ سے گزرے جس کے تمام درخت خشک ہوچکے تھے ، حضرت سیّدنا عبدُ اللّٰہ ابنِ زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی اس سفر میں ساتھ تھے۔ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس باغ میں پڑاؤ ڈالایعنی قیام کیا۔خُدام نے ایک سُوکھے درخت کے نیچے آرام کیلئے بچھونابچھا دیا۔ حضرت سیّدنا عبداللّٰہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے عرض کی:اے نواسۂ رسول! کاش ! اس سوکھے درخت پر تازہ کھجوریں ہوتیں! کہ ہم سیر ہو کر کھاتے۔ یہ سن کر حضرتِ سیّدناامام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آہستہ آواز میں کوئی دعاپڑھی، جس کی برکت سے چند لمحوں میں وہ سوکھا درخت سرسبز و شاداب ہوگیا اور اس میں تازہ پکی کھجوریں آگئیں یہ منظر دیکھ کر ایک شتربان یعنی اونٹ ہانکنے والاکہنے لگا یہ سب جادو کا کرشمہ ہے

حضرت سیّدنا عبدُاللّٰہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اسے ڈانٹا اورفرمایا: توبہ کریہ جادو نہیں بلکہ شہزادۂ رسول کی دُعائے مقبول ہے۔ پھر لوگوں نے درخت سے کھجوریں توڑیں اور قافلے والوں نے خوب کھائیں (شواھدُ النّبوۃص۲۲۷)

محبت کی انتہا
خلافت کے زمانے میں جب امام حسن علیہ السلام نے مسلمانوں کے درمیان صلح کروائی تو ایران کے بادشاہوں اور وزیروں نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو دعوت پر بلایا آپ علیہ السلام نے ان کی دعوت قبول کرلی لہٰذا ایران میں اعلان کردیا گیا شہزادہ بتول نواسہ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام تشریف لارہے ہیں ایران میں شہنشاہ اسلام امیر المومنین مولٰی المسلمین امام علی ابنِ ابی طالب مولا مشکل کشا کرم اللہ وجہہ کے عاشقوں کا بہت بڑا طبقہ تھاجب انہوں نے سنا کہ ہمارے مولا کےفرزند ارجمند خلف وجانشین امام حسن مجتبی جلوہ نمایئ فرمانے والے ہیں تو وارفتگی عشق میں دوڑ پڑے بیش قیمت تحائف نذر و فتوح دیکھ کر ایک غریب موچی آسمان کی طرف دیکھ کر رو پڑا لوگوں نے پوچھا ارے بھائی سب فرط مسرت سے جھوم رہے ہیں آخرتم کیوں رو رہے ہو ؟
موچی کہنے لگا میں بہت زیادہ غریب ہوں یہ سب امیر ہیں میرے پاس کچھ نہیں ہے جو اپنے مولا علی علیہ السلام کے فرزند کو تحفہ پیش کر سکوں ۔ موچی سارا دن روتا رہا ادھر سب لوگ جشنِ آمد حسن مجتبیٰ علیہ السلام منا رہے ہیں جب امام حسن علیہ السلام تشریف لے آئے تو سارے عشاق وہاں پر پہنچ گئے جہاں پر آپ علیہ السلام تشریف فرما تھے موچی شرمندگی کی وجہ سے روتے ہوئے کبھی آسمان کی طرف دیکھتا کبھی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو دیکھتا اور بغیر ملاقات کئے گھر آگیا دھاڑیں مار مارکر رونے لگا اس کی بیوی نے پوچھا کیا ہوا ؟
موچی نے عشق کدہ دل پر غربت و یاس کی واردات کی ساری داستان سنادی پہلے تو وہ بہت خوش ہوئی کہ میرے مولا امام کے فرزند حضرت حسن مجتبیٰ آئے ہیں اور پھر وہ بھی زارو قطار رونے لگ گئی لہٰذا بیوی نے اپنے خاوند سے کہا تم ایک موچی ہو تم امام حسن علیہ السلام کے لیے ایک بہترین نعلین مبارک بناو اور وہ تحفہ پیش کرنا لہذا موچی اسی وقت نعلین مبارک بنانے میں لگ گیا ساری رات لگا کر نعلین مبارک بنالی صبح سویرے جب نعلین مبارک بنا کر آپ علیہ السلام کو تحفہ دینے کے لیے نکلا تو بیوی نے پیچھے سے آواز دی رُکو ۔ موچی رُک گیا بیوی نے موچی سے حضرت مولا امام حسن علیہ السلام کو جو نعلین مبارک تحفے میں دینے تھے موچی سے لےکر پہلے ان کو چوما اور پھر رونے لگی اور نعلین مبارک پکڑ کر مدینہ کی طرف منہ کرکے کہنے لگی یا سیدہ مخدومئہ کائنات طیبہ سیدہ زھرا بنت رسول اللہ سلام اللہ علیہا ہم بہت غریب ہیں۔
ہمارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں یہ کہہ کر بیوی نے موچی سے کہا ان نعلین مبارک کو ایسے عام طریقے سے پکڑ کے نہ لے جانا موچی کی بیوی نے اپنا ڈوپٹہ اتارا اور نعلین مبارک اس میں لپیٹ کر کہنے لگی ان نعلین مبارک کو اپنے سینے سے لگا کر لے جاو موچی نعلین مبارک اٹھا کر سینے سے لگائے ہوئے مجمع میں پہنچ گیا سب لوگ جگر گوشئہ بتول نواسہ رسول امام حسن مجتبیٰ کی زیارت سے مستفیض ہورہے تھے ایران کے بادشاہ نے 5 ہزار سکے آپ کو تحفہ میں دیئے
آپ علیہ السلام کے سامنے بیشمار اور بیش قیمتی تحائف نذروفتوح رکھے تھے موچی بھی اس مجمع میں شامل ہوکر تحفہ دینے کےلیے بڑھا مگر لوگوں نے موچی کی غربت زدہ حالت دیکھ کر جہاں جوتے پڑے تھے وہاں ڈھیکیل دیا موچی وہاں بیٹھ گیا جہاں جوتے پڑے تھے آگے مجمع میں امیر ترین لوگ تھے موچی نعلین مبارک کو چومنے لگا کبھی رو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو کبھی امام علیہ السلام کے چہرہ انور کؤ دیکھتا
ادھر غم زدوں کے حالات جاننے والے کو خبر ہوگئی
نواسہ رسول جنابِ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اچانک مجمع میں دیکھنے لگ گئے آپ علیہ السلام نے اُٹھ کر فرمایا اے فلاں شخص ادھر آو ۔ موچی نے سنا دوڑتا ہوا امام حسن علیہ السلام کے مبارک قدموں میں گر پڑا عرض کرنے لگا حضور میں بہت غریب ہوں یہ سب امیر لوگ ہیں میرے پاس اس نعلین مبارک کے سوا آپ کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے کوئ تحفہ نہیں ہے
جنابِ امام حسن مجتبیٰ ابنِ علی علیہ السلام نے گرتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھ کر فرمایا ہمارے حرم مملکت میں دولت نہیں بلکہ نیت دیکھی جاتی ہے

لاؤ کیا لائے
موچی نے دیکھا کہ آپ کی نعلین مبارک سے اس کی بنائی ہوئی نعلین مبارک بہت چھوٹی ہے موچی رو کر عرض کرنے لگا اے نواسہ رسول میری بنائی ہوئی نعلین مبارک بہت چھوٹی ہے اور آپ نے جو پہن رکھی ہے وہ بہت بڑی ہے اگر آپ میری نعلین مبارک استعمال کریں گے تو آپکے پاوں مبارک پر زخم ہو جائے گا ۔ مولا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا تمہارا دل دیکھوں یا اپنے زخم دیکھوں، اللّٰہ اکبر آپ کی ادا ادا پر میں صدقے جاوں جب موچی نعلین مبارک دے کر جانے لگا تو امام حسن علیہ السلام نے آواز دے کر فرمایا رُک جاو یہ پانچ ہزار سکے لے جاو موچی کہنے لگا حضور میری تو ساری زندگی کے لیے 2 سکے ہی کافی ہیں یہ تو پانچ ہزار ہیں لہذا امام علیہ السلام کے دوبارہ کہنے پر موچی نے پانچ ہزار سکے اٹھائے اور خوشی سے چلنے لگا ۔ پھر امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے شخص رُک جاؤ، موچی پھر واپس پلٹا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا وہ سکے مجھے بادشاہ نے تحفے میں دیئے تھے اور میں نے تجھے دے دیئے میں نے ابھی تک تمہیں کچھ نہیں دیا امام حسن علیہ السلام نے فرمایا جاو تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں موچی خوشی سے اور زیادہ جھومنے لگا سارا مجمع حیران ہوگیا
موچی جب واپس جانے لگا تو امام حسن علیہ السلام نے تیسری بار پھر فرمایا اے محبت کے پیکر رُک جاؤ موچی واپس پلٹا تو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہم اہلِ بیت علیہم السلام کی چاہنے والی اپنی بیوی کو بھی یہ مژدہ سنا دینا وہ بھی جنتی ہے اب تو موچی کی خوشی کی انتہا نہ رہی پھر جب گھر کے لئے واپس چلنے لگا چوتھی بار پھر امام علیہ السلام نے فرمایا ادھر آؤ اور سارے مجمع کے سامنے امام حسن علیہ السلام نے اپنے عاشق موچی کو سینے سے لگایا ادھر سارے مجمع والے جو پہلے اس موچی کو پیچھے ڈھکیل رہے تھے موچی کی اس قسمت پر عش عش کرنے لگے

شہادت عظمی
شہادت کی سن اور تاریخ مخلف ہیں ۔صحیح قول کے مطابق 28/صفرالمظفر49ھ ہے۔آپ کی شہادت زہرخورانی سے ہوئی جوتین مرتبہ دیا گیا تھا تیسری بار اتنا کاری زہر تھا کہ انتڑیاں کٹ کٹ کر گرنے لگیں زہر کس نے دیا تاریخ اس بارے میں تحقیق نہیں کر سکی آ پ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ حضرت سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جو اس وقت مدینۃالمنورہ کے گورنر تھے۔حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے آپ رضی اللہ عنہ کو جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھایا ۔ (الاستیعاب 1/442، الصواعق المحرقہ 476) آپ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں اس قدر ہجوم (بھیڑ) تھا کہ اگر سوئ گرائ جاتی تو وہ کسی کے اوپر گرتی نہ کہ زمین پہ حضرت سیدنا ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے جنازے میں شریک ہوا آپ کوجنت البقیع میں(اپنی والدۂ ماجدہ
کے پہلو میں) دفنایا گیا،

اناللہ واناالیہ راجعون
اللہ پاک آپکے جوارمقدس واقدس سے جو فیوض وبرکات کے سوتے پھوٹ رہے ہیں انکے ذریعہ ہم سیاہ دل انسانوں کے قلوب کومنورفرماکر قابل دید مصطفی بناۓ آمین بجاہ سیدالمرسلین وآلہ الطیبین الطاہرین

Leave a Comment

Related Post

Top Categories