حضرت جرات علی بیریا کی شاعری کا اجمالی تذکرہ

jurrat ali beriya, jurrat ali beria, jurat ali beria, jurrat ali beriya - حضرت مولانا سید جرات علی بیریا علیہ الرحمۃ

قارئین کرام! رہبر نور کے حوالے سے قدیم شعراء مکن پور کا تاریخی اور اجمالی تذکرہ اس عنوان سے جو تحریر آپ نے ملاحظہ فرمائی وہ ۱۳۲۵ ھجری سے قبل کے شعراء خصوصی طور پر حضرت عبداللہ مجنوں میاں مداری مکن پوری کے کلام پر تمام ہوئی۔ دوسری قسط میں جنوں صاحب کے ہمعصر شعراء اور ان کے شاگر د شعراء کا کلام جو مجھے دستیاب ہوا وہ قارئین کرام کے نذر کر رہا ہوں۔

جنوں میاں مداری مکن پوری اور حضرت مولانا سید جرات علی بیریا مداری مکن پوری مصنف حقیقت الواصلین کا دور ایک ہی معلوم ہوتا ہے ہو سکتا ہے جرات علی بیر یا رحمۃ اللہ علیہ کا بچپن ہو اور جنوں مرحوم مکن پوری عمر دراز ہوں الغرض جرات علی بیریا اور جنوں مکن پوری کا دور ایک ہی سمجھ میں آتا ہے۔

ایک نظم بہ عنوان “جواز تعزیہ داری” بلبلوں کی خاطر میں مولانا سید ذاکر حسین ذاکر مداری مکن پوری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہے اس نظم سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے بزرگ تعزیہ داری کے قائل تھے۔ اور محتاط طریقہ سے تعزیہ داری کرتے تھے۔ اور تعزیہ داری کی مخالفت کرنے والوں کے سخت ترین مخالف تھے۔ ہمارے بزرگوں سے رواج چلا آتا ہے کہ خانوادہ قطب المدار رضی اللہ عنہ یعنی ہرسہ خواجگان سے منسوب دو تعزیے ہیں جو خواجہ سید محمد ارغون اور خواجہ سید ابوتراب فنصور و خواجہ سید ابوالحسن طیفور رضی اللہ عنہم کی اولاد امجاد سے منسوب ہیں وہ آج تک محفوظ ہیں۔ ہر سال ان کی مرمت وغیرہ ہوتی رہتی ہے اور تعزیہ داری کے جس قدر اخراجات ہیں وہ آج بھی خانقاہ کی آسامی سے پورے ہوتے ہیں ان قدیم روایات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تعزیہ داری کا رواج خانقاہ عالیہ سے قدیمی ہے۔

نظم مسلسل جواز تعزیہ داری
حضرت مولانا سید جرات علی بیریا علیہ الرحمۃ والرضوان

بعد از ثنائے جل وعلا رب مشرقین
پروردگار ہر دوسرا مشفق حسین

یہ بھی حدیث تو سنی ہوگی بارہا
آتے تھے تہنیت کو فرشتے بارہا

معراج اس کو دوش نبی یہ ہوئی مدام
طفلی میں آپ اونٹ بنے سید الانام

جبرئیل اسکا مہد ہلاتے تھے بار بار
جنت سے میوے لاکے کھلاتے تھے بار بار

حتی کہ سیب تادم آخری بھی پاس تھا
خود اس کو سونگھتا وہ شوخی شناس تھا

تاکید اس کے جب کہ نہایت خدانے کی
تہدید ان کے بارے میں خود مصطفی نے کی

فرماتے تھے نبی جو محب حسین ہے
جنت میں اس کے واسطے آرام و چین ہے

اور دشمن حسین ہے بے شبہ دوزخی
یاد خدا میں گرچہ بسر عمر اس نے کی

یہ وعظ بعد حمدِ خدا کہتے تھے نبی
حاجت نہیں ہے شرح کی واقف ہیں یہ سبھی

محبوب اس کو کہتے تھے محبوب کبریا
ظاہر ہے کلمہ گوئیوں میں اس پر جو کچھ کہا

اس خاص وعظ و پند کے جو سامعین تھے
وہ حارب حسین تھے اور قائلین تھے

امت نے خوب وعظ نبی پر عمل کیا
شمع مزار مصطفوی کو بجھا دیا

بیٹھے بٹھائے گھر سے نکالا حسین کو
قصہ تمام مار ہی ڈالا حسین کو

جو کربلا میں جمع ہوئے تھے معاندین
داخل تھی ان کے جسموں میں ارواحِ فامسین

روز ازل میں جتنے تھے مردود کبریا
وہ دشمن حسین تھے ارواحِ اشقیا

سرخیل جو کہ ان کا یزید لعین تھا
اور شمر اس سے بڑھ کے بھی کچھ بد یقین تھا

کب کوئی ایسا دشمن آلِ عبا ہوا
جیسا عدو حسین کا وہ بے حیا ہوا

باقی جو کوئی روح رہی وہ اس گروہ سے
ان کو ہے ضد بادشہ پرشکوہ سے

کتنے جو مارنے نہیں پائے حسین کو
ابنِ علی وہ فاطمہ کے نورعین کو

آیا نہ ہاتھ جبکہ ستانا حسین کا
در پردہ ٹھانا نام مٹانا حسین کا

کہتے ہیں کلمہ گوئیوں سے سرخیل اشقیاء
ہے مرثیہ تو کفر اور بدعت ہے تعزیہ

(بلبلوں کے خاطر بوسیدہ ہے 11 اشعار صفحہ سے غائب ہیں 11 اشعار کے بعد)

ایمان یہ کہ ایک ہی سمجھو الہ کو
جانو شفیع اپنا رسالت پناہ کو

کافی ہے اتنی بات بس ایماندار کو
یہ وعظ بس ہے جملہ صغار وکبار کو

قرآن کو کتابِ خدا دل سے جانیو
احکام شرع جتنے ہیں بے شبہ مانیو

دوزخ اور پل صراط میزان عذابِ قبر
سمجھو کہ ہم ہیں رجا قدر و جبر و صبر

روزہ نماز جیسے کہ مولا کا فرض ہے
بس ویسے حب آل محمد بھی قرض ہے

ہم لوگ اس سبب سے بناتے ہیں تعزیہ
عشرہ میں سب امام کے پڑھتے ہیں مرثیہ

جو تعزیہ نہ آلِ نبی کا بنا کریں
ہرگز عوام لوگ نہ پھر فاتحہ کریں

تو روکتا ہے فیض سے روحِ حسین کو
کرتا ہے بند نذر و فتوحِ حسین کو

ثابت ہے یہ کتب سے کہ مردہ کے نام پر
دے فاتحہ جو شربت آب و طعام پر

بے شبہ فیض ہوتا ہے وہ اس کی روح کو
وارث ہیں اس کے بھیجتے ہیں جس کی روح کو

یہ پوچھتا نہیں ہے کوئی اس خبیث سے
نذرِ حسین منع ہوئی کس حدیث سے

اس تیری گفتگو سے خدا خوش ہے بیریا
تیرا کلام معتزلہ کَش ہے بیریا

سلسلہ عالیہ مداریہ اور خصوصی طور پر جواہر انوار مکن پور شریف میں مناقب قطب المدار کہنے سن نے اور پڑھنے کا زمانہ قدیم سے ماحول ہے اسی سے شعراء مکن پور شریف کے مناقب کے اشعار بہت نظر آتے ہر چند کہ غزل کے اشعار اور غزلیں لوگ زیادہ کہتے ہیں لیکن غزلوں کی طباعت و اشاعت بہت کم ہوئی ہے اور سوانح قطب المدار کی کتا بیں ہر دور میں شائع ہوتی رہی ہیں اسی ضمن میں مناقب قطب المدار کے اشعار سلسلے کی کتابوں میں آسانی سے حاصل ہو جاتے ہیں حضرت خواجہ سید جرات علی بیریا کی منقبت “گلشن ذاکر” میں نقل کی گئی ہے وہ پیش کر رہا ہوں۔

قصیده در منقبت اسوة الاخیار حضرت سیدنا مولانا سید بدیع الدین قطب الاقطاب قطب المدار قدس اللہ سرہ مصنفہ جناب مولوی سید شاہ جرات علی علیہ الرحمہ المتخلص بیریا بدیہہ گومکن پوری

ہو کیوں نہ مفضّل تو گروہِ نقباء سے
بے واسطہ بیعت ہے رسولِ دوسرا سے

تو وہ ہے کہ تعمیل کو احکام کے تیرے
سُکّانِ سماوات اترتے ہیں سماء سے

رتبہ جو ملے سایۂ نعلین سے تیرے
وہ قدر نہ حاصل ہو کسی ظلِ ہُما سے

جنّات و بشر حور و ملک جنت ویزداں
سب تختِ حکومت ہیں تیرے حکمِ خدا سے

گردوں یہ تیرا ذکر بھی کرتے ہیں ملائک
اِک شور بپا صلی علیٰ، صلی علیٰ سے

القصہ کجا درکجا مہرِ منوّر
ہے غرق حقیقت میں زَلَس عرش و ثَریٰ سے

یاں دامِ ضلالت سے رہا کیجیے مجھ کو
واں کیجیے سفارش مری محشر میں خدا سے

فرماؤ مجھے مفت مخلوق سے آزاد
منگوائیے ہردنہ اس اپنے گدا سے

اس بیریا عاصی کی یہ دو عرض ہوں مقبول
لایا ہوں شفیع دونوں محمد کے نواسے

حضرت مولانا سید جرات علی بیر یا رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب کے اشعار بہت زیادہ نظر آتے ہیں انہیں مناقب میں ایک منقبت جس کو نظم مسلسل کہا جاسکتا ہے۔ اس نظم کو میلاد زندہ شاہ مدار میں قطب عالم ابوالوقار نے بھی نقل کیا ہے، بحوالہ حقیقت الوصلین نقل کر رہا ہوں۔

بدیع الدین ایسا ذوالقدر ہے
مداریت کا جو زیب صدر ہے

ملک سیرت ہو وہ اولیاء میں
نہیں اس سا کوئی ہے اتقیاء میں

نہیں وہ حاجت بشری کا محتاج
تمامی اولیاء کا درة التاج

مدار ہر دو عالم ہے وہ حق کوش
ہوا ہرگز نہ محتاج خورد و نوش

ریاضت میں ہوا ہے ایسا بے باک
کہ قائل جس کے ہیں خاصان افلاک

رہا روز ازل سے پاک دامن
یہ نور پاک احمد خوی احسن

ہوا مختار یہ لوح قضا کا
یہ بندہ وہ پیارا ہے خدا کا

ہوئی تفویض اس کو لوح تقدیر
یہ پیران طریقت میں ہے وہ پیر

مکدر جو کہ آیا اس کے در پر
ہوئی وہ شئے اسے فوراً میسر

وہ جس شئے کے لئے پھرتا تھا مغموم
نہ تھی وہ چیز اس بندہ کے مقسوم

مدار خلق سے کی جب ارادت
وہ پا جاتا ہے بندہ نیک عادت

بجز اس کے نہیں ہے کوئی درویش
کرے لوح قضا میں جو کم و بیش

یہ ہے ابر کرم ایسا گھر بار
کہ ہیں ممنون اس کے گل و خار

ولی ہے کون اس نشو و نما کا
مگس کو جو اثر بخشے ہما کا

سبب اس بات کا تجھ کو بتاؤں
بگوشِ قلب سن جو میں بتاؤں

رہا دنیا میں صدہا سال زندہ
بدل یہ ذکر ہے پیدا کننده

جب ایسا ذکر اللہ نکلا
فرشتہ وش جو یہ ذیجاہ نکلا

نہ لی آرام یکدم اور نہ لی کل
نہ بھولا اپنے مولا کو کوئی پل

خمسہ منقبت حضرت سید شاہ بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہ من تصنیف جناب مولانا حسین بخش شاہ صاحب المتخلص نعیم فیروز آبادی ضلع آگرہ شاگرد رشید جناب مولانا سید جرات علی صاحب علیہ الرحمہ المتخلص بیریا مکن پوری۔

چور سے گردوں کے ہوں ناشاد یا قطب المدار
غیر سے ممکن نہیں امداد یا قطب المدار
بہر حق سن لیجئے فریاد یا قطب المدار
آپ ہیں تاج سر اوتاد یا قطب المدار
سرور و سر دفتر افراد یا قطب المدار

عمر اپنی صرف کی تم نے خدا کی راہ میں
اس نے وہ پایا جو آیا ہے تمہاری چاہ میں
کیوں نہ ہو مقبول تم اللہ کی درگاہ میں
مرحبا بعد از ائمہ اولیاء اللہ میں
تم ہوئے خضر رہ ارشاد یا قطب المدار

آپ کے در پہ پڑا رہتا ہے باصد اضطراب
مشکلیں حل ہو گئیں صدہا کی یا عالی جناب
اس کو بھی مثل نعیم مدح خوان دیجئے جواب
بیریا نے پیش کی عرضی جو با چشم پر آب
کیجئے للہ اس پر صاد یا قطب المدار

از قلم : مولانا سید محضر علی وقاری مداری


حضرت مولانا سید جرات علی بیریا کی مناجات جو مستجاب الدعوات میں سے ہے جب بھی پڑھی جائے جس مقصد کیلئے پڑھی جائے اللہ پاک اس کے طفیل حاجت روائی فرماتا ہے۔

والد گرامی مرتبت (مولانا سید ازبر علی قبلہ کے والد گرامی) حضور تاج الاصفیاء ماہر علم الانساب حضرت علامہ صوفی الشاہ سید افسر علی میاں قبلہ جعفری المداری رحمۃ اللہ علیہ بعد نماز فجر اوراد و وظائف و معمولات و ختم خواجگان سے فارغ ہو کر مناجات پابندی سے پڑھتے تھے جس کے تقریبا 36 بند نقل ہیں۔
میں نے کہا کہ مناجات بہت طویل ہے آپ نے فرمایا کہ تین سو بند تھے ہمیں اتنی ہی ملی ہے جو اپنی ڈائری میں نقل کر دی قارئین کی دلچسپی کیلئے چند بند پیش کر رہا ہوں۔

یا الہی روح ختم الانبیاء کے واسطے
رحم فرما شافع روز جزا کے واسطے
اے میرے مولی محمد مصطفیٰ کے واسطے
کر میری تکلیف زائل مرتضی کے واسطے
کر عفو میری خطا خیر النساء کے واسطے

معجزے تو نے دیئے ہر اک نبی کو جس قدر
خاتمہ انکا کیا درشہ لولاک پر
دیتے تھے مہر نبوت کی گواہی سب حجر
سر پہ سایہ کرتے تھے ہر دم پروں کو کھول کر
حکم تھا تیرا یہ مرغان ہوا کے واسطے

کیا میں اپنے طالع بد کی کجی ظاہر کروں
گر الف سیدھا لکھوں خم ہو کے بن جاتا ہے نوں
ہاتھ چھو جائے مرا تو ہوتے موتی نیلگوں
غیر ممکن ہے سیہ بختی کو اپنی لکھ سکوں
پارسائی دے تو بخت پارسا کے واسطے

اے خدا حاجت روائے خلق تیری ذات ہے
تو کریم و کارساز و قاضی الحاجات ہے
لطف کر مجھ پر ہجوم فکر غم دن رات ہے
رحم فرمانا ترے نزدیک کتنی بات ہے
اے تنزل رفع و رنج و عنا کے واسطے

میرے رازق تو ہے ضامن رزق مخلوقات کا
آسرا ہے ہر کس و ناکس کو تیری ذات کا
تو ہی بر لائے دعا اس مورد آفات کا
تجھ سوا پرساں نہیں ہے کو میری ذات کا
بن ترے جاؤں کہاں میں التجا کے واسطے

واسطہ حضرت سلیماں، یونس و داؤد کا
صالح وایوب کا موعود کا بیرود کا
لوط کا یعقوب کا اسحق کا محمود کا
واسطہ اے کبریاء ان انبیاء جود کا
کھولدے روزی مری مشکل کشا کے واسطے

پیش لردہ: مولانا حافظ سید ازبر علی مداری مکن پوری

نقل از : رہبر نور ۔ مولانا مقتدا حسین جعفری مداری سے


حضرت جرات علی بیریا کی حیات پر مبنی ویڈیو

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *