حضرت سید ظہیر النعم ببن میاں مداری علیہ الرحمہ

حضرت سید ظہیر النعم ببن میاں مداری علیہ الرحمہ

نوادرات تصوف میں بیشمار محل و زمرد، لولو دمرجان، اپنی حیثیت سے غیر متعارف ہیں۔ جن کی خدمات جلیلہ نے باغ سلوک و تصوف کو اپنے خون پسینہ سے سینچا ہے اور تصوف کی اشاعت و تشریح میں ہمہ تن مصروف رہے ہیں مگر صوفی ازم کی قلت اور اسکی افادیت سے بے بہرہ زمانے نے لباس تصوف پر جڑے ان ہیروں کی چمک اور اس کی قدر و منزلت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

اب تاریخ کو بتانا پڑھ رہا ہے کہ کوئی صوفی گر تھا جو اپنے دامن میں تصوف کی کہکشاں بٹورے تھا اس کی وجہ یا تو تصوف سے عدم دلچسپی کی بنیاد پر ہے یا تصوف سے لگاؤ نہ ہونے کی وجہ سے ہے یا جعلی صوفیوں کی ریل پیل نے قبہ اسلام کے نگارشات چھپا دیئے ہیں۔

بہر حال رنگ تصوف پر مکر اور ریا کاری کی دھوپ و ہوا اثر انداز ہوئی ہے کہ جس نے تصوف کی رونق و خوبصورتی کو مندمل کر دیا ہے اور معیار تصوف کو نرخ سے اتار بھی دیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ تصوف کھو گیا ہے یا صوفیت ختم ہو گئی ہے۔

مدار کائنات بھی صوفی ہی ہے اور يوم ترجف الأرض والجبال وكانت الجبال کثیبا مهیلا کی تفسیر کا اطلاق بھی صوفی ہی پر ہوتا ہے۔ خیرات میں بادشاہت بھی صوفی ہی دیتا ہے اور سمندر کو کوزے میں بھی صوفی ہی بھرتا ہے سیارگان فلک کی دوڑ بھاگ پر کمند بھی صوفی ہی بچھاتا ہے اور چاند سورج کی شعاؤں کو مٹھی میں بھی صوفی ہی کر لیتا ہے ہوا کے نرم و گداز کا ندھوں پر مصلی بھی صوفی بچھاتا ہے۔ بے تحمل پانی کی سطح پر نماز بھی صوفی ہی قائم کرتا ہے۔ ذرہ کو ہم دوش ثریا بھی صوفی ہی کرتا ہے نبض پکڑ کر تقدیر کا فیصلہ بھی صوفی ہی کرتا ہے مگر پھر بھی بڑے بڑے روی و رازی، غزالی و جامی، قشیری و ہجویری، منیری و نظامی کلابازی و سعدی، وقت کے ہاتھوں چڑھ گئے اور بے وقعت زمانہ نے تاجداران تصوف کا سرمایہ بکھیر دیا۔

اب تاریخ کی تجوری میں ان نوادرات کو اکٹھا کرنا اور صوفی ازم کی نشاۃ الثانیہ کا دور واپس لانا ہو گا تب تصوف کی دلدادہ ہماری حلاوت ایمانی اور جذبہ وفا سلامت رہے گی۔
اس عزم مستحکم میں ہم سلطنت تصوف کی ایک متاع بے بہا اور درج درخشندہ کے ذکر سے اپنے قلوب کو منور کرینگے اور انکی بے مثال خدمات دینی وملی سے اپنے نگار خانہ حیات کو روشن بنائیں گے۔

سرزمین دارالنور مدینۃ الہند مکن پور شریف جو چھ سو سے زائد سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی تصوف کی زرخیزی کیلئے پہچانی جاتی ہے اسی سرزمین پر بڑے بڑے اصفیا واتقیاء اولیاء و صلحا پیدا ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ماضی قریب میں ہم نے اپنے بزرگوں سے تصوف کی گود بھری دیکھی ان کی محافل میں صوفی رنگ شامل تھا اور ان جیالوں کی مسکان سے لب تصوف پر مچلتے تبسم کو دیکھا ان در شہواران تصوف میں ایک ذات گنجینہ ہائے صفات تصوف میں اپنی قیمت آپ رکھتی ہے جس کا مماثل اور نظیر کارخانۂ مشخیت میں نہیں ہے میری مراد بحر سکوت، موجم تکلم، ثوابت پیشانی سعادت ، فرشتہ صفت، رہبر توفیق ، خضر شفیق، نو بہار حدیق ماہر علم و فن ، شیخ زمن اولاد پنجتن ، عارف با الله ، ولی کامل حضور الحاج الشاہ سید ظہیر المنعم ببن میاں صاحب طیفوری مداری قدس سر بالنورانی ہیں۔
جن کی سادہ زندگی پر سادگی قربان تھی نورانی شباہت، انداز تکلم آہستہ آہستہ سفید شفاف بستر پر سفید شفاف پوشاک میں ملبوس ، ایسا لگتا کہ جیسے دودھ میں ابال آگیا ہو عزلت نشینی ایسی کہ خود کو بھی خود سے ملنے نہ دیا رفاقت نوازی ایسی کہ کسی کو محروم بھی نہ کیا۔ وہ ہنسیں تو باغیچہ حیات میں بہار آجاے وہ جو نظر پھیر لیں زندگی سیماب بن جائے جنکی نظر کریمانہ اٹھے تو صبح امید کی کرن پھوٹے وہ جو نظر جھکا کے بیٹھے تو امید و آرزو ٹھنڈی پڑ جائے حضرت بین میاں حضور اہل بستی کے معززین میں صف اول میں تھے یگانے بیگانے اپنے پرائے یہاں تک بلا تفریق مذہب و ملت چھوٹے بڑے سب بھائی جی کہتے تھے۔

ابتدائی حالات و نسب

عارف باللہ حضرت سید ظہیر النعم ببن میاں مداری علیہ الرحمہ بر صغیر کے جید صوفی بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے اپنی ساری زندگی روحانی، اصلاحی اور فلاحی خدمات میں بسر کی۔ آپ کا سلسلہ نسب سادات کرام مکن پور شریف کے ایک جلیل القدر طیفوری خاندان سے ملتا ہے، جو اپنے علم و عرفان، زہد و تقویٰ ، اور خدمت خلق میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔

نام نامی اسم گرامی : سید ظہیر المنعم المعروف ببن میاں والد محترم، قبلۂ دین، حجت العارفین، نور عیون اخیار، حضرت علامہ الشاہ سید غلام مدار طیفوری مداری جن کا شجرہ نسب طیفور سلوک، حجتہ الاسلام، حضرت خواجہ سید ابوالحسن طیفور رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے

والدہ محترمہ: سیدہ تسخیر جہاں بنت سید العارفین، زبدۃ الکاملین، سید بلند اختر جعفری مداری رضی اللہ عنہا۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ تسخیر جہاں سرگروہ خادمان مداری قطب الاقطاب خواجہ سید ابو محمد ارغون رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کی مذہبی تربیت میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا۔ کسے خبر تھی کہ اس سرزمین میں پیدا ہونے والا یہ شہزادہ دنیا کی تقدیر سنوارے گا۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت شیخ طریقت صوفی حکیم سید غلام مدار علیہ الرحمہ بھی بڑے پایہ کے بزرگ تھے ، آپ کا خانوادہ روحانی فیوض و برکات کے حوالے سے معروف ہے۔ آپ کے خاندان با وقار کے آج بھی کافی تعداد میں مریدین و خلفاء موجود ہیں ۔

تعلیم و تربیت

رسم بسم اللہ کے بعد ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد گرامی اور دیگر جید علمائے کرام مداریہ سے حاصل کی۔ قرآن و حدیث، فقہ، تصوف، اور دیگر دینی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد آپ نے عملی میدان میں قدم رکھا۔ بچپن ہی سے عبادت و ریاضت کا شوق رکھتے تھے، جس کی بدولت آپ کا رجحان دینی و روحانی علوم کی طرف بڑھتا گیا۔

بیعت و خلافت

آپ وقت کے عظیم صوفی، جید عالم، طبیب حاذق، مقتدائے زمن، تاج الحکمت، زبدة الحکماء، حضرت علامہ سید ظہیر الحق صاحب قبلہ مداری رضی اللہ عنہ کے مرید و خلیفہ تھے اور نسبا اپنے والد محترم نفعنا ببرکٰاتہ کے بھی مازون و مجاز تھے۔ آپ نے کمال شفقت سے سلوک و تصوف میں منازل طے کرائے۔

تصوف اور روحانی مقام

حضرت سید ببن میاں مداری علیہ الرحمہ ایک کامل ولی صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔ آپ نے لوگوں کی روحانی و اخلاقی تربیت کی اور ان کے دلوں کو اللہ کی محبت سے روشن کیا۔
آپ کا سلسلۂ بیعت و ارشاد ملک اور بیرون ملک میں دور دور تک پھیلا ہوا تھا خاص طور سے یوپی اور اس میں رائے بریلی، امیٹھی، سلطان پور، پیلی بھیت اور لکھنو کے علاقوں میں آپ مرجع خلائق تھے اور ہزاروں کی تعداد میں طالبان حق نے آپ سے فیض پایا۔

آپ کی خانقاہ رشد و ہدایت کا ایک عظیم مرکز ہے، جہاں دور دراز سے لوگ آکر روحانی تسکین حاصل کرتے اور اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ ہمیشہ توحید، اتباع سنت ، اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیتے رہے۔

عبادت و ریاضت

آپ عبادت وریاضت میں کمی اور کوتاہی نہیں برتتے تھے نہ غفلت و تساہلی کو قریب آنے دیتے۔ سفر میں، حضر بیماری میں، تکلیف میں، دن میں، رات میں غرض کسی بھی وقت کسی بھی حالت میں نماز نہ چھوڑتے تھے۔ کلمۂ لا الٰہ الا اللہ کی کثرت نماز کی پابندی روزہ کا اہتمام زکوۃ کی ادائیگی حج کی سعادت غرض کہ آپ نے اسلام کے ان پانچوں فرائض کی ادائیگی فرمائی۔ کم ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے نصیب میں یہ شرف لکھا ہوتا ہے آپ نمازی بھی، روزہ دار بھی، حاجی بھی، ذاکر بھی، اور ادائے زکوۃ کے پابند بھی تھے۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد دنیا سے بے تعلق ہو گئے۔ حسن تفرید جمال تجرید نے آپ کے من کو اپنا آشیانہ بنا رکھا تھا عزلت نشیں ہو کر لذات دنیا اور حب دنیا سے تہی داماں ہو گئے تھے۔

اوراد و وظائف

اوراد و وظائف اشغال و اعمال کی پابندی آپ کے شب و روز میں بدرجۂ اتم موجود تھی کیونک آپ کو اوراد و وظائف سے قلبی لگاؤ تھا۔

محبوب مشاغل

محبوب مشاغل میں اوراد و وظائف عبادت و ریاضت کے بعد سب سے عزیز مشغلہ کتب بینی تھا رات دن میں عبادت و ریاضت سے بچے اوقات ولمحات اوراق گردانی میں گزارتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ تصوف و سلوک کے رموز دو غوامض آسانی سے حل فرما دیتے خزینہ علم سے سینہ پُر تھا۔

اخوت نوازی

آپ علیہ الرحمہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بے پناہ محبت فرماتے تھے جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ صغر سنی میں فطرت بشری اگر ہم اپنے بھائیوں سے ناراض ہوتے یا کچھ ان سے کہتے تو ہماری والدہ محترمہ دام ظلہا علینا ہم کو نصیحت فرمائیں، کہ دیکھو بہن بھائی جی کو اپنے بھائیوں سے کتنی محبت کرتے ہیں ایک لمحہ بھی اپنے سے جدا نہ ہونے دیتے ایسے بنو۔ (الحمد لللہ اس ذات کی اخوت کی تفسیر ہم بھائیوں میں موجود ہے)۔

آپ علیہ الرحمۃ بھائیوں کے بنا بیکل و پریشان رہتے، آفاق کو بلاؤ، ابصار کہاں ہیں، اظہار ابھی نہیں آئے، مولانا کہاں چلے گئے، غرض جب تک بلا نہ لیں دیکھ نہ لیں سکون نہیں ملتا تھا اور بھائی بھی اخوت محبت کا عملی ثبوت دیتے، ہمہ وقت بھائی جی کے ساتھ رہتے ایک ساتھ کھاتے ایک ساتھ پیتے تھے ایک چھوٹے سے ہجرے میں ایک چاند اپنے حلقہ میں بڑا خوبصورت لگتا تھا۔

اصلاحی و سماجی خدمات

حضرت سید ناظہیر المنعم بین میاں علیہ الرحمہ نہ صرف ایک روحانی پیشوا تھے بلکہ ایک سماجی مصلح بھی تھے۔ آپ نے عوام کی اصلاح کے لیے تبلیغ دین متین کا سلسلہ جاری رکھا اور انہیں شریعتِ مطہرہ کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی۔ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگ اپنے اخلاق و کردار میں واضح تبدیلی محسوس کرتے۔
آپ نے صبر و شکر ، عجز و انکساری، اور خدمت اپنی زندگی کا شعار بنایا۔ آپ کی محافل میں ہر طبقے کے افراد شریک ہوتے ، اور آپ سب کے ساتھ یکساں محبت و شفقت سے پیش آتے۔

کرامات و فيوضات

آپ علیہ الرحمہ کی کرامات بے شمار ہیں، جو عوام و خواص میں مشہور ہیں۔ آپ کی دعاؤں سے بیماروں کو شفا ملتی، مشکلات میں گھرے لوگ رہائی پاتے، اور بے سکون دلوں کو قرار نصیب ہوتا۔ آپ کی زندگی زہد و تقویٰ کا عملی نمونہ تھی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی روحانی قوت عطا کی تھی کہ لوگ دور دراز سے آکر آپ سے دعا ئیں اور فیوض و برکات حاصل کرتے۔

وصال مبارک

۳۱ دسمبر ۲۰۰۸ء مطابق ۲ محرم الحرام ۱۴۳۰ھ كو آپ نے اس دنیا کو خیرآباد کہا

قطعہ تاریخ، ۱۴۳۰۔
دوستو دل سے مداری بن جاؤ
تھا یہ پیغام ظہیر المنعم
پی کے مصباح جسے ہوش آئے
ہے یہی جام ظہیر النعم

آپ کا یہ جانا بھی لوگوں کے لیے ایک عظیم صدمے سے کم نہ تھا آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے مزار پر انوار کی چمک اور تعلیمات کی ضیاء دلوں کو منور کر رہی ہیں۔ آج بھی آپ کے مریدین اور عقیدت مند آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، اور آپ کی تعلیمات کو آگے بڑھانے میں کوشاں ہیں۔

الغرض حضور ببن میاں مداری علیہ الرحمہ کی زندگی ایک عملی مسلمان، درویش صفت ولی، اور قوم وملت کے رہنما کی حیثیت سے گزر گئی۔ آپ کی خدمات، تعلیمات اور روحانی فیوض و برکات آج بھی موجود ہیں اور رہتی دنیا تک لوگ مستفیض رہیں گے۔

تصور نے حجاب ظاہری کی توڑ دیں رسمیں
وہ پردہ میں ہیں اور موجودگی معلوم ہوتی ہے
ہزاروں رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری

فقط والسلام

از قلم۔
خاک در ولی باری مولانا سید ازبر علی
مکن پور شریف

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *