نام: سید مشائخ عالم ارغونی مداری رحمۃ اللہ علیہ
والد کا نام: سید محمد مختار عالم رحمۃ اللہ علیہ
خاندان: حسنی و حسینی سادات گھرانہ
ولادت: ۱ شوال ۱۳۶۳ھ / ۱۹۴۳
بیعت: سلسلہ عالیہ مداریہ
مشرب: تبلیغ اسلام اور سلسلہ مداریہ کی اشاعت
لقب: پیر صاحب (حضور حکیم سید ظہیر الحق رحمۃ اللہ علیہ نے عطا فرمایا)
کرامتِ مشہور: ۲۴ شعبان ۱۴۱۵ء کو ۴۸ گھنٹے بعد حیاتِ نو نصیب ہوئی
وصال: ۷ جمادی الاول ۱۴۱۶ھ / ۱۹۹۷ء ، دارالنور مکن پور شریف
وہ وقت بھی کتنا عجیب تھا ، جب مقام جلے پورہ قصبہ جہانگیر آباد ضلع بلند شہر میں محمد اسلام انصاری کے مکان پر سیکڑوں لوگ ایک ساتھ کلمۃ الحق کی صدائیں بلند کر رہے تھے۔ مکان کے تمام در و دیوار خدائے واحد کے انوار کی ضیاء پاشیاں کرتے ہوئے اس کی قدرت کاملہ کا حسین نظارہ پیش کر رہے تھے۔ وہاں موجود تمام انسانوں کی آنکھوں میں غم و خوشی کے ملے جلے اشکوں کا ہجوم صاف دکھائی دے رہا تھا۔
ان سبھی کو اس بات کا رنج تھا کہ آج ان سے ان کا روحانی پیشوا ہمیشہ کیلئے جدا ہو رہا ہے ، جس کی رہنمائی اور سرپرستی میں انہوں نے شریعت و طریقت کی حقیقتوں کو سمجھا تھا۔ اس کی سبق آموز زندگی سے استفادہ کر کے انہوں نے اپنے دل کے ویران خانوں کو مدق وصفی کے حسیں گلدستوں سے سجایا اور سنوارا تھا۔ دوسری طرف ان اشکبار آنکھوں میں خوشی کی چمک اس لئے دکھائی دے رہی تھی کہ ان سبھی کو معلوم تھا کہ آج خدا کے ایک محبوب اور برگزیدہ بندے نے ان کی آبادی میں اپنی زندگی کی آخری سانس پوری کی ہیں جس کے جسد خاکی کی اس دھرتی سے مناسبت ہوتے ہی اس حصہ ارضی کی تقدیر چمک اٹھے گی۔ یہاں توحید پرستوں اور عشاق رسالت کا جمگھٹ دکھائی دے گا، اس لئے کہ جب خدائے واحد کا محبوب بندہ کسی زمین کو اپنے قدم میمنت لزوم سے نوازتا ہے تو وہاں ہر وقت خدا کی رحمتیں برستی رہتی ہیں اور وہ جگہ اسلامی حقیقتوں کا آئینہ دار بن جاتی ہے۔
دنیا سے کوچ کرنے والی اس مقدس ہستی کا نام گرامی پیرسید مشائخ عالم ارغونی مداری تھا۔ اور آبائی وطن وہاں سے تین سو کلومیٹر (300KM) دور تھا۔ جہاں سے براہ راست رابطہ کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اس لئے وہاں سب لوگوں نے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کے اعزا و اقارب کو یہاں بلا لیا جائے اور تکفین و تدفین کے سب کام انہیں کے ہاتھوں سرانجام ہوں۔ ایک شخص کو مکن پور کے لئے روانہ کیا گیا جس نے وہاں پہنچ کر اس المناک حادثہ ناگہانی کی اطلاع دی آپ کے قرابت داروں میں سے بہت سے لوگ جہانگیر آباد پہنچ گئے مگر تب تک چالیس گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا۔
گورکن کے قبر کے انتظامات میں مصروف۔ غسال غسل میت کی تیاریوں میں لگ گئے۔ قرابت دار اپنے عزیز کے آخری دیدار سے آنکھوں کو تشفی دے رہے تھے۔ مگر اچانک ہی رحمت پروردگار کو جوش آیا اور اس نے اپنی قدرت کاملہ کو جلوہ دکھایا، وہاں موجود سیکڑوں آنکھوں نے دیکھا کہ اڑتالیس گھنٹوں پہلے جس کو ڈاکٹروں نے مردہ قرار دے دیا تھا، اس ولی کامل نے آنکھ کھولی دی اور کلمہ توحید پڑھتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ یہ روح پرور واقعہ جس کے چشم دید گواہ کثیر تعداد میں موجود ہیں، ۲۴ شعبان المعظم ۱۴۱۵ھ کا ہے اور اس کے بعد آپ آٹھ ماہ تک زندہ رہے۔ اس مقدس ہستی کا اسم گرامی سید مشائخ عالم مداری ہے اور سارا زمانہ آپ کو پیر صاحب کے لقب سے پکارتا ہے۔
اس اسم با مسمی پیر برحق اور خدا کے محبوب بندے نے فرائض وسنن کی پابندی کے ساتھ نوافل کی کثرت سے خداوند قدوس کی ایسی قربت حاصل کر لی کہ موت جیسی حقیقی شئی کو بھی آپ کے در سے مایوس ہو کر لوٹنا پڑا۔ پروردگار عالم نے آپ کو ایسے بیش بہا انعام سے نوازا کہ ساری دنیا حیران و ششدر ہو کر آپ کی تقدیر پر ناز کرنے لگی۔ بارگاہ ایزدی کا فیصلہ اور قدرت کی کرم فرمائیاں ایسی ہیں کہ جب رحمت پروردگار اپنے کسی خاص بندے کو نوازتی ہے تو اس کو اپنی قربت کے خزانے عطا کر دیتی ہے۔ گردش وقت اس بندے کے اشاروں کا محتاج ہوتا ہے اور اوقات میں اس کے لئے توسیع بخش دی جاتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ خالق کائنات اپنے اس نیک بندے کو زندگی اور موت پر اختیار دے دیتا ہے۔
چنانچہ اسی ضمن میں ہم درج ذیل دو ایمان افروز تاریخی واقعات کو استدلال کے طور پر پیش کر رہے ہیں جن کو پڑھ کر اللہ والوں کا زندگی اور موت پر اختیار کا بین ثبوت ملتا ہے۔
قرآن کریم کی معتبر تفسیر اور تحقیقی تصنیف
“تفسیر روح البیان جلد نمبر ۳ کے صفحہ نمبر ۷۰۷”
“نزہۃ المجالس کے صفحہ نمبر ۵۱” اور
“روض الریاحین اردو کے صفحہ نمبر ۲۹۳ پر”
ولی کامل حضرت رود بار رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بصیرت افروز واقعہ تحریر ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک جنگل میں ایک فقیر کو مرا ہوا پایا ، میں نے اس لاش کو غسل دیا اور اس کی تکفین کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر جب میں نے اس کو قبر میں اتار دیا اور اس پر مٹی ڈالنے والا تھا کہ اس مردہ فقیر نے آنکھیں کھول دیں اور کہا کہ مجھ کو عزت دے کر اب ذلیل کرنا چاہتا ہے۔
فَقُلْتُ لَه اَحَی؟ میں نے کہا کیا تو زندہ ہے؟
قَالَ نَعْمُ أَنَا مُحِبُّ لِلَّهِ وَكُلُّ مُحِبُّ حَی. اس نے کہ ہاں میں زندہ ہوں اس لئے کہ میں اللہ سے محبت کرتا ہوں اور اللہ سے محبت رکھنے والا ہر انسان زندہ رہتا ہے وہ کبھی مردہ نہیں ہو سکتا ہے۔
کتاب روض الرياحین اردو کے صفحہ نمبر ۲۹۳ پر حضرت شیخ ابوسعید خراز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ تحریر ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ ایک دن میرا گزر باب بنی شیبہ پر ہوا میں نے وہاں ایک خوبصورت نو جوان کی لاش دیکھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مرنے والا کئی دن پیشتر موت کو گلے لگا چکا تھا میں اس کی بے چارگی پر افسوس کرتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد اچانک اس مردے نے آنکھ کھول دی اور وہ مسکرایا۔ پھر مجھ سے کہنے لگا کہ اے ابو سعید کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ سے محبت کرنے والے مرتے نہیں ہیں، وہ زندہ رہتے ہیں۔ وہ صرف ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف انتقال کر جاتے ہیں، اتنا کہہ کر پھر اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
ان روح پرور اور ایمان افروز واقعات کے ضمن میں حضرت سید مشائخ عالم جیسے ولی کامل کا دوبارہ زندہ ہو جانا ہمارے یقین کو اور مضبوط کرتا ہے اور جس واقعہ سے ہمارے ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔
آپ یکم شوال المکرم ۱۳۶۳ھ مطابق ۱۹۴۳ء بروز دوشنبہ حسنی و حسینی سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم سید محمد مختار عالم رحمۃ اللہ علیہ ایک نہایت شریف اور سعید انسان تھے جنہوں نے اپنی تمام زندگی تبلیغ اسلام میں گزار دی۔ آپ مہینوں اپنے وطن سے دور رہ کر صرف مذہب اسلام کے فروغ اور تبلیغ دین متین کے کاموں میں مصروف اور مشغول رہتے تھے اور اسی مشن کو انہوں نے اپنا مقصد حیات مقرر کر لیا تھا۔ ضلع بلند شہر کے علائق میں اسلام کی ترویج واشاعت میں مصروف تھے کہ رب کا ئنات کی بارگاہ سے بلاوا آگیا اور آپ نے اپنے وطن عزیز سے سیکڑوں میل دور اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا اور وہیں آپ کا وصال ہو گیا۔
سید مشائخ عالم عرف پیر صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی رسم و رواج کے مطابق خانقاہ عالیہ قطب المدار کے مرکزی مدرسہ میں حاصل کی تھی اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے آپ نے شہر کانپور کے ایک دینی ادارے میں داخلہ لے لیا اور علوم دین کے حصول میں لگے رہے۔ آپ کا خاندانی مشرب علوم ظاہر سے زیادہ باطنی کی ترویج و اشاعت تھا اور اسی لئے آپ زمانہ طالب علمی میں ہی تزکیہ نفس اور قلب میں حقیقی سوز و گداز پیدا کرنے کے لئے بزرگوں کی محفلوں میں شامل رہتے تھے۔
آپ بچپن سے نہایت سنجیدہ مزاج اور خوش اخلاق انسان تھے۔ غربا پروری آپ کو وراثت میں ملی تھی اس لئے آپ غریبوں اور مسکینوں کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔
آپ کے اخلاق حسنہ، طبیعت کی بزرگی ، ذہن کی طہارت و پاکیزگی ، زبان و بیان میں شرافت و سنجیدگی ، قول و عمل میں یکسانیت اور آپ کی بالغ النظری کو دیکھ کر ایک مرتبہ قطب دوراں عارف باللہ حضور حکیم سید ظہیر الحق رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو پیر صاحب کہہ کر پکار لیا۔ اسی دن سے لوگ آپ کو پیر صاحب کہنے لگے اور رفتہ رفتہ یہ لفظ آپ کے نام کا اہم جزو اور حصہ بن گیا اور اسی نام سے آپ کو یاد کیا جانے لگا۔ ہنوز یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
آپ بچپن سے ہی نہایت عابد وزاہد تھے اور عشق مصطفیٰ کی جھنکار پیدا کر دی آپ عالم طفولیت ہی میں ولی کامل قطب عالم سید محمد ایوب عالم رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر مرید ہو گئے تھے اور اپنے مرشد برحق کے حکم اور اپنے آبائی مشرب یعنی تبلیغ اسلام اور دین کی ترویج واشاعت کو ہی اپنا مقصد زندگی بنالیا تھا۔ ۷ ار جمادی الاول ۱۴۱۶ھ مطابق ۱۹۹۷ بروز جمعہ آپ نے دارالنور مکن پور میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
آبروئے شعر و سخن علامہ ادیب نے آپ کا قطعہ تاریخ وفات اس طرح مرتب فرمایا ہے۔
کیوں ہے اتنا دل ادیب میں غم
کیوں ہیں آنکھیں ہر ایک کی پرنم
داخل خلد ہیں بہ فيض مدار
میر سید مشائخ عالم
۱۴۱۶ھ
☆☆☆






