madaarimedia

تاریخ مکنپور اور تذکرہ مشائخ مداریہ

اس مضمون کو رکارڈ بھی کیا گیا ہے
یہاں دیکیں

انسانوں کی اس دنیا کی تاریخ جس قدر قدیم ہے، دنیا کے بیشتر مقامات، ممالک اور شہروں کے نام بھی اسی قدر پرانے اور قدیم ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انقلابات زمانہ اور تبدیلی معاشرہ کے باعث وقتاً فوقتاً ممالک اور شہروں کے نام میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اگر تاریخ کو بغور دیکھا جائے تو ہمیں ملے گا کہ دنیا کی جو قدیم تر آبادیاں ہیں وہ کسی نہ کسی شخصیت کے نام سے منسوب ہو کر وجود میں آئی ہیں ۔ ہنوز یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آبادیوں کے ناموں میں ترمیم کی وجوہات وہاں کے انسانی سماج کے نظریات یا سیاسی کارگزاریوں کے باعث زیادہ عمل میں آئے ہیں۔ بدلتی ہوئی اس دنیا اور کروٹ لیتے ہوئے معاشرے اور ماحول کا ادب روز افزوں یہ طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ شہروں اور آبادیوں کے ناموں کو بدل دیا جائے جو بھی حکمراں برسراقتدار ہوتا ہے وہ اسی کارگزاریوں کو پورا کرنے کو اپنا مقصد حیات بنا لیتا ہے۔

الغرض دنیا بنتی اور بگڑتی رہی، انقلاب آتے رہے، فکریں بدل گئیں ، نظریات میں تبدیلیاں آگئیں، اس ترقی یافتہ دور نے ماضی کے ہر افسانے کو بھلا دیا ہے۔ گذری ہوئی ہر داستان بس ایک کہانی بن کر رہ گئی ہے۔ مگر دنیا کبھی بھی اس تاریخ کو ختم نہیں کر سکتی ہے جس پر اس کا وجود قائم ہوا تھا۔ چنانچہ اسی ضمن میں گیارہویں صدی ہجری کے اوائل کی تحقیقی تصنیف تاریخ فرشتہ کے صفحہ نمبر ۶۰ پر محمد قاسم فرشتہ طوفان نوح کے بعد کی دنیا کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت نوح علیہ السلام کے دوسرے بیٹے یافث مشرق اور شمال کی طرف گئے اور وہیں آباد ہو گئے ۔ ان کے بہت سے بیٹے ہوئے جن میں سب سے زیادہ مشہور بیٹے کا نام ” چین“ تھا۔ ملک چین کا نام اسی کے نام پر ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا تیرا بیٹا ”حام اپنے عالی قدر والد کے حکم سے دنیا کے جنوبی حصہ کی طرف گیا اور اس کو آباد کیا ” حام کے چھ بیٹے تھے۔ ہند، سندھ، جبش، افرنج، ہرمز وغیرہ ان سب بیٹوں کے نام پر ایک شہر آباد ہوا تھا اب یہ بھی شہر ایک وسیع ملک کی شکل میں تبدیل ہو چکے ہیں“۔

تاریخی حوالہ جات میں ہندوستان ایک قدیم ملک ہے اور ہندوستان کے بہت سے شہر یہاں کی آبادی کے وجود میں بنیادی طور پر حصہ دار ہیں۔ آج بھی ان شہروں کا ذکر تاریخ کے ان اوراق کی زینت ہے جہاں سے دنیا نے زندگی کے طور طریقے اور سماجی معاشرے کی بنیاد رکھی تھی جہاں انسان نے انسانیت کا نیا روپ دیکھا تھا اور وہ شہر آج بھی ہندوستان کی قدیم روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہیں۔ ملک نے انہیں شہروں میں ایک قدیم شہر قنوج ہے۔ جس کا قدیم نام کانیہ کج “ لکھا ملتا ہے۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ یہ نام مٹتا گیا اور” کانیہ کج“ قنوج بن گیا۔ چونکہ مکن پور شریف کی تاریخی حیثیت سمجھنے کیلئے قرب وجوار کی قدیم روایات اور تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے اس لئے یہ ذکر کیا جارہا ہے۔

مکن پور شریف کے آباد ہونے سے پہلے قرب و جوار کی تاریخی حیثیت

شهر قنوج کا تاریخی جائزہ:۔ مکن پوری شریف جہاں پر آج شہنشاہ ولایت سید بدیع الدین قطب المدار کا آستانہ عالیہ ہے یہ جگہ بالکل غیر آباد تھی ۔ یہ حصہ ارضی شہر قنوج سے صرف بارہ میل کی مسافت پر آباد ہے۔ شہر قنوج کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کبھی یہ علاقہ قنوج کے حدود میں تھا۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ہند کی پانچویں پشت میں راجا سورج نام کا ایک شخص حکمراں تھا اس کی عمر ۷۵۰ سات سو پچاس برس ہوئی اس طویل عمر میں اس نے دریائے گنگا کے کنارے اس شہر قنوج کو آباد کیا اور اپنا دارالسلطنت بنایا تھا اور وہاں بت پرستی شروع کی تھی۔ اس کے دوران حکومت ہی میں اس شہر کی آبادی میں بہت اضافہ ہوا یہاں تک کہ شہر کے حدود کا پھیلاؤ پچیس کوس یعنی ساڑھے سینتیس مربع میل تک بڑھ گیا تھا۔ اس لئے یہ بات روشن ہے کہ مکن پور شریف کا غیر آباد علاقہ بھی حدود قنوج میں تھا۔ ہندوستان کے سب سے قدیم شہروں میں سے ایک شہر قنوج ہے جس کی حکومت اور حکمرانی مکن پور شریف کے علاقوں پر ہزاروں برس تک رہی ہے۔

جب حضور مدار پاک کو مکن پور شریف کی طرف جانے کا حکم صادر فرمایا گیا تو یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ایک غیبی ندا کے ذریعہ بدیع الدین ہندوستان میں قنوج کے مضافات میں تم کو جاکر آباد ہونا ہے آج یہ مقام مرجع خلائق بن گیا ہے۔ قنوج ایک ایسی قدیم آبادی ہے جس نے اس ملک ہندوستان میں رونما ہونے والے ہر انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ”قنوج“ ہندوستان کی قدیم سے قدیم تر تہذیب اور روایات کا چشم دید گواہ ہے۔ ہندوستان میں آنے والے بزرگان دین کے نورانی قافلے ، مسلمانوں کی فتح ونصرت کی تابناک تاریخ ، مسلمانوں کے عروج وزوال کی اثر اندازیاں ، آریوں کی آمد ، تاتاریوں کی یورش ، راجاؤں اور بادشاہوں کی بدلتی ہوئی حکومتیں ، میدان کارزار میں قتل و غارت گری ، حکومت اور سلطنت کے جھگڑے ، انسانی قدروں کی پامالی ، برطانوی اقتدار کا طوفان اور آزاد ملک کی بہاریں یہ سب کچھ قنوج کی پیشانی پرسنہرے حروف سے لکھا دکھائی دیتا ہے۔ اور کیا تھا ؟

مکن پورشریف کی تحصيل بلہوركا مختصر تاریخی جائزہ

مکن پور شریف سے صرف ۷ (سات) میل کی دوری پر قصبہ ”بلہور“ آباد ہے، یہ ایک قدیم بستی ہے مکن پور شریف سے اس قصبہ کا خاص تاریخی تعلق بھی ہے۔ یہ قصبہ شیر شاہ سوری شاہ راہ جواب گرانٹ ٹرنک روڈ ( جی ٹی روڈ) ہے اسی پر آباد ہے۔ جو بھی راجہ یا بادشاه آستانہ عالیہ قطب المدار پر حاضری دینے کیلئے مکن پور شریف آتا وہ قصبہ بلہور بھی اپنی توجہ دیکر اس کی تعمیر وترقی کا حصہ دار بنتا رہا ہے۔ چنانچہ جب عالمگیر بادشاہ مکن پور شریف میں آستانہ پاک پر حاضری دینے آئے تو قصبہ بلہور میں ایک مسجد تعمیر کروائی جو آج بھی عالمگیری شاہی مسجد کے نام سے موجود ہے۔

مکن پور شریف شیر شاہ سوری روڈ سے صرف ۳ ( تین ) میل کے فاصلے پر آباد ہے یہ روڈ شیر شاہ سوری کے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے۔ شیر شاہ نے پندرہ برس افسری میں گزارے اور پانچ سال پورے ہندوستان پر حکومت کی ۔ شیر شاہ بڑا عقل مند اور مدبر تھا۔ اس نے اپنے کارناموں کے پسندیدہ آثار دنیا میں چھوڑے ہیں۔ شیر شاہ نے اپنے عہد حکومت میں بنگالے اور ساز گاؤں سے دریائے سندھ تک پندرہ سو میل پختہ سڑک بنوائی اور ہر کوس پر ایک کنواں اور پختہ مسجد تعمیر کی گئی۔ مسجدوں میں امام قاری اور مؤذن مقرر کئے گئے ان کو وظیفہ سرکاری خزانے سے ملتا تھا۔ ہر پانچ کوس کی دوری پر ایک سرائے قائم کی۔ سڑک کے دونوں طرف کھرنی ، جامون ، آم اور دوسرے میوہ جات کے درخت لگائے گئے تھے۔ اس راستے کے ذریعہ سیکڑوں راجاؤں اور بادشاہوں نے دور دراز سے آکر بارگاہ قطب المدار میں حاضری دی ہے۔ بلہور ایک قدیم تاریخی آبادی ہے۔ اور مکن پور شریف سے اس آبادی کا خاص تعلق رہا ہے۔

مکن پور شریف سے متصل ایک قدیم آبادی ”دیوها“ اور اس کی تاریخی حیثیت

تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ۷۴۱ھجری میں محمد تغلق کا خونی سیلاب یہیں سے ہو کر گزرا تھا۔ یہ گاؤں مکن پور سے صرف ۲ میل کی مسافت پر آباد ہے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت قطب المدار کے مکن پور آنے سے پہلے اور یہاں کی آبادی کئی سال پیشتر دیوہا کی آبادی موجود تھی۔ یہاں پر کئی اقوام و مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ جن میں کئی خاندان ایسے تھے جو قنوج کے بادشاہوں کے درباروں میں مختلف عہدوں پر کام کرتے تھے۔
قنوج کی جو جغرافیائی تاریخ بیان کی جاتی ہے اس میں دیوہا کی آبادی کا ذکر کثرت سے ملتا ہے ۔ ۷۴۱ھجری میں بادشاہ محمد تغلق نے قنوج سے لیکر مہوبہ تک خون ریزی کا بازار گرم کیا تھا جو اسی راستے سے ہو کر گزرا تھا اور دیوہا کے بہت سے لوگ اس قتل و غارت گری کا شکار ہوئے تھے۔

اگر چہ سلطان محمد شاہ تغلق ماہر علم وحکمت علم نواز اور بہت سخی بادشاہ تھا مگر اس کی زندگی کا ہر حصہ ہزاروں انسانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ اس کی سخاوت کا حال یہ تھا کہ ایک معمولی فقیر کو اپنا شاہی خزانہ دیگر مطمئن نہ ہوتا اور یہی سمجھتا کہ ابھی کچھ نہیں دیا ہے۔ جب وہ تخت پر بیٹھا تو اس کے جشن مسرت میں جو جلوس نکلا اس میں بادشاہ محمد تعلق پر سے صدقہ کر کے اس قدر اشرفیاں اور روپیہ لٹایا گیا تھا کہ فقیروں نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا تھا۔

جب محمد تغلق نے حدود قنوج میں قتل و غارت گری کو عام کیا تو یہ چھوٹی سی آبادی دیو ہا بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ تاریخ فرشتہ کے صفحہ نمبر ۴۳۵ پر تحریر ہے کہ: ”محمد تغلق کے دور حکومت کا احوال عجیب و غریب ہے ، کسی بادشاہ کے حالات میں ایسے واقعات نہ لکھے گئے جیسے اس کا اعمال نامہ سیاہ ہے۔ یہ صرف غیاث الدین کے اس عجیب الخلقت جانشین ہی کا حصہ ہے۔ محمد تغلق خود شکار کھیلنے جاتا تھا اور بجائے جنگلی جانوروں کے شکار کرنے کے ہزاروں انسانوں کے خون سے اپنے تیرو خنجر کی پیاس بجھاتا اور پھر ان تمام مقتولوں کے سرکاٹ کر محل کے کنگوروں پر لڑکا دیتا اور اس سے بھی جب اس کی پیاس نہ بجھی اور اس کا دل نہ بھرا تو اپنی سفاکی اور ظلم دکھاتا ہوا ”قنوج“ پہنچا اور حدود قنوج سے لیکر مہوبہ تک قتل و غارت گری ، خوں ریزی کا بازار گرم کیا اور بے گنا ہوں کا خون پانی کی طرح بہا دیا۔“

قنوج سے مہوبہ کا جو راستہ ہے وہ اس علاقہ دیو ہا سے ہو کر جاتا ہے۔ دیوہا کی آبادی قنوج کے مضافات کا ایک حصہ رہی ہے اور یہاں سے فنوج کی دوری صرف ۱۲ میل ہے اور یہی سبب ہے کہ جب سے دیوہا آباد ہے قنوج کے ہر انقلاب کا ایک حصہ بنتا رہا ہے اور قنوج کے تاریخی انقلابات کا چشم دید گواہ بھی رہا ہے۔ یہاں کی قدیم عمارتوں کی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں یہ آبادی قیام عمل میں آچکی تھی۔

یہاں پر ایک مجذوبہ کا قدیم مقبرہ ہے جن کا نام بی بی بہور ہے اور انہیں کے سبب اس آبادی کا تعلق مکن پور سے رہا ہے۔ ۸۱۸ھجری میں جب حضرت قطب المدار مکن پور کی اس غیر آباد حصہ ارضی پر تشریف لائے تو بی بی بہور نام کی یہ مجذوبہ موجود تھیں ۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ برہنہ (بے پردہ) رہا کرتی تھیں اور حضرت قطب المدار کی آمد کی خبر سنتے ہی انہوں نے لباس زیب تن فرمایا اور پردہ داری کا مکمل اہتمام کر کے باقی زندگی اسلامی شعار کے مطابق گزاری۔

حکیم فرید احمد نقش بندی اپنی تصنیف ”مدار اعظم (سن تصنیف ۱۳۳۳ھ) میں صفحہ نمبر ۸۶ پر رقم طراز ہیں :۔
”بی بی بہور ایک مجذوبہ تھیں جو برہنہ رہا کرتی تھیں (بے پردہ رہتی تھیں) لوگ جب اس کا سبب دریافت کرتے تو فرمایا کرتی تھیں کہ کوئی مرد ہی نہیں ہے جس سے پردہ کروں، چنانچہ حضرت قطب المدار کی آمد کی خبر سن کر ہی انہوں نے پردہ اختیار کر لیا تھا۔“

ابوالمشرب مولانا سید مقتداء حسین جعفری مداری مکنپور شریف
(باقی آئندہ)

Leave a Comment

Related Post

Top Categories