اس تحریر کے عنوانات
1. ہر نبی کی الگ صفت اور نمونہ
2. رسول اکرم ﷺ جامع رہنما
3. قرآن کی گواہی: شاہد، مبشر، نذیر، داعی، سراج منیر
4. آپ ﷺ کی شریعت کامل اور ہمیشہ کے لیے ہے
5. سب انبیاء کا احترام، مگر آپ ﷺ سب سے افضل
6. دیگر انبیاء کی سیرتیں نامکمل، سیرت محمدی ﷺ مکمل
7. ایجابی نیکیاں (عملی مثالیں) صرف سیرت محمدی ﷺ میں
8. رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی سب کے سامنے محفوظ
9. ازواج مطہرات اور صحابہ نے ہر پہلو بیان کیا
01. خاتم النبیین ﷺ: دنیا اور قیامت تک کامل نمونہ
تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے اپنے وقت میں ، اپنی اپنی قوموں کے سامنے ، اس زمانہ کے مناسب حال و اخلاق عالیہ اور صفات کاملہ کا ایک نہ ایک بلند ترین معجزانہ نمونہ پیش کیا۔ کسی نے صبر کسی نے ایثار کسی نے قربانی کسی نے جوش توحید، کسی نے ولولہ حق ، کسی نے تسلیم، کسی نے عفت، کسی نے زہد، غرض ہر ایک نے دنیا میں انسان کی پرپیچ زندگی کے راستہ میں ایک نہ ایک منارہ قائم کر دیا جس سے صراط مستقیم کا پتہ لگ سکے۔
مگر ضرورت تھی ایک ایسے رہنما اور راہبر کی جو اس سرے سے لیکر اس سرے تک پوری راہ کو اپنی ہدایات اور عملی مثالوں سے روشن کر دے، گویا ہمارے ہاتھ میں ، اپنی عملی زندگی کا پورا نقشہ دیدے جس کو لیکر اسی کی تعلیم و ہدایت کے مطابق، ہر مسافر بے خطر منزل مقصود کا پتہ پالے، یہ رہنما سلسلہ انبیاء علیہم السلام کے آخری فرزند جناب محمد الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں قرآن نے کہا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْتُكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِاِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا.
ترجمہ: اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور نیکوں کو خوشخبری سنانے والا اور غافلوں کو ہوشیار کرنے والا اور خدا کی طرف اس کے حکم سے پکارنے والا اور ایک روشن کرنے والا چراغ بنا کر بھیج دیا ہے۔
آپ عالم میں خدا کی تعلیم وہدایت کے شاہد ہیں، نکو کاروں کو فلاح وسعادت کی بشارت سنانے والے مبشر ہیں، ان کو جو ابھی تک بے خبر ہیں ہوشیار اور بیدار کرنے والے نذیر ہیں، بھٹکنے والے مسافروں کو خدا کی طرف پکارنے والے داعی ہیں اور خود ہمہ تن نور اور چراغ ہیں یعنی آپ کی ذات اقدس اور آپ کی حیات مبارک ، راستہ کی روشنی ہے، جو راہ کی تاریکیوں کو کافور کر رہی ہے، یوں تو ہر پیغمبر شاہد، داعی ، مبشر اور نذیر وغیرہ بن کر دنیا میں آیا ہے۔ مگر یہ کل صفتیں سب کی زندگیوں میں عملاً یکساں نمایاں ہو کر ظاہر نہیں ہوئیں، بہت سے انبیاء تھے جو خصوصیت کے ساتھ شاہد ہوئے ، جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت اسحق علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام۔ وغیرہ بہت سے تھے جو نمایاں طور پر مبشر بنے ، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام بہت سے تھے جن کا خاص وصف نذیر تھا۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام بہت سے تھے جو امتیازی حیثیت سے داعی حق تھے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام۔ لیکن وہ جو شاہد ، مبشر نذیر ، داعی اور سراج منیر سب کچھ بیک وقت تھا اور جس کے مرقع حیات میں سارے نقش و نگار عملاً نمایاں تھے۔ وہ صرف جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اور یہ اس لئے ہوا کہ آپ دنیا کے آخری پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے۔ جس کے بعد کوئی دوسرا آنے والا نہ تھا ، آپ ایسی شریعت لیکر تشریف لائے جو کامل تھی جس کی تکمیل کے لئے کسی دوسرے کو آنا نہ تھا۔
آپ کی تعلیم دائمی وجود رکھنے والی تھی، یعنی قیامت تک اس کو زندہ رہنا تھا، اس لئے آپ کی ذات پاک کو مجموعۂ کمال اور دولت بے زوال بنا کر بھیجا گیا۔
ہم تمام انبیاء علیہم السلام کا ادب و احترام کرتے ہیں اور ان کے سچے پیغمبر ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن بفحوائے
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ . ” یہ پیغمبر ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر ہم نے فضیلت دی ہے۔
دوام، بقا ختم نبوت اور آخری کامل انسانی سیرت ہونے کی حیثیت سے سردار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو خاص شرف عطا ہوا ہے ، وہ دیگر انبیاء کو اس لئے نہیں مرحمت ہوا کہ ان کو دائمی آخری اور خاتم نبوت نہیں بنایا گیا تھا ، ان کی سیرتوں کا مقصد، ایک خاص قوم کو ایک خاص زمانہ تک نمونہ دینا تھا، اس لئے اس زمانہ کے بعد بتدریج وہ زمانہ سے مفقود ہو گئیں۔ غور کیجئے کہ ہر ملک میں ، ہر قوم میں ، ہر زمانہ میں ، ہر زبان میں کتنے لاکھ انسان خدا کا پیغام لیکر آئے ہوں گے ، ایک اسلامی روایت کے مطابق ایک لاکھ ۲۴ ہزار پیغمبر آئے۔ مگر آج ان میں سے کتنوں کے نام ہم جانتے ہیں اور جتنوں کے نام جانتے ہیں ان کا حال کیا جانتے ہیں؟
حضرت نوح، حضرت یعقوب، حضرت زکریا، حضرت اسحق، حضرت صالح ، حضرت ہود، حضرت ابراہیم، حضرت اسمعیل علیہم السلام کے حالات اور سیرتوں کے ایک ایک حصہ کے علاوہ کیا ہم کو کوئی کچھ بتا سکتا ہے؟ ان کی سیرتوں کے ضروری اجزاء و تاریخ کی کڑیوں سے بہر حال گم ہیں اب ان کی مقدس زندگیوں کے ادھورے اور نامربوط حصے، کیا ایک کامل انسانی زندگی کی تقلید اور پیروی کا سامان کر سکتے ہیں۔
کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونہ عمل بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے صحیفہ حیات کے تمام حصے ہماری نگاہوں کے سامنے ہوں۔ کوئی واقعہ پردۂ راز اور نا واقفیت کی تاریکی میں گم نہ ہو بلکہ اس کے تمام سوانح اور حالات روز روشن کی طرح ، دنیا کے سامنے ہوں۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کی سیرت کہاں تک انسانی سوسائٹی کے لئے ایک آئیڈیل لائف کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس معیار پر اگر شارعین ادیان اور بانیان مذاہب کے سوانح اور سیرتوں پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ آقائے کائنات سرورعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اور کوئی ہستی اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہو کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
شارع دین اور بانی مذہب جس تعلیم کو پیش کر رہا ہو خود اس کا ذاتی عمل ، اس کی مثال اور نمونہ ہو، اور خود اس کے عمل نے اس کی تعلیم کو عملی یعنی قابل ثابت کیا ہو۔ خوش کن سے خوش کن فلسفہ، دلچسپ سے دلچسپ نظریہ اور خوش آئیند سے خوش آئیند اقوال ہر شخص ہر وقت پیش کر سکتا ہے۔ لیکن جو چیز ، ہر شخص ہر وقت نہیں پیش کر سکتا وہ عمل ہے۔
انسانی سیرت کے بہتر اور کامل ہونے کی دلیل ، اس کے نیک اور معصوم اقوال ، خیالات اور اخلاقی و فلسفیانہ نظریئے نہیں، بلکہ اس کے اعمال اور کارنامے ہیں اگر یہ معیار قائم نہ کیا جائے تو اچھے اور برے کی تمیز اٹھ جائے اور دنیا صرف بات بنانے والوں کا مسکن رہ جائے۔ اب مجھے پوچھنے دیجئے کہ لاکھوں شارعین اور ہزاروں بانیان مذاہب میں سے کون اپنی عملی سیرت کو اس تراز و پر تلوانے کے لئے آگے بڑھ سکتا ہے۔ مردم شماری کے لحاظ سے آج بودھ کے پیرو دنیا کی آبادی کے چوتھائی حصہ پر قابض ہیں، مگر بایں ہمہ تاریخی حیثیت سے بودھ کی زندگی صرف چند قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایکسو بیس برس کی عمر پائی، مگر غور سے دیکھئے کہ اس ایک سو بیس برس کی عمر کے طویل زمانہ کی وسعت کو بھرنے کے لئے ہم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کیا واقعات معلوم ہوئے ہیں اور ان کے سوانح کے ضروری اجزاء ہمارے ہاتھ میں کیا ہیں، ہمارا اعتقاد ہے کہ ان کا پیغمبرانہ طرز عمل یقینا ہر حرف گیری سے پاک رہا ہوگا۔ مگر ان کی موجودہ سیرت کی کتابوں میں ہم کو یہ ابواب نہیں ملتے جو ہمارے لئے قابل تقلید اور نمونہ ہوں۔
اسلام سے سب سے قریب العہد پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام ہیں، جن کے پیرو آج یورپین مردم شماری کے مطابق تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے زیادہ ہیں۔ مگر یہ سن کر آپ کو حیرت ہو گی کہ اسی مذہب کے پیغمبر کی زندگی کے اجزاء تمام دوسرے مشہور مذاہب کے بانیوں اور پیغمبروں کے سوانح سے سب سے زیادہ کم معلوم ہیں۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی تقلید کا کوئی سامان نہیں رکھتی اور چونکہ دنیا کی بیشتر آبادی متاہلا نہ زندگی رکھتی ہے۔ اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے بیشتر حصہ آبادی کے لئے ان کی سیرت نمونہ نہیں بن سکتی۔ جس نے گھر بار ، اہل و عیال ، مال و دولت صلح و جنگ، دوست و دشمن کے تعلقات سے کبھی واسطہ ہی نہ رکھا ہو۔ وہ اس دنیا کے لئے جو ان ہی تعلقات سے معمور ہے، کیونکر مثال ہو سکتا ہے۔ اگر آج دنیا یہ زندگی اختیار کرلے تو کل وہ سنسان قبرستان بن جائے ، تمام ترقیاں دفعتا رک جائیں اور عیسائی یورپ تو شاید ایک منٹ کیلئے بھی زندہ نہ رہے۔
تو اپنے خداوند خدا کو، اپنی ساری جان اور دل سے پیا رکر، تو دشمن کو پیار کر، جو تیرے داہنے گال پر تھپڑ مالے، تو اس کے سامنے اپنا بایاں گال بھی پھیر دے، جو تجھ کو ایک میل بیگار لے جائے تو اس کے ساتھ دو میل جا، جو تیرا کوٹ مانگے تو اس کو کرتہ بھی دیدے، تو اپنے مال واسباب کو خدا کی راہ میں دیدے ، تو اپنے بھائی کو ستر دفعہ معاف کر ، آسمان کی بادشاہت میں دولت مند کا داخل ہونا مشکل ہے۔ یہ اور اسی قسم کی بہت سی نصیحتیں نہایت دل خوش کن ہیں، مگر عمل سے ان کی تصدیق نہ ہو، تو وہ سیرت کا ٹکڑا نہیں، بلکہ وہ صرف معصومانہ شیریں زبانیوں کا ایک مجموعہ ہیں۔
جس نے اپنے دشمن پر قابو نہ پایا ہو، وہ عفو کی عملی مثال کیسے پیش کر سکتا ہے؟ جس کے پاس کچھ نہ ہو، وہ غریبوں مسکینوں اور یتیموں کی مدد کیونکر کر سکتا ہے؟ جو عزیز واقارب، بیوی بچے نہ رکھتا ہو وہ انہیں تعلقات سے آباد دنیا کے لئے مثال کیونکر بن سکتا ہے؟ جس نے بیماروں کی تیمار داری اور عیادت نہ کی ہو، وہ اس کا وعظ کیونکر کہہ سکتا ہے جس کو خود دوسروں کے معاف کرنے کا موقع نہ ملا ہو، اس کی زندگی ہم میں سے غضبناک اور غصہ ور لوگوں کیلئے نمونہ کیسے بن سکتی ہے
غور فرمائیے ! نیکیاں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک سلبی اور ایک ایجابی مثلاً آپ پہاڑ کے ایک کھوہ میں جا کر عمر بھر کیلئے بیٹھ گئے ، تو صرف یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بدیوں اور برائیوں سے آپنے پر ہیز کیا ، یعنی آپ نے کوئی کام ایسا نہیں کیا، جو آپ کے لئے قابل اعتراض ہو مگر یہ تو سلبی تعریف ہوئی ، ایجابی پہلو آپکا کیا ہے؟
کیا آپ نے غریبوں کی مدد کی محتاجوں کو کھانا کھلایا، کمزوروں کی حمایت کی ، ظالموں کے مقابلہ میں حق گوئی سے کام لیا۔ گرتوں کو سنبھالا، گمراہوں کو راستہ بتایا، عفو ، کرم ، سخا، مہمان نوازی ، حق گوئی ، رحم، حق کی نصرت کے لئے جوش، جد و جہد ، مجاہدہ ، ادائے فرض، ذمہ داریوں کی بجا آوری غرض تمام وہ اخلاق جن کا تعلق عمل سے ہے وہ صرف سلب فعل اور عدم عمل سے نیکیاں نہیں بن جائیں گے نیکیاں صرف سلبی ہی پہلو نہیں رکھتیں، زیادہ تر ایجابی اور عملی پہلو پر ان کا دارو مدار ہوتا ہے۔
اس تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس سیرت کا عملی حصہ سامنے نہ ہو اس کو آئیڈیل لائف اور قابل تقلید زندگی کا خطاب نہیں دیا جا سکتا کہ انسان اس کی کس چیز کی نقل کرے گا ؟ اور کس عمل سے سبق لیگا ؟
ہم کو تو صلح و جنگ، فقر و دولت، ازواج و تجرید تعلقات عبادت حاکمیت و محکومیت ، سکون و غضب ، جلوت وخلوت ، غرض زندگی کے ہر پہلو کے متعلق عملی مثال چاہئے۔ دینا کا بیشتر بلکہ تمام تر حصہ انہی مشکلات اور تعلقات میں الجھا ہوا ہے، اس لئے لوگوں کو انہیں مشکلات کے حل کرنے اور ان ہی تعلقات کو بوجہ احسن انجام دینے کے لئے عملی مثالوں کی ضرورت ہے، قولی نہیں بلکہ عملی۔ لیکن یہ کہنا شاعری اور خطابت نہیں ، بلکہ تاریخی واقعہ ہے کہ اس معیار پر بھی سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی دوسری سیرت پوری نہیں اتر سکتی۔
میں نے جو کچھ کہا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیجئے! میرا یہ مقصد نہیں کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی زندگیاں ان کے عہد اور زمانہ میں ، ان خصوصیات سے خالی ہیں۔ بلکہ یہ مقصد ہے کہ ان کی سیرتیں جو ان کے بعد عام انسانوں تک پہنچیں یا جو آج موجود ہیں وہ ان خصوصیات سے خالی ہیں، اور ایسا ہونا مصلحت الہی کے مطابق تھا۔ تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیاء محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لئے تھے۔ اس لئے ان کی سیرتوں کو دوسری قوموں اور آئندہ زمانہ تک محفوظ رہنے کی ضرورت نہ تھی صرف سردار دوعالم نور مجسم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، دنیا کی قوموں کے لئے اور قیامت تک کیلئے نمونہ عمل اور قابل تقلید بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اس لئے آپ کی سیرت پا کو ہر حیثیت سے مکمل دائی اور ہمیشہ کیلئے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی اور یہی ختم نبوت کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے۔
کوئی زندگی خواہ کسی قدر تاریخی ہو، جب تک وہ کامل نہ ہو ہمارے لئے نمونہ نہیں بن سکتی، کسی زندگی کا کامل اور ہر نفس سے بری ہونا ، اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتا جب تک اس زندگی کے تمام اجزاء ہمارے سامنے نہ ہوں پیغمبر اسلام کی زندگی کا ہر لمحہ ، پیدائش سے لیکر وفات تک ان کے زمانہ کے لوگوں کے سامنے اور ان کی وفات کے بعد تاریخ عالم کے سامنے ہے۔ آپ کی زندگی کا کوئی مختصر سے مختصر زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب وہ اپنے اہل وطن کی آنکھوں سے اوجھل ہو کر آئندہ کی تیاری میں مصروف ہوں۔
پیدائش، شیر خوارگی ، بچپن، ہوش و تمیز ، جوانی، تجارت، آمد و رفت، شادی ، احباب قبل نبوت، قریش کی لڑائی اور قریش کے معاہدے میں شرکت، امین بننا ، خانہ کعبہ میں پتھر نصب کرنا ، رفتہ رفتہ تنہائی پسندی غار حرا کی گوشہ نشینی ، وحی، اسلام کا ظہور، دعوت، تبلیغ مخالفت، سفر طائف، معراج ، ہجرت ، غزوات ، صلح حدیبیہ، دعوت اسلام کے نامہ و پیغام، اسلام کی اشاعت، تکمیل دین، حجۃ الوداع ، وفات ان میں سے کون سا زمانہ ہے جو دنیا کی نگاہوں کے سامنے نہیں اور آپ کی کون سی حالت ہے جس سے اہل تاریخ ناواقف ہیں ، سچ ، جھوٹ صحیح غلط ، ہر چیز الگ الگ موجود ہے اور اس کو ہر شخص جان سکتا ہے۔
کبھی کبھی خیال ہوتا ہے کہ محدثین نے موضوع اور ضعیف روایتوں تک کو کیوں محفوظ رکھا، مگر خیال آیا کہ اس میں مصلحت الہی یہ تھی کہ معترضین کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے بہت سی روائتوں کو غائب کر دیا جیسا کہ آج عیسائی لٹریچر پر اعتراض کیا جاتا ہے ، اس لئے ہمارے محدثین کرام نے اپنے پیغمبر کے متعلق صحیح و غلط سارا مواد ، سب کے سامنے لا کے رکھ دیا ہے اور ان دونوں کے درمیان تفرقے بتا دیئے ہیں اور اصول مقرر کر دیئے ہیں۔
اٹھنا ، بیٹھنا، سونا، جاگنا، شادی، بیاہ، بال، بچے، دوست، احباب، نماز ، روزہ، دن رات کی عبادت، صلح و جنگ، آمد و رفت ، سفر و حضر ، نہانا دھونا، کھانا پینا، ہنسنا رونا ، پہننا اوڑھنا، چلنا پھرنا، ہنسی مذاق، بولنا چالنا، خلوت جلوت، ملنا جلنا ، طور و طریق ، رنگ و بو ، خط و خال ، قدر و قامت، یہاں تک کہ میاں بیوی کے خانگی تعلقات اور ہمخوابی و طہارت کے واقعات ہر چیز پوری روشنی میں مذکور و معلوم اور محفوظ ہے۔
گبن نے لکھا ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے کسی نے اپنے پیروؤں کا اس قدر سخت امتحان نہیں لیا۔ جس قدر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے۔ انہوں نے دفعتاً اپنے کو سب سے پہلے ان لوگوں کے سامنے بحیثیت پیغمبر کے پیش کیا، جو ان کو بحیثیت انسان کے بہت اچھی طرح جانتے تھے، اپنی بیوی، اپنے غلام ، اپنے بھائی ، اپنے سب سے واقف کار دوست کے سامنے اور ان سب نے بلا پس و پیش آپ کے دعوت کی صداقت کو تسلیم کر لیا۔ بیوی سے بڑھ کر انسان کی اندرونی کمزوریوں کا واقف کار کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔
مگر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر سب سے پہلے آپ ہی کی بیوی ایمان لائیں۔ وہ نبوت سے پہلے پندرہ برس تک آپ کی رفاقت میں رہ چکی تھیں، اور آپ کے ہر حال اور ہر کیفیت کی نسبت ، ذاتی واقفیت رکھتی تھیں ، ہاں ہمہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغمبری کا دعوی کیا تو سب سے پہلے ان ہی نے اس دعوی کی سچائی کو تسلیم کیا۔
بڑے سے بڑا انسان جو ایک ہی بیوی کا شوہر ہو، وہ بھی یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ وہ اس کو یہ اذن عام دیدے کہ تم میری ہر بات ، ہر حالت اور ہر واقعہ کو بر ملا کہہ دو اور جو کچھ چھپا ہے وہ سب پر ظاہر کر دو۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کو یہ اذن عام تھا کہ خلوت میں مجھ میں جو کچھ دیکھو وہ جلوت میں سب سے برملا بیان کرد دو، جو رات کی تاریکی میں دیکھو، وہ دن کی روشنی میں ظاہر کر دو۔ جو بند کوٹھریوں میں دیکھو، اس کو کھلی چھتوں پر پکار کر کہہ دو ، اس اخلاقی وثوق و اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟
یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذاتی احوال کے متعلق تھا آپ کی سیرت پاک کے بیان میں مسلمانوں نے ہزاروں لاکھوں کتابیں لکھیں اور لکھ رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کتاب دوسرے انبیاء کی سیرتوں کے مقابلہ میں زیادہ صاف اور زیادہ معتبر اور تاریخی ہے، سیرت و اخبار نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتدائی کتابیں، ہر مصنف سے سیکٹروں اور ہزاروں اشخاص نے سن کر اور پڑھ کر اور ان کا ہر ایک حرف سمجھ کر دوسروں تک پہنچائیں حدیث شریف کی پہلی کتاب موطا کو اس کے مصنف امام مالک سے چھ سو آدمیوں نے سنا جن میں سلاطین زمانہ، علماء، فقہاء، حکماء، ادباء اور صوفیہ ہر طبقہ کے آدمی تھے۔ امام بخاری کی تصنیف ” جامع صحیح کو صرف ان کے شاگرد فرہری سے ساٹھ ہزار آدمیوں نے سنا، اس احتیاط اس استناد اور اس اہتمام سے بتائیے کس شارع یا بانئ دین کی سیرت و اخبار کا مجموعہ مرتب ہوا اور یہ تاریخیت سرور کائنات فخر موجودات نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سواکس کے حصہ میں آئی؟
اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَسَلَّم.
آپ کے اخلاق طاہرہ اوصاف عالیہ اور آداب فاضلہ کے بیان و تفضیل سے احادیث کی تمام کتابیں معمور ہیں۔ حافظ ابن قیم نے زاد المعاد میں سب سے زیادہ آپ کے حالات کا استقصاء کیا ہے۔ چنانچہ صرف ذاتی حالات کی فہرست سنیئے۔
آپ کا طریقۂ رسل و رسائل، آپ کے کھانے پینے کا طریقہ، آپ کے نکاح اور ازدواجی تعلقات کا طریقہ ، خواب و بیداری کا طریقہ ، لونڈی اور غلام کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرمانے کا طریقہ، آپ کے معاملات اور خرید و فروخت کا طریقہ، حوائج ضروری کے آداب اور خط بنوانے کا طریقہ ، مونچھوں کے رکھنے اور تراشنے میں آپ کا طریقہ آپ کا طرز کلام ، آپ کی خاموشی ، آپ کا خندہ فرمانا، آپ کا پر رونا، آپ کا طریقہ خطابت، طریقہ وضو، موزوں پر مسح کرنے کا طریقہ ، طریقہ تیمم ، نماز ادا کرنے کا طریقہ، دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کا طریقہ سجدہ کرنے کا طریقہ، قعدہ اخیرہ میں آپ کی نشست کی کیفیت ، آپ کے نماز میں بیٹھنے اور تشہد کے وقت انگلی اٹھانے کا طریقہ نماز میں سلام پھیر نے کا طریقہ، نماز میں آپ کا دعا فرمانا، آپ کے سجدہ سہو کرنے کا طریقہ، سفر و حضر ، مسجد اور گھر میں سنتیں اور نوافل پڑھنے کا طریقہ، تہجد یا فجر کی سنت کے بعد آپ کی استراحت کا طریقہ تہجد پڑھنے کا طریقہ ، رات کی نماز اور وتر پڑھنے کا طریقہ ، وتر کے بعد بیٹھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ، آپ کے قرآن پڑھنے کی کیفیت ، سجدۂ قرآن ادا کرنے کا طریقہ، آپ کے جمعہ کے معمولات ، جمعہ کے دن کی عبادات کا طریقہ، آپ کے خطبہ دینے کا طریقہ ، صلوٰۃ عیدین میں آپ کا طریقہ ، سورج گرہن کے وقت آپ کے نماز پڑھنے کا طریقہ ، استسقاء میں آپ کا طریقہ، آپ کے سفر کا طریقہ، سفر میں آپ کے نفل پڑھنے کا طریقہ، آپ کے دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کا طریقہ، قرآن پڑھنے اور سننے کا طریقہ، بیماروں کی عیادت میں آپ کا طریقہ ، جنازوں کے ساتھ آپ کے تیز قدم اٹھانے کا طریقہ آپ کا میت پر کپڑا ڈالنے کا طریقہ کسی میت کے آنے پر اس کے متعلق آپ کے سوال کرنے کا طریقہ، جنازہ کی نماز میں آپ کا طریقہ ، چھوٹے بچوں پر نماز جنازہ پڑھنے میں آپ کا معمول، خودکشی کرنے والے اور جہاد کے مال غنیمت میں خیانت کرنے والے پر آپ کا نماز نہ پڑھنا، جنازہ کے آگے آگے آپ کے چلنے وغیرہ کا طریقہ، جنازہ غائب پر آپ کے نماز پڑھنے کا طریقہ ، جنازہ کے لئے آپ کے کھڑے ہونے کا طریقہ، تعزیت اور زیارت قبور میں آپ کا طریقہ ، صلوٰۃ خوف میں آپ کا طریقہ ، زکوۃ وصدقات میں آپ کا طریقہ روزہ میں آپ کا طریقہ ، آپ کا رمضان میں زیادہ عبادت کرنے کا طریقہ ، چاند دیکھنے کے ساتھ ہی روزہ وافطار کے متعلق آپ کا طریقہ، چاند دیکھنے کی گواہی قبول کرنے میں آپ کا طریقہ ، سفر میں روزہ کے افطار کے متعلق آپ کا طریقہ ، عرفہ کے دن عرفہ کی وجہ سے افطار فرمانے اور جمعہ، شنبہ، یکشنبہ میں آپ کے روزہ رکھنے کا طریقہ ، روز جمعہ کو روزہ کیلئے مخصوص کر لینے پر آپ کا کراہت فرمانا آپ کے اعتکاف کا طریقہ ، حج و عمرہ میں آپ کا طریقہ، آپ کا ایک سال میں دو عمرہ ادا کرنے کا طریقہ ، آپ کے حجوں کی کیفیت ، آپ کا حج میں اپنے دست مبارک سے قربانی کرنے کا طریقہ، آپ کا حج میں سرمنڈانے کا طریقہ، ایام حج میں آپ کے خطبوں کا طریقہ، عید الاضحیٰ میں آپ کے قربانی کا طریقہ، عقیقہ میں آپ کا طریقہ ، نومولود بچہ کے کان میں آپ کے اذان دینے اور اس کا نام رکھنے اور اس ختنہ کرنے میں آپ کے عادات ، ناموں اور کنیتوں کے رکھنے میں آپ کا طریقہ، بولنے میں احتیاط اور الفاظ کے انتخاب میں آپ کا طریقہ اور اوراد و وظائف میں آپ کا طریقہ ، گھر میں داخلہ کے وقت آپ کا طریقہ، بیت الخلاء جانے اور وہاں سے واپس آنے کا طریقہ ، آپ کے کپڑا پہننے کا طریقہ ، وضو کی دعا کے متعلق آپ کا طریقہ، اذان کے وقت الفاظ اذان کو دہرانے کے متعلق آپ کا طریقہ ، رویت ہلال کے وقت آپ کے دعا فرمانے کا طریقہ کھانے کے پہلے اور اس کے بعد آپ کے دعاؤں کے پڑھنے کا طریقہ، آداب طعام میں آپ کا طریقہ، آداب سلام میں آپ کا دوسروں کے گھر میں اجازت مانگ کر داخل ہونے کا طریقہ ، آداب سفر میں آپ کے طریقے اور سفر میں دعاؤں کے پڑھنے کا طریقہ، نکاح کی دعاؤں کے متعلق آپ کا طریقہ، بعض الفاظ کے استعمال کو مکروہ سمجھنے میں آپ کی عادت ، غزوات اور جہاد میں آپ کا طریقہ ، قیدیوں کے متعلق آپ کا معمول ، قیدی، جاسوس اور غلام کے متعلق آپ کا معمول ، صلح کرنے امان دینے ، جزیہ مقرر کرنے اور اہل کتاب و منافقین کے ساتھ معاملات کرنے میں آپ کا طریقہ کفار و منافقین کے ساتھ علی التریب آپ کے برتاؤ کرنے کا طریقہ، آپ کا امراض قلب اور امراض بدن کے علاج کرنے کا طریقہ۔
میں نے آپ کے سامنے جزئی جزئی باتوں کی اجمالی فہرست پیش کی ہے، اس سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ جب ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو محفوظ رکھا گیا ہے تو بڑی بڑی باتوں اور اہم مسائل کی کیا کچھ تفصیل موجود نہ ہوگی ، غرض ایک انسان کی زندگی کے جس قدر پہلو ہو سکتے ہیں وہ سب محفوظ اور مذکور ہیں۔
حضرات! اب آپ نے سمجھا ہوگا کہ اس معیار پر سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا انبیاء میں کسی کی سیرت محفوظ نہیں ۔ وقت کم ہے اور مضمون طویل ہو رہا ہے۔ تاہم یہ مختصراً سن لیجئے کہ آقائے کائنات فخر موجودات سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، خواہ خلوت میں ہوں یا جلوت میں ، مسجد میں ہوں میدان میں ، جہاد میں ، نماز شبانہ میں ہوں یا فوجوں کی درستی میں منبر پر ہوں یا گوشۂ تنہائی میں ، ہر وقت اور ہر شخص کو حکم تھا کہ جو کچھ میری حالت اور کیفیت ہو، وہ سب منظر عام پر لائی جائے ، ازواج مطہرات آپ کے خلوت خانوں کے حالات سنانے اور بتانے میں مصروف رہیں، مسجد نبوی میں ایک چبوترہ ان عقیدتمندوں کے لئے تھا جن کے رہنے کو گھر نہ تھا، وہ باری باری سے دن کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور اس سے روزی حاصل کرتے اور سارا وقت آپ کے ملفوظات سننے آپ کے حالات دیکھنے، اور آپ کی معیت میں گزرانے کیلئے صرف کرتے تھے، ان کی تعداد ستر کے قریب تھی ، انہیں میں حضرت ابو ہریرہ ہیں جن سے زیادہ کسی صحابی کی روایات نہیں۔ یہ ستر ہستیاں معتقد جاسوسوں کی طرح شب وروز ذوق و شوق کے ساتھ آپ کے حالات دیکھنے اور دوسروں سے بیان کرنے میں مصروف رہتی تھیں، دن میں پانچ وقت مدینہ میں رہنے والی تمام آبادی ، دس برس تک آپ کی ایک حرکت ، سکون اور ایک ایک جنبش کو دیکھتی رہی ، غزوات اور لڑائیوں کے موقعوں پر ہزار صحابہ کو شب و روز آپ کے دیکھنے اور آپ کے حالات مبارکہ سے واقف ہونے کا موقع ملتا تھا۔
غزوۂ فتح خیبر میں دس ہزار ، تبوک میں تیس ہزار اور حجہ الوداع میں تقریبا ایک لاکھ صحابہ کو آپ کی زیارت کے موقع ملتے رہے اور خلوت و جلوت، گھر اور باہر ، صفہ و مسجد ، حلقہ تعلیم اور میدان جنگ تک میں جس نے جس حال میں آپ کو دیکھا اس کی عام اشاعت کی نہ صرف اس کو اجازت بلکہ حکم اور تاکید تھی۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کی زندگی کا کون سا پہلو ہوگا جو زیر پردہ رہا ہوگا۔ اور اس پر بھی ایک شخص تک آپ پر خورده گیری نہ کرسکا ، آج بھی آپ کے دشمن اور مخالف پوری چھان بین اور تلاش و جستجو کے بعد مسئلہ جہاد اور تعداد ازدواج کے سوا، آپ پر کوئی حرف گیری نہ کر سکے، تو اب ایسی زندگی کو معصوم اور بے گناہ کہنا زیبا ہے ، یا ان زندگیوں کو جن کا بڑا حصہ ہماری نگاہوں سے اوجھل اور پوشیدہ ہے۔
ایک حیثیت سے اور غور فرمائیے! حضرت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ صرف اپنے معتقدوں ہی کے حلقہ میں نہیں رہے بلکہ مکہ میں قریش کے مجمع میں رہے، نبوت سے پہلے چالیس برس آپ کی زندگی ان ہی کے ساتھ گزری اور پھر تاجرانہ زندگی ، لین دین کی زندگی ، معاملہ اور کاروبار کی زندگی جس میں قدم قدم پر بدمعاملگی بد نیتی ، خلاف وعدگی اور خیانت کاری کے عمیق غار آتے ہیں مگر آپ اس طرح بے خطر اس راستہ سے گزر گئے کہ آپ کو ان سے امین کا خطاب حاصل ہوا۔
نبوت کے بعد بھی لوگوں کو آپ پر یہ اعتماد تھا کہ اپنی امانتیں آپ ہی کے پاس رکھواتے تھے۔ چنانچہ ہجرت کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اسی لئے مکہ میں چھوڑا تاکہ آپ کے بعد وہ لوگوں کی امانتیں واپس کرسکیں۔ آپ کے دعوئے نبوت سے تمام قریش نے برہمی ظاہر کی مقاطعہ کیا ، دشمنیاں ظاہر کیں، گالیاں دیں، راستے روکے ، نجاستیں ڈالیں، پتھر پھینکے قتل کی سازشیں کیں ، آپ کو ساحر کہا، شاعر کہا، مجنوں کہا، مگر کسی نے یہ جرات نہ کی کہ آپ کے اخلاق اور اعمال کے خلاف، ایک حرف بھی زبان سے نکال سکے۔
حالانکہ نبوت اور پیغمبری کا دعوی ہی کے یہ معنی ہیں کہ مدعی اپنی بے گناہی اور معصومیت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اس دعوے کے ابطال کے لئے آپ کے اخلاق و اعمال کے متعلق چند مخالفانہ شہادتیں بھی کافی تھیں، تاہم اس دعوی کو توڑنے کیلئے ، انہوں نے اپنی دولت لٹائی ، اپنی اولاد کو قربان کیا، اپنی جانیں دیں، لیکن یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ آپ کی ذات مقدس پر معمولی خردہ گیری کرکے بھی اس کو باطل کر سکیں ۔
کیا۔ اس سے نہیں ثابت ہوتا کہ جو آپ دوستوں کی نظر میں تھے وہی دشمنوں کی نگاہ میں بھی تھے۔ اور کوئی چیز زیر پردہ و نا معلوم نہ تھی۔
ماخوذ رسالہ۔ رہبر نور






