قطب المدار کی تجریدی زندگی

mufti munawwar ali madari

شہنشاہ ولایت قطب وحدت سلطان العارفین حضرت شیخ بدیع الدین سید احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح مقدسہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آفتاب نیمروز کی طرح روشن ہو جاتی ہے کہ آپ روحانیت و معرفت کے اس مقام پر جلوہ افروز ہیں کہ بہت سے اولیاء کرام جس کے سایہ ہی تک پہنچتے ہیں آپ کو شریعت و طریقت میں مقام تحقیق حاصل ہے۔ اللہ رب العزت نے قاسم نعمات رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے آپ کو مقام صمدیت پر وہ معراج کمال عطا فرمائی ہے کہ اس مقام میں آپ فرد وحید نظر آتے ہیں۔ آپ پانچ سو چھپن سال تک کھانے ، پینے ، سونے ، تبدیلی لباس اور دیگر حوائج بشریہ سے بے نیاز رہے۔ یہی مقام صدیت ہے۔ نکاح نہ کرنا بھی چونکہ صمدیت سے متعلق ہے اس لئے آپ نے عقد نکاح بھی نہیں فرمایا اور تمام عمر تجرید و تفرید میں بسر فرمائی ۔

بعض اہل ظاہر چونکہ تجرید ( نکاح نہ کرنے ) کو خلاف سنت گمان کرتے اور اس حدیث کو سند بناتے ہیں "النکاح من سنتي فمن رغب عن سنتي فلیس منی" یعنی نکاح میری سنت ہے تو جو شخص میری سنت کے علاوہ راغب ہوا وہ مجھ سے نہیں۔
لہذا میں اس مسئلہ کی مختصر توضیح کر دینا چاہتا ہوں تا کہ شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جائے۔ سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ حدیث مذکورہ میں سنت سے کیا مراد ہے؟
شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ سنت سے مراد طریقہ ہے نہ کہ سنت اصطلاحی اس لئے کہ شریعت مطہرہ میں نکاح صرف سنت ہی نہیں بلکہ اس کے مختلف مدارج ہیں۔ کسی کے لئے فرض ہے، کسی کے لئے واجب کسی کے لئے سنت، کسی کے لئے صرف مباح، بلکہ کسی کیلئے مباح بھی نہیں مکروہ ہے اور کسی کے لئے حرام بھی۔ اور “فلیس منی” کا مطلب ہے کہ جو شخص بلا عذر شرعی نکاح نہ کرے تو وہ میرے طریقہ پر نہیں۔ اور اگر نکاح نہ کرنا سنت سے اعراض کی وجہ سے ہو یا سنت کو حقیر جان کر تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ شخص میرے دین پر نہیں کیونکہ طریقہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو معیوب سمجھنا کفر ہے۔

نکاح کے سلسلہ میں اور بھی احادیث ہیں۔
بعض احادیث بعض لوگوں کے احوال کے تقاضہ کے مطابق تاہل و تزوید کی فضیلت میں ہیں اور بعض حدیثیں لوگوں کی صلاحیت کے مطابق تجرید کی فضیلت میں۔ جیسے کہ ارشاد فرمایا “سیرواسبق المفردون” ( دیکھو مجر دلوگ تم پر سبقت لے گئے ) ایک حدیث میں اس طرح ارشاد فرمایا “خير الناس في آخر الزمان خفيف الحاذ” (آخر زمانہ میں سب سے بہتر خفیف الحاذ ہے ) صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیف الحاذ کیا ہے؟ فرمایا “الذی لا اهل لہ ولا ولد لہ” (وہ شخص جس کے نہ بیوی ہو اور نہ بچے ) اس حدیث کو سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ نے بغیر سند کے ‘کشف المحجوب’ میں نقل فرمایا ہے۔ جبکہ شیخ الشيوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عوارف المعارف میں یوں نقل فرماتے ہیں
“حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ دوسو برس کے بعد تمہارے درمیان سب سے بہتر خفیف الحاذ ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خفیف الحاذ کیا چیز ہے؟ فرمایا ، وہ شخص ہے جس کے نہ بیوی ہو اور نہ اولاد۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہے کہ سرکار مدار پارک کے “خیر الناس” ہونے کی بشارت حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے کیونکہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو سو سال بعد ۲۴۲ھ میں تولد ہوئے اور آپ کے بیوی بچے نہ تھے۔

پھر جس طریقہ کے ترک پر جس شخص کا “خیر الناس” ہونا زبان رسالت سے ثابت ہو اسے ترک سنت مرتکب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں دو حدیثیں اور ملاحظہ فرمائیں
"عن ابي امامة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ان اغبط الناس عندى مومن خفيف الحاذ ذو حظ من صلواة غامض في الناس لايو به به كان رزقه كفافا وصبر عليه عجلت منيته وقل تراثه وقلت بواكيه". (ابن ماجه)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک میرے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ قابل رشک مومن خفیف الحاذ ہے ، نماز میں اس کیلئے حصہ ہے۔ لوگوں میں پوشیدہ ہے۔ اس کا رزق بقدر زندگی ہے اور وہ اس پر صابر ہے۔ اس کی خواہش جلد فنا ہو جائے گی اور اس کی میراث کم ہے اور اس کے رونے والے (بیوی بچے) نہیں ہیں۔

احمد ، ترمذی، ابن ماجہ سے مشکوۃ میں یوں منقول ہے
"عن ابي امامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال اغبط اولیائی عندى لمومن خفيف الحاذ ذو حظ من الصلوة احسن عبادة ربه واطاعه في السرور كان غامضا في الناس لايشار اليه بالاصابع وكان رزقه كفافا فصبر على ذلك ثم نقد بیده فقال عجلت منية قلت بواكيه وقل تراثه".
حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک میرے ولیوں میں سب سے زیادہ قابل رشک ضرور ایک مومن خفیف الحاذ ہے۔ نماز کا ایک بڑا حصہ دار ہے۔ اپنے رب کی عبادت و طاعت بہترین طریقے سے تنہائی ، گوشہ نشینی میں کرنے والا ہے۔ لوگوں میں وہ ایسا مستور و پوشیدہ رہے گا کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا سے اس کا رزق “قوت لایموت” یعنی بہت کم ہوگا اور وہ اپنے نفس کو اسی پر روک کر صبر کرے گا۔ پھر آپ نے اپنی انگلی دوسری انگلی سے ملا کر ارشاد فرمایا اس کی خواہشات نفسانیہ مرجائیں گی۔ اس پر کوئی رونے والا یعنی اس کی بیوی بچے نہیں ہوں گے اور اس کا کچھ میراث نہیں ہوگا۔

قارئین کرام! ملاحظہ فرمایا ، آپ نے کیا کیا محاسن ذکر فرمائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مخصوص تارک نکاح (خفیف الحاذ) کے؟ خدا نخواستہ اگر یہ تارک سنت ہوتا تو کیا زبان رسالت سے اس کا ذکر اس شان سے ہوتا؟ حاشا اللہ سرکار سرکاراں فرد الافراد حضور مدار العالمین کی سوانح مقدسہ کا مطالعہ کرنے والے اس بات کی تائید کریں گے کہ مذکورہ بالا احادیث کریمہ کے مصداق حضور سید الافراد مدار العالمین ہیں۔

اولاً یہ کہ آپ خفیف الحاذ ہیں۔

ثانیاً یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو سو سال کے بعد ہیں۔

ثالثاً یوں کہ پوری حیات مقدسہ عبادت واطاعت الہی میں بسر فرمائی۔

رابعاً یوں کہ مقام فردانیت میں اولیائی تحت قبائي لا يعرفهم غيری کے مصداق مستور الحال اور پردہ گمنامی میں رہتے یہی وجہ ہے کہ معاصرین اولیاء اللہ و علماء و عارفین بھی آپ کی عظمت و شخصیت کا عرفان نہیں کر پائے اور آپ کے اوصاف و احوال بیان کرنے سے قاصر رہتے بلکہ بعض تو مناظرہ و مجادلہ پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ ہاں جب کبھی مقام مداریت پر نزول فرماتے تو کسی قدر آپ کا عرفان ہو پاتا۔

خامساً یوں کہ ابتدائے احوال میں آپ کو کفاف رزق ملتا اور آپ اس پر صبر کرتے۔ تذکرہ نگاروں کے مطابق پہلی مرتبہ جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تبلیغ و ارشاد کے مقصد سے سفر کا حکم فرمایا۔ ظاہرسی بات ہے کہ آپ کے پاس نہ تو سامان تجارت تھا اور نہ ہی زاد راہ اتنا ہوگا کہ تمام عمر کو کافی ہو۔ اس سفر میں دن بھر روزہ رکھتے شام کو دست غیب سے دونان شعیری حاصل ہوتیں ایک خود تناول فرماتے اور ایک خیرات کر دیتے بلکہ کبھی کبھی دونوں خیرات کر دیتے اور ہفتہ عشرہ کے بعد ایک دوخرمے سے افطار فرماتے۔

سادسا یوں کہ کم و بیش اکیس سال اسی طرح گزرنے کے بعد ۲۸۲ھ میں “موتوا قبل ان تموتوا” کے مطابق آپ کی موت ہوگئی یعنی آپ کا نفس مر گیا، خواہشات بشری فنا ہو گئیں، مقام صمدیت پر فائز ہو گئے۔

سابعاً یوں کہ آپ کی میراث میں مال و دولت وغیرہ اسباب دنیا نہ تھے بلکہ فقیری تھی تو کل تھا۔
الغرض ترک نکاح پر جس ذات کے فضائل و مناقب احادیث کریمہ میں موجود ہیں کیا اسے ترک سنت کا الزام دیا جائے گا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر عامل بالسنتہ کون ہو سکتا ہے؟ یہ تو وہ مقدس جماعت ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے “اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم فاهتدیتیم” (میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کسی کی تم نے اقتدار کر لی ہدایت پالوگے) مگر اس مقدس جماعت میں بھی تجرید کی مثال موجود ہے۔ پھر زبان رسالت سے “اھتدیتم” کا مژدہ پانے والوں پر ترک سنت کا الزام کیا؟
طبرانی ، حاکم، بزاز کی روایات سے ثابت کہ متعدد صحابیات نے شوہر کے حقوق سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمر بھر نکاح نہ کرنے کی قسم کھائی "والذي بعثك بالحق لا اتزوج ما بقيت الدنيا” (اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں رہتی دنیا تک نکاح نہ کروں گی) "لاجرم لا اتزوج ابدا” (یقینا میں کبھی نکاح نہ کروں گی) “والذی بعثك بالحق لا اتزوج ابدا” (اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں کبھی نکاح نہ کروں گی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار کرنے والیوں پر نہ تو خفا ہوئے اور نہ ہی ان سے آپ نے فرمایا “النكاح من سنتي فمن لم يعمل بسنتي فليس مني” بلکہ خاموش رہے۔ محدثین کی اصطلاح میں اس کو حدیث تقریری کہتے ہیں اور حدیث تقریری ثبوت جواز کے لئے کافی ہے۔ صحابہ کرام کے علاوہ تابعین، تبع تابعین اور جلیل القدر اولیاء کرام میں بھی مجرد لوگ موجود ہیں اور یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جو “انعم الله علیهم” کے زمرے میں شامل ہیں اور ان کا طریقہ “صراط مستقیم” ہے بلکہ خود سرکار مدار العالمین کا اسی مقدس جماعت سے ہونا باالتحقیق والاتفاق ثابت و مسلم تو ایسی معظم شخصیتوں سے “تعرض عن السنہ” کا گمان حاشا للہ، ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔

خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید

خدا نخواستہ سرکار مدار کا نکاح نہ کرنا خلاف سنت ہوتا تو کیا ولایت و معرفت کے اس ارفع و اعلیٰ مقام پر ہوتے جو منتہائے درجہ ولایت سے عبارت ہے۔

شہزادہ دارا شکوہ قادری تحریر فرماتے ہیں:
حضرت سید بدیع الدین شاہ مدار قدس سره کا درجہ اور مرتبہ بہت بلند ہے جس کو احاطہ تحریر میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ (سفینۃ الاولیاء )

حضرت مولانا غلام علی نقشبندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
شیخ بدیع الدین شاہ مدار قدس سرہ قطب مدار تھے اور عظیم شان رکھتے تھے۔ (دار المعارف)

غرضیکہ حصول کمالات بغیر اتباع حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ممکن ہی نہیں پھر جس کے کمالات با تخصیص ثابت اور بالاتفاق مسلم ہوں اس سے ترک سنت کا گمان!

گرنہ بیند بروز شپره چشم
چشمہ آفتاب را چہ گنہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نو جوانوں کی جماعت تم میں سے جس کو نکاح کرنے کی استطاعت ہو تو چاہئے کہ وہ نکاح کرے بیشک نکاح نگاہ کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کو گناہ سے محفوظ رکھنے والا ہے اور جس کو نکاح کی استطاعت (مہر ونفقہ) نہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہے کہ روزہ خواہش کو ختم کرنے والا ہے۔ ( بخاری شریف)
اس حدیث کی دو شقیں ہیں ایک یہ کہ اگر نکاح کی استطاعت ہو تو نکاح کرے دوسری یہ کہ استطاعت نہ ہو تو روزہ رکھے۔

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں جب ہم مدار پاک کی سیرت مقدسہ کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ ہم کو حدیث پاک کی شق ثانی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں جس کی تفصیل کتب معتبرہ میں اس طرح ہے کہ حضرت زندہ شاہ مدار کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے سعید ازلی ہونے کا شرف حاصل ہے چنانچہ تذکرہ نگاروں کے مطابق ایام شیر خوارگی میں آپ نے کبھی رمضان کے مہینے میں دن میں دودھ نہیں پیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بتوفیق اللہ آپ عہد رضاعت میں بھی روزہ رکھتے تھے۔ چودہ سال کی عمر شریف میں تعلیم سے فراغت حاصل فرمائی۔ سترہ سال کی عمر مبارک میں شوق حج و زیارت کشاں کشاں حرمین طیبین لے گیا۔ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آقائے کائنات قاسم نعمات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اقدس کا شرف حاصل ہو گیا۔ شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نور نظر بدیع الدین پر کمال مہربانی فرماتے ہوئے باب مدینۃ العلم حضرت علی مرتضی کی خدمت میں دے دیا تا کہ مولا علی کرم اللہ وجهه الكريم بدیع الدین کو علوم باطنی عطا کریں۔

مولا علی رضی اللہ عنہ نے بحکم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم بدیع الدین کو علوم باطنی سے نوازا اور پھر روح پاک مہدی موعود کے سپرد فرمایا کہ بدیع الدین کی تربیت باطنی کرے۔ روح پاک مهدی موعود علیہ السلام نے تربیت باطنی فرمائی پھر بارگاہ مولا علی میں واپس کر دیا۔ مولا علی نے دوبارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پیش فرمایا کہ یہ نو جوان لائق ارشاد ہو گیا۔ پھر حضور شہنشاہ کائنات قاسم نعمات صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس خود حضرت بدیع الدین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر نسبت اویسیہ سے مستفیض کرکے اسلام حقیقی تعلیم فرمایا پھر حکم فرمایا، بدیع الدین تبلیغ اسلام کے لئے سفر کرو خصوصاً ملک ہند میں پیغام پہنچاؤ۔ شہنشاہ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سرکار بدیع الدین مدار رضی اللہ عنہ آمادہ سفر ہوئے اس سفر میں آپ کے ساتھ کیا زاد راحلہ تھا تذکرہ نگاروں نے تحریر نہیں فرمایا۔ البتہ بعض کتب معتبر میں اتنا ضرور ملتا ہے کہ آپ اس زمانہ میں دن بھر روزہ رکھتے تھے اور شام کو دست غیب سے دور وٹیاں حاصل ہوتیں ایک خود تناول فرماتے اور ایک کسی ضرورت مند کو عطا کر دیتے۔ غرض سترہ سال کی عمر مبارک سے چالیس سال کی عمر شریف یعنی ۲۸۲ ھ تک آپ کا یہی معمول رہا پھر دوسو بیاسی ہجری میں قاسم نعمات صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ زرنگار پر جلوہ افروز ہو کر اپنے دست معجز طراز سے سیدنا بدیع الدین احمد کو نو لقمے شیر برنج از قسم طعام ملکوتی کھلائے جس کی برکت سے چودہ طبقات ارضی و سماجی کے حالات منکشف ہو گئے۔ ایک پیالہ شربت عطا فرمایا جس سے معرفت خداوندی حاصل ہو گئی اور پھر حلہ بہشتی پہنایا اور سر اقدس کو دستار خلافت سے مزید فرمایا۔ پھر دست انور مدار پاک کے چہرہ پر مس فرماکر روئے زیبا کو نیر تاباں بنا دیا اور ارشاد فرمایا بدیع الدین آج سے تو کھانے پینے سونے تبدیلی لباس اور دیگر حوائج ضروریہ بشریہ سے بے نیاز کیا گیا۔
اس وقت مدار پاک نے فرمایا: “الدنیا لنا يوم وانا فيها صوم” یعنی میرے لئے دنیا کی وسعت صرف ایک دن کی ہے اور میں اس میں مکمل روزہ دار ہوں۔ اس وقت سے آخر عمر ۸۳۸ھ تک یعنی پانچ سو چھپن سال کھانے پینے سونے تبدیلی لباس اور دیگر بشری تقاضوں سے بے نیاز رہے۔ غرض مدار العالمین کا عمل مبارک عین منشاء محمد رسول اللہ ہے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)

ازدواجی زندگی کی الجھنوں سے کون واقف نہیں؟ پھر سفر کی صعوبتیں ، مشقتیں کس پر خفی؟
وہ بھی ایسا سفر جس کا کوئی پتہ نہیں اٹھکانہ نہیں! کوئی منزل نہیں! ہر مختصر سے عرصہ کے بعد ایک نئی جگہ نیا ماحول پھر سفر بھی کسی مقصد سے؟ تبلیغ دین کے مقصد سے! تبلیغ دین کتنا مشکل اور دشوار ترین کام ہے عقلمند بخوبی واقف! خصوصاً کفرستان ہند میں تیسری صدی ہجری میں تبلیغ اسلام جوئے شیر لانے سے زیادہ مشکل۔ ایک عربی مبلغ کے لئے یہاں کے افراد اجنبی زبان اجنبی رسوم و رواج اجنبی ، سارا ما حول اجنبی۔ اور یہاں کے افراد کے لئے وہ مبلغ اجنبی، اس کی زبان اجنبی اور جس دین کی وہ تبلیغ کر رہا ہے اس کے تمام ارکان اور تمام احکامات اعمال و وظائف اجنبی، اس دین کی تمام قانونی کتابیں اجنبی ایسے میں اگر بیوی بچوں کی الجھنیں اور جھمیلے بھی ہوتے تو اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی بن سکتے تھے۔

یہ راز تو وہ جو اہل علم پر ظاہر ہے اور بتوفیق اللہ البدیع شریعت ظاہر سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت مدار پاک کا نکاح نہ فرمانا آپ کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ اب چونکہ حضرت قطب المدار روحانیت و معرفت کے اس عظیم الشان گروہ سے ہیں جس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ میرے ولی میرے دامن کے نیچے ہیں میرا غیر انہیں جانتا نہیں اس لئے اس سلسلہ میں اہل باطن کے ارشادات اور تجربہ کے فوائد اختصاراً نقل کر کے اپنی بات ختم کروں گا۔ مگر اس سے قبل ذہن میں ابھرنے والے ایک سوال کا جواب اور قلم بند کرتا چلوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
مدار پاک کے نکاح نہ فرمانے پر ترک سنت کا الزام تو مرتفع ہو گیا مگر نکاح کے جو فوائد ہیں وہ بھی آپ کو حاصل ہیں یا نہیں؟
اس لئے آئیے اسے دیکھتے ہیں کہ نکاح کے فوائد کیا ہیں؟
اس سلسلہ میں احادیث میں دو باتیں ملتی ہیں۔ ایک یہ ارتکاب گناہ سے بچنا جیسا کہ بخاری شریف کی ابن مسعود والی مذکورہ بالا روایت سے ثابت (انه اغض للبصر وما حصن للفرج) دوسرے یہ کہ یہ الواد محمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات میں اضافہ کرنا جیسا کہ اس حدیث سے ثابت۔ مسلمانو! نکاح کرو اور اولاد کی کثرت کرو اس لئے کہ بروز قیامت تمہارے ذریعہ میں کثیر امت پر فخر کروں گا۔ ان فوائد کو جان لینے کے بعد جب ہم زندہ شاہ مدار کی سیرت مقدسہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ چونکہ خواہشات بشری سے اللہ تعالی نے آپ کو بے نیاز کر دیا تھا لہذا ایسی صورت میں ارتکاب گناہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہا امت محمد یہ میں اضافہ کرنا تو اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ حضرت مدار پاک نے تزویج کے ذریعہ نہ سہی مگر تجرید کے راستہ اپنی مساعی جمیلہ سے امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا حیرت ناک اور قابل فخر اضافہ فرمایا ہے کہ کوئی شادی شدہ بذریعہ اولاد ہرگز ہرگز ایسا اضافہ نہیں کر سکتا۔ لاکھوں بلکہ ان گنت افراد کو کلمہ طیبہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھا کر حلقہ بگوش اسلام فرمایا۔ جس کی تفصیل ہزاروں صفحات میں موجود ہے۔ الغرض نکاح سے جو منافع مقصود بحمد الله الحمود یہاں بغیر نکاح ہی موجود فلهذا ترک نکاح کا سرے سے خسران بھی مفقود۔

یہ تفہیم اہل ظاہر کے مطابق تھی مگر اہل باطن بھی اس سے کچھ مختلف الخیال نہیں ان کے نزدیک بھی کسی شخص کے لئے تزویج وجہ فضیلت اور کسی کے لئے تجرید بہتر چنانچہ سیدنا دا تا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“جو شخص خلق کی صحبت چاہتا ہے اس کیلئے نکاح کرنا ضروری ہے اور جو خلوت و گوشه نشینی کا خواہاں ہے اسے مجرد رہنا مناسب ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “سیرو سبق المفردون" (دیکھو مجرد لوگ تم پر سبقت لے گئے۔ (کشف المحجوب ص ۵۲۳-۵۲۲)

چند سطور کے بعد اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: “مشائخ طریقت کا اس پر اجماع ہے کہ جن کے دل آفت سے خالی ہوں اور ان کی طبیعت شہوت و معافی کے ارتکاب کے ارادہ سے پاک ہو ان کا مجرد رہنا افضل و بہتر ہے۔ اور عام لوگوں نے ارتکاب معاصی کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو (معاذ اللہ) سند بنالیا ہے کہ تمہاری دنیا کی تین چیزیں مجھے پسند و مرعوب ہیں۔ ایک تو خوشبو، دوسری بیویاں ، تیسری نماز کہ اس میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے۔ مشائخ طریقت فرماتے ہیں کہ جسے عورت محبوب ہو اسے نکاح کرنا افضل ہے۔ لیکن ہم (علی ہجویری) کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ “لی حرفتان الفقر والجهاد” (میرے دو کسب ہیں ایک فقر اور دوسرا جہاد) لہذا اس حرفت و کسب سے کیوں ہاتھ اٹھایا جائے اگر عورت محبوب ہے تو یہ اس کی حرفت ہے۔ اپنی اس حرص کو کہ عورت تمہیں زیادہ محبوب ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو۔ یہ محال و باطل ہے کہ جو شخص پچاس سال تک اپنی حرص کا پیروکار ہے اور وہ یہ گمان رکھے کہ یہ سنت کی پیروی ہے وہ سخت غلطی میں مبتلا ہے۔ (ص ۲۲۵)
الحاصل طریقت کی بنیاد مجرد رہنے پر ہے نکاح کے بعد حال دگرگوں ہو جاتا ہے۔ شہوت کے لشکر سے بڑھ کر کوئی لشکر غارت گر نہیں ہے مگر شہوت کی آگ کو کوشش کر کے بجھانا چاہئے۔ (روزہ وغیرہ معالجات سے) (کشف المجوب)

شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “جو شخص اپنے کامل تقویٰ اور ضبط نفس سے اپنی آتش شہوت کو سرد کرلے اس کے لئے تجرید ہی وجہ فضیلت ہے اور وہ شخص جس کو مجرد رہنے سے فتنہ کا اندیشہ ہو اور شہوت کا اس پر غلبہ ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا ہی ضروری ہے۔ درویش کیلئے تجرد کی زندگی مفید ہوتی ہے۔ عالم تجرد میں اس کے خیالات یکسو رہتے ہیں اور اس کو جمعیت خاطر حاصل ہوتی ہے اس طرح اس کی زندگی کے جھمیلوں میں گرفتار ہے تو اس ازدواجی زندگی کو مصروفیات سے اس کے روحانی عزم میں بجائے بلندی کے پستی آجاتی ہے۔ شیخ ابو سلیمان الدار نی فرماتے ہیں کہ جس نے تین چیزوں کو طلب کیا وہ دنیا کا ہو گیا۔ اول- معاش. دوم- نکاح. سوم- احادیث لکھنا۔ اور میں نے اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ وہ شادی کرنے کے بعد اپنے بلند مقام پر قائم رہا ہو (بلکہ اس کو وہاں تنزل ہوا)۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد مردوں کے لئے عورت سے زیادہ مضرت رساں اور کوئی فتنہ نہیں ہوگا۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے “و خلق الانسان ضعيفا” (اور انسان کو ناتواں پیدا کیا گیا) مفسرین نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ انسان اس وجہ سے کمزور ہے کہ وہ بغیر عورت کے نہیں رہ سکتا اور اسی طرح اس ارشادربانی میں فرمایا گیا “ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به” (اے ہمارے پروردگار ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں) اس ارشاد خداوندی میں طاقت سے زیدہ بوجھ ڈالنے سے مراد قوت شہوانی ہے۔ پس فقیر اگر نفس کے مقابلے پر قادر ہے اور حسن معاملت سے معالجہ نفس میں اس کو وافر حصہ ملا ہے اور وہ عورتوں پر صبر کر لے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے پورا فضل حاصل کیا ہے اور اپنی عقل کو کام میں لایا اور ایک آسان کام کی طرف راستہ پالیا۔ (عوارف المعارف ص ۳۰۹-۳۱۰)

خیال رہے کہ اخص الخواص اولیاء کرام اپنے عزائم و ارادے جناب باری تعالیٰ میں پیش کرتے ہیں۔ پھر خداوند قدوس کی طرف سے حکم واجازت کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں جیسا کہ سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشائخ طریقت کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہم مجرد رہنے اور نکاح نہ کرنے میں بھی اپنے اختیار کو دخیل نہیں ہونے دیتے یہاں تک کہ پردہ غیب سے تقدیر کا جو حکم بھی ظاہر ہو سر تسلیم خم کر دیتے ہیں اگر ہماری تقدیر مجرد رہنے میں ہے تو ہم پارسائی کی کوشش کرتے ہیں اور اگر نکاح کرنے میں ہے تو ہم سنت کی پیروی کرتے ہیں۔ (کشف المحجوب ص ۵۲۷)

حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ نکاح کرنا واجب ہے یا نہیں؟
ارشاد فرمایا ی”یہ اختلافی مسئلہ ہے بعض فقہا کا قول ہے کہ نکاح کرنا سنت ہے اور بعض کا قول ہے کہ اگر اس کے بس میں پہچان نہ ہو تو (مجرورہ کر) عبادت میں مشغول رہنا اولی ہے۔
امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نکاح کی مشغولیت افضل ہے۔ (اور میں غوث الاعظم کہتا ہوں) جب تک تو درجۂ عبادت و طلب میں ہے اس وقت تک عبادت میں مشغول رہنا افضل ہے اور اگر تو (سلوک ختم کر کے خدا کا) مراد و مطلوب بن جائے تو اب اپنے نفس کے متعلق کسی قسم کی بھی تدبیر کا تجھے حق نہیں۔ اگر وہ چاہے تو تیرا نکاح کر دے اور چاہے تو اس کے سوا کسی دوسرے شغل میں لگائے۔ ( فیوض یزدانی )

مخفی نہ رہے اولیاء کرام قدست اسرارہم کا یہ گروہ وہ ممتاز گروہ ہے جو اختلاف مذہب سے ترقی فرما کر حقیقت شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے اس لئے اس سے سرزد ہونے والے بعض امور اگرچہ شریعت ظاہر کے خلاف معلوم ہوں مگر وہ محفوظ ہونے کی وجہ سے ایک بھی دقیقہ شرعی ترک نہیں کرتا۔ چنانچہ مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں: “شریعت کی ایک صورت ہے۔ اور ایک حقیقت۔ اس کی صورت وہ ہے جس کے بیان کے علماء ظاہر کفیل وضامن ہیں۔ اور اس کی حقیقت وہ ہے جس کے بیان کے ساتھ بلند گروه صوفیہ ممتاز ہے۔ اس مقام میں عارف اپنے آپ کو دائرہ شریعت سے باہر پاتا ہے لیکن چونکہ محفوظ ہوتا ہے اس لئے و قائق شریعت سے ایک دقیقہ بھی نہیں
چھوڑتا۔ وہ جماعت جو اس دولت عظمی سے مشرف ہوتی ہے اس کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اور صوفیہ کی ایک کثیر جماعت اس مقام عالی کے سایہ ہی تک پہنچتی ہے۔” (مکتوبات امام ربانی دفتر امکتوب ۱۷۲)

تحقیق کیجئے تو سرکار قطب المدار اسی دولت عظمی سے مشرف اور اسی مقام عالی پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔ چنانچہ شیخ محقق حضرت علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدار پاک کے اوصاف میں تحریر فرماتے ہیں: بعضی اوضاع ایشان بر خلاف ظاہر شریعت بود (اخبار الاخیار )

اور شریعت ظاہر سے بعض امور کے خلاف ہونے کا سبب وہی حقیقت شریعت کا علم ہے جو مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرمایا۔ چنانچہ صاحب لطائف اشرفی لکھتے ہیں کہ: قطب المدار مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے تو بروحانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بکمال مہربانی خود دست او گرفته اسلامی حقیقی تعلیم فرمودند و بروحانیت علی کرم اللہ وجہہ سپردند۔ (کلید معرفت المعروف بزم وارثی صفحه ۱۱۷ گلزار وارث)

حضرت مولانا عبدالرحمن چشتی نے حضرت بدیع الدین قطب مدار المقلب بہ زندہ شاہ مدار کے واقعات ایک کتاب مرأة مداری” میں لکھے جس کا قلمی نسخہ ۱۰۶۴ کا قلمی نسخہ ۱۰۲۴ھ کا لکھا ہوا کتب خانہ سالار جنگ میں موجود ہے۔ لکھا ہے کہ “حضرت شاہ بدیع الدین نے علاوہ قرآن مجید کے توریت و زبور و انجیل کا بھی علم حاصل کیا۔ پھر بھی تشفی نہ ہوئی اور دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں مدینہ پہنچ کر ریاضت کش رہے۔ یہ عالم روحانی حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام حقیقی کی تلقین کی اور ان کو حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے فرمایا کہ ان کو تعلیم دو۔ (کلمۃ الحق صفحه ۹۶۵ – حصہ دو۔ مصنف حامد ابن بشیر سابق چیف جسٹس سٹی کورٹ ، حیدر آباد)

حضرت مولانا عبدالرشید ظہور الاسلام سہسرامی حنفی قادری تحریر فرماتے ہیں: “بعض علماء ظاہر یہ کا حضرت قطب المدار کے ساتھ سبب مخالفت یہ تھا کہ حضرت قطب المدار موصوف نے علوم دینیہ و معارف یقینیہ خود روحانیت پاک حضرت رسالت پناه صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اخذ فرمایا تھا اور کتب آسمانی حضرت امام مہدی عسکری رضی اللہ عنہ کی خدمت مبارک میں پڑھے تھے اور اختلافات مذاہب کو چھوڑ کر مشرب حق پر پہنچ گئے تھے اور بعض علماء ظاہر آپ کے سامنے ابجد خواں تھے اور آپ قدم باقدم حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ اہل بیت نبویہ کے تھے اور اسی طریقہ پر عمل فرماتے تھے اور چونکہ آپ کے بعض اطوار مجتہدین کی رائے وقیاس کے موافق نہ تھے اس واسطے بعض علماء ظاہر یہ حقیقت کا رواصلی و معاملہ سے ناواقف رہ کر علم اختلاف و نزع بلند کرتے ہیں۔ (ثواقب الآثار فی مناقب قطب المدار صفحه ۴۰)

غرض حضرت سید بدیع الدین شیخ احمد قطب المدار اسی ممتاز گروہ سے تھے اور اس گروہ کے تعلق سے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسرے مکتوب میں اس طرح فرماتے ہیں: یہ لوگ اصحاف کشف و مشاہدہ ہیں اور یہی لوگ تجلیات و ظہورات کے مالک ہیں۔ الہام ان کو ہوتے ہیں اور کلام ان سے ہوتا ہے۔ اکابر حقیقت میں یہی لوگ ہیں۔ یہ علوم و اسرار بلاواسطہ اصل سے اخذ کرتے ہیں اور مجتہدین جس طرح اپنی رائے اور اجتہاد کے پابند ہوتے ہیں ہی لوگ معارف و مواجبہ میں اپنے الہام اور فراست کے تابع ہوتے ہیں۔ پس جائز ہے کہ خواص اہل اللہ اللہ تعالیٰ کے افعال اور ذات وصفات کے معارف میں بعضے اسرار و حقائق معلوم کریں کہ ظاہر شریعت ان معارف سے خاموش ہو اور حرکات و سکنات میں خداوند تعالیٰ کا اذن یا عدم اذن معلوم کر لیں اور خدا تعالیٰ کی مرضی اور عدم کو جان لیں۔

بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات میں بعض نفلی عبادتوں کا ادا کرنا ناپسندیدہ جانتے ہیں اور ان کو ان کے چھوڑ دینے احکم ہوتا ہے۔ (خیال رہے مسئلہ نکاح اس سے مختلف نہیں) اور کبھی وہ سونے کو جاگنے سے بہتر سمجھتے ہیں۔ احکام شرعیہ اوقات پر مقرر ہیں اور احکام الہامیہ ہر وقت ثابت اور چونکہ ان بزرگواروں کی حرکات و سکنات خدا تعالیٰ کے اذن سے وابستہ ہیں۔ تو لازماً دوسروں کے نوافل ان کے فرائض ہیں مثلاً ایک کام ایک آدمی کی نسبت شریعت کا نفلی حکم ہے اور وہی فعل کسی دوسرے کے لئے بطور الہام فرض ہے۔ پس دوسرے کبھی نوافل ادا کرتے ہیں اور کبھی امور مباحہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور یہ بزرگوار چونکہ کام کو خدا تعالیٰ کی اجازت اور حکم سے کرتے ہیں تو وہ سب ان کے لئے فرض ہوتے ہیں۔ دوسروں کے مباح اور مستحب ان کے فرائض ہیں اس لحاظ سے ان بزرگواروں کی بلندی مرتبہ معلوم کرنا چاہئے۔ علماء ظاہر امور دین میں غیبی اخبار کو صرف انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں اور دوسروں کو ان اخبار میں شرکت جائز نہیں سمجھتے۔
اور یہ بات وراثت کے منافی ہے۔ اور بہت سے علوم اور معارف صحیحہ کی نفی ہے جو کہ دین متین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ہاں شرعی احکام ادلہ اربعہ سے وابستہ ہیں کہ الہام کو ان میں کوئی دخل نہیں لیکن امور دینیہ احکام شرعیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں کہ جن میں پانچواں اصل الہام ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ تیسرا الہام ہے۔ کتاب وسنت کے بعد یہ اصل قیامت تک قائم ہے۔ پس دوسروں کو ان بزرگواروں سے کیا نسبت؟ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بعض اوقات میں عبادت کرتے ہیں اور وہ عبادت ناپسند ہوتی ہے۔ اور یہ بزرگوار بعض حالات میں عبادت چھوڑ دیتے ہیں اور وہ چھوڑ دینا پسندیدہ ہوتا ہے۔ تو حق جل وعلا کے نزدیک ان کا ترک دوسروں کے فعل سے بہتر ہے۔
☆☆☆

محقق عصر مولانا مفتی سید منور علی حسینی مداری مکنپور شریف

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *