همارا ملک ہندوستان اگر ایک طرف رہبانیت اور لادینیت کی آماج گاہ ہے تو وہیں دوسری طرف اس کی تاریخ کی پیشانی پر بزرگان دین اور اولیائے کاملین کی کرم فرمائیوں کی ایسی جلوہ گری نظر آتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی ہر دیرینہ اور پارینہ روایات آج تک محفوظ و مامون ہیں۔ اس ملک کے ہر حصۂ ارضی پر خدا رسیدہ بزرگوں اور اولیاء اللہ کی وہ عظیم القدر خدمات خدمات موجود ہیں جن کی وجہ سے یہاں زندگی اور بندگی کی جلوہ گری دکھائی دیتی۔ اس سرسبز و شاداب ملک میں پرندوں کی نغمہ سرائی، درخت پھول اور پھلوں کی دلنواز کیفیات ، آبشار اور جھرنوں کی خوبصورتی، دریا اور پہاڑوں کے قدرتی مناظر یہ سب اگر خالق کائنات کی قدرت کاملہ کا مظہر ہیں تو دوسری طرف بزرگان دین کی خانقاہوں پر لگنے والا انسانوں کا ہجوم اس ملک کی قدیمی روایات اور شان و شوکت میں دو بالگی عطا کرتا ہے۔
ہندوستان کی صنعتی راجدھانی شہر بمبئی جس کو قدیم زمانہ میں کوکن“ کہا جاتا تھا، بزرگان دین کی آمد اور سکونت کا مرکز رہا ہے کیوں کہ عرب کے علائق سے ہندوستان آنے والے لوگ بحری سفر کیلئے بمبئی ہوکر ہی ہندوستان آتے اور یہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں تبلیغ دین متین کے لئے سفر فرماتے تھے۔
بارہویں صدی ہجری کا زمانہ علاقہ کوکن کے لئے ایک نہایت انقلابی دور تھا۔ ایک طرف حکمرانوں کی جنگوں اور نئے نئے فرامین سے لوگ تنگ آچکے تھے دوسری طرف اقتصادی مشکلات کی پریشانیاں دامن گیر تھیں۔ ہر شخص ذہنی سکون اور روحانی تسکین کے لئے اللہ والوں کی چوکھٹ کا متلاشی دکھائی دیتا تھا۔ علاقہ کوکن جہاں راجہ نل کی حکومت تھی اور وہ اپنی رعایا کو سہولتیں فراہم کرنے سے دور رہتا تھا اور ابراہیم عادل شاہ ثانی جو کہ بیجاپور پر حکومت کرتا تھا کوکن کے زرخیز علاقوں میں اپنا قبضہ جمانے اور حکومت قائم کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں تھا۔ اسی زمانے میں اللہ کے ایک برگزیدہ بندے نے اس علاقہ پر اپنے قدم رنجہ فرمادیے تھے۔ اور آنے والے بزرگ کے ساتھ ان کے مریدین و خلفاء میں بھی بڑی بڑی عظیم شخصیات شامل تھیں۔ یہ خدا رسیدہ بزرگ حضرت سید عبد الرحمن عرف حاجی ملنگ تھے جو سلسلہ عالیہ مداریہ کے مشائخ اور خلفائے مداریہ میں بہت بڑے مقام کے حامل ہیں۔
تمام تاریخیں شاہد ہیں کہ حضرت حاجی ملنگ رحمہ اللہ علیہ نے علاقہ کوکن میں دین متین کی خدمات جلیلہ اور سلسلہ عالیہ مداریہ کی تبلیغ واشاعت کے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ صبح قیامت تک قائم و دائم رہیں گے نیز یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حضرت حاجی ملنگ رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین و خلفاء میں ایک نام ایسا بھی شامل ہے جن کے تقویٰ و طہارت، علم و عمل اور اوصاف حمیدہ کی شہرت علاقہ بھر کے لوگوں پر راج کر رہی تھی، یہ صاحب تصوف اور نیک سیرت بزرگ تھے حضرت امان اللہ شاہ عرف حضوری شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت حضوری شاہ رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ سے تشریف لائے تھے۔ جب ہندوستان آئے تو سب سے پہلے کو کن یعنی مہاراشٹر کے علاقہ میں آئے اس وقت یہاں حاجی سید عبد الرحمن عرف حاجی ملنگ کی ولایت کا ڈنکا بج رہا تھا۔ حاجی ملنگ رحمۃ اللہ علیہ کی محفل میں بڑے بڑے جلیل القدر صوفیائے کرام شریک رہتے تھے۔ حضرت حضوری شاہ ایک دن انہیں صوفیائے کرام کے ساتھ حضرت حاجی ملنگ کی محفل میں شریک ہوئے۔
تحریر کیا گیا ہے کہ جیسے ہی حاجی ملنگ کی نظر حضرت حضوری شاہ پر پڑی حضوری شاہ کے دل کی دنیا بدل گئی جو فکر لیکر آئے تھے وہ ایک ہی نظر میں پائے تکمیل کو پہنچ گئی۔ حضرت حاجی ملنگ نے ان کو اپنے پاس بلا کر سلسلۂ عالیہ مداریہ کے نہایت گراں قدر معمولات سے نوازا اور کچھ خاص ہدایات دے کر آپ کی دل بستگی فرمائی۔
حضرت حضوری شاہ کے بے حد اصرار پر حضرت حاجی ملنگ نے ان کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل فرمالیا اور تاحیات فرائض کی پابندی، اسلام کی تبلیغ واشاعت اور سلسلہ عالیہ مداریہ کی خدمات میں لگے رہنے کی تاکید فرما کر تمام تر نعمات باطنی سے سرفراز فرمادیا۔
حضرت حضوری شاہ اپنے مرشد گرامی سے اجازت حاصل کر کے قریب ہی ایک بیابان اور ویران جنگل میں خالق کائنات کی عبادت وریاضت میں مشغول ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ مرشد پاک کی نگاہ کریمانہ سے جلد ہی راہ سلوک کی مناظل کی طرف گامزن ہو گئے۔ جس جنگل میں آپ نے عبادت و ریاضت فرمائی آج وہی جگہ آپ کے ہی نام سے موسوم ہے۔ آپ ہمہ وقت اسی ویران جنگل میں حاضر رہتے تھے آپ کے ایک ہی مقام پر حاضر بنے رہنے کی وجہ سے لوگ آپ کو حضوری شاہ کہہ کر بلانے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ لقب ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت حضوری شاہ جس طرح اپنی ظاہری حیات میں اس ویران جنگل میں حاضر رہا کرتے تھے اسی طرح رحلت فرمانے کے بعد بھی لوگوں نے آپ کو اسی جنگل میں ٹہلتے اور لوگوں کی حاجت روائی کرتے دیکھا۔ بغیر تفریق مذہب وملت لاکھوں بندگان خدا کو حضوری شاہ کے دربار گہربار سے استفادہ ہوا۔ آج بھی لوگ مرادیں لیکر جاتے ہیں اور اس ولی کامل کی بارگاہ سے دامن مراد کو بھر کر لوٹتے ہیں۔
خانقاہ عالیہ مداریہ مکن پور شریف کی قدیم لائبریری میں ایک قلمی نسخہ کتاب جواہر خمسہ، نظر نواز ہوئی اس کتاب کے صفحہ ۵۵ پر حضرت امان اللہ شاہ الملقب حضوری شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ کے تعلق سے ایک نہایت تحقیقی تحریر حاصل ہوئی۔ اس تحریر سے حضرت حضوری شاہ کی حیات، سیرت وسوانح پر مکمل روشنی پڑتی ہے اور ہم کو ایک تاریخی معلومات فراہم ہوتی ہے۔ ہم کتاب جواہر خمسہ ( قلمی نسخہ ) کی تحریر کو انہیں الفاظ کے ساتھ تحریر کر رہے ہیں:
”ذکر حضرت امان اللہ شاہ الملقب حضوری شاہ رحمۃ اللہ علیہ
یہ بزرگ کشف وکرامت میں یکتائے زمانہ تھے، شاہد ہیں کتب ہائے معتبرہ حضرت حضوری شاہ علاقہ کوکن کے قطب ہیں، حضرت عبد الرحمن حاجی ملنگ سے سلسلہ عالیہ مداریہ میں اجازت و خلافت حاصل ہے۔ ایک روز پیرو مرشد نے حکم فرمایا کہ راہ سلوک میں منزل مقصود کے حصول کے لئے حضرت برہان العارفین سیدنا سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہ و ملاقات حضرت سید تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ کرو۔ بعد از لقاء صحبت سید تاج محمود کہ امان اللہ شاہ تم روانگی کرو علاقہ کوکن کے لئے اور تبلیغ اسلام کرو، حق حیات حقیقی ادا کرو، رضا حاصل کرو اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تکمیل کیلئے حضرت حضوری شاہ روانہ ہوئے علاقہ کوکن اور وہاں بنایا اپنا مسکن اور فرمانے لگے تبلیغ اسلام، لاکھوں بندگان خدا مستفیض و مستفید ہوئے۔ ہنوز بعد وفات بھی یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔“
”وصال دوازدہم ۱۱۲۴ھجری جائے مدفن علاقہ کو کن“
ان تاریخی روایات سے حضرت حضوری شاہ کی سیر و سوانح کو روز روشن کی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس بات کو بھی مشہور کیا ہے کہ حضوری شاہ کسی غیر مسلم راجا سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے، اور دلیل کے طور پر بتاتے ہیں کہ حضوری شاہ کے مزار شریف کے آس پاس اور قرب وجوار میں بہت سے شہداء کے مزارات ہیں۔ مگر ان روایات کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہے کیوں کہ کسی تاریخ میپں نپپہیں ہے کہ حضرت حاجی ملنگ یا ان کے مرید و خلفاء نے کسی راجا سے جنگ کی ہو۔ بلکہ ان خدا رسیدہ بزرگوں نے پوری انسانیت کی خدمت میں اپنی زندگیاں گزاردی تھیں۔ اسی لئے شواجی جو مراٹھا راجا کی حیثیت سے حکومت کرتا تھا اس نے بھی ان بزرگوں کے مزارات کے نام جو زمینیں اور جائیداد وقف تھیں ان کو باقی رکھا تھا اور مزارات کی دیکھ بھال کے لئے اپنی رعایا کو تاکید کیا کرتا تھا۔
”تاریخ آج بھی زندہ ہے“
آئیے ہم سے تقریباً 400 برس پہلے شہنشاہ ولایت فرد الافراد قطب الارشاد سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذہب اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کا پرچم لہرا چکے تھے۔ حضور مدار العالمین نے کوکن کے اس علاقہ میں سات مقامات پر چلہ کشی فرمائی تھی۔ قطب المدار کے ان چلوں کو درگاہوں کی شکل میں تشکیل دیا گیا تھا۔ جن میں نل بازار، کلیان، جو گیشوری، ماہم وغیرہ کے چلوں پر قطب المدار کے میلے سیکڑوں برس سے لگتے آرہے ہیں انہیں چلوں میں کلیان میں قطب المدار کا چلہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت حضوری شاہ کی کوکن آمد سے سیکڑوں برس قبل یہاں اسلام کی شمع روشن ہو چکی تھی۔
حضرت حضوری شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ شریف کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ ۱۸۶۷ء تک مہاراشٹر کی جانب سے درگاہ شریف کی صاف صفائی اور نگہداشت کے لئے گرانٹ دی جاتی تھی۔ تاریخی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مظفر شاہی دور میں میمن تیگڑہ کے زما کے زمانہ میں یہ خانقاہ موجود تھی۔ تاریخ کی مشہور کتاب “تاریخ کو کن” میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
حضوری شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک
قلمی نسخہ جواہر خمسہ اور دیگر کتب معتبرہ میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت حضوری شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ۱۲ رجب ۱۱۲۴ھجری کو ہوا تھا۔
حضوری شاہ کا شجرۂ (رشدی) اس طرح سے ہے
شہنشاہ اولیائے کبار سید بدیع الدین قطب المدار
ولی کامل حضور سید جمال الدین جانمن جنتی
حضرت شاہ الہ داد آتشی
حضرت شاه شهباز
حضرت شاہ پیر مائی پو
حضرت حاجی سید عبد الرحمن حاجی ملنگ
حضرت امان اللہ شاہ عرف حضوری شاه
حضور شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات
آپ ایک ایسے خدا رسیدہ بزرگ اور ولی کامل ہیں جو بیابان جنگل میں بھی اللہ کی مخلوق کی خدمات کے گہر اور خزانے لٹاتے رہے اور آپ کی کرم فرمائیوں سے بے آب و گیاہ زمین بھی سر سبز و شاداب بن گئی تھی۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کی خانقاہ کی صفائی میں ہاتھی اور شیر کو بھی خدمت کرتے دیکھا گیا۔ لکھا ہے کہ ہاتھی اور سونڑھ اور شیر اپنی دم سے درگاہ کی صفائی کرتے نظر آتے تھے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ اس جگہ پر ایک نالا تھا بڑا سا، کیوں کہ پہاڑ سے جو پانی بہہ کر آتا تھا اس نے نالے کی شکل اختیار کر رکھی تھی۔ پہاڑ سے آنے والا پانی اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جاتا تھا۔ نالے میں باڑھ آجایا کرتی تھی اور دور دراز تک کے لوگ اس سے اثر انداز ہوتے تھے مگر جب سے حضوری شاہ رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر آرام فرمارہے ہیں آج تک نالے میں باڑھ نہیں آئی ہے۔
آستانہ حضوری شاہ کے خادم اور مجاور خاص جناب محمد انیس صاحب نے بتایا کہ میں برسوں سے اس خانقاہ شریف کی خدمت میں لگا ہوا ہوں، میری آنکھیں روزانہ اس امر کا مشاہدہ کرتی ہیں کہ جو بھی حاجت مند یہاں اپنے دامن کو پھیلاتا ہے اسکو کبھی ناکام ہوکر جاتے نہیں دیکھا۔
از قلم علامہ ڈاکٹر سید مقتدا حسین جعفری مداری مکنپور شریف
اس معلومات پر مبنی ایک ویڈیو بھی نشر کی گئی ہے دیکھئے






