madaarimedia

کیا قربانی کرنا ظلم اور بے رحمی ہے

دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک خدا کے قائل اور دوسرے منکر ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ رحم کیا ہے اور ظلم کسی جانور کا نام ہے۔ وہ قربانی پر اعتراض ہی نہیں کر سکتے۔ ہاں جو لوگ خدا کے قائل ہیں اور کسی نہ کسی مذہب کو مانتے ہیں۔ وہ صرف رحم اور ظلم کے نام کو ہی جانتے ہیں ان دونوں لفظوں کے مفہوم حقیقی سے آشنائے محض ہیں اس ناسمجھی کی وجہ سے وہ قربانی پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسلمان بڑے ظالم ہیں وہ جانوروں کو ذبح کر کے کھا جاتے ہیں اور وہ بڑے ہی بے رحم ہیں جو ہتیا(हत्या) کرتے ہیں۔ اس قسم کے اعتراض کرنے والے لوگ بے چارے کسی حد تک معذور بھی ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ غریب ظلم و رحم کو جانتے ہی نہیں۔

لہذا ان معترضوں کی حالت پہ ہمیں رحم آتا ہے۔ اگر چہ وہ اپنی حالت سے اسلام پر اعتراض کر کے اپنی عقل و سمجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ مگر چونکہ ہمارا کام رحم کرنا ہے۔ اس لئے ہمیں رحم آہی جاتا ہے۔ ایسے معترض غور سے اس اعتراض کا جواب سنیں۔

کیوں صاحب ، کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاہین اور شکرہ وغیرہ پرند جانور کتنے بڑے بے رحم جانور ہیں جو پرندوں کو پکڑ کر کھا جاتے ہیں ذرا بھی ان پر رحم نہیں کرتے اور شیر و چیتے کیسے ظالم کہ جنگل کے جانوروں کو چیر پھاڑ کر بے ڈکار ہضم کر جاتے ہیں؟ صاحب عقل و خرد انسان تو ان جانوروں کو ظالم اور بے رحم کہہ نہیں سکتا۔ ان جانوروں کی غذا خالق ارض و سماء نے گوشت ہی بنائی ہے اور انھیں اوزار بھی ایسے ہی دیئے ہیں وہ اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ دوسرے جانوروں کو چیر پھاڑ کر اپنا پیٹ بھریں اگر جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہوتا تو اللہ تعالیٰ شکاری اور گوشت خور جانوروں کو پیدا ہی نہ کرتا۔ اگر پیدا کیا تھا تو انکا پیٹ بھر نے کیلئے کھیتی باڑی کا انتظام کرتا اگر ہم انکو ذبح نہ کریں تو وہ خود بیمار ہو کر مر جائیں گے۔ اس لئے جانوروں کا ذبح کرنا منشائے ربابی اور اقتضائے فطرت ہے۔

اب ذرا ان رحم رحم پکارنے والوں کے رحم کی حقیقت بھی سن لیجئے۔
اگر یہ ایسے ہی دھرماتما اور جانوروں پر رحم کرنے والے ہیں ، تو ان جانوروں سے ہل کیوں چلواتے ہیں؟ ان پر سواری کیوں کرتے ہیں؟ ان کے بچے باندھ کر خود دودھ مزے سے پیتے ہیں کیوں؟ کیا یہ تمام باتیں بے رحمی کی نہیں ہیں؟

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اشرف کی صحت کیلئے از رل مارا جاتا ہے۔ اگر سر میں جوئیں پڑ جائیں تو محض انسان کی آرام کیلئے ہلاک کر دیئے جاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر ذبح و قربانی پر ہی اعتراض کیوں؟ بس جب ہم قانون الہی میں یہ نظارہ دیکھتے ہیں تو پھر کس کی ہمت و جرات ہے جو ذبح کو منشائے الہی کے خلاف ظاہر کے سکے۔ جب موت ضروری ہے تو ذبح ظلم نہیں سکتا۔ جو لوگ ذبح کو ظلم سمجھتے ہیں وہ عقل و خرد سے بے بہرہ اور قانون الہی سے نا آشنا ہیں؟

قربانی سے جلن کیوں

جب سپین میں چھری اور نیزوں سے ہزاروں بیل ہلاک ہوجاتے ہیں
اور اذیت دیتے ہوئے کہتے ہیں ، “یہ توکھیل ہے!

اور جب ڈنمارک میں ہر سال سینکڑوں افراد ہزاروں ڈالفن کو قتل کردیتے ہیں.
(یہاں تک کہ سمندر کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے) وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ” تہوار ” ہے!

اور جب یہودیوں کا ایک گروہ ہزاروں مرغیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق پتھروں پہ مار دیتے ہیں کہ اس طرح انکے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں “عقیدہ اور مذہب “

اور جب عیسائی پرندوں کو ذبح کرتے ہیں نئے سال کے دن اور اسکو وہ اپنا مقبول کھانا کہتے ہیں

لیکن جب مسلمان اللّٰہ کے حکم کی پاسداری کرتے ہیں حکم کی بجاآوری کرتے ہیں تو کفار اور ان کے پالتوؤں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگ جاتے ہیں جبکہ مسلمان جانور کو ذبح کرتے وقت اتنی احتیاط برتتے ہیں کہ چھری تیز ہو تا کہ جانور کو تکلیف نا ہو ذبح کرنے سے پہلے چارہ کھلاتے ہیں، پانی پلاتے ہیں۔
دوسرے جانور کے سامنے جانور کو ذبح نہی کرتے کہ دوسرا خوف زدہ نا ہو۔

پھر گوشت مساکین میں تقسیم کر دیتے ہیں تا کہ وہ لوگ جو سال سال بھر گوشت نہی کھا سکتے وہ بھی جی بھر کے کھائیں۔

مگر کفار کے ٹکڑوں پر پلنے والے سوشل میڈیا پہ نمودار ہو جاتے ہیں، اسلام اور قربانی کے خلاف اپنی بکواسات شروع کر دیتے ہیں کہ قربانی کے جانور خریدنے سے بہتر ہے کسی غریب کی مدد کی جائے وغیرہ وغیرہ
مگر یہ بات نئی گاڑی خریدتے وقت، نیا موبائل لیتے وقت، میکڈونلڈ پر ہزاروں اڑاتے وقت ان کی زبان پر اور ذہنوں میں نہی آتی۔۔

یاد رکھیں قربانی ہے ہی غریب تک صحت مند جانور کا گوشت پہچانے کا نام۔
اسلام دین حق ہے اور حق سے شیطانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

قربانی کا ثواب

نبی محترمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے دنیا میں خدا کیلئے قربانی کی ہوگی ، جب وہ قبر سے زندہ اٹھے گا تو اپنی قبر کے سامنے اس قربانی کو کھڑا پائیگا۔ اسکے بال سونے کے تاروں ، آنکھیں یا قوت کی اور سینگ خالص سونے کے ہونگے۔ وہ شخص کہے گا تو کون ہے؟ میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ کہے گا میں تیری ہی قربانی ہوں جسکو تو نے دنیا میں خدا کے لیے ذبح کیا تھا، اب تو میری پیٹھ پر سوار ہو جاوہ شخص اس سواری پر سوار ہو جائیگا۔ وہ اسے آسمان و زمین میں لے جا کر عرش کے زیر سایہ کھڑا کر دیگی“

ایک دوسری جگہ فرمایا ”جب بندہ اپنی قربانی زمین پر پچھاڑتا ہے اور ذبح کرتا ہے تو اسکے خون کا پہلا قطرہ اسکے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور اسکے ہر ہر بال کے عوض ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔

لوگو! خبردار ہو جاؤ کہ قربانی آدمی کو نجات دلاتی ہے۔ وہ اپنے صاحب کو دنیا و آخرت میں بڑائی دیتی ہے۔ فخر دو عالم نور مجسم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے، جس نے قربانی کی اس نے گویا اپنے نفس کو دوزخ سے آزاد کیا ، قربانی کا جانور پل صراط پر سے ایسا گزریگا جیسے بجلی چمک گئی۔ مسلمان ہمیشہ عید الاضحی مانتے اور قربانیاں کرتے ہیں مگر اسکی حقیقت اور مقصد کو مد نظر نہیں رکھتے صرف اتنا جانتے ہیں کہ قربانی پل صراط پر سواری کا کام دے گی اور بس یہ ہے انکی قربانیوں کا کائنات وہ اسکے مغز و حقیقت کو جانتے ہی نہیں اور صرف چھ ٹکوں پر قناعت کئے بیٹھے ہیں۔

قربانی خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے کی جاتی ہے اور اس امر میں امت محمدی تمام پہلی امتوں سے سبقت لے گئی ہے یہ قربانیاں جو ہماری روشن شریعت کے ماتحت ہوتی ہیں احاطۂ شمار سے باہر ہیں۔

یہ عظیم البرکات کام ہمارے دین میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے قرب اور اسکی رضاء کے موجب ہوتے ہیں۔ قربانی کے جانور اس سواری کی طرح سمجھے گئے ہیں جو بجلی سے مشابہ ہو اور جن کو بجلی کی چمک سے مماثلت ہو اس مماثلت و تشابہ کی وجہ سے ذبح ہونے والے جانوروں کا نام قربانی رکھا گیا ہے۔

احادیث میں آیا ہے کہ یہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے قرب اور ملاقات کا موجب ہیں۔ مگر اس شخص کیلئے جو اخلاص، خدا پرستی اور ایمانداری سے کرنا ہے۔

قربانی اسلامی عبادتوں میں سے ایک بزرگ ترین عبادت ہے اور اسی لئے قربانی کا نام عربی میں نسکیہ ہے اور نسک کے منعی ہیں اطاعت و فرما برادری کے۔ خدا تعالیٰ کا حقیقی پرستار اور سچا عابد وہی ہے جو اپنی تمام خلاف شرع قوتوں، ناجائز خواہشوں اور خدا سے الگ کرنے والے محبوبوں کو اپنے رب کی رضا جوئی فرمابرداری کیلئے ذبح کر ڈالے۔

یہی قربانی کی روح اور اسکی غرض یہی دل کی بیداری اور جذبہ محبت و اطاعت کی آبیاری و پر روش ہے۔

Leave a Comment

Related Post

Top Categories