اولياء الله سے کرامات کا ظہور، اسلام کی سچی تاریخ ہے۔ شہر کالپی شریف میں سلسلہ عالیہ مداریہ کے ایک عظیم بزرگ ولی کامل حضرت اسمعیل علیہ الرحمہ والرضوان کی کرامت عقیدت مندوں کے لئے ایک زندہ جاوید نشانی بن کر تاریخ کے صفحات پر چمک رہی ہے۔ اور جب تک اس دنیا کا وجود قائم ہے یہ کرامت زندہ رہے گی۔
کالپی شریف سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور موضع مدار پور میں ایک تاریخی شیر کے پتھر کے مجسمے کو چراکر لے جانے والے اس کو غراتا ہوا د یکھ کر اور اس کی بھیانک دہاڑ سن کر ڈر کی وجہ سے بھاگ گئے۔ جس بیل گاڑی پر لا دنا چاہا ٹوٹ گئی اور ٹریکٹر ٹرالی پلٹ گئی۔
اسلام میں مجسموں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ شئے مجسموں کو سمجھا جاتا ہے مگر چونکہ اس شیر کے مجسمے سے ایک ولی کامل کی کرامت کی تاریخ جڑی ہوئی ہے اس لئے لوگ اس کو حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔ شیر کے اس مجسمے کی تاریخ یہ ہے کہ آج سے تقریباً ۴۰۰ (چارسو) سال پہلے موضع مدار پور کالپی شریف کے آس پاس بہت بڑا جنگل تھا، یہ جنگل آج بھی موجود ہے۔ شیر کی دہشت سے قرب وجوار کے لوگ کافی گھبرایا کرتے تھے اور شیر سے بچنے کے لئے طرح طرح کے طریقے اپنایا کرتے تھے مگر شیر کسی نہ کسی کو اپنا شکار بنا ہی لیتا تھا۔
سن ١٠١٨ ہجری کا زمانہ تھا۔ اسی جنگل میں بیابان اور سنسان مقام پر شہنشاہ ولایت حضرت سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چالیس دنوں تک رب کائنات کی عبادت فرمائی اور مخلوق خدا کو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رضائے خالق کائنات کی بیش بہا نعمتوں سے فیضیاب فرمایا تھا۔ عاشقان اہل بیت اور محبان اولیائے کرام نے آپ کی عبادت و ریاضت کی یادوں کو صبح قیامت تک زندہ رکھنے کے لئے وہاں ایک عمارت تعمیر کر دی تھی جس کو قطب المدار کا چلہ شریف کہا جاتا ہے جو آج تک اسی مقام پر موجود ہے۔ جس کا وصف یہ ہے کہ اس مقام پر حضور مدار العالمین کے وسیلے سے جو دعا مانگی جائے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔
اس چلہ شریف پر اللہ کے ایک برگزیدہ بندے ولی کامل عارف باللہ جناب محمد اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ اللہ کی عبادت و ریاضت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ جنگل ہو یا بیابان اللہ سے محبت کرنے والے نہیں ڈرتے نہیں ہیں۔ ایک دن حضرت محمد اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ مسواک فرمارہے تھے کہ وہی آدم خور شیر سامنے آگیا آپ نے وہی مسواک پھینک کر اس کے مار دیا۔ اللہ کی مرضی اور مصلحت دیکھو کہ شیر اسی وقت پتھر کا ہو گیا۔ تب سے ہی شیر کا یہ مجسمہ چلہ شریف کے پھاٹک پر رکھا ہوا ہے۔ چلہ شریف کے تعلق سے “آئینہ کالی” کے مصنف جناب شبیر احمد انصاری صاحب نے تفصیل کے ساتھ صفحہ نمبر ۱۲۴ پر تحریر فرمایا ہے کہ یہ خوبصورت اور مضبوط عمارت ہے ، اس چلہ پر بھی دوسری مداری خانقاہوں کی طرح سال میں دوبار میلہ لگتا ہے ایک تو چی کے موقع پر اور دوسرا میلہ ۱۷ جمادی الاول کو حضور مدار پاک کے عرس کے تعلق سے، ان دونوں میلوں میں ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ کتاب آئینہ کالپی ایک مضبوط اور مستحکم تاریخی دستاویز ہے جس میں کالپی شریف کے بزرگوں کا ذکر ملتا ہے۔
آئینہ کالپی“ کے مصنف نے اس پتھر کے شیر کے مجسمے کے تعلق سے ایک شیر کی تاریخ کا مصرعہ بھی لکھا ہے جو مجسمے کے
منھ کے سامنے ایک پتھر پر کندہ ہے
کشته شد شیر زبان را اسمعیل تا بر دانگیش به پندیراند ے تاریخ بمن ہالف گفت آنچنان مرد که مردان میزنند
سب سے پہلے 1983ء میں ایس ڈی ایم SDM کالپی شری شنکر اگر وال اس مجسمے پر فدا ہو کر اس کو تحصیل اٹھوالے گئے تھے۔ ایک رات شیر تیزی سے دہاڑ نے لگا تو پہرے دار ڈر کی وجہ سے بھاگ گیا اور نوکری بھی چھوڑ دی۔ تب ایس ڈی ایم کالپی نے اس شیر کے مجسمے کو دوبارہ اس جگہ رکھوا دیا۔
15 جنوری 1987ء کی رات میں کچھ چوروں نے اس مجسمے کو باندھ کر گھسیٹا وہ اتنا بھاری ہو گیا کہ وہ اسے اٹھا کر نیچے نہ لا سکے۔ پھر اس کو بیل گاڑی پر رکھا تو گاڑی ٹوٹ گئی پھر اس کے بعد ایک ٹریکٹر ٹرالی لائے جن کا نمبر تھا 5810 UTW اس پر لاد کر لے جانے لگے تو کچھ دیر شیر کے غرانے کی آواز آنے لگی چور گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں ٹرالی پلٹ گئی۔ چور ٹرالی چھوڑ کر بھاگ گئے ٹرالی پر چوہان کرشی فارم لکھا ہوا تھا۔ پتھر کا مجسمہ سات فٹ لمبا د وفٹ اونچا اور سرخ پتھر کا ہے۔
مجتمے کی اپنی کوئی حقیقت نہیں مگر ایک ولی کامل کی کرامت کا اثر دیکھو کہ نہ جانے کتنے لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے کہ اسلام ایک سچا اور محکم مذہب ہے۔
☆☆☆
تحریر : مولانا سید مقتدا حسین جعفری مداری مکنپور شریف
اس کرامت پر مبنی ایک ویڈیو بھی نشر کی گئی ہے دیکھئے






