بانئ سلسلہ رشیدیہ حضرت مخدوم محمد عبد الرشید دیوان مداری علیہ الرحمہ
ولادت 1000ھ ۔۔۔۔۔ وفات 1083ھ
حالات و خدمات
جونپور جو اپنی تعمیر و تاسئں کے ابتدائ ایام ہی سے علم و عرفان کا گہوارہ رہا ہے اور سلاطین شرقیہ جونپور کے عہد میں علماء صوفیہ فقہاء محدثین کی اتنی بڑی تعداد یہاں آباد ہوئ اور یہ شہر ظاہری اور باطنی علوم و معارف کا اتنا عظیم مرکز بن گیا کہ اسے بجا طور پر شیراز ہند کہا جانے لگا یہ شہر اور اس کے اطراف علماء فضلاء و مشایخ و صوفیہ کی پاکیزہ و مقدس جماعت سے معمور رہا.
انہیں برگزیدہ ہستیوں میں صاحب مناظرہ رشیدیہ قطب وقت حضرت مخدوم عبد الرشید دیوان مداری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی بھی ہے۔
نام و نسب و پیدائش
آپکا نام محمد عبد الرشید ہے اور لقب شمس الحق و فیاض اور دیوان ہے
والد کا نام محمد مصطفےٰ اور دادا کا نام عبد المجید ہے آپ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی نسل سے ہیں 18 واسطوں سے آپ کا نسب شیخ کبیر سری سقطی سے ملتا ہے۔
آپکو دیوان کہنے کی وجہ
آپ دیوان لقب سے اسلئے مشہور ہوئے کہ آپ سلسلہ بدیعہ مداریہ کی مشہور شاخ دیوانگان سے تعلق رکھتے ہیں آپ سر گروہ دیوان گان سید جمال الدین جان من جنتی کے خلیفہ کے خلیفہ سے ماذون و مجاز ہیں اور سلسلہ مداریہ میں خلیفہ قطب المدار حضرت سید جمال الدین جان من جنتی سے جو گروہ جاری ہے اسے دیوان گان سے موسوم کیا جاتا ہے اور اس سلسلہ کے لوگ دیوان کہلاتے ہیں .آپکا تعلق بھی چونکہ دیوانگان مداریہ سے ہے اس لئے آپکو بھی دیوان سے موسوم و ملقب کیا جاتا ہے۔
چنانچہ آپکا شجرہ دیوانگان مداریہ یوں ہے
حضرت خواجہ محمد عبد الرشید دیوان قدس سرہ کو اجازت و خلافت حاصل ہے . .حضرت خواجہ محمد تقی قدس سرہ سے انکو حضرت سید شمس الدین محمد الحسینی البخاری سے انکو حضرت خواجہ ابایزید قدس سرہ سے انکو حضرت شاہ فخر الدین زندہ دل قدس سرہ سے انکو حضرت سیدنا جمال الدین جان من جنتی قدس سرہ سے اور وہ خلیفہ اجل کامل الاکمل ہیں حضور سیدنا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کے ( تذ کرۃ المتقین ج. 2 ص 104)۔
اور دوسرا شجرہ مداریہ
حضرت خواجہ عبد الرشید دیوان قدس سرہ کو اجازت و خلافت حاصل ہے حضرت خواجہ عبد القدوس بن عبد السلام جونپوری سے انکو حضرت خواجہ حاجی بڈھن ابو الفتح سرمست سے انکو حضرت شیخ علاءالدین قاضن سے انکو حسام الدین سلامتی جونپوری سے جوخلیفہ ہیں سرکار مدار العالمین رضی اللہ عنہ کے(الرشیدیہ مطبوعہ مجلس برکات مبارک پور ص 10 )۔
نوٹ
حضرت خواجہ حاجی بڈھن ابو الفتح سر مست کو قطب الدین بینائے دل قلندر سے بھی خلافت حاصل ہے اور انکو حضرت سیدنا جمال الدین جان من جنتی رضی اللہ عنہ سے تو اس سلسلے سے بھی آپ دیوان ہوئے۔ چنانچہ آپکو تینتو واسطوں سے سلسلہ مداریہ حاصل ہے جس میں دو طرح سے آپ سلسلہ دیوان گان مداریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور اسی طرح جو بھی بزرگ اس سلسلے میں داخل ہوتا ہے تو اسکو دیوان ہی کہا جاتا ہے اسی لحاظ سے آپکو بھی دیوان کہا جاتا ہے۔
تعلیم وہ تربیت
آپنے ابتدائ تعلیم اپنے وطن عزیز برونہ میں حضرت مولانا شمس نور برنوی علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو شاہ زادہ پرویز کی اتالقی کے لئے الہٰ آباد چلے گئے تو انہوں نے جونپور جاکر اپنے وقت کے عظیم اساتذہ اور با کمال علماء کے سامنے زانوے ادب طئے کئے اور علوم ظاہری میں مرتبہ کمال حاصل کیا۔
اساتذہ کرام کے اسماء گرامی
آپنے جن اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل فرمائ وہ اپنے وقت کے مشاہیر علماء میں سے تھے.
جنکے اسماء گرامی یہ ہیں.
1مخدوم عالم سدھوی
2شیخ قاسم
3شیخ مبارک مرتضیٰ
4 شیخ نور محمد مداری
5شیخ محئ الدین
6شیخ عبد الغفور
7شیخ حبیب اسحاق
8شیخ جمال کوڑوی
9 مولانا احمد لاہوری
10سیدی عبد العزیز تبتی
11شیخ عبد اللہ شفیق
12مفتی شمس الدین برنوی رحمہم اللہ تعالی اجمعین.
آپنے صرف نحو .معقولات فقہ اصول فقہ عقاید و کلام معقولات کی کتابیں مذکورہ بالا علماء سے پڑھیں.
اور پھر دہلی جاکر شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے مصابیح اور بخاری شریف پڑھکر سند حاصل فرمائ (تذکرہ مشائخ عظام ص 418 و الرشیدیہ مطبوعہ مبارک پور ص 9)
سلوک و معرفت
علوم ظاہری میں تو آپ کا مقام بلند تھا ہی جس کا انداذہ آپکی تصنیفات سے لگا یا جا سکتا ہے اور جسطرح جس فیاضی کے ساتھ علم کی لازوال دولت سے طالبان علوم و معارف کے خالی دامنوں کو بھرا .
لیکن روز ازل سے ہی آپکی قسمت میں دولت باطنی لکھی تھی آپ نے کشش و جذب الٰہی میں سب کچھ ترک کرکے پہلے اپنے والد بزرگوار سے مرید ہوے جو ایک واسطے سے حضرت نظام الدین امیٹھوی سے بیعت تھے اور آپنے اپنے والد سے ہی کسب علوم باطنی میں بڑی ریاضت شاقہ برداشت کی ہے .
پھر اسکے بعد حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی علیہ الرحمہ سے ارادت دلی پیدا ہوئ .
اور آپکی ذات بابرکات سے بہت فیض حاصل فرمایا. اور روحانیت و سلوک کے مقامات و مدارج طے کرنے لگے
ایک بار قطب السالکین حضرت طیب بنارسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اللہ 1042ھ میں جونپور تشریف لائے جہاں حضرت دیوان محمد عبد الرشید نے قطب بنارسی کی زیارت کا شرف حاصل فرمایا کچھ دنوں کے بعد آپ مڑواڈ یہہ بنارس گئے جہاں حضرت طیب بنارسی کی خدمت عالی میں دوبارہ حاضری کا موقع ہاتھ آیا۔ اور مخدوم صاحب کی عزت و ارادت کی وہ شمع جو جونپور میں فروزاں ہوئ تھی یہاں اسکی لو روز بروز بڑھتی گئ اور آپ مخدوم صاحب کے والہ و شیدا بن گئے .
ایک مرتبہ رمضان شریف میں مخدوم دیوان صاحب مڑواڈ یہہ آے تو حضرت مخدوم بنارسی کے حکم پر رمضان شریف کے آخری عشرہ میں معتکف ہو گئے اعتکاف کے دوران آپ نے روحانیت کے عجیب و غریب کرشمے دیکھے جب عید کا دن آیا اور کافی اصحاب ارادت حضرت مخدوم بنارسی کی خدمت میں حاضر ہوے تو اس مبارک موقع پر حضرت مخدوم بنارسی نے ارادت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور سلسلہ مداریہ چشتیہ قادریہ سہروردیہ کی اجازت عطا فرمائ
اسی طرح دوسرے سلاسل طریقت کے بزرگوں کی خدمت میں بھی بڑے ذوق و شوق سے حاضری دی اور ان سے انکے سلسلوں کے اورادو اشغال کی تعلیم حاصل کی نیز خلافت و اجازت بھی پائ. جسمیں
1حضرت سید شمس الدین محمد بن ابراہیم حسنی الحسینی قادری کالپوی سے۔ سلسلہ قادریہ میں
2سید احمد حلییم حسینی مانکپوری سے۔ سلسلہ چشتیہ و سہروردیہ میں
3شیخ عبد القدوس بن عبد السلام جونپوری سے سلسلہ مداریہ قلندریہ و فردوسیہ میں اجازت و خلافت حاصل کی
فضائل و اخلاق
حضرت محمد رشید دیوان جی علیہ الرحمہ علم ظاہری و باطنی کا منبع اور سر چشمہ تھے. خلوص و للٰہیت ‘ ایثارو فقر.تواضع قناعت جود و سخا بیکس نوازی. خشیئت الٰہی جذبہ اطاعت و بندگی آپکی کتاب زندگی کے درخشندہ نقوش تھے .
حضرت مخدوم محمد عبد الرشید دیوان جی نے اپنے وقت کے تمام اہل سلاسل سے تصوف و سلوک کی اجازت و خلافت اور انکے برکات و حسنات حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس تخفیف کر کے گوشہ تنہائ اختیار فرمایا. اور پورے ذوق و انہماک کے ساتھ عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے
جونپور میں ایک خانقاہ و مسجد تعمیر کرائ اور طالبان حق کی تشنگی مٹانے کیلئے تزکیئہ نفس میں مصروف ہوگئے.اور کسی امراء و سلاطین کے دربار یا ان سے کسی بھی طرح کے تعلقات کو نا پسند فرماتے تھے.
صاحب مآثرالکرام تحریر فرماتے ہیں۔
کہ صاحب قرآن شاہجہاں بادشاہ نے آپکے اوصاف قدسیہ کا حال سنکر ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور طلب مصحوب کا منشور ایک ادب شناس ملازم شاہی کی معرفت شیخ صاحب کے پاس بھیجا تو شیخ صاحب نے انکار کردیا اور گوشہ تنہائ سے قدم باہر نہ نکالا لیکن جہاں آپکی زندگی اہل باطن کے لیئے چشمہ ہدایت ہے وہیں دوسری طرف اہل ظاہر اور علماے ظاہر کے لیئے بھی نمونہ عمل ہے جسکا اندازہ آپکی علمی خدمات سے لگایا جا سکتا
آپنے اپنے علم کی لازوال دولت سے جو گوہر نایاب امت کو بخشے ہیں اور اپنی بیش بہا معلومات کو صفحہ قرطاس پر مرقوم فرمایا ہے اس سے آپکی عبقری شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
آپکی تصانیف
1 مناظرہ رشیدیہ .جو آج بھی درس نظامی میں شامل ہے اور اپنے وقت کی جامع اور معتبر کتاب ہے)
2 شرح ہدایۃ الحکمہ
3 علامہ ابن عربی
4 خلاصۃ النحو(عربی)
5 زاد السالکین(فارسی)
6 مقصود الطالبین(فارسی)
7 گنج ارشدی ملفوظات مرتب مودود محمد حسین جونپوری
8! دیوان شعر فارسی
9 حاشیہ شرح مختصر عضدی
10 حاشیہ کافیہ
شاعری
حضرت مخدوم دیوان صاحب علیہ الرحمہ متبحر عالم دین اور با کمال صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے اور آپکا تخلص شمسی تھا
وصال
شیخ صاحب کی عمر کا پیمانہ جب لبریز ہونے لگا توکمزوری اور بیماری بھی دامن گیر ہوئ علاج ہوا لیکن افاقہ نہ ہوا جسمانی ضعف بڑھتا گیا لیکن جہاں ایسی حالت میں بھی معمولات طاعت و عبادت میں کوئ فرق نہیں آیا۔ 9 رمضان المبارک 1083ھ مطابق 1672ء بروز جمعہ فجر کی سنت ادا فرمائ فرض کی ادائگی کے لیئے تکبیر تحریمہ کہی اور ہاتھ باندھا حالت قیام میں تھے کہ پیام اجل نے مژدہ وصال سنایا اور قیام کی حالت میں روح قفس عنصری سے پرواز کر گئ(انا لللہ و انا الیہ راجعون)
نماز جنازہ آپکے شاگرد رشید اور مرید سعید حضرت سید محمد ماہ دیوگامی علیہ الرحمہ نے پڑھائ. اور جونپور میں جسد مبارک رشید آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا
تمت بالخیر
ماخذ مضامین
1تاریخ سلاطین شرقیہ و صوفیہ جونپور
2ماء ثرالکرام
3 تذکرہ مشایخ عظام
4 سمات الاخیار
5 الرشیدیہ مطبوعہ مبارک پور وغیرہ
مضمون نگاری میں غلطی ہو گئ ہو تو معزرت خواں ہوں
فقط – سید منصف جعفری مداری