مسلسل و متواتر مختلف عناوین پر مضامین قارئین رسالہ رہبر نور کی خدمت میں حاضر کرتا رہتا ہوں اس مرتبہ قرآن وحدیث اور مقام علی رضی اللہ عنہ آپ سبھی حضرات پڑھیں گے دلوں کو سکون اور ہر ایک محب اہلبیت کو خوشی حاصل ہوگی۔
دیکھ رہا ہوں خارجیت پھر سر اٹھانے لگی ہے اس کا فتنہ اسلام میں داخل ہونے لگا خارجیت نے کئی روپ میں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے کچھ چھپے خارجی اور کھلے خارجی اسلام اور سنی مسلمانوں کیلئے کھلا چیلنج بن گئے ہیں۔
کچھ تو مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی آپ کے نسب پر حملہ کبھی آپ کی شان میں وارد احادیث کو ضعیف اور موضوع بتانے میں پوری قوت صرف کرتے ہیں آپکی ولادت کعبہ پر بحث و مباحثہ کا بازار گرم کرتے ہیں کبھی تعزیہ داری کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں اور کبھی جلوس حسینی پر پابندی عائد کرتے ہیں حرام حرام کی رٹ لگاتے ہیں با قاعدہ منظم ہو کر خارجیت ایک بار پھر کھل کر عظمت اسلام اور شوکت قرآن پر حملہ آور ہو گئی ہے لیکن جب جب یزیدیت خارجیت بولہبیت نے اہل بیت اور قرآن کےخلاف سر اٹھایا ہے تو جاں نثاران اہل بیت اور عاشقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حملوں کا بھر پور جواب دیا ہے اور ان کے حوصلوں اور عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے آج بھی ہم غلامان اہلبیت ایسے یزیدی فتنوں کا جواب دینے کیلئے بہت کافی ہیں انشاء اللہ یزیدیت خارجیت شرمسار سرنگوں ہوگی ۔ حسینیت اور حق کا پرچم بلند ہو گا یزیدیت بے نقاب ہوگی اس کا اصل چہرہ دنیا دیکھ لے گی اب وہ زیادہ دن نہ چھپ سکیں گے اہل خانقاہ سادات کرام اور ان کے وفادار میدان میں اتر پڑے ہیں۔ اسی لئے میں نے قرآن وحدیث اور مقام علی رضی اللہ عنہ کو موضوع بنایا ہے کتاب اللہ اور احادیث کریمہ ہماری آخری دلیل ہے اس سے ہٹ کر جو بات کرے اور ان دلائل کا انکار کر ہے وہ خود کو مسلمان کہلانے کا حق نہیں رکھتا ہے
دریدہ دہن خارجیوں آؤ آنکھیں کھولو دیکھو قرآن مقدس کی وہ آیتیں جن میں مولائے کائنات کی عظمت اور واقعات کی طرف اشارہ ہے مستند مفسرین قرآن کی تفسیروں کے حوالوں سے مقام مولا علی رضی اللہ عنہ کا مقام اور آپ کی عظمت پیش کرتا ہوں ایک دو نہیں کثیر آیات قرآنی علی کی شان میں پیش کر سکتا ہوں لیکن مضمون کی طوالت کی بنیاد پر کچھ ہی آیات پر اکتفا کرتا ہوں یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ جس قدر قرآنی آیتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں کسی اور کی شان میں نازل نہیں ہوئی ہیں۔
الصواعق المحرقة ابن عساکر نے ابن عباس کی ایک روایت بھی بیان کی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں ایکسو تین آیتیں نازل ہوئی ہیں اور مجاہد نے ایسی روایات کی تعداد ستر بیان کی ہے ( ابو بکر بن مردویہ ) اور حضرت مولانا عبید اللہ امرتسری نے اپنی کتاب میں ستاسی آیات درج کی ہیں اور مختلف اہل علم کے حوالوں سے ان کی سند پیش کی ہے مذکورہ کتاب سے بعض آیات پیش کرتا ہوں
آیت کریمہ (1): إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهَ لِيَذْهَبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (سوره احزاب)
ترجمہ: بیشک صرف اللہ یہ چاہتا ہے کہ اہل بیت تم سے نجاست کو دور فرمادے اور تمہاری خوب خوب طہارت فرمادے۔
اس آیت مبارکہ میں اہل بیت سے مراد حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حضرت امام حسن اور امام حسین ہیں۔ اس کی تصدیق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث سے ہوتی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت ایک سیاہ بالوں کی گلیم منقش اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے پھر امام حسن آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس میں داخل کر لیا پھر امام حسین آئے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داخل کر لیا پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی داخل کر لیا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی گلیم میں داخل فرمالیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی (احمد مسلم، ترمذی ابن جریر حاکم ابن ابی حاتم سیوطی )
حضرت عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں نازل ہوئی میں بھی انہیں کے گھر میں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ اور علی اور حسنین کو بلواکر ان پر چادر ڈالدی پھر دعا کی اے میرے پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے نجاست دور کر اور پاک کر ان کو خوب پاک کر ام سلمی نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں آپ نے فرمایا تو اپنی جگہ پر ہے۔ اور تو بھی نیکی پر ہے۔ (احمد، ترمذی ابن جریر ابن مرد و یه سیوطی )
آیت (۲) : فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائِنَا وَأَبْنَائِكُمْ وَنِسَائِنَا وَنِسَاءَ كُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلُ فَنَجْعَلْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.
ترجمہ: کہئے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان جھگڑنے والوں سے آؤ بلائیں ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اپنی عورتوں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جان اور تمہاری جان کو پھر دعا کریں اللہ سے پھر لعنت کریں جھوٹوں پر۔
اس ضمن میں حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ نصاری نجرات کے کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہنے لگے کہ آپ ہمارے صاحب کے بارے میں کیا کہتے ہیں آپ نے فرمایا وہ کون ہیں وہ بولے حضرت عیسیٰ جن کو آپ خیال کرتے ہیں کہ وہ خدا کا بندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرا یہ خیال درست ہے پھر وہ کہنے لگا آپ حضرت عیسی جیسا کوئی خدا کا بندہ دکھا ئیں یا آپ کو ان جیسے کی خبر لگی ہو تو ہمیں دکھا ئیں بتا ئیں یہ کہہ کر وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے ۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وہ لوگ آئیں آپ ان سے کہہ دیں کہ خدا کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام بعینہ حضرت آدم کی طرح سے ہیں
ایک روایت میں اس طرح ہے کہ نجران کے لوگوں میں سے ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے ان کا کوئی باپ نہیں ہے اس کے ساتھ والے دوسرے نے کہا بلکہ وہ خود خدا تھے مردے زندہ کیا کرتے تھے اور غیب کی باتیں بیان کرتے تھے اندھے کو کوڑھی کو اچھا کر دیتے تھے اور مٹی سے جانور بناتے تھے آپ ان کو خدا کا بندہ کہتے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاری کے گروہ سے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اسلام کے خلاف ہو تو خدائے تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم سے مباہلہ کروں پھر ان لوگوں نے دوسرے روز پر وعدہ کیا جب صبح ہوئی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور حسنین اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ساتھ لیکر تشریف لائے اسقف نے ان سے کہا واللہ میں ایسے چہرے دیکھتا ہوں کہ اگر خدا سے یہ دعا مانگیں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو خدائے تعالیٰ اسے بھی اپنی جگہ سے ہٹا دے گا تم ان سے مباہلہ مت کرو ورنہ زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا پھر اسقف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کرنے لگا ہم آپ سے مباہلہ نہیں کر سکتے ہیں۔
آیت (۳): قُلْ لا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُربى.(سوره شوری)
ترجمہ: کہہ دیجئے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم سے اس ہدایت کے بدلے تم سے کچھ طلب نہیں کرتا ہوں صرف اپنی اہل بیت کی محبت چاہتا ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا کہ جن لوگوں کے بارے میں ہمیں محبت کیلئے اللہ تعالیٰنے حکم دیا ہے وہ کون لوگ ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادہ علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ہیں۔ (احمد ابن ابی حاتم بغوی حاکم دیلمی طبری)
آیت (۴): وَتَوَا صَوْا بِا الصَّبْرِ.(صورة والعصر)
ترجمہ: اور آپس میں وصیت کرتے ہیں صبر کی ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔
آیت (۵): مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانَا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمُ مِنْ أَثْرِ السُّجُودِ ذالِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوَارَةِ وَالْإِنْجِيلِ.
حضرت امام موسیٰ کاظم اپنے آباء کرام سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت امیر کی شان میں نازل ہوئی۔ (ابن مردویه )
آیت (۶) کفی باللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَه عَلْمُ الْكِتَابِ(سوره رعد)
ترجمہ: کافی ہے اللہ تعالیٰ میرے لیے اور تمہارے درمیان اور جسے خبر ہے کتاب۔
محمد بن حنفیہ سے روایت ہے کہ اس آیت میں وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ( حافظ ابونعیم ثعلبی اور نظیری)
آیت (۷) : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينِ (سوره انفال)
ترجمہ: اے نبی کافی ہے تجھے اللہ اور وہ جو تمہارے ساتھی ہوئے مؤمنین میں سے۔
حضرت محمد باقر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہیہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ( نظیری)
وہ چند آیات مبارکہ جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کل ثابت ہوتی ہے قرآن مقدس کی ان آیات کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے بارگاہ خداوندی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا قدرو منزلت ہے اس کا صحیح اندازہ ہو جانا چاہئے ۔ ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن مقدس کی آیات کے بعد وہ احادیث پاک تحریر کردوں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب اور فضائل کا ذکر ہے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور علی ہر مؤمن کا دوست اور مددگار ہے (ترندی)
حضرت ابن بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ رکھا تھا کہ آپ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ تو میرے پاس اس شخص کو بھیج دے جو تجھ کو اپنی مخلوقات میں بہت پیارا ہوتا کہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کو کھائے اس دُعا کے بعد آپ کی خدمت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور آپ کے ساتھ اس پرند کا گوشت کو کھایا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ طائف کے دن رسول اللہ (ترندی یہ حدیث غریب ہے )
صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو بلا کر ان سے سرگوشی خفیہ طور سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کہیں جب ان باتوں میں کچھ دیر ہو گئی تو لوگوں نے کہا رسول اللہ نے اپنے چچا کے بیٹے سے دیر تک باتیں سرگوشی کی رسول اللہ نے یہ سن کر فرمایا میں نے سرگوشی نہیں کی خدا نے ان سے سرگوشی کی ہے۔ (ترندی)
ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا میرے اور تیرے سواکسی شخص کو یہ جائز نہیں کہ وہ جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں اس مسجد کے اندر آئے علی بن منذر کہتے ہیں میں نے ضرور بن مرد سے پوچھا اس حدیث کا کیا مطلب ہے انہوں نے کہا یہ معنیٰ ہے میرے اور تیرے سوا کسی کو حالت جنابت میں اس مسجد سے گزرنا جائز نہیں۔ (ترندی یہ حدیث حسن اور غریب ہے )
اسلام کا مخالف گروہ خارجی
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم مقام جعرانہ میں تھے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ آپ کی خدمت میں قبیلہ بنو تمیم کا ایک شخص جس کا نام ذوالخویصرہ تھا حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ عدل و انصاف سے کام لیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس ہے تجھ پر میں انصاف نہ کروں گا تو کون کرے گا یعنی میں بے انصافی کروں گا تو انصاف کون کرے گا بے شک تو نا امید رہا اور ٹوٹے میں رہا اگر میں انصاف نہ کروں حضرت عمر نے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑادوں آپ نے فرمایا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو اس لئے کہ اس شخص کے کچھ لوگ تابعدار ہوں گے اور تم ان کی نمازوں سے اپنی نمازوں کو اوران کے روزوں سے اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے اس لئے کہ وہ ریا کار اور طالب شہرت ہوں گے اور دکھاوے کیلئے اچھی نماز پڑھیں گے اور روزے رکھیں گے۔ یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یعنی دل پر اس کا اثر نہیں ہوگا یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکاری کے ہاتھ سے چھوٹ کر شکار میں سے گزر جاتا ہے جب تیر شکار کے جسم سے گزر جائے اور باہر آجائے تو اس کے بیکان سے پر تک صاف ہوتا ہے اور کوئی چیز اس کے حصہ میں نظر نہیں آتی حالانکہ وہ نجاست اور خون سے نکل کر آتا ہے یعنی یہ لوگ اس طرح دین سے نکل جائیں گے اور ان سے اسلام کی ایک بات بھی باقی نہ رہے گی جس طرح اس تیر میں کچھ لگا نہیں ہوتا جو شکار کے اندر سے گزرجاتا ہے۔
علی سے منافق محبت نہیں رکھتا
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی سے منافق محبت نہیں کرتے اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتے۔ (ترندی)
علی کو برا کہنے والا
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے علی کو برا کہا گویا مجھ کو برا کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا
حضرت براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہا کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب غدیر خم میں قیام پذیر ہوئے غدیر خم ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ اور مکہ کے درمیان واقع ہے تو علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کیا تم کو یہ معلوم ہے کہ مومنوں کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز اور بہتر ہوں لوگوں نے عرض کیا ہاں پھر آپ نے فرمایا کیا تم کو یہ معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کے اس کی جان سے زیادہ عزیز اور پیارا ہوں لوگوں نے عرض کیا ہاں پھر آپ نے فرمایا جس شخص کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا اے اللہ تو اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس شخص کو اپنا دشمن جان جو علی کو دشمن سمجھے۔ اس واقعہ کے بعد علی نے حضرت عمر سے ملاقات کی عمر نے ان سے کہا ابو طالب کے بیٹے خوش رہو صبح و شام ہر وقت ہر مومن مرد و عورت کے دوست اور محبوب ہو۔
مسجد میں علی کا دروازہ
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے اندر تمام لوگوں کے گھروں کے تمام دروازوں کو بند کرا دیا مگر علی کا دروازہ مسجد کی طرف باقی رکھا۔ (ترندی)
عادات و اخلاق
حضرت مولی علی رضی اللہ عنہ نے ایام طفولیت ہی سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن عاطفت میں تربیت پائی اس لئے محاسن اخلاق اور حسن تربیت کے نمونہ تھے۔ نہ آپ کی زبان مبارک کبھی کسی فحش کلمہ سے آلودہ ہوئی اور نہ پیشانی کبھی غیر خدا کے سامنے جھکی جاہلیت کے زمانہ میں بھی ہر قسم کے گناہ سے پاک وصاف رہے۔ آپ امین صادق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے اس لئے ابتداء ہی سے امین دیانت دار تھے۔ عدل و انصاف کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا مال غنیمت تقسیم کرتے تو بڑی احتیاط سے قرعہ ڈالتے نا جائز بات میں کبھی اپنے قریب ترین عزیز کی بھی حمایت نہ کرتے امارت کے زمانہ میں بھی اپنا سارا کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے گویا دنیاوی دولت سے تہی دامن تھے مگر دل غنی تھا۔ سائل کو کبھی خالی نہ جانے دیا تواضع آپ کی دستار فضیلت کا سب سے خوش نما طرہ تھا اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنے میں کوئی عار نہ تھی بہت بڑے مرد میدان بہادر تھے۔
آپ کی زندگی کا اکثر حصہ مخالفین کے ساتھ معرکہ آرائی میں گزرا آپ کی اصابت رائے پر عہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی اعتبار کیا جاتا تھا اسی لئے تمام اسلامی مہمات آپ ہی کے مشورہ سے انجام پائیں سب کے ساتھ بڑے لطف وکرم سے پیش آتے غرض اخلاق و عادات اور گفتار و رفتار و کردار کے لحاظ سے ایک سچے مسلمان اسلام کے صحیح نمونہ اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔
ایک دفعہ جنگ کے موقع پر ایک دشمن نے آپ سے عرض کیا یا علی اپنی تلوار مجھے دکھا دیجئے آپ نے تلوار اسے دیدی وہ تلوار لیکر کہنے لگا آپ نہتے ہیں اب مجھ سے کس طرح بچ سکتے ہیں آپ مطلق ہراساں نہ ہوئے بلکہ فرمایا جب تو نے بھیک مانگنے والے کی طرح دست سوال دراز کیا تو میری مروت نے تقاضا کیا کہ اگرچہ دشمن سوال کر رہا ہے اور لڑائی کا وقت بھی ہے مگر سائل کے سوال کو رد نہ کیا جائے چنانچہ میں نے تیرا سوال پورا کر دیا اب تیرا جوجی چاہے کر دشمن حضرت علی کا یہ سلوک دیکھ کر دنگ رہ گیا اور ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام لے آیا۔
امیر المؤمنین کا خطاب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز مجھ سے فرمایا کہ اے انس جو شخص سب سے پہلے میرے پاس آئے گا وہ مومنوں کا امیر ہوگا اور مسلمانوں کا سردار ہوگا اور وصیوں کا خاتم ہوگا اور سفید ہاتھ اور سفید منھ والوں کا پیشوا ہوگا ناگاہ حضرت امیر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے میں نے عرض کیا یہ علی ہے آپ نے فرمایا دروازہ کھول دو میں نے دروازہ کھول دیا حضرت امیر حضور کے پاس تشریف لائے۔
تقوی
تقوی میں آپ کی افضلیت کا اندازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے کیا جاسکتا ہے جو بیہقی نے اپنی اسناد کے ساتھ روایت کی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص حضرت آدم کو ان کے علم کے ساتھ حضرت موسیٰ کو ان کی ہیبت کے ساتھ اور حضرت عیسیٰ کو ان کی عبادت کے ساتھ دیکھنے کی آرزو رکھتا ہو وہ علی بن ابی طالب کو دیکھ لے۔
حضرت سلمان فارسی حضرت ابوذرغفاری اور حضرت ابوالدرداء وہ معزز اور مقتدر صحابہ کرام ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زہد و ورع کے لحاظ سے مشہور تھے۔ امام فخر الدین رازی اربعین میں فرماتے ہیں کہ یہ تینوں بزرگ ترک و تجرید میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقلد تھے۔
حضرت علی کے مثالی واقعات
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ ایک نصرانی کے پاس دیکھی آپ اس زمانہ میں خلیفہ وقت تھے اگر چاہتے تو از خود اپنی زرہ طلب کر سکتے تھے مگر آپ نے عدل کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا انصاف اور قانون کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے آپ قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئے اور فرمایا یہ زرہ میری ہے نصرانی نے کہا نہیں یہ تو میری زرہ ہے اگر چہ وہ زرہ حضرت علی کی تھی۔ مگر قاضی شریح نے آپ سے گواہ طلب کیا آپ قاضی کے حسب پسند گواہ نہ پیش کر سکے چنانچہ نصرانی زرہ لیکر چلا گیا لیکن تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ لوٹ کر آیا اور آتے ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا کہنے لگا یہ پیغمبروں کے اوصاف ہیں کہ امیر المؤمنین مجھے قاضی کے سامنے اور قاضی ان پر اپنی قضا کا حکم جاری کریں میں اقرار کرتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ زرہ جنگ صفین میں عین لڑائی میں گر گئی تھی۔
ایک مرتبہ خلافت کے زمانہ میں آپ کہیں جارہے تھے کہ ایک مخالف آپ کی شان میں نازیبا کلمہ کہنے لگا آپ سنتے اور گذرتے چلے گئے وہ شخص آپ کا نام علی پکار کر برا بھلا کہہ رہا تھا کسی نے آپ کی توجہ اس کی طرف دلائی تو آپ نے اس شخص سے کہا علی کے نام اور لوگوں کے بھی ہیں وہ شخص کسی اور کو برا بھلا کہہ رہا ہوگا۔
ایک مرتبہ آپ کے پاؤں میں تیر کی نوک کھپ گئی لوگوں نے اسے نکالنے کی کوشش کی مگر کھینچنے سے آپ کو اس شدت کا درد ہوتا کہ اس قدر بہادر ہوتے ہوئے آپ اس درد سے بے چین ہو جاتے جب نماز کا وقت آیا اور آپ نماز میں مصروف ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اب تیر ان کے پاؤں سے کھینچ لو چنانچہ اسے کھینچ کر نکال دیا گیا۔ اور آپ کو مطلق درد کا احساس نہیں ہوا البتہ تیر کے نکلنے سے اتنا خون بہا کہ تمام مصلی خون سے بھر گیا۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مقدمہ پیش ہوا کسی مسلمان نے ایک حربی کو قتل کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مقدمہ سننے کے بعد قاتل کے قتل کا حکم جاری کر دیا مقتول کے بھائی نے درخواست کی کہ ہم نے مقتول کا خون بہا لے لیا ہے اس لئے قاتل کو چھوڑا جا سکتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ کیا کسی دباؤ کے تحت تو تمہیں خون بہا نہیں دیا گیا جب اس شخص نے حضرت علی کی پوری تسلی کر دی کہ ہم نے اپنی خوشی سے خون بہا لیا ہے مرعوب ہو کر ایسا نہیں کیا ہے تو آپ نے قاتل کو رہا کر دیا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ لوگ ہماری سلطنت میں ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ان کا خون ہمارے خون کے برابر ہے۔
ایک دفعہ عید کے موقع پر جبکہ مدینہ بھر میں لوگ خوشیاں منا رہے تھے سب گھروں میں بچے بڑے بوڑھے اچھی اچھی چیزیں کھانے میں مصروف تھے لوگ زرق برق لباس پہنے ہوئے تھے عید منارہے تھے۔ خلیفہ اسلام حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں بیٹھے تھے جو کی روٹیوں کے چند ٹکڑے رکھے ہوئے تھے آپ ذوق وشوق سے انہیں تناول فرمارہے تھے ساتھ ہی زبان مبارک پر ذکر الہی جاری تھا کسی نے پوچھا امیر المؤمنین آج تو عید کا دن ہے آپ نے ایک آہ بھری اور فرمایا عید! عید ان لوگوں کیلئے ہے جو عذاب الہی سےبے خوف ہیں۔ دیکھو اس دُکھ بھری دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اس قسم کے جوکی روٹی کے ٹکڑے بھی میسر نہیں ہیں ایسے گھر بھی ہوں گے جن میں کئی دن سے فاقہ ہوگا اور ان کی عید رمضان سے بہتر نہیں۔