madaarimedia

سیدہ کائنات کی ڈولی مولاے کائنات کے گھر

مرج البحرین یلتقیٰن

آج اسلامی مہینہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ ہے ایک ایسی تاریخ جس تاریخ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے جا ملا یعنی جگر گوشہء رسول، عالمین کی عورتوں کی سردار سیدہ طیبہ طاہرہ سیدہ کائنات جناب فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا اورجان رسول اکرم فاتح خیبر امام المشارق والمغارب حضور سیدنا مولاے کائینات مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم و علیہ السلام
یعنی ایک ذی الحجہ ان دو نفوس قدسیہ کی نکاح کی تاریخ ہے

مالک کل کی بیٹی کا نکاح ہے ذہن میں ایک بات گردش کرنے لگتی ہے کہ جب آج کے کسی چھوٹے موٹے رئیس کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے تو کسقدر دھوم دھام ہوتی ہے طرح طرح کی سجاوٹ ہر طرح کے جہز کا قیمتی سامان ہوتا ہے تو جب مالک کن فکاں مختار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شہزادی کا نکاح ہوا ہوگا تو کس شان و شوکت سے ہوا ہوگا آئیے چلتے ہیں بارگاہ رسالت میں اور دیکھتے ہیں کہ آپ نے اپنی شہزادی کو کس طرح وداع کیا

روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے سب سے پہلے بارگاہ رسالت میں سیدہ سے نکاح کا پیغام بھیجا تھا جس پر آقا علیہ السلام نے یہ کہکر منع فرمادیا کے میں اللہ کی طرف سے اس بابت وحی کا انتظار کررہا ہوں پھر ایک دن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروق اعظم سے کہا کہ اشراف قریش میں سے بہت سے لوگوں نے پیغام بھیجا لیکن علی نے نہیں ایسا لگتا ہے تنگ دستی اس خواہش میں مانع ہورہی ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ سرکار ضرور اس شادی کے لئے راضی ہوجائیں گے پھر وہ حضرات مولاے کائنات کے پاس گئے آپ اس وقت ایک باغ میں مزدوری کر رہے تھے صدیق اکبر نے کہا اے علی تم سیدہ کائنات سے نکاح کا پیغام کیوں نہیں بھیجتے آپ نے فرمایا تنگ دستی کی وجہ سے مجھکو حیا آتی ہے پھر ان حضرات نے اصرار کیا اور مسلسل اصرار پر مولیٰ مان گئے. اور پھر بارگاہ رسالت میں پہونچےآقا علیہ السلام نے فرمایا اے علی تمہارے پاس کچھ ہے فاطمہ کے مہر کے لئے. مولیٰ نےٰ عرض کیا میرے پاس. ایک تلوار. ہے ایک.زرہ. ہے ایک. اونٹ. ہے اسکے سوا کچھ نہیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا. تلوار. تمہارے جہاد کا سامان ہے اور. اونٹ. سے تم اپنے لئے نخلستان سے پانی کھینچتے ہو اور سامان لادتے ہو البتہ زرہ کی تمہیں کوئ ضرورت نہیں اسکو فروخت کردو

حکم کے مطابق مولیٰ علی نے زرہ کو بیچا تو اس زرہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۴۸۰ چارسو اسی درہم میں خرید لیا پھر اس زرہ کو ہدیہ میں مولیٰ علی علیہ السلام کو واپس فرمادی

کیا کیا تھے اصحاب پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم
پھر مولیٰ علی اس رقم کو لیکر بارگاہ رسالت میں پہونچے اور سارا واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی کے لئے دعائے خیر فرمائ. حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے کی کیفیت طاری ہوئ جب وہ کیفیت دور ہوئ تو آپ نے مجه سے کہا اے انس. جبریئل اللہ کا پیغام لاے تھے اللہ فرماتا ہے اے میرے محبوب ہم نے علی و فاطمہ کا نکاح آسمان میں پڑھوادیا تم زمین پر انکا نکاح کردو
اسی اثنا میں آقا علیہ السلام نےحضرت فاطمہ سے نکاح کی رضا مندی حاصل کرلی اور فرمایا ائے بیٹی فاطمہ رب تعالیٰ نے تمہارا اور علی کا نکاح آسمان پر کردیا اور اسکا مہر تم پر چھوڑا ہے تم اپنے مہر میں جو چاہو وہ رب عطاء فرماے گا. تو حضرت فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے اس نکاح کا مہر روز محشر آپکی گناہ گار امت کی بخشش ہے. اللہ اللہ نثار جاؤں سیدہ کی اس خیر خواہی پر کہ جو اپنے مہر میں ہم گناہ گار امتیوں کی بخشش چاہ رہی ہیں

بعدہ مولیٰ علی نے ساری رقم آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش فرمائ. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا. دو تہائ خوشبو وغیرہ کے لئے صرف کرو اور ایک تہائ دیگر اشیاے خانہ داری پر. اس کے بعد آقا علیہ السلام نے حضرت انس سے فرمایا. اے انس جاؤ جاکر تمام انصارو مہاجرین کو مسجد میں بلالاؤ. جب بہت سے صحابہ کرام جمع ہوگئے تو سرکار منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا
اے گروہ مہاجرین و انصار مجھے اللہ نے حکم دیا کہ میں فاطمہ اور علی کا نکاح کردوں تو میں اسی حکم کی تعمیل کرتا ہوں. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ نکاح پڑھا اور نکاح پڑھاکر چھوارے تقسیم فرمائے. ۱ ذی الحجہ ۲ ہجری کو یہ نکاح منعقد ہوا

مہر
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کا مہر چارسو مثقال چاندی رکھا

جہز
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کو جو سامان جہز میں دیا وہ یہ ہے
ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھرا ہوا تھا.
ایک نقشی تخت یا پلنگ
ایک مشکیزہ
ایک چکی
ایک جاے نماز مصلیٰ
کچھ مٹی کے برتن
ایک پیالہ
دو یا تین چادریں
دو بازو بند. نقربی.
ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئ تھی اللہ اکبر مختار کائینات کی بیٹی اور یہ جہز؟

لیکن آج امت کا عالم یہ ہے کہ مہر تو کم سے کم رکھیں گے لیکم جہز کی مانگ کریں گے ایسے لوگوں کو دیکھنا چاہئیے کہ جنکی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے انکا کردار و عمل کیا ہے اللہ پم سبکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر عمل کرنے کی توفیق بخشے آمین

ایک واقعہ جو بہت مشہور ہے سیدہ کائینات کے فضائل میں
وہ یہ کہ ایک دن حضرت علی دیر رات گھر پہونچے سیدہ نے پوچھا کہ اتنی رات تک کہاں تھے.
مولیٰ نے فرمایا کہ بارگاہ رسالت میں تھے.اور سرکار حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیٹی کے نکاح کا واقعہ بیان فرما رہے تھے تو سیدہ نے پوچھا کہ آقا علیہ السلام نے کیا فرمایا تو مولیٰ علی نے فرمایا کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی بیٹی کو جہز میں بہت سارا مال دیا سونا چاندی بہت مال دیا جب بات پوری ہوگئ تو دونوں سونے کے لئے آرام فرما ہوگئے اب سیدہ کے دل میں یہ بات آئ کے کہیں علی یہ نہ سوچیں کے حضرت سلیمان نے اپنی بیٹی کو طرح طرح کا مال دیا اور مختار کائینات نے صرف چند چیزیں. اسی اثناء میں دونوں کو نیند آ گئ صبح اچانک جب دونوں بیدار ہوے تو دونوں حضرات نے آپس میں کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے سیدہ نے فرمایا چلو چل کر سرکار کی بارگاہ میں خواب بیان کرتے ہیں. دونوں بارگاہ رسالت میں پہونچے سرکار نے جب دیکھا تو ان دونوں کو دیکھ کر مسکراے
یہ دونوں حضرات بارگاہ رسالت میں پہونچے

حضرت علی نے خواب بیان فرمایا. کہ میں نے دیکھا کہ ایک جنت نما باغ ہے جسکے ہر طرف نہریں ہیں اور اس باغ میں ایک تخت بچھا ہوا ہے اس پر فاطمہ تشریف فرما ہیں اور ایک لونڈی ہے جو فاطمہ کی غلامی کے لئے وہاں موجود ہے.
جب آپ خواب بیان کرچکے تو سیدہ نے فرمایا میں نے بھی یہی خواب دیکھا تو سرکار نے فرمایا علی و فاطمہ تم کو جنت کی سرداری مبارک ہو اور اے علی جانتے ہو وہ لونڈی کون تھی عرض کیا اللہ اور اسکا رسول بہتر جاننے والا ہے تو سرکار نے فرمایا وہ لونڈی حضرت سلیمان کی بیٹی ہے جسکا واقعہ میں نے کل بیان کیا تھا اللہ نے سلیمان کی بیٹی کو جنت میں میری بیٹی فاطمہ کی کنیز بنایا ہے
اللہ اکبر

ولیمہ
پھر آقا علیہ السلام نے علی سے فرمایا کہ ولیمہ کرو
پھر حضرت علی نے ولیمہ فرمایا جو اسوقت میں سب سے اچھا مانا جاتا تھا

رخصتی
پھر آقا علیہ السلام نے اپنی بیٹی کو رخصت فرمایا
اور امہات المؤمنین نے رخصتی کے اشعار پڑھے
پھر آقا علیہ السلام نے دونوں کے لئے دعاے خیر فرمائ

تو یہ تھی شہزادئ رسول کی شادی جس میں نہ شورو غل تھا نہ غیر شرعی رسومات نہ ڈھول تھیں نہ بینڈ باجے اور یہی طریقہ اللہ نے امت کے لئے مشعل راہ بنایا اللہ پاک ہم سبکو اسی طریقہ کو اپنانے اور اسی پر گامزن رہنے کی توفیق رفیق بخشے آمیں

✍ ازقلم
خاک در زہرہ سید منصف مصباحی جعفری مداری مکنپور شریف


Leave a Comment

Related Post

Top Categories