میری یہ دل کی حقیقت کو کوئی کیا جانے
جو لکھ رہا ہے زمانہ ہمارے افسانے
شراب بن نہیں سکتی کبھی بھی وجہ سکوں
زمانہ کر لے بنا چاہے جتنے میخانے
کبھی اثر بھی ہوا دل پہ شمع محفل کے
ہمیشہ جان تو کھویا کیے ہیں پروانے
غرور تجھ کو اسی مے کدے پہ ہے ساقی
جہاں نہ شیشہ و ساغر جہاں نہ پیمانے
سب اہل ہوش کا کھل جائے ایک دم میں بھرم
خرد کی بات بڑھائیں اگر نہ دیوانے
بہم نہ ہو سکیں ذرات دل اگر نیر
کوئی امید کے صحرا کی خاک کیا چھانے
meri ye dil ki haqeeqat ko koi kya jane
غزل : حضور ببن میاں علامہ نیر مکنپوری