محرم چہلم بمقابلہ شریعت

دوہرے معیار اور فکری تضاد : محرم چہلم بمقابلہ شریعت

وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ : 42)
اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ

“کونو قوامین بالقسط (النساء : 135)
“انصاف کے قیام پر کھڑے ہو جاؤ”

“ولا یجرمنکم شنآن قوم علیٰ الا تعدلوا، اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ”(المائدہ: 8)
“کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے باز نہ رکھے، انصاف کرو، یہی تقویٰ کے قریب ہے۔”

“اگر کوئی عمل شریعت کی رو سے واقعی بدعت، حرام، یا غیر شرعی ہے، تو وہ ہر وقت، ہر مقام، اور ہر شخصیت کے لیے ویسا ہی ہونا چاہیے۔ مگر جب محرم میں اسے حرام کہا جائے، اور عین ویسا عمل کسی دوسرے موقع پر جائز، مستحب، یا باعثِ اجر بن جائے — تو یہ دین کی اصول پرستی کے منافی ہے۔”

سبیل لگانا
امام حسینؑ کی سبیل حرام، مگر میلاد کی سبیل حلال؟
ربیع الاول میں رسول اللہ ﷺ کے میلاد کے موقع پر سبیلیں لگائی جاتی ہیں، شربت، دودھ، کھانے کی تقسیم کی جاتی ہے۔ اس پر کوئی فتوٰی نہیں آتا، بلکہ اسے “محبتِ رسول ﷺ” کا اظہار کہا جاتا ہے۔
لیکن جب عاشورہ پر امام حسینؑ کی یاد میں سبیل لگائی جائے، تو بعض علماء فتوٰی دیتے ہیں: “یہ سبیل بدعت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، اسراف ہے۔”
سوال: کیا یہی دین ہے؟ اگر ہاں، تو امام حسینؑ بھی تو “سید الشہداء”، “جگر گوشہ رسول”، اور “سید شباب اہل الجنۃ” ہیں۔ تو پھر ان کے نام پر پانی پلانا بدعت یا شرک کیسے ہوا؟

جلوس نکالنا
ربیع الاول کا جلوس جائز، محرم کا جلوس حرام؟
میلاد کے جلوس نکلتے ہیں، نعتیں پڑھی جاتی ہیں، بینر، جھنڈے، لائٹنگ، اور ٹریفک رکتی ہے۔ یہ سب “اظہار محبت” کہہ کر جائز مانا جاتا ہے۔
لیکن جب امام حسینؑ کے غم میں جلوس نکالا جائے، علم اُٹھائے جائیں، نوحے پڑھے جائیں، تو کہا جاتا ہے: “یہ سب دین میں اضافہ ہے”، “راہ گیروں کے لیے تکلیف ہے”، “اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں”۔
سوال: کیا صرف ایک مہینے یا شخصیت کے لیے عوامی اجتماع جائز ہوگا اور دوسرے کے لیے ناجائز؟ کیا اصول بدل سکتے ہیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ اور ان کے نواسے کے لیے اظہار محبت کے دو الگ معیار ہوں گے؟ کیا سڑک صرف خوشی کے لیے بند کی جا سکتی ہے، اور غم کے اظہار پر حرام ہے؟

نیاز کھانا
عاشورہ پر نیاز “مردوں کا کھانا” — میلاد کی نیاز “نبیؐ کا صدقہ”؟
میلاد شریف کے موقع پر ختم، درود، اور بعد ازاں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ علماء اور عوام دونوں اسے باعثِ برکت سمجھتے ہیں۔ اور میلاد کی نیاز کو نبیؐ کا صدقہ کہہ کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو بھی کھانا بانٹا جائے، وہ “تبرک”، “سنت” کہلاتا ہے۔
لیکن جب امام حسینؑ کی نیاز دی جائے، لنگر بانٹا جائے، تو اسے “شرکیہ رسم”، “مردوں کا کھانا” وغیرہ کہا جاتا ہے۔ محرم کی نیاز کو مردوں کا کھانا کہہ کر ترک کیا جاتا ہے۔
سوال: کیا نبیؐ کی خوشی میں کھانا دینا باعثِ اجر ہے، اور اہلِ بیتؑ کی قربانی کی یاد میں کھانا دینا گناہ؟ اگر ایصالِ ثواب کے لیے کھانا دینا گناہ ہے، تو یہ سب رسومات ہر جگہ ترک ہونی چاہئیں اور اگر کھانا ایصالِ ثواب کا ذریعہ ہے، تو ہر صالح کے لیے ہونا چاہیے۔

شب عاشور
شب عاشور “حرام” — شب معراج “ثواب”؟
شبِ عاشور کو لوگ غم، یاد، عبادت، اور تفکر میں گزارتے ہیں، مگر اسے بدعت کہا جاتا ہے۔
شبِ معراج پر جاگنا، چراغاں، محافل، دعائیں، اور حلوے بنانا سب جائز اور مستحب کہلاتا ہے۔
سوال: کیا شبِ شہادت کا غم ناقابلِ قبول، اور شبِ عروج کی خوشی ہی قابلِ قدر ہے؟ اگر غم میں رونا بدعت ہے، تو خوشی میں جھومنا بھی تو بدعت ہونا چاہیے؟ اصول ایک کیوں نہیں؟ کیا جذبات صرف خوشی میں جائز اور غم میں حرام؟ کیا دین صرف مسکراہٹ کو تسلیم کرتا ہے اور آنسو کو نہیں؟

کالا سفید لباس پہنا
محرم میں لباسِ سیاہ پر اعتراض — جمعے کو سفید لباس پر زور؟
محرم میں سیاہ لباس پہننے کو “ماتم پرستی” یا “شیعی علامت” کہا جاتا ہے۔
جمعہ کو سفید لباس پہننا “سنت” اور “نورانیت” کا نشان مانا جاتا ہے۔
سوال: کیا رنگ بھی عقیدے کا تعین کریں گے؟ سیاہ صرف غم کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، جیسے سفید خوشی کا۔

محرم میں جھنڈا
حسینی علم کو “بدعت” — سبز جھنڈا میلاد میں “سنت”؟
محرم کے جلوسوں میں علمِ مبارک، پرچم، نشان اٹھانے کو “مشرکانہ رسم” کہا جاتا ہے۔
لیکن میلاد النبیؐ کے موقع پر سبز پرچم، بینر، اور جھنڈے لگانا باعثِ ثواب۔
سوال: کیا پرچم صرف خوشی میں جائز ہیں، غم میں حرام؟ یا پھر نیت، مقصد اور محبت کی پہچان اہم ہے؟

درود سلام پڑھنا
اذان کے بعد درود پڑھنا جائز، امام حسینؑ کے نام پر درود پڑھنا بدعت؟
اذان کے بعد درود پڑھا جائے تو کہا جاتا ہے: “یہ نبی کریم ﷺ کی محبت کا اظہار ہے، سنت کے مطابق ہے۔”
محرم میں یا مجالس میں جب درود و سلام کو امام حسینؑ کی شان میں پڑھا جائے یا ان کے ذکر کے ساتھ پڑھا جائے تو کہا جاتا ہے: “یہ میلاد کا انداز ہے، مجلس میں سنت کے خلاف ہے، بدعت ہے۔”
سوال: کیا درود و سلام کا مقصد صرف وقت اور شخصیت سے مشروط ہے؟ کیا یہ اہل بیت پر بھی نہیں؟

مسجد میں مجلس سجانا
مسجد میں محفلِ میلاد جائز، مجلسِ حسینؑ بدعت؟
ربیع الاول میں مساجد میں محافلِ میلاد منعقد ہوتی ہیں، نعت خوانی، درود، چراغاں کیا جاتا ہے۔
محرم میں جب مجلسِ عزاء مسجد یا امام بارگاہ میں ہو تو کہا جاتا ہے: “یہ شور شرابہ ہے، مسجد عبادت کے لیے ہے، بدعت ہے۔”
سوال: کیا مسجد صرف میلاد کے لیے جائز اور عزاداری کے لیے حرام؟ دونوں عبادت و ذکرِ خدا و رسول و اہل بیت ہی تو ہیں۔

مجلس میں خواتین کا جانا
محفل میں عورتوں کا پردے کے ساتھ بیٹھنا میلاد میں جائز، مجلس میں ناجائز؟ میلاد میں عورتیں پردے کے ساتھ شریک ہوں، نعت سنیں، درود پڑھیں – کوئی اعتراض نہیں۔
مگر محرم میں خواتین مجلس میں بیٹھیں، نوحہ سنیں – فوراً اعتراض: “اختلاط، غیر شرعی اجتماع، بدعت”۔
سوال: کیا نیت، عقیدہ اور ادب کا معیار بدل جاتا ہے؟ کیا عورت کی موجودگی صرف میلاد میں پاکیزہ اور مجلس میں مشکوک؟

ذکر شہدائے کربلا
کربلا کے شہداء کی یاد حرام، مگر جنگِ بدر و احد کی یاد سنت؟ بدر و احد کے شہداء کو ہر سال یاد کیا جاتا ہے، ان کے واقعات سنائے جاتے ہیں — ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے۔
کربلا کے شہداء کو یاد کرنا، مجلس، مرثیہ – سب بدعت اور حرام کہا جاتا ہے۔
سوال: کیا شہادت کا مقام رسول کے نواسے کے لیے کم ہو گیا؟ کیا ایک جنگ کے شہداء حلال، اور دوسری کے حرام؟

ڈھول دف بجانا
ربیع الاول میں ڈھول تاشے، نعت خوانی، جلوس، بینڈ باجا ڈی.جے جائز، محرم میں نوحہ حرام؟
رمضان بوقت سحری ڈھول بجایا جاتا ہے عرس کے چندہ کرنے کے لیے ڈول بجایا جاتا ہے میلاد کے جلوسوں میں گلیوں میں تاشے بجتے ہیں، لوگ دھمال ڈالتے ہیں — “محبت کا اظہار” کہلاتا ہے۔
محرم میں نوحہ پڑھنا، سادہ جلوس نکالنا بھی “بدعت”، “فساد”، “شور شرابہ” بن جاتا ہے۔
سوال: کیا دین صرف خوشی کے اظہار کا نام ہے؟ غم میں بھی تو اظہارِ محبت جائز ہونا چاہیے۔

مجلس میں دعا
نماز کے بعد دعا ہاتھ اٹھا کر جائز، مجلس کے بعد دعا بدعت؟
نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اللہ سے مانگنا اجتماعی دعا عام رواج ہے، کوئی اعتراض نہیں۔
مجلسِ عزاء کے آخر میں دعا ہو — فوراً کہا جاتا ہے: “یہ بدعت ہے، نماز کے بعد دعا ٹھیک، یہاں غلط؟”
سوال: کیا ہاتھ اٹھانے کا عمل مجلس میں ناجائز اور مسجد میں ثواب؟

زوار کربلا
حاجیوں کے استقبال پر ہار، بینڈ، جلوس — جائز، کربلا کے زائرین کا استقبال — شرک؟
حاجیوں کے استقبال پر پورے شہر میں جھنڈیاں، جلوس، ہار، قافلے بنتے ہیں۔ سب ملاقات کرتے ہیں دعا لیتے ہیں حاجی کا ماتھا چہرہ آنکھیں ہاتھ چومتے ہیں
کربلا کے زائر، جو اربعین سے ہوکر آتے ہیں، ان کا استقبال ہو تو کہا جاتا ہے: “یہ رافضی رسم ہے، بدمعاشی ہے، دکھاوا ہے”۔
سوال: کیا بیت اللہ کا سفر مقدس ہے، اور شہیدِ اسلام کے روضے کا سفر شرک؟

محرم کا چندہ
میلاد شریف کے لیے چندہ جائز، مجلسِ حسینؑ کے لیے چندہ حرام؟
ربیع الاول میں نعت خوانی، لنگر، جلوس، سب کچھ عوام کے چندے سے ہوتا ہے، کوئی حرج نہیں۔ چھوٹے بڑے پیر ولی کا عرس بھی چندے سے ہوتا ہے کل جو پیر صاحب مر جائیں گے تو ان کا بھی عرس چندے سے ہوگا کوئی دلیل نہیں مانگی جاتی
محرم میں اگر چندہ لیا جائے تو فوراً: “یہ چندہ خور ہیں، غریبوں کا مال کھاتے ہیں، بدعت کے لیے چندہ لیتے ہیں”۔
سوال: کیا اللہ و رسول کی راہ کے لیے دی گئی رقم صرف مخصوص تقریبات کے لیے جائز ہے؟ اللہ اکبر حیرت کا مقام ہے کل کے مرنے والے پیر کے نام پر چندہ جائز رسول کے نام پر چندہ حرام؟

اہلبیت پر کتاب
صحابہ کی شان پر کتابیں لکھنا جائز، اہل بیت کی فضیلت پر لکھنا “رافضیت”؟
صحابہ کرام پر کتابیں، مقالات، اشعار، تذکرے، تقریریں، سب “اہل سنت کی پہچان” سمجھی جاتی ہیں۔
اہل بیتؑ کی مدح، مصائب، سیرت پر کچھ کہا جائے — فوراً “رافضی، شیعہ، گمراہ” کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
سوال: کیا رسول اللہ ﷺ نے قرآن اور صحابہ کو چھوڑا تھا؟ یا قرآن اور اہل بیتؑ ؟ اہلبیت اُمت کے لیے مینارۂ نور ہیں؟ زیادہ سے زیادہ کتاب اہل بیت پر لکھنا چاہیے تھی مگر آج جب اہل بیت پر کتاب لکھی جائے تو اہل بیت کے ساتھ ساتھ کچھ شخصیتوں کا ذکر بھی شامل کرنا واجب ہوتا ہے اب اہل بیت کے ذکر کو بھی معتبر تب مانا جائے گا جب دوسرے حضرات کا ذکر بھی شامل ہو اب ذکر اہل بیت شخصیتوں کا محتاج ہے

یا حسین کہنا
ربیع الاول میں ‘مرحبا یا رسول اللہ’ کہنا جائز، محرم میں ‘یا حسین’ کہنا شرک؟
لوگ بڑی محبت سے “مرحبا یا رسول اللہ” کے بینر لگاتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں۔ اور مرحبا نعرے کی ایک طویل تکرار کی جاتی ہے
مگر محرم میں “یا حسینؑ” کہا جائے تو کہا جاتا ہے: “یہ نبی کو چھوڑ کر حسین کو پکارنا ہے، شرک ہے۔”
سوال: جب “یا رسول اللہ” شرک نہیں، تو “یا حسینؑ” کیسے ہو گیا؟ کیا دونوں کا مقصد فقط یاد و محبت نہیں؟

نوحہ مرثیہ خوانی
نعت گوئی عبادت، مرثیہ خوانی بدعت؟
نعت خوانی، میلاد، قوالی۔ میلاد شریف میں قوالیوں، نعتوں اور جھومنے کو روحانیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
محرم میں نوحہ خوانی، سلام — سب بدعت، فتنہ، غلو، ماتم کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
سوال: کیا کلام کی تاثیر، سچائی، اور محبت صرف ایک صنفِ ادب میں قید ہو گئی؟ گویا کہ ہر ایک رسم ہر ایک عمل جو حسین سے وابستہ ہے اسے حرام کر دیا گیا افسوس صد افسوس جن کے گھر میں شریعت بنی شریعت کے ٹھیکے داروں نے ان شریعت بنانے والوں کو ہی شریعت سے ہی خارج کر دیا ہے

تاریخی حقیقت: کہاں سے آیا یہ دوہرا معیار؟
یہ وہی ذہنیت ہے جو: یزید کو امیر المؤمنین کہے اور حسینؑ کو “باغی” کہے۔ بنو امیہ کی خلافت کو دین کا معیار سمجھے، اور اہل بیتؑ کی محبت کو بدعت کہے۔ تاریخ کو مسخ کرے، تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ اصل حق پر کون تھا۔ یہ دوہرا معیار صدیوں کی فرقہ پرستی، سیاسی اسلام، اور مسلکی تعصب کی دین ہے — نہ کہ قرآن و سنت کی۔

اے مسلمانو! جاگ جاؤ دین کسی مخصوص مہینے، مخصوص نام، مخصوص جماعت، یا مخصوص فقہ کا محتاج نہیں۔
حسینؑ کو چھوڑ کر دین کا علم اٹھانا ایسا ہی ہے جیسے نبیؐ کو مان کر ان کی نسل سے کٹ جانا۔ اگر ہم نے چہلم، محرم، اہل بیتؑ، کربلا، اور حسینؑ کی یاد کو بدعت کہہ کر دفن کر دیا — تو یاد رکھو، کل کوئی تمہیں بھی یاد نہیں رکھے گا۔ یاد رکھو اگر حسینؑ کو بھلا دیا گیا، تو دین کی باقیات پر صرف دکانیں کھلیں گی — کاروانِ حق نہیں۔”

اس سوچ کے پیچھے اصل محرک کیا ہے؟
اموی حکومت نے امام حسینؑ کے خلاف پراپیگنڈا کیا تاکہ یزید کے جرائم چھپائے جا سکیں۔ عباسی خلفاء نے رسول اللہ ﷺ کے نام کو بطورِ مذہبی سرمایہ استعمال کیا، مگر اہلِ بیتؑ کو نظرانداز کیا۔ اسی دوہرے معیار کی وراثت آج کے بعض علماء میں بھی نظر آتی ہے۔ امام حسینؑ کی یاد اور کربلا کی تعلیمات مخصوص فقہی اور فکری طبقے کو چبھتی ہیں، کیونکہ یہ باطل حکمرانوں کی بے نقاب داستان ہے۔ ربیع الاول کو اجاگر کر کے “یونیفائڈ” اسلامی ماحول بنانے کی آڑ میں اہل بیت کی قربانیوں کو پیچھے کیا جاتا ہے۔

نتیجہ: یہ تضاد دین نہیں، دھوکہ ہے مسئلہ شریعت کا نہیں، بلکہ ذہنیت کا ہے۔ یہ دوغلا پن علمی دیانت کے خلاف ہے۔ امت کا اصل زوال اسی تضاد سے آ رہا ہے۔

دین کو فرقہ کے رنگ سے نکالئے، محبت کو انصاف کے ترازو پر تولئے
اگر نبی کریم ﷺ کی میلاد کا دن مبارک ہے، تو نواسۂ رسول ﷺ کا چہلم بھی غم اور عزم کی تجدید ہے۔
اگر درود، نعت، جلوس، چراغاں، کھانا، محفل، نعرہ سب جائز ہیں ربیع الاول میں— تو یہ سب محرم میں بھی باادب، بامقصد اور روحانیت سے لبریز ہو سکتے ہیں۔
اصول بدلے نہیں جا سکتے۔ اگر نیت محبت ہے، تو معیار ایک ہونا چاہیے۔

چہلم، صرف ایک رسم نہیں، یہ یاد دہانی ہے کہ ہم نے کربلا کو بھلایا نہیں۔ اور اگر ہم واقعہ کربلا کو صرف محرم تک محدود کر کے، چہلم کو فراموش کر کے اگلے میلاد کی تیاریوں میں لگ جائیں تو یہ صرف بھول نہیں، بلکہ تاریخ سے بے وفائی ہے۔

چہلم کی ناقدری
آج صفر کے مہینے کی پانچ تاریخ ہے (جب ہم یہ مضمون لکھ رہے ہیں) اور کئی جگہ پر ربیع الاول کے جھنڈے بکتے دیکھے گئے ایک بینر لگ گئے ہیں جبکہ انے والا مہینہ ابھی دور ہے اور چہلم کا دن قریب ہے چہلم، امام حسینؑ کی چالیسویں کا دن ہے جو اہل بیتؑ کی مظلومیت، صبر، اور صادق مزاحمت کی یاد تازہ کرتا ہے۔

اس دن کاروانِ کربلا کی مدینہ واپسی، اہلِ حرم کی اسیری، اور عزاداریِ زینبؑ کی انتہا کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان، بالخصوص عراق، ایران، پاکستان، ہند، لبنان اور خلیج میں، چہلم کے دن کو خصوصی طور پر مناتے ہیں، کربلا کی جانب پیدل سفر کرتے ہیں (اربعین واک)، نیاز، مجلس اور عزاداری کرتے ہیں۔

مگر کیا ہورہا ہے؟ جیسے ہی محرم ختم ہوتا ہے، ربیع الاول کی تیاریوں کا شور شروع ہو جاتا ہے۔ عاشورہ کے بعد ہی جلوسوں پر اعتراض، فتوے، مجالس کو روکنے کی کوششیں، اور ساتھ ہی ربیع الاول کے بینر، نعتوں کی ریہرسل، محافل میلاد کی پلاننگ شروع ہو جاتی ہے۔
سوال: کیا نواسۂ رسولؐ کی شہادت کی چالیسویں تاریخ، اور اس سے منسلک غم، آلام، اور قربانیوں کی یاد اتنی معمولی بن گئی ہے کہ ہم اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائیں؟ اور وہ بھی اس نبیؐ کے نام پر، جس نے خود فرمایا تھا:

“حسین منی و انا من حسین” (ترمذی شریف)

تحریر : حافظ غلام فرید مداری
ایڈیٹر مداری میڈیا

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *