پیاسی سکینہ روئے انسؤن سے منہ دھوئے چاروں طرف ہے لشکر کر دو کرم مولا
غم کا اندھیرا چاروں طرف ہے یاس کی بدلی چھائی ہے وحشت ہے تنہائی ہے
ایسے عالم میں بچی کو بابا کی یاد آئی ہے ننھی کلی کم لائی ہے
پیاس سے خود ہے بے کل خون سے تر ہے مقتل خاک کا ہے بس بستر کر دو کرم مولا
قاسم اصغر عون و محمد سب نے جان گنوائی ہے سونی ہوئی انگنائی ہے
کرب و بلا کے تپتے بن میں موت بلا کر لائی ہے کیسی گھڑی یہ آئی ہے
دیکھتے ہیں مڑ مڑ کر رن میں جاتے اکبر غم سے ہیں بوجھل سرور کر دو کرم مولا
دین نبی پر مشکل آئی اس کی حفاظت کون کرے حق کی حمایت کون کرے
سجدے میں سر اپنا کٹا دے ایسی جرّت کون کرے ایسی عبادت کون کرے
عالم ہے سکتے میں ابن علی سجدے میں اور گلے پر خنجر کر دو کرم مولا
ہے یہ تمنا ہر عاشق کی ہر منگتا یہ کہتا ہے ہر جانب یہ چرچہ ہے
نام شجر ہر سمت ہو اس کا جو زہرا کا جایا ہے جو کربل کا داتا ہے
دشمن بھی ہو شیدا ہر جانب ہو چرچہ کرب و بلا کا گھر گھر کر دو کرم مولا