madaarimedia

فروغ دین میں خانقاہی مدارس کا کردار و عمل

hafiz azbar ali

معلم کائنات ، شہر علم و حکمت، صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے طلب العلم فریضتہ علی کل مسلم و مسلمتہ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے

خانقاہی مدارس!
مدارس کی بنیاد و ارتقاء پر نظر ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنھا کی دہلیز سے شروع ہوکر حضرت سیدنا ابو طالب رضی اللہ عنہ کے آنگن میں پھیلتا ہے پھولتا ہے پھلتا ہے صحن حضرت ابو طالب سے لیکر حجرہء ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا تک حجرہء عائشہ سے لیکر مسجد نبوی کے محراب و منبرتک پھریہاں سے اصحاب صفہ تک ، اصحاب صفہ سے لے کر دور دور بسے آئے ہوئے حق کے متلاشی صحابہ کے پرنور جھونپڑوں جھونپڑیوں تک مدارس اسلامیہ کی نیٹورکنگ پھیل چکی تھی زمانہ رسالت سے ہی بڑے بڑے علماء و فقھاء و محدثین مفسرین تدوین و تحقیق پر گامزن ہوگئے تھے ان محدثین مفسرین فقھاء کی فہرست طویل ہے

خلافت نبویہ کی باقاعدگی کے بعد باضابطہ طور پر مدارس اسلامیہ کا قیام عمل وجود میں آنے لگا اور اس کے فروغ کیلئے شاہی خزانوں سے رقم مقرر کی جانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے مدارس تعمیر ہونے لگے لیکن دارالخلافہ میں یا بعض شہروں میں ہی مدارس تھے بقیہ مواضعات یا بلداتی علاقہ جات اس کی روشنی سے تابندہ نہیں تھے اب دیہی علاقوں میں تعلیمی روش کو قائم کرنے کیلئے قوم و قبیلہ کے جو معزز اور پڑھے لکھے بزرگ تھے یا تو ان کے کاشانہء رحمت پر لوگ پڑھنے آتے یا وہ خود رات کی سنسان اور تاریک گلیوں سے ہوکرہاتھوں میں قندیلیں آویزاں کئے گھر گھر پڑھانے جاتے تھے
ہندوستان میں باقاعدہ اسلام کی بنیاد 282 ہجری میں حضرت سیدنا سید بدیع الدین شیخ احمد قطب المدار مدارالعالمین رضی اللہ الغفارعنہ حلبی ثم مکنپوری نے رکھی
آپ نے ہندوستان کے علاوہ مختلف ممالک میں تبلیغ فرمائ اور جہاں جہاں آپ نے اسلام پھیلایا وہاں کے نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کیلئے چلے ،تکئے ، اور گدیاں ، مقرر فرمائیں اور ہر گدی و چلہ پر ایک خلیفہ کو مقرر کردیا جو لوگوں کو مسائل شرعیہ ،امور دینیہ کی تعلیم دیتا تھا اس دور کے یہی مدارس تھے

dargah madare pak

حضور قطب المدار رضی اللہ عنہ کے رائج کردہ اس دور کے یہ کامیاب سینکڑوں مدارس اپنی بلندپایہ حیثیت پر کام کرتے رہے اس طرح دین کو فروغ ملتا رہا اور باقاعدہ مدارس کی بنیادیں پڑنے لگیں! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گزشتہ زمانے میں خانقاہیں ہی مدارس ہوا کرتی تھیں اور انہیں مدارس اسلامیہ ( خانقاہوں ) کا قیام عمل ترویج و احیائے شریعت کا سبب بنا گرچہ سبھی صوفیائے کرام کی خانقاہیں تدریسی مسندوں سے آراستہ نہیں تھیں مگر ہرخانقاہ میں خانقاہی صوفی ، علم قرآن ، علم حدیث ، تصوف و روحانیت کے معارف و احکام کو شرح و بسط کے ساتھ ایسا پلا دیتے تھے کہ اب مزید حاشیہ کی ضرورت نہیں رہ جاتی تھی
یہی وجہ تھی کہ خانقاہی مدارس کے مفلسانہ انداز پر شاہوں کی شوکتیں جھک کر زمیں بوس ہوا کرتی تھیں کبھی انکے پھٹے ہوئے پھٹوں پر امیری پڑھتی تھی کبھی پیوند لگے کپڑوں پر خلعت فاخرہ نازبرداررہتی تھی کبھی سادہ طبیعت علماء بادشاہوں کے تخت شاہی کے کر و فرکے پاس تعلیم دینے جاتے تھے تو شاہی و میری دست بستہ کھڑی ہوجاتی تھی اور ان خود دارمعلمین کی ٹھوکروں میں سینکڑوں تخت و تاج پڑے رہتے تھے اپنی زنبیل سے روٹی کے سوکھے ٹکڑے کھالیتے تھے مگر شاہی دستر خوان کی ملذذ مرغن غذاوں پر نظر بھی نہ ڈالتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ سکہۂ رائج الوقت بنکر شاہوں کے دربار میں ، وزراء کی سرکار میں ہر گلی ہر دیار میں ، ہر کوچہ و بازار میں ، اپنے تو اپنے صف اغیار میں چلتے تھے جبکہ جدید طریقہء کار کے مدارس کا رعب و دبدبہ نہ کہ ختم ہوتاجارہا ہے بلکہ نادرونایاب ہے کیونکہ ان خود دار علماء کی دہلیزوں پر شاہان وقت جبہ سائ کرتے تھے اور وہ اپنے مدارس سے شاہوں کو بھیک دیتے تھے

اس کے برعکس آج کچھ ، اور بزنس مین علماء نے علم و عمل کو تعلیم و تعلم کو درس و تدریس کو پیشہ بناکربازار میں اتار دیا اور مظاہرہء علم کے بجائے اپنی زیب و آرائش پر توجہ مرکوز کرارہے ہیں یہاں تک دیدہ و دانستہ مغربی تہذیب سے موازنہ پر آمادہ ہوکر التفات کی التجا کرنے لگے ہیں جبکہ کل کے علماء و مدرسین تخت شاہی کے سامنے کلمئہ حق کہنا پسند کرتے تھے مگر خیرخواہی کا شائبہ بھی ذہن میں نہیں لاتے تھے جبکہ آج کے کچھ شیوخ و علماء کی بے راہ روی سے قوم بھٹک رہی ہے جس کابے جا اثر مرتب ہونے لگا اور جو مدارس قوم کی فلاح اور اسکے معارف و احکام کے فروغ کیلئے قائم کئے گئے تھےاب وہاں کے کچھ علماء کھادی دھاری لگنے لگے ہیں چند بگڑے مدارس کی وجہ سے عام مدارس کا گراف گرنے لگا یہاں تک کہ شرپسند عناصرانہیں آتنک واد کا اڈہ بتانے لگے اس جراحت کاری سے پوری قوم مسلم سسکنے لگی
اور اب کوئ مسیحائے قوم نہیں جو مرہم تسکین لگا دے

مدارس کی ترقیاتی دنیا میں خانقاہی مدارس کی اپنی مثال آپ تھی جن کے بانی و مبانی قوم کے وہ دانشوران تھے
جن کی رگ و پئے میں حمیت دین ،غیرت ملی ،اسلامی سماج کی نشو و نما کا فریضہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا
وہ جس جگہ پڑاو کرتے تھے اس جگہ کے افراد کی ذہن سازی کیلئے مدارس نمانقوش چھوڑ جاتے تھے جس کی چمک سے لوگ سلوک و تصوف طریقت و معرفت کے اسلوب نگارش سے مزین ہوا کرتے تھے زمانہ بدلا اور تصوف کی بے جوڑ ساخت پر ادیان باطلہ کی آریاں چلنے لگیں جو چاہتی تھیں کہ قرآن و حدیث تصوف و سلوک کے باہمی اختلاط کو پاش پاش کردیں اور صوفیت کو شریعت سے بے دخل کردیں مگر کچھ اچھے روشن ضمیر بزرگوں نے نخوت کی چالبازی کو بھانپ لیا اوراحیائے شریعت کے زمرے میں تحفظ شریعت و تصوف کی خاطر باقاعدہ خانقاہوں میں مدارس کی بنیادیں رکھیں جس سے اول اول خانقاہی شاہزادے شریعت و تصو ف کے میلان سے روشناس ہوکر فیروزبخت، ارجمند ،سعید بخت ،اور صوفی صفت بن جاتے تھے پھر ان شاہزادوں کی ٹھوکروں سے دوسری قوموں کے بھی بھاگ کھل جاتے تھے اور انکی نئ نسل میں باقاعدہ تصوف کا جام انڈیل انڈیل کر پلایاجانے لگتا

اس طرح مدارس ”خم خانئہ تصوف بن گئے صدیوں تک اسی طریق پر ملت چلتی رہی پھر نہ جانے کہاں سے یہ متعدی مرض بھی آگیا کہ جو خانقاہی مدارس احیاء اسلام ،ارتقاء ملت ،فروغ دین ، اوراسکی بقاء کیلئے عالمگیرتھے اب اکثر میں خاک اڑنے لگی اور نقشہ ہی پلٹ گیا مدارس کی اس ترقیاتی تگ و دو میں خانقاہی مدارس کا پچھڑا پن آٹھ آٹھ آنسو رلانے پر تلا ہے اور جن شہزادوں کو صرف تصوف کی آمیزش سے ہمکنار ہونا چاہئے تھا آج وہی اس صنف نازک کی ارتھی سجا ر ہے ہیں جو کل تصوف و شریعت کے دلدادہ تھے آج وہی خانقاہی ناموس کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اوراس کے سیدھے اور صریح اسباب کی ہم کچھ وجہیں بیان کر رہے ہیں

آج اہل خانقاہ کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور اخلاق و کردارکا اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ پر تاسف حقیقت سامنے آتی ہے کہ بہت سی خانقا ہوں کے شہزادگان نہ صرف یہ کہ علم دین سے تہی داماں ہیں بلکہ خانقاہی اخلاق و آداب سے بھی آراستہ نہیں ہیں اس کے جہاں بہت سے اسباب ہیں وہیں ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان شہزادگان کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ”مکتب کی کرامت“ سے زیادہ ”فیضان نظر“ پر تکیہ کرلیا گیا ہے
علم کی تقسیم علم سینہ اورعلم سفینہ کی طرف کسی اور موقع کیلئے کی گئ ہوگی مگر اس کو یہاں چسپاں کرکے یی تاثر دیا گیا کہ ہمیں کتابوں میں سرکھپانے کی کیاضرورت ، ہم تو اہل نسبت ہیں صاحبان طریقت و معرفت کے گھر پیداہوئے ہیں ہمیں سینہ بسینہ جو علوم و فنون و معارف و احکام منتقل ہو رہے ہیں اس کے سامنے ہفت خواں بھی طفل مکتب ہیں یہی وجہ ہیکہ بعض خانقاہی شہزادے جاہل ہونےکے باوجود بھی عالم کہے جا تے ہیں ان پڑھ ہونے کے باوجود بھی پرھے لکھے کہے جاتے ہیں انکے لکھے ہوئے ہاتھ سے الٹے سیدھے حروف بھی مجرب تعویذ کا کام کرتے ہیں تندرستی نور، اورکمزوری فقر کہلاتی ہے ایسے ماحول کا بچہ صحیح العقل پیدا ہو تو قطب وقت ، پاگل جنم لیتا ہے تو مجذوب وقت کہلاتا ہے بند لب ، مراقبہ اور ہلتے ہونٹ رازو نیاز کا درجہ رکھتے ہیں ، صحیح بات کرتا تو علم و عمل کادریا، غلط بات کرتا ہے تو اسرار معرفت کاسمندر، انکے جرموں پرعقیدت کا پردہ ہوتا ہے کوئ بھی معیار پوچھنے کی جرات نہ کرتا چاہے پہلا کلمہ بھی درست پڑھنا نہ آتا ہو

جہاں اندھی عقیدت مندی کا اثر و رسوخ اس درجہ جگہ بناچکا ہو وہاں تعلیمی منصوبہ بندی پر شب خون نہیں تو اور کیا مارا جائیگا خانقاہی مشائخ کا مقام و منصب خود اعلی و ارفع ہوتا ہے پھر شیخ پڑھا لکھا ہو تو اس کے فضل و کمال کو سمجھے یہ کس کایارا ؟
ان کا مقام و مرتبہ کچھ حاسدین کی نظر میں نہیں بھاتا اور ان کے وقار کو مجروح کرنے انکی مسندارشاد کو بدنام کرنے کیلئے شیوخ کے شہزادوں پر بجائے تعلیمی توجہ سے ہمکنار کرانے کے انکے منہ پر تعریفوں کے پل باندھ دئیے جاتے ہیں ”علامہ صاحب“ ”علامہ صاحب“ علامہ صاحب کہہ کر میٹھی چھری سے ذبح کردئے جاتے ہیں اب بے چارے علامہ صاحب استعارات و اشارات و کنایات معقولات و منقولات کی جھنجھٹ میں نہ پڑتے ہوئے علامہ صاحب ہوجاتے ہیں ایک تو خانقاہی زعم کچھ کم نہ تھا دوسراستم !! بے پڑھے علامہ صاحب
یہی وجہ ہے کہ معیاری تعلیم نہ ہونے سے آبائ وقار علمی بھی تہہ خاک ہورہا ہے پھر یہ واویلا کہ باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسرلائق میراث پدر کیونکر ہو اب بچہ کو باپ کا علم ازبر کیسے ہو جبکہ نہ پڑھنے میں جذبہ نہ سیکھنے کا کچھ ”ذوق“ اس طرح سے بعض خانقاہی مدارس کی مٹی پلید ہوتی جارہی ہے اور ان خانقاہوں سے علم اٹھتا جارہا ہے جبکہ علم کی جڑ سے لیکر اس کے پھل تک خانقاہوں کی آبیاری کے مرہون کرم ہیں اوراس کشت جاں پر بہاروں کو مسلط کئے ہے

صوفیانہ مدارس کی پہچان
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فر زندی
لگ بھگ ختم ہوگیا مولا تعالی کریم و علیم کی درگاہ کرم میں التجا گزار ہوں کہ رب تعالی خانقاہی مدارس کے طلبہ کو پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ئے آمین !

خیر اندیش
خاک در ولی باری
سید ازبر علی مداری
خادم خانقاہ قطب المدار
دارالنور مکن پور شریف کانپور یوپی انڈیا

Leave a Comment

Related Post

Top Categories