کیا قربانی کے وقت نام مع ولدیت لینا ضروری ہے
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد دعا میں کیا جن کی جانب سے قربانی کی جا رہی ہے ان افراد کا نام مع ولدیت لینا ضروری ہے؟
زید کہتا ہے کہ نام کے ساتھ باپ کا نام لینا بھی ضروری ہے ورنہ قربانی رائیگاں چلی جائے گی ۔
کیا زید کا قول درست ہے ؟ شریعت کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔
بینوا توجروا
المستفتی حافظ محمد عثمان فتحپوری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
بڑے جانور میں اگر حصے دار متعین ہو چکے ہیں تو ذبح کے بعد ہر ایک حصے دار کا نام لینا بھی کوئی ضروری نہیں چہ جائیکہ نام مع ولدیت ۔
بلکہ مطلق ذبح سے سب کی قربانی درست ہو جائے گی ۔
زید کا قول بے بنیاد ہے ۔
بہارِ شریعت میں بھی ایسا ہی مسئلہ کچھ اس طرح ہے ۔
ایک شخص کے نو بال بچے ہیں اور ایک خود ، اس نے دس بکریوں کی قربانی کی اور یہ نیت نہیں کہ کس کی طرف سے کس بکری کی قربانی ہے مگر یہ نیت ضرور ہے کہ دسوں بکریاں ہم دسوں کی طرف سے ہیں یہ قربانی جائز ہے سب کی قربانیاں ہو جائیں گی (بہار شریعت حصہ 15، صفحہ 148)
ذبح المشتراۃ لھا بلا نية الاضحية جازت اكتفاء بالنية عند الشراء (فتاویٰ عالمگیریة جلد / 5 ، صفحہ/ 294)
ترجمہ :- قربانی کے لیے خریدے گئے جانور کو قربانی کی نیت کے بغیر ذبح کرنا جائز ہے ، کیونکہ خریدتے وقت کی نیت کافی ہے ۔
ان الفعل انما یصیر قربة من كل واحد بنيته ، جلد /4 ، صفحہ /209
ترجمہ :- بلا شبہ عمل ہر شخص کی نیت کی بنیاد پر خدا کی قریبت کا ذریعہ بنتا ہے ۔
اور صحیح بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث پاک بھی اسی طرح سے ہے ۔
إنما الأعمال بالنيات وإنما لامرئ ما نوى
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔
کتبہ
محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی
خادم :- الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
تاریخ 13/ ذی الحجہ 1440 ھجری بروز پنج شنبہ مطابق 15/ اگست 2019 عیسوی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
فقط سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
خادم الافتاء : الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔