سید سالار سیف الدین سرخرو غازی المعروف چچا حضور رضی اللہ تعالی عنہ
آپ علوی سادات ہیں- آپ کا شجرہ نسب چند واسطوں سے حضرت فقیہہ مدینہ سیدنا امام محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوتا ہوا مولائے کائنات مشکیل کُشا شیر خدا فاتح خیبر مولا علی کرم اللہ تعالی وجہ الکریم سے ملتا ہے-
{مدینہ منورہ سے کوفہ تک}
آپ کے آبا و اجداد مولائے کائنات حضرت مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے شہزادے محمد بن حنفیہ کی نسل سے ہیں- محمد بن حنفیہ کے پوتے یعنی علی عبد المَنان {جو واقعہ حرہ میں شہید ہو گئے تھے} ان کے شہزادے اُون المعروف بطل غازی امام زین العابدین ابن امام علی مقام حضرت امام حسین عنہما کے فرزند حضرت امام زید شہید تابعی مدنی کے ساتھ جو لشکر خاندان کے چند افراد پر مشتمل تھی- احقاق حق ابطال باطل کے لیے کوفہ آئے- اس وقت بنی امیہ کا ظلم و تشدد اور فسق و فجور شباب پر تھا -حضرت امام زید نے ہشام ابن عبد الملک ابن مروان کے خلاف کوفہ میں علم جہاد بلند کیا اور جنگ کی اور آپ کو فتح حاصل ہوئی- پھر اس کے گورنر عمر بن یوسف شقی سے کچھ معاملات طے کرنے کے بعد مدینہ واپس لوٹ گئے- دوبارہ اہل کوفہ میں سے آپ کے بہت سے مصاحبین بنی امیہ کو کوفہ سے نکال کر بھگانے پر بضد ہوئے اور حضرت کو باصرار کوفہ لے گئے – وہاں پہنچنے پر پندرہ ہزار کوفیوں کی جماعت آپ کے ساتھ ہو گئی- پھر آپ کا ساتھ چھوڑنے کے لیے حیلہ و تدبیر یہ سوچی کہ حضرت امام زید شہید سے کہا “آپ ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما دونوں پر تبرا کریں”- حضرت نے فرمایا: “ہم اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں شیخین پر تبرا کریں”- اس پر کوفیوں نے کہا “تب ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں” – فرمایا: “دور ہو جاؤ تم رافضی ہو”- اسی وقت سے اس لقب کی ابتدا ہوئی- اب حضرت کے ساتھ مختصر سی جماعت رہ گئی جو ظالم وقت کے مقابلے کے لیے کافی نہ تھی- پھر ایسا وقت آیا کہ ظالموں نے حضرت کو سخت تکلیفیں دیں اور شہید کر دیا 121 ہجری میں یہ واقعہ پیش آیا- {ماخوذ از خاندان مصطفیٰ}
کوفہ سے ہرات، جوزجان تک
امام زید شہید کی شہادت کے بعد آپ کے صاحبزادے یحییٰ شہید قتیل جوزجان کے ساتھ بنو امیہ کے ظالم حکمرانوں سے جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے بغداد، مدائن {عراق}، تہران، شیراز {ایران}، خراسان، سرخس، بلخ، جوزجان بہ قریب ہرات {افغانستان} پہنچے- یہاں جوزجان میں اموی حکمران سے جنگ ہوئی- پہلی جنگ میں فتح یاب ہوئے مگر دوسری جنگ میں یحییٰ شہید بن زید شہید کے ساتھ بنو ہاشم کے لوگ ایک بڑی تعداد میں شہید ہو گئے- اُون المعروف بطل غازی کے صاحبزادے محمد آصف غازی جوزجان سے ہرات میں اقامت گزین ہوئے اور یہاں سے آپ کے پرپوتے ہجرت کر کے سلطان ناصر الدین سبکتگین و سلطان محمود غزنوی کی فوج میں داخل ہوئے اور غزنی کو وطن مألوف بنا لیا- اسی وجہ سے اس خاندان کے کچھ لوگ ہرات میں رہے اور کچھ نے غزنی کو وطن مألوف بنایا-
سالار سیف الدین غازی کی وطن مألوف سے ہجرت اور جنگ دہلی و جنگ بہرائچ میں شرکت و شہادت
سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے دریاے سندھ پار کر کے ملتان اور اجودھن فتح کرنے کے بعد متواتر کوچ کرتے ہوئے فتح دہلی کے ارادے سے دہلی کے قریب پہنچے- رائے مہی پال بھی اپنے لشکر کے ساتھ پہلے ہی نکل چکا تھا- دونوں فوج کے بہادر روزانہ مقابلے کے لیے نکلتے اور صبح سے شام تک جنگ کرتے، ایک مہینہ کچھ روز تک یہ سلسلہ جنگ چلتا رہا- حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ سخت حیران تھے اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعا کی اور سجدہ میں چلے گئے- ابھی مصروف دعا ہی تھے کہ قاصد نے اطلاع دی کہ مہی باختیار {مزار اطہر – کانور} سالار سیف الدین سرخرو {مزار اطہر_بہرائچ} میر سید عزت الدین المعروف عِزّت الدین {مزار اطہر دہلی} ملک دولت و میاں رجب یہ پانچ امرا ایک لشکر جرّار لیے ہوئے {تقریباً 44 ہزار فوج} غزنی کی طرف سے آ رہی ہے- یاد رہے کہ یہ لوگ غزنی اور ہرات میں بڑے بڑے مناصب جلیلہ پر فائز تھے- یہ لوگ سید سالار مسعود غازی کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ان پانچوں افراد سے معانقہ پیش کیا اور اظہار مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی- یہ لوگ بھی حسن میمندی کی بدخواہی کی وجہ سے ملک غزنی چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور حسن میمندی نے مذکورہ مجاہدین کی جاگیر کو بھی ضبط کر لیا- جیسے سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ کی جاگیر کو ضبط کر لیا تھا- سالار سیف الدین غازی حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے چچا ہیں اور مہی باختیار و سید عزت الدین بھی حضرت سید سالار مسعود غازی سے قرابت قریب رکھتے ہیں اور ملک دولت سلطان محمود کے ملازم تھے- میاں رجب سالار شاہو کے خادم خاص تھے- اس وجہ سے سالار شاہو نے میاں رجب کو سالار مسعود کی خدمت میں دے دیا تھا- سالار مسعود نے میاں رجب کو جاگیر کی نگرانی پر متعین کیا تھا- جب سید سالار مسعود غازی اس طرف سے آئے تو حسن میمندی نے آپ کی جاگیر سلطان کو اطلاع کیے بغیر ضبط کر لی- میاں رجب وہاں سے حضرت سید سالار مسعود غازی کی خدمت میں آئے- چونکہ میاں خود اعتماد اور کچھ سخت مزاج تھے، اس لیے ان کو لشکر کا کوٹوال مقرر کر دیا- حضرت سید سالار مسعود غازی کی دشمنی کی وجہ سے خواجہ حسن آپ کے تمام اقربا سے عناد رکھتا تھا- مجبوراً خاندان کے اکثر لوگ ہرات و غزنی سے جدا ہو کر ہندوستان میں مختلف جگہوں پر مقیم ہوئے- جیسے ست ریخ، منگرونڈا، بلکھڑا- کیونکہ سلطان محمود غزنوی بھی ضعیف ہو چکے تھے- شب و روز ملک ایاز کے ساتھ صحبت رکھتے، کاروبار سلطنت کی طرف کوئی خاص توجہ نہ ہوتی- حسن میمندی نے پورے ماحول کو درہم برہم کر رکھا تھا- یہاں تک کہ حسن میمندی ہلاک ہوا-
بحر کیف یہ لشکر جرّار کی آمد سے راجا رائے مہی پال اداس ہو گیا-چالیسویں روز دونوں طرف کی فوجیں آراستہ ہو کر جنگ میں مشغول ہو گئیں- حضرت سید سالار مسعود غازی شرف الملک کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے کہ رائے مہی پال کا لڑکا گوپال آپ کی طرف گھوڑا دوڑاتے ہوئے آیا اور غرض سے وار کیا- آپ کی ناک زخمی ہو گئی اور آپ کے دو دانت شہید ہو گئے- شرف الملک نے تلوار بلند کر کے گوپال پر ایسا وار کیا کہ اسی وقت جہنم رسید ہو گیا- حضرت نے بینی مبارک کے زخم پر رومال باندھ کر پھر جنگ میں مشغول ہو گئے- ضِد شجاعت و بہادری سید سالار مسعود غازی نے بینی مبارک کے زخم کی قطعاً پرواہ نہ کی- شام تک مصروف جنگ رہے اور نماز مغرب بھی اسی میدان جنگ ہی میں ادا کی- بہت سے نوجوان ترک شہادت سے سرفراز ہوئے اور بہت سے کافر بھی واصل جہنم ہوئے- صبح کے وقت پھر نقارہ جنگ بجا کر پہنچ گئے-
صاحب مرآت مسعودی بیان کرتے ہیں
ابو محمد غازی{مزار اطہر منگرونڈا ضلع بارہ بنکی} اور مجاہد اسلام میدان جنگ میں آئے- میر سید عزت الدین ہر اول فوجی دستے میں تھے- مرضی مولا ایک تیر آپ کے گلے مبارک میں لگا اور آپ شہید ہو گئے- میر سید عزت الدین کی شہادت کی خبر سن کر حضرت بے چین ہو گئے- خود گھوڑا دوڑایا اور پھر تو ہر طرف امرا اور ترکمان ان پر ٹوٹ پڑے کہ انہیں مقابلہ کی طاقت نہ رہی اور انہیں شکست اور بہادر پروانہ وار سے لشکر کفار کو دو چار ہونا پڑا- لیکن رائے مہی پال اور رائے میر پال چند دوسرے لوگوں کے ساتھ میدان جنگ میں کھڑے رہے- کچھ لوگوں نے ان سے کہا: اگر زندگی ہے تو پھر ہم جنگ کریں گے- انہوں نے جواب دیا کہ آخر ہم میدان چھوڑ کر کہاں جائیں- دونوں رائے راجا میدان جنگ میں مارے گئے اور قافلہ سالار کی عظیم فتح ہوئی- اس روز دہلی کا تخت ہاتھ آیا لیکن سید سالار مسعود غازی اس تخت پر نہ بیٹھے- فرمایا: میں یہ جہاد تخت و تاج کی خاطر نہیں کر رہا ہوں- ہمارا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک راز ہے جسے وہ جانتا ہے- میر سید عزت الدین کو دہلی میں دفن کیا اور ان کا عالیشان روضہ تعمیر کرایا اور چند لوگوں کو جاروب کشی اور چراغ کی خدمت پر مقرر فرما دیا- اور امیر جعفر بایزید کو تین ہزار سوار دے کر دہلی کی حکومت سپرد کر دی اور فرمایا: مزید اضافہ کر لینا- اور بکمال مہربانی فرمایا کہ دہلی کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنا تمہاری ذمہ داری ہے- تم اس طرح راہ و رسم رکھنا کہ خلق خدا کو کوئی تکلیف نہ پہنچے- چھ ماہ سولہ روز کے بعد دہلی سے میرٹھ کی طرف لشکر کشی فرمائی- میرٹھ کے رائوں نے پہلے ہی سے سن رکھا تھا کہ سید سالار مسعود غازی کے جان نثاروں کے مقابلے میں کوئی شخص فتح نہیں پاتا ہے- سید سالار مسعود غازی جدھر بھی اپنے جان نثاروں کے ساتھ رخ کرتے ہیں فتح پاتے ہیں- میرٹھ کے رائوں نے دہشت زدہ ہو کر اپنے قاصدوں کو تحائف کے ساتھ حضرت کی خدمت میں بھیجا کہ ملک آپ ہی کا ہے اور ہم آپ کی بارگاہ عالی کی خدمتگار ہیں- آپ کی اطاعت و خدمت قبول کرتے ہیں- حضرت نے ان کی اس تواضع و خاکساری سے خوش ہو کر ملک میرٹھ انہیں بخش دیا اور خود شان و شوکت کے ساتھ قنوج کا رخ کیا- جب قنوج کے زمین دار رائے اجے پال کو سلطان محمود نے جلا وطن کر دیا تھا تو سالار شاہو نے سلطان سے اس کی وضاحت سے اپنے قاصد کو پہلے ہی تحائف دے کر حضرت کی خدمت میں بھیجا- جب حضرت قنوج کے قریب پہنچے، دریاے گنگا کے کنارے ڈیرہ ڈالا- رائے اجے پال نے اپنے بڑے لڑکے کو تحائف دے کر آپ کی خدمت میں بھیجا اور میزبانی کی پیشکش کی- آپ نے بھی اس کی طرف بہت زیادہ التفات کیا- اجے پال کے لڑکے کو خلعت اور گھوڑے عطا فرما کر رخصت کیا اور فرمایا: بحری سامان بہت جلد حاضر کر دو کیونکہ ہم گنگا پار کر کے شکار کھیلیں گے- فوراً کشتیاں حاضر کر کے اطلاع دی گئی- اسی وقت آپ نے لشکر کو حکم دیا کہ دریاے گنگا پار کر کے اس طرف ڈیرا کریں- ایسا ہی کیا گیا- اس کے بعد خود بھی دریاے گنگا پار کر کے آئے- اسی وقت رائے اجے پال نے دس گھوڑے پیش کر کے اطاعت قبول کی- حضرت نے رائے اجے پال کو خلعت خاص اور دس گھوڑے اسے مرحمت فرما کر رخصت کیا اور کہا کہ رعایا کی دل جوئی کرنا اور ہمارے لشکر کے لیے غلہ بھیجتے رہنا- آنے جانے والوں کی اچھی طرح خبر رکھنا-
اس کے بعد کوچ کرتے ست ریخ کی طرف متوجہ ہوئے- دسویں روز آپ ست ریخ پہنچے اور یہ مقام ناف اقلیم ہند تھا اور کفار کا بہت بڑا عبادت خانہ تھا- اسی وجہ سے آپ نے ست ریخ میں اقامت اختیار کر لی اور ست ریخ کے اطراف و جوانب اپنی فوجوں کو متعین کیا- سید سالار سیف الدین اور میاں رجب سالار ایک لشکر کے ساتھ بہرائچ کی طرف رخصت کیا- دعوت ایمان اور راجا سہیل دیو کے ظلم کے سد باب کے لیے جو بھینٹ چڑھاتا تھا- اور میاں رجب کے لڑکے کو آپ کی جگہ لشکر کا کوٹوال مقرر کیا- اگرچہ عمر میں کم سن تھے لیکن شعور و غیرت بہت زیادہ رکھتے تھے- سید سالار سیف الدین سرخرو غازی اور میاں رجب بہرائچ پہنچے تو آپ کی خدمت میں یہ اطلاع بھیجی کہ اس جگہ غلہ دستیاب نہیں ہو پا رہا ہے- لہٰذا غلہ بھیجیے تاکہ مجاہدین کے لیے تبلیغ دین میں آسانی ہو- حضرت نے حکم دیا کہ پرگنات اور نواحی کے چودھریوں اور مُکھیاؤں کو حاضر کیا جائے- سات آٹھ پرگنوں کے چودھری اور مُکھیا بارگاہ سید سالار مسعود غازی میں حاضر ہوئے- سدھور کے چودھری جس کا نام تاس تھا اور امیٹھی کے چودھری جس کا نام نرہد تھا- دونوں کو اپنے پاس بلایا- انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کاشتکاری کرنے میں سستی نہ کرنا کہ اس میں تمہاری اور رعایا کی فلاح و بہبودی ہے- نیز فرمایا کہ تم لوگ ہم سے قیمت لے لو اور غلہ ہمیں دے دینا- ان لوگوں نے عرض کیا کہ پہلے ہم غلہ خدمت میں پہنچا دیں گے اس کے بعد قیمت لیں گے- آپ نے حکم دیا کہ قیمت پہلے لو- آپ نے پہلے چودھریوں اور مُکھیاؤں کو غلہ کی قیمت ادا کر کے خلعت اور برگ تمبول {پان} مرحمت فرمایا- اور کچھ لوگوں کو ان کے ہمراہ کر دیا کہ غلہ جلد آئیں- ملک فیروز عمر کو بھیجا کہ سرجو کی راہ گزر پر ٹھہرو- جس جس کا بھی غلہ آئے اسے سالار سیف الدین سرخرو کی خدمت میں بہرائچ پہنچایا جائے- اس کے بعد مہی باختیار کو فرودست کی طرف روانہ کیا اور کہا کہ تمہیں میں نے خدا کے سپرد کیا- جس جگہ بھی جاؤ حسن سلوک سے پیش آنا- اگر کفار کلمہ شہادت پڑھ لیں یا تمہارے ساتھ صلح و آشتی سے پیش آئیں بہتر ہے تم بھی شفقت کا برتاؤ کرو- ورنہ پھر تم ان سے جہاد کرنا- اس کے بعد مہی باختیار سے بغلگیر ہوئے اور فرمایا: آج کی یہ ملاقات پھر معلوم نہیں ملاقات ہونا ہو- اس درد آمیز کلمہ سے دونوں حضرت آبدیدہ ہو گئے- دیر تک یہی کیفیت رہی- مہی باختیار رخصت ہوئے- عجیب وقت اور عجیب رسوخ راہ حق میں رکھتے تھے کہ محض حق تعالیٰ کی وحدانیت کے لیے خود کو کفر کے کان میں ڈال دیتے تھے- لوگوں کا بیان ہے کہ مہی باختیار فرودست کے اکثر حصے پر قبضہ کر کے کانور تک پہنچ گئے اور اس جگہ شربت شہادت نوش فرمایا- آپ کا مزار اقدس کانور میں مشہور ہے- اس کے بعد امیر حسن عرب کو ماہوبا کی طرف تعینات کیا- میر سید عزیز الدین جو لال پیر کے نام سے مشہور ہیں گو یا ماؤ اور اس کے اطراف تعینات کیا- اور دونوں حضرت کو بطریق مذکور ہدایت فرمائی-
[از مرآت مسعودی، تاریخ سید سالار مسعود غازی و آئینہ مسعودی]
ست ریخ سے بہرائچ جاتے وقت سید سالار سیف الدین غازی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو محمد منیر غازی علوی الہروی کو اور غازی الدین غازی اور خاندان کے دیگر لوگوں کو منگرونڈا جس کا قدیمی نام مہند بارہ بنکی میں بھڑ قوم کے دعوت ایمانی کے لیے اور نکلے ملازم سے ہے قصور لوگوں کے چھٹکارے کے لیے متعین فرمایا- سید سیف الدین سرخرو سالار رحمۃ اللہ علیہ کے دو صاحبزادے تھے سالار ابو محمد منیر غازی اور دوسرے سالار رفیع الدین غازی- بعض نے تین بیٹوں کا ذکر کیا ہے- ان کی نسل کے لوگ منگرونڈا و بیلخرا میں آج بھی آباد ہیں-
آپ کی شجاعت کا عالم یہ تھا کہ حضرت سالار رجب غازی کی شہادت کے بعد آپ کو قافلے کا سالار بنایا گیا اور دشمنوں کے پسینے چھوٹنے لگے- دشمنوں کو واصل جہنم کرتے کرتے ایک تیر آپ کی گردن مبارک پر لگا جس سے آپ زمین پر گر پڑے اور اس طرح 13 رجب 424 ہجری کو مولائے کائنات کی شجاعت کا یہ جانشین اللہ کی راہ میں شہید ہوا- آپ کی شہادت کی خبر سنتے ہی حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمات شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: “چچا آپ آج کامیاب ہو گئے”- اس کے بعد آپ کی تدفین اپنے ہاتھوں سے کی- آپ کی شان بڑی نرالی ہے- آپ سے سرکار غازی پاک بے پناہ محبت فرمایا کرتے تھے- یہی وجہ ہے کہ صاحب مرآت مسعودی تحریر کرتے ہیں کہ اکثر صوفیائے کرام کا اس قول پر اجماع ہے کہ “جس شخص کو سلطان الشہداء سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی منّت یا طلب ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ان کے حقیقی چچا حضور سید سالار سیف الدین سرخرو غازی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری دے اور ان سے عرضی لگائے”- آپ کا عرس 15 رجب کو ہر سال شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے-
منگرونڈا و بیلخیرا سے میرپور و براؤں شریف تک
بلکھڑا شریف ضلع بارہ بنکی سے سید سالار بخش علوی کے بیٹے خدا بخش علوی صاحب علیہ الرحمہ میرپور تشریف لائے- ان کے صاحبزادے عبد الرحمن غازی اور ان کے صاحبزادے عبد المنان غازی علیہ الرحمہ ہوئے- جن کے چار صاحبزادے ہوئے- سب سے بڑے صاحبزادے بدھو علی علوی جن سے میرپور کے علوی سادات ہیں- دوسرے صاحبزادے خاقان محمد علوی المعروف خان محمد علوی جن سے براؤں شریف و اسن گوا کے تمام علوی سادات اور حضور شیخ المشائخ حضرت شعیب الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ ہیں- تیسرے صاحبزادے بسالت علی علوی صاحب ہیں جن سے پرتاپ پور {بہرائچ} کے علوی سادات ہیں- چوتھے صاحبزادے بدر الدین علوی صاحب ہیں جن سے بیراگی گاؤں، پیپڑہوا، کیول پور دیورا [بہرائچ] کے علوی ہیں- میرپور سے بدر الدین علوی صاحب کی اولاد بیراگی گاؤں میں آ کر آباد ہوئی اور بدر الدین علوی ہی کی اولاد میں سے عِزت مآب محترم لائق علی علوی المعروف علوی ٹھیکیدار بیراگی گاؤں ہیں-
[ماخوذ- تذکرہ محمد بن حنفیہ و اولاد محمد بن حنفیہ / انساب علویان ہند / حیات شعیب الاولیاء، مدینہ سے بیلخرا تک، تاریخ غازیان بہرائچ]
تعارف
· سید سالم میاں علوی اس تحریر کے مصنف ہیں۔
· آپ حضرت سید سیف الدین سرخرو سالار غازی کی 22ویں پشت سے تعلق رکھتے ہیں۔
· ان کا شجرہ نسب 30 واسطوں سے مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔
سیّد سالم میاں کا شجرۂ نسب
سیّد محمّد سالم علوی
بن سیّد مغیث احمد
بن سیّد حنیف احمد
بن سیّد انور احمد
بن سیّد امجد احمد
بن سیّد عنایت علی
بن سیّد شیر علی
بن سیّد حسن علی
بن سیّد فتح محمود
بن سیّد محمّد یوسف
بن سیّد ذوق محمّد
بن سیّد نور محمّد
بن سیّد محمّد خوشحال
بن سیّد احمد
بن سیّد محمّد دلآور
بن سیّد محمّد ابراہیم (برادرِ اصغرِ حضورِ فاتحِ بلخرا سیّدنا قاسم شہید علیہ الرحمہ)
بن سیّد سالار محمّد تاج
بن سیّد محمّد
بن سیّد سالار ابو محمّد منیر غازی
بن سیّد سالار سیف الدین سرخرو غازی
بن سیّد عطا اللہ غازی
بن سیّد طاہر غازی
بن سیّد طیب غازی
بن سیّد محمّد اشرف غازی
بن سیّد عمر غازی
بن سیّد آصف غازی
بن سیّد بطل شاہ غازی
بن سیّد عبد المنان غازی
بن سیّدنا امام محمّد بن حنفیہ
بن مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم






