مدار پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس پاکیزہ سرزمین مکن پور شریف کی تاریخی حیثیت ہر دور کے ساتھ ایک انقلابی تاریخ رہی ہے۔ جب ۱۵۹۷ء میں اکبر نے دین الہی نام کے نئے مذہب کی بنیاد رکھی اور ایک نیا مذہب ہندوستان میں قائم کرنے کی ناکام کوشش کی تو سب سے پہلے حضور مدار العالمین رضی اللہ تعالی عنہ کی خانقاہ عالیہ سے فتوی جاری کیا گیا جس میں مذہب دین الہی کے ماننے والوں کو مرتد قرار دیتے ہوئے اس نئے دین کو گمراہی ، کفر اور ارتدار پر مشتمل قرار دیا گیا وہ نایاب و نادر فتوئی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تک خانقاہ عالیہ میں موجود رہا۔ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں فتوے کا بھر پور ذکر ملتا ہے اگر چہ مذہب دین الہی ۱۶۰۵ء تک ہی قائم رہ سکا اور صرف ۱۹ اشخاص نے اس مذہب کو مانا مگر حضور مدار پاک کی خانقاہ سے اس مذہب کی سخت مذمت کی گئی آج بھی کتابوں میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ اس باطل مذہب کے پیغامات لیکر جب اکبر بادشاہ کا سپاہی مدار پاک کی خانقاہ شریف مکن پور شریف پہنچا تو اس وقت کے عظیم بزرگ ولی کامل عارف باللہ حضور سید شاہ عبد الرحیم علیہ الرحمۃ و ارضوان نے اکبر اعظم کے اس فرمان پر تھوک دیا تھا۔
اس واقعہ کو تاریخ میں جو مقام حاصل ہونا چاہئے تھا وہ نہ مل سکا ، مگر ہمیشہ سے حق و دیانت کے ساتھ سچی اور حقیقی اسلامی تعلیمات کی ملک بھر میں رہنمائی کرنے والی خانقاہ مدار العالمین نے ایک سبق آموز پیغام دنیا والوں کو دیا ہے۔ چونکہ ہندوستان کے ہر خطہ ارضی پر حضور مدار العالمین کی اسلامی خدمات کی بہاریں قائم ہیں اس لئے ملک بھر کا کوئی ایسا مسئلہ سامنے آیا تو اس عظیم خانقاہ نے اپنے ملک کی طرف داری ، بقاء اور اس کے وقار و عظمت کیلئے آواز بلند کی ہے۔
برطانوی اقتدار کے تسلط اور برٹش حکومت کے ظلم و تشدد کے خلاف بھی خانقاہ مدار پاک سے ایسے انقلابی تحریر یکیں سامنے آئی تھیں جنہوں نے وقت کے دھاروں کا نقشہ بدل دیا تھا۔ جب ہم ہندوستان کی آزادی کی تاریخ پر نظر کرتے ہیں تو ہم کو ملتا ہے کہ ملک کی پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کا سارا خونی سیلاب جن کے سروں سے گزرا تھا اس میں مکن پور شریف کے وہ جاں باز مجاہد بھی تھے جنہوں نے ملک کو غیر ملکی طاقتوں سے آزاد کرانے کیلئے ہنستے ہوئے سینوں پر گولیاں کھائیں اور مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا تھا۔ ان مجاہدین آزادی نے اپنی قربانیاں دے کر ہندوستان کے عوام کو جو انقلابی پیغام دیا اس پیغام کو گلے لگا کر پورا ملک آزادی کی جنگ میں کود پڑا تھا، اگرچہ پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء جسے ہم غدر بھی کہتے ہیں وہ نا کامی کا شکار ہوگئی تھی مگر نوے سال کے بعد انگریز حکومت کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ گیا تھا۔
اسی پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ سے ایک عظیم مجاہد آزادی حضور سید خان عالم میاں جعفری مداری کی قربانی کی ایک تاریخ وابستہ ہے جس کے بغیر ہندوستان کی آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔ شہید سید خان عالم ارغونی مداری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اس وقت کے ان بزرگوں میں ہوتا تھا جو شریعت و طریقت کے رموز و نکات پر حد درجہ کمال رکھتے تھے ، تصوف و طریقت کے راستوں پر گامزن اور رہبری و رہنمائی کی منازل پر فائز تھے۔ آپ کا ایک بہت بڑا حلقہ ارادت میوات، راجستھان اور پنجاب کا علاقہ تھا۔ اس وقت آپ کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں تھی ، سلسلہ عالیہ مداریہ کی ترویج واشاعت کے ایسے مبلغ تھے جن کی خدمات کی نشانیاں آج بھی میوات کے علاقہ میں موجود ہیں۔ خانقاہ عالیہ مدار العالمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشائخ عظام میں بھی اس وقت سید خان عالم میاں رحمۃ اللہ علیہ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ وابستگان سلسلہ عالیہ مداریہ آپ کو نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے اور آپ کی تبلیغی سرگرمیوں سے پورا سلسلہ بے حد متاثر تھا۔
در اصل شهید سید خان عالم میاں ارغونی مداری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت مکن پور شریف کے سب سے بڑے سرمایہ دار تھے اور قرب و جوار ہی نہیں بہت دور دور تک ان کی سرمایہ داری، اور نام و نمود کے چرچے تھے۔ وہ ایک بہت بڑی حویلی کے مالک تھے اس حویلی میں ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اس لائبریری میں تقریباً ایک لاکھ کتابیں موجود تھیں اور کسی نے کتابوں کی تعداد ہزاروں میں لکھی ہے۔ ایک بہت بڑے رقبہ میں اس حویلی کو تعمیر کیا گیا تھا جس میں ان کے اہل خانہ بڑے ہی تزک واحتشام کی زندگیاں بسر کرتے تھے۔ حویلی میں گھوڑوں، دودھ دینے والے جانوروں کے علاوہ ایک جوڑا ہاتھی اور ہتھنی بھی تھے۔ حویلی کے شمالی حصہ میں ایک بہت بڑا املی کا درخت تھا اسی املی کے درخت میں ہاتھیوں کو باندھا جاتا تھا اسی لئے اس درخت کو تاریخ کی کتابوں میں ہتھنی املی کہا گیا ہے، اس کا نام ہتھنی املی کا درخت رکھا گیا تھا۔ اس مقام پر آج صرف شہیدوں کے مزارات کی نشانیاں ہیں جو زبان حال سے تاریخ کے المناک واقعات و حادثات کو بیان کرتی نظر آتی ہیں۔
حویلی کے جنوبی حصہ میں عالیشان مکانات اور ایک خوبصورت سی مسجد کو تعمیر کیا گیا تھا۔ آج بھی مسجد کے نشانات اور کچھ قدیم تعمیرات اس دور کی یاد دلاتی ہیں۔ مسجد کی تعمیر جدید ہوگئی اور وہاں پانچوں وقت کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں مگر مکانوں کے نشانات ، رہائش گاہوں کی زیب وزینت اور تعمیرات کی کوئی بھی نشانی باقی نہ رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ جس جگہ پر سترہویں صدی عیسوی کے نصف آخر تک لوگوں کی زندگیاں ناز و نعمت سے پرورش پارہی تھیں آج وہاں خاک اڑتی دکھائی دیتی ہے اسے حالات کی ستم ظریفی کہیں یا وقت کا تقاضہ۔ کل جہاں پر ایک وسیع و عریض اور رفیع الشان حویلی ہوا کرتی تھی آج وہاں صرف مٹی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ زمانے کے ساتھ ساتھ دنیا کا مزاج بدل جانا ایک دستور ہے۔ اور انقلابات اس دنیا کی اساس میں شامل ہیں۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
خانقاہ عالیہ مدار پاک میں جمادی المدار کے مہینے کی چھ تاریخ کو حضور مدار العالمین کے روضہ پر ”گل پوشی“ کی رسم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سید خان عالم میاں رحمۃ اللہ علیہ نے حویلی کی خواتین کو گل پوشی کی رسم دیکھنے کیلئے خانقاہ عالیہ سے متصل ایک مکان تعمیر کروایا تھا۔ حویلی کی خواتین اسی مکان سے گل پوشی کی رسم دیکھتی تھیں۔ یہ مکان اپنی قدیم صورت میں اب تک باقی رہا مگر اب ایک یا دو سال قبل ہی وہ مکان منہدم ہو گیا۔ اس مکان میں شیخ طریقت سید علی کوثر میاں رحمتہ اللہ علیہ کو میں نے رہتے ہوئے دیکھا۔ جب تاریخ میں اس مکان کے تعلق سے یہ پڑھا کہ اس کو سید خان عالم میاں نے تعمیر کروایا تھا تو اس کی حقیقت جاننے کیلئے اپنے بزرگوں سے رابطہ کیا تو عجیب واقعہ سامنے آیا۔
جناب سید علی اختر رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ کو ایک رقعہ دکھایا جو نہایت بوسیدہ حالت میں تھا جس میں فارسی زبان میں اس مکان کے تعلق سے جو لکھا تھا اس کا مختصر خلاصہ لکھ رہا ہوں۔ جناب الحاج سید علی سرور میاں کے والد محترم یعنی منشی سید علی اختر رحمۃ اللہ علیہ کے دادا محترم ایک نہایت ہی خوبصورت بھینس خرید کر لائے تھے۔ سید خان عالم میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اس بھینس کو دیکھ کر کہا کہ حضرت یہ نہایت خوبصورت ہے اس کی آنکھیں بھی نہایت حسین ہیں۔ تب منشی سید علی اختر صاحب کے دادا محترم نے کہا کہ حضرت یہ بھینس آپ کو پسند ہے آپ اسے لے لیجئے مگر جس مکان میں آپ بیٹھے ہیں یہ مکان مجھے پسند ہے تو یہ مجھ کو دے دیجئے۔ سید خان عالم میاں رحمتہ اللہ علیہ نے سودا منظور کر لیا اور اپنے ملازم کو حکم دیا کہ بھینس کو حویلی میں پہنچادو اور ایک رقعہ لکھ کر دے دیا کہ آج کی تاریخ سے اس مکان کل مالک و مختار آپ ہیں۔
حضرت سید خان عالم میاں رحمۃ اللہ علیہ حضور مدار العالمین کی خانقاہ عالیہ کے اشغال و مراسم میں بھی بہت بڑا اعزاز حاصل تھا اسی لئے بٹھور کے پیشوا ناناراؤ پارک آپ کے دوست تھے۔ اور آپ پیشوا کے وکیل دعا بھی تھے۔ برٹش حکومت سے حاصل ہونے والی بہت سی املاک کو جو خانقاہ شریف کو دی گئی تھی آپ نے اپنی سادات برادری کا برابر کا حصہ دار بناتے ہوئے رقعات لکھے اور ساتھ ہی خانقاہ عالیہ کی رسومات میں زیادہ سے زیادہ حصہ دار بن کر خانقاہ کو سجاتے سنوارتے رہے۔
چنانچہ اس ضمن میں ایک قدیم تاریخی دستاویز سے یہ حاصل ہوا کہ آپ نے انگریزی حکومت سے مطالبات کرتے ہوئے خانقاہ عالیہ کے نام تمام تر حصولیات کو پوری سادات برادری کے نام کئے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
درج ذیل تاریخی دستاویز جو کہ فارسی زبان میں ہے، ہم اس کو ترجمے کے ساتھ یہاں درج کرہے ہیں۔ ان واقعات و حالات سے میرا مقصد اسلاف پروری نہیں بلکہ دور حاضر کو آئینہ دکھانا ہے اور دنیا کو اس عظیم مجاہد آزادی کی قربانیوں سے دو چار کرانا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
نقل بمطابق اصل
بگواهی نعمت خان و شاہ غلام پیر و بالعبد محمد نعمت اللہ تحریر تاریخ هفتم ماه مارچ ۱۸۲۸ء مطابق هشتم شہر شعبان ۱۳۴۲ ہجری موافق دهم ماه پھاگن ۱۳۳۴ فصل ما یانکہ شاہ محمد نعمت اللہ عرف ماه مایا شاه نتها اولاد سید خواجہ فنصو ر و خواجہ طیفور و محمد خانعالم اولاد سید خواجہ ارغون ساکنان مکن پورایم چون بخودہا از قبل عملداری سرکار کمپنی انگریز بہادر و نیز در عملداری سرکار در ہر اشیاء مثل زر آمدنی میلہ و سال تمام وغیره قابض و متصرف بودیم حالا باز باقرار صیح با ہر دوسعہ شاہ غلام پیرازروی دینداری خدا و رسول و حضرت شاه مدار صاحب را درمیان داده کل آمدنی بمیان قوم سادات با جازت سید خانعالم برابر گردانیدیم و نوشتہ سیدہم کہ هر اشیا ئیکہ از درگاه و زمینداری شہر و بیرونی و غیره کہ لازمی از درگاه با خودہا نصفا نصف میگرفتہ باشتیم تو بر خلاف قرار عیاں بنام کل برادران قوم سوای راستی و ردستی در میان آرد.
نقل بمطابق
بگواہی نعمت خان و شاہ غلام پیر و بالعبد محمد نعمت اللہ تحریر تاریخ سے مارچ ۱۸۳۸ء مطابق ۱۸ شعبان المعظم ۱۲۴۲ء ہجری موافق ۱۰ ماہ پھاگن ۱۲۳۴ہجری فصلی ہم لوگوں یعنی شاہ محمد نعمت اللہ عرف شاہ نتھا اولاد سید خواجہ فنصور و خواجہ سید طیفور وسید محمد خانعالم اولاد سید خواجہ ارغون رضی اللہ عنہ مکن پور کے رہنے والے ہیں بذات خود عملداری سرکار کمپنی انگریز بہادر نیز عملداری سرکاری ہر چیز میں مثلاً میلے اور پورے سال کی آمدنی وغیرہ پر قابض و متصرف ہوئے اب جبکہ صحیح اقرار نامہ ہر دو حضرات کے روبرو معہ شاہ غلام پیراز روئے دینداری خدا و رسول و حضرت شاہ مدار صباحب کو درمیان میں رکھ کر کل آمدنی قوم سادات کے درمیان باجازت سید خانعالم برابر کردیا اور لکھ کر دیا ہر چیز جو کہ درگاہ اور شہر کی زمین اور باہر کی زمین وغیرہ جو کہ درگاہ کے ساتھ ملحق ہیں برابر برابر ہم لیتے ہیں اس قرارداد کے بعد کل برادر برابر راستی اور درستی درمیان میں رکھے۔
7581ء ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کا یہ عظیم مجاہد تاریخ کے اوراق میں ایسا کردار اور کارگزاری کو رقم کر گیا جس کو صبح قیامت تک بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔
مکن پور شریف ویسے بھی ولی کامل شہنشاہ اولیائے کبار سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہ کی وہ پاکیزہ سرزمین ہے جہاں پر بڑے بڑے شہنشاہوں نے حاضری دے کر اور دامن پھیلا کر وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو اور کہیں نہیں مل سکا۔ اکابرین اولیاء اللہ نے قطب المدار کے سلسلہ سے نسبت حاصل کرنے کو اپنی قسمت کی معراج قرار دیا ہے۔ روحانیت کی ایسی جلوہ گری یہاں ہے جس کو دیکھ کر اللہ کی خاص رحمتوں اور نعمتوں کا ورود قلب پر ہوتا چلا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس ملک کی آزادی میں مکن پور شریف کے سادات کرام نے جو نمایاں کردار ادا کیا وہ بھی تاریخ کی پیشانی پر جلوہ گر ہے۔
مکن پور شریف میں تین انگریز بھائی رہتے تھے برٹش حکومت میں انہوں نے یہاں اپنی کوٹھی قائم کر رکھی تھیسول کے نام سے (MAXWEL BROTHERS) برادرس ان کو جانا جاتا تھا۔ یہ تینوں بھائی یہاں نیل کی کھیتی کرتے تھے۔ درگاہ شریف کے شمال میں ان کی کوٹھی تھی کوٹھی کے کھنڈر بھی اب ختم ہوتے جارہے ہیں مگر چونے سے بنی ہوئی دیواروں کے کچھ نشانات اور کھنڈرات ب بھی باقی ہیں۔ اب وہاں پر ایک پورا محلہ آباد ہے مگر یہ محلہ اس کوٹھی کی مناسبت سے کوٹھی محلہ کہلاتا ہے۔
7581ء غدر کا زمانہ انگریز حکومت کے ظلم و تشدد کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے شروع ہوئے۔ دراصل برٹش حکومت نے ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے لوگوں پر عجب قسم کا قانون نافذ کر دیا۔ ہندوستان کے جو لوگ برطانوی فوجوں میں سپاہ گیری کے عہدوں پر ملازم تھے ان کو بندوق چلانے کیلئے جو کارتوس دیئے گئے ان کو منھ سے کھینچنا پڑتا تھا ان کارتوسوں میں گائے اور خنزیر کی چربی لگی ہوئی تھی۔ گائے کو ہندو مذہب کے لوگ اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں اور مسلمان مذہب کے لوگوں کیلئے خنزیر نجس العین ہے جس کے چھونے تک سے ناپاک ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے انگریز حکومت کے خلاف پورے ملک میں بغاوتیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ جب بغاوت کی یہ آگ مکن پور شریف پہنچی تو یہاں رہنے والے انگریزوں کیخلاف بھی لوگوں نے اشتعال انگیزیاں ظاہر کر دیں اسی ضمن میں حضرت سید روح الاعظم میاں رحمہ اللہ علیہ اور شاہ نتھا میاں نے پیٹر میکسول (PETER MAXWEL) کو گولی سے اڑا دیا۔
یہ وہ وقت تھا جب شہید سید خان عالم رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے عزیز دوست بٹھور کے پیشوا نانا صاحب کے درمیان برطانوی حکومت کے خلاف خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا۔ ویسے تو پیشوا مراٹھوں کے راجاؤں کے یہاں وزیر کی حیثیت سے تھے مگر بعد میں پیشوا بازی راؤ کو مراٹھی حکومت میں سلطنت کرنے کا موقع ملا تھا۔ اور ۱۷۴۰ء سے ۱۷۶۱ء تک پوری ۲۱ سال انہوں نے حکومت کی۔ انہیں پیشواؤں کی فہرست میں بازی راو دوئم نے ۱۸۲۷ء میں اپنے گود لئے ہوئے بیٹے کو پیشوا کا خطاب دیکر بٹھور میں بھیج دیا تھا۔
لارڈ ڈلحوزی نے پیشوا نانا راؤ کو آٹھ لاکھ روپیہ پینشن کا ملنے والا منسوخ کر دیا تھا اور نانا صاحب انگریزی حکومت کے خلاف آوازیں بلند کرنے لگے تھے۔ اگرچہ انہوں نے ملک کے رہنما جنا عظیم اللہ خاں کے ذریعہ اس ناانصافی کی فریاد کو انگلینڈ تک پہنچایا تھا مگر عظیم اللہ خاں کی آواز کو دبا دیا گیا تھا۔ پیشوا نانا راؤ بٹھور سے ہر ہفتہ مکن پور شریف آتے اور مدار پاک کی خانقاہ میں حاضری دیکر دعا ئیں کرتے تھے۔ پیشوا ناناراؤ کے وکیل دعا اور دوست سید خان عالم میاں تھے جو مکن پور شریف میں پیشوانا ناراؤ کی مکمل ضیافت کا اہتمام بھی کرتے تھے۔
7581 میں ملک بھر میں انگریز حکومت کے خلاف بغاوتیں چل رہی تھیں۔ مکن پور شریف میں شہید سید روح الاعظم میاں رحمۃ اللہ علیہ نے پیٹر میکسویل کو گولی سے اڑا دیا تھا۔ ان سب حالات سے متاثر ہو کر سید خانعالم میاں نے گوری سرکار کے خلاف ایک خط اپنے دوست پیشوا نانا راؤ کو روانہ کیا۔ مگر ملک سے غداری کرنے والوں کی کمی نہ تھی اور تمیز الدین، جھبو غلام، چھیدا ، اور اعظم ان چار لوگوں نے برطانوی حکومت کے حکمرانوں کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے اس خط کو گوری سرکار کے حوالے کروا دیا۔ پھر کیا تھا برٹش حکومت کی توپوں کے منھ اس چھوٹی سی آبادی کی طرف گھوم گئے اور انگریز حکمرانوں نے ظلم و تشدد کے ایسے پہاڑ توڑے کہ بہت زمانے تک یہ آبادی اقتصادی اور معاشی بد حالی کا شکار رہی۔ ان چاروں غداروں کو انگریز حکومت سے انعامات کے طور پر کچھ رقبے زمینوں کے دئے گئے تھے جو بعد میں نیلام کر دئے گئے۔
انگریزی حکمرانوں نے بڑی بے رحمی سے شہید سید روح الاعظم میاں اور شاہ نتھا میاں کو توپ سے اڑا دیا۔ شہید سید خان عالم میاں کی پوری حویلی کو مسمار کر دیا گیا وہاں موجود لائبریری میں آگ لگادی گئی جس سے ساری کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ سید خان عالم کے خاندان کے لوگوں میں سے 30 افراد کو بھی املی میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
آج ان تیس لوگوں کی قبروں نے نشان اپنی بے گناہی اور ملک پر جان قربان کر دینے کی داستان کو زبان حال سے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ سید روح الاعظم میاں کا مزار شریف درگاہ کے شمالی پھاٹک پر اور شاہ نتھا میاں کا مزار درگاہ کے جنوبی پھاٹک پر موجود ہے۔ سید خان عالم میاں کی حویلی اور تمام املاک کو لوٹ لیا گیا اور ان کے اہل خانہ کو بڑی رے رحمی سے حویلی سے نکال دیا گیا۔ اس طرح حویلی پر برٹش حکومت کا قبضہ ہو گیا۔
تاریخی دستاویزوں میں ملتا ہے کہ انگریز حکومت نے شہید سید خان عالم میاں کی حویلی کو نیلام کر دیا تھا۔ سید خان عالم میاں نے اپنے کچھ مجاہدین آزادی یعنی ہمنوا ساتھیوں کے ساتھ انگریزی ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کیا جس کی وجہ سے آپ کے جسم پر شدید زخم لگے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ پہلی جنگ آزادی ناکام ہونے پر پیشوا نانا راؤ بٹھور سے کہاں چلے گئے کچھ پتہ نہ چل سکا اور ان کے انتقال کی خبر ملی جو کہ صرف ۳۵ برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا یعنی ۲۴ دسمبر ۱۸۵۹ء کو کسی نا معلوم مقام پر سید خان عالم میاں شدید زخمی حالت میں اپنے حلقہ ارادت میں الور کے مقام پر پہنچ گئے۔ وہاں سے انہوں نے اپنے خون سے ایک خط مکن پور شریف کیلئے روانہ کیا تھا۔
خون سے لکھے اس خط میں جو المناک حادثات بیان کئے گئے تھے ان کو پڑھ کر روح تک کانپ جائے۔ عرصہ دراز تک ہمارے بزرگوں کے پاس وہ خط محفوظ رہا اور اپنے بزرگوں سے ان واقعات و حادثات کی تاریخ بھی خوب سنی تھی۔ مگر افسوس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تاریخی دستاویزوں کی زیارت سے محروم رہا۔
یہ الگ بات ہے کہ پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے شہیدوں کو بھلا دیا گیا۔ اس جنگ کی ناکامی کے ساتھ ہی ملک کے لوگوں نے ان احسانوں کو فراموش کر دیا جن احسانات کے صدقے ٹھیک ۹۰ سال کے بعد یعنی ۱۹۴۷ء میں انگریزوں کو یہ ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا اور ہندوستان غیر ملکی استبداد کے شکنجے سے آزاد ہو گیا تھا۔ مگر جب جب ملک کی آزادی کی تاریخ رقم کی جائے گی تو یہ دنیا سید خان عالم میاں اور اہل مکن پور شریف کی قربانیوں کو یاد کرتی رہے گی۔ ہم ان شہیدان وطن کو اپنی وفاداریوں کا خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔